سوات کے سات رنگ


وادی کالام

 ریحانہ آپا نے تو ایک بوتل بھر بھی لی تھی۔ ریحانہ آپا ہم سب میں سب سے زیادہ سنیر تھیں۔ یہ ہماری واحد ممبر تھیں جنہوں نے کوئی نماز نہیں چھوڑی تھی۔ جمعے کا دن تھا جب ہم بحرین کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک سے ہماری گاڑی کا توازن تھوڑا بگڑ گیا۔ ہم جو گاڑی کے اندر مشاعرہ کرنے میں مصروف تھے۔ اچانک سے خاموش ہو گئے۔

فاطمہ، گاڑی کا ایک ٹائر آدھے سے زیادہ نیچے ہے یار۔۔۔ ۔ نیچے مت دیکھو؛

میرے ساتھ بیٹھی علینہ نے ہلکی سی سرگوشی کی۔ یہ سنتے ہی میرا وجود کانپ اُٹھا تھا۔ میں نے باقی مسافروں کی طرف دیکھا۔ تمام مسافر اب خاموش تھے۔ خوف اب ہمارے درمیان خاموشی سے آکر بیٹھ گیا تھا۔ میں نے ریحانہ آپا کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کچھ دیر پہلے ہی گاڑی کے اندر ہی نماز ادا کی تھی۔ میرے ذہن میں آیا کہ ان کی نماز ہمیں بچا لے گی۔ ہماری گاڑی کا توازن تھوڑا سنبھلنے لگا تھا۔ باہر روڈ پر لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ہمیں اس مشکل سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔

پھر ہماری دعایئں قبول ہو گئی تھیں۔ باہر لوگوں نے نعرہ تکبیر کی صدا لگائی۔ اندر بیٹھے مسافروں کی مسکراہٹیں بھی لوٹ آیئں تھیں۔ زندگی بھی کتنی خوبصورت چیز ہے۔ رب نے ہمیں مثکل سے نکال لیا تھا۔ ایسے میں ڈرایؤر کا یہ کہنا کہ اس کے ذہن میں خیال آیا تھا کہ وہ چھلانگ لگا لے مجھے بہت عجیب لگا۔ یہ ڈرایؤر اتنے ڈھیروں مسافروں کے رہنما ہوتے ہیں اور اگر آپ کا رہنما ہی مشکل وقت میں چھلانگ لگانے کا سوچنے لگے تو مسافروں کو مشکل سے کون نکالے گا۔ ہماری منزل بحرین آنے میں ابھی کچھ وقت تھا اور گاڑی آگے لینڈسلایڈنگ کی وجہ سے ایک بار پھر رک گئی تھی۔

یہ گاڑی بند کیوں نہیں کر دیتے۔۔۔ ۔ پیٹرول ضائع ہو رہا ہے :

یہ سیانی آواز ذوئی کی تھی۔ اس نے ہر جگہ ثابت کیا تھا کہ یہ اپنی ماما سے زیادہ سیانی ہے۔

اس لئے کہ جیسے ہی رش ختم ہو۔۔۔ گاڑی کو فوراً نکال لیں :

میں نے اپنی طرف سے اسے مطمعن کرنے کی کوشش کی تھی۔

پھر پٹرول ضائع ہو گا۔۔۔ ۔ پھر پیسے کم پڑ جائیں گے۔۔۔ پھر بجٹ ڈسٹرب ہو جاے گا:

ذوئی نے سر پر ہاتھ مار کر کہا۔ میں خاموش ہو گئی۔ میرے پاس اس سیانی کے سوالوں کے جواب نہیں تھے۔ کہہ تو ویسے سیانی ٹھیک ہی رہی تھی۔ میں نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر مسکرانے لگی۔ کچھ ہی دیر میں ہم بحرین میں تھے۔ دریا کے ساے میں پناہ لیتا شہر بحرین۔۔۔ ۔ جہاں سوات کے رنگ ایک نئے روپ میں ہمارے منتظر تھے۔

چشمہ شفا کہاں پر ہے

مہوش تھک جاؤ گی، کچھ دیر رک جاؤ۔۔۔ ۔ سانس لے لو؛

میں نے مہوش کا ہاتھ پکڑ کر اسے بیٹھا دیا۔ ہم لوگ چشمہ شفا کی تلاش میں نکلے تھے۔ ہمیں ہمارے ہوٹل والے نے بتایا تھا کہ بحرین میں آپ گرم چشمہ یا پھر چشمہ شفا دیکھ لو، اچھی جگہ ہے اور قریب ہی ہے۔ آپ کو اگر سوات میں کوئی مقامی یہ کہے کہ یہ جگہ قریب ہی ہے تو ہرگز اس کی باتوں میں نہ آئیں۔ کیونکہ ان کے قریب اور ہمارے قریب میں بہت فرق ہے۔ بحرین میں ہمارا سٹی سٹار ہوٹل میں قیام تھا۔ خیر ہم کچھ دیر سستانے کے بعدچشمے کی تلاش میں نکل پڑے۔ یہ کافی زیادہ چڑھائی تھی۔ جو ممبرز تیز چلتے تھے۔ وہ آگے نکل گئے تھے۔ میں اور مہوش سستانے کے لئے رک گئے تھے۔ مہوش کے آگے اس کی دوست فلک اپنی بہن فضا کے قدم سے قدم ملا کر چل رہی تھی۔ ہم سب نکلے تو ایک ساتھ تھے مگر اب بکھر گئے تھے۔

میم، آپ چلیں۔۔۔ میں آ جاتی ہوں ؛

مہوش نے پھولی ہوئی سانس کے ساتھ جواب دیا۔ ابھی ہم دونوں اپنی سانسوں کو درست کر رہے تھے، کہ کچھ اور ممبرز بھی ہمارے پاس آ گئے۔ ایسے میں احسن مہوش کو توانائی بحال کرنے کی مختلف تکنیکس سمجھا رہا تھا۔ مہوش اور احسن دونوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہیں۔ ان دونوں کی ہلکی پھلکی نوک جھوک ان پرخطر راستوں کی تسخیر کے دوران بہت لطف دیتی تھی۔ خیر ہم اس چشمے کی تلاش میں چلتے جا رہے تھے۔ مجھے تو لگتا تھا کہ چلتے چلتے ہم دوبارہ کالام نہ پہنچ جائیں۔ آخر ہماری بھی بس ہو گئی۔ ہم ایک جگہ بیزار ہو کر بیٹھ گئے۔ ہمارے کچھ دوست اوپر ایک چوٹی پر چلے گئے۔ اب جو نیچے بیٹھے تھے۔ وہ سخت بیزار اور دوسرے دوستوں سے ناراض بھی تھے۔

بیٹا، یہ آب شفا گرم چشمہ کس طرف ہے ؛

میں نے ایک پٹھان لڑکے سے پوچھا۔

آبِ شفا چشمہ۔۔۔ ۔ ؛

لڑکے نے حیران کن نظروں سے ہماری طرف دیکھا،

ہاں، ہاں، وہی۔۔۔ تمہیں کچھ معلوم ہے اس کی تلاش میں ہم بہت دیر سے نکلے ہوے ہیں ؛

امارے ساتھ آو؛

اس لڑکے کے کہنے پر ہم تھوڑا نیچے اُترے تو ایک چھوٹا سا تالاب نظر آیا۔ وہ بھی گندے پانی کا جوہڑ ہی لگ رہا تھا۔

یہ آبِ شفا ہے ؛

میں نے حیرت سے پوچھا۔ مجھے لگا اس لڑکے سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ وہ کسی غلط جگہ لے آیا ہے۔

ہاں۔۔۔ ہم سب اسے پیتا ہے۔۔۔ :

اس سے پہلے کہ وہ اس گندے پانی کے گلاس بھر کر ہمیں پیش کرتا۔ ہم سب نے وہاں سے واپسی میں ہی عافیت جانی۔۔۔ ۔ چشمہ دیکھ کر ہم دریا کی طرف چلے گئے، جہاں ہم نے دریا کے کنارے بیٹھ کر آم کھائے۔ دریا کے کنارے کچھ ناراض دوستوں کو منانے کا کام بھی کیا۔ دریا کے کنارے بیٹھ کر یوں لگتا ہے جیسے کچھ لمحوں کے لئے زندگی ٹہر سی گئی ہو۔ دریا کی لہروں کا شور، ڈوبتا سورج اور کچھ دل سے قریب دوستوں کا ساتھ۔۔۔ ۔۔۔ زندگی کتنی مکمل ہے مگر ہم نجانے کیا کچھ پانے کی دوڑ میں مکمل زندگی کو خود سے دور کر لیتے ہیں۔۔۔ ۔ کتنے ناشکرے ہیں ہم۔۔۔ رات کو بہت دیر تک میں، نایاب اور علینہ بحرین کے بازاروں میں گھومتے رہے۔ ہم نے آپس میں تحائف کا تبادلہ بھی کیا۔ سوات کے اس سفر نے مجھے دو دوستوں سے ملوا دیا اور بلاشبہ دوستی ایک انمول رشتہ ہے۔ ہم تمام وقت اسی رشتے کی پھوار میں بھیگتے رہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7 8