پاکستان کی ایک بیٹی امریکہ میں


صبح ہوئی تو تقریباً نو بجے سینئر ڈاکٹر آئے۔ میں نے ان سے تفصیل سے بات کرنی چاہی، بے شمار سوالات تھے میرے۔ ایک کے بعد ایک میں کرتی گئی اور وہ جواب دیتے رہے پھر نجانے کیوں انہیں غصہ آگیا۔ ”دیکھیں بی بی! آپ آئی ہوں گی امریکا سے مگر مجھے اور بھی بہت کام کرنا ہے صرف آپ کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے نہیں بیٹھا ہوں یہاں پر۔ علاج ہورہا ہے وقت لگے گا۔ قسمت ہوگی تو بچ جائیں گے۔ میں دوا دے رہا ہوں آپ دعا کریں اور کوئی سوال۔ “ یہ کہہ کر ڈاکٹر صاحب چلے گئے تھے۔

ماموں جان کو ہسپتال چھوڑ کر میں امی کے ساتھ گھر آئی اور دعا کرتی ہوئی بستر پر پڑ کر سوگئی۔ تین دن سے مسلسل پریشانی کا عالم تھا۔ تھکن بے انتہا تھی اور اب تو تشویش کہ نجانے ابو جان کا کیا علاج ہورہا ہے۔ سہ پہر کو جاگی اور ہم دونوں ماں بیٹی دوبارہ ہسپتال پہنچ گئے۔ وہ اسی طرح بستر پر بے ہوش سوئے ہوئے تھے۔ آج ہسپتال میں ان کا پانچواں دن تھا۔ بلڈ پریشر کی وجہ سے فالج کا دورہ پڑا تھا۔ دماغ میں رگیں پھٹ گئی تھیں اور خون جمع ہوگیا تھا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ ابھی کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ہے، انتظار کی ضرورت ہے۔

یہ ایک اچھی بات تھی کہ سارے رشتہ دار شام کو ابو کو دیکھنے آرہے تھے اور وہاں پر ہی سب سے ملاقات ہورہی تھی۔ ہر ایک پریشان سا لگا اور اداس بھی۔ مجھے اچھا لگا کہ اتنے لوگوں کو دیکھ کر کچھ حوصلہ سا امی کو ہوگیا تھا۔

دوسرے دن امی مجھے سوتا چھوڑ کر اسلم کے ساتھ کالیا کے آفس میں ڈالر بدلنے گئی تھیں۔ تین ہزار ڈالر کے روپے کرا کر گاڑی میں بیٹھی تھیں۔ گاڑی تھوڑا سا آگے بڑھی ہی تھی کہ دونوں جانب سے دو اسکوٹر سواروں نے آکر گاڑی رکوالی اور سب کچھ آناً فاناً ہی ہوگیا۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے جو انہوں نے اسلم اورامی کے سروں پر رکھ دیے۔ اس سے پہلے کہ ان کی سمجھ میں کچھ آتا وہ امی کا پرس چھین کر غائب ہوچکے تھے۔ مجھے تو ساری باتوں کا شام کو پتا لگا، پولیس وولس میں رپورٹ وغیرہ کرنے کے بعد۔

اس ایک اور حادثے نے امی کو بری طرح سے ڈرادیا۔ ابو ہسپتال میں پڑے ہوئے تھے اور اوپر سے امی کو کسی نے اس طرح سے لوٹ لیا۔ کیا ہوگیا تھا شہر کو، میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ شام کو ہم لوگ ہسپتال میں ہی تھے کہ ماموں جان خبر لائے کہ قائداعظم کے مزار کے پاس جھاڑیوں میں امی کا خالی پرس پولیس کو مل گیا تھا۔ میں نے شکر کیا کہ امی کی جان بچ گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کراچی میں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

مغرب کے بعد ہسپتال سے نکلی تو ہسپتال کے سامنے ہی کوئی گٹر ابل رہا تھا۔ آہستہ آہستہ میں گندے پانی سے بچتے ہوئے نکلنے کی کوشش کررہی تھی کہ یکایک میرا پیر پھسل گیا اور میں دھڑام سے گرپڑی۔ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں زمین پر گھسٹتی گئی تو دونوں کہنیاں دور تک چھل گئیں اور کپڑے گندے پانی میں شرابور ہوگئے۔

ہسپتال میں ہی واپس جا کر اے ٹی ایس کا انجکشن لگوایا کہ نجانے کس قسم کے گٹر کے پانی میں نجانے کا کیا جسم کے اندر چلا گیا ہوگا۔ زخموں میں سخت جلن ہورہی تھی اور پورے جسم کو درد نے آلیا تھا۔ میں نے سوچا کہ امی اتنی پریشان ہیں انہیں گھر لے جا کر سلادوں گی، بے چاری کتنی مشکلات سے گزررہی تھیں۔ اب یہ نئی مصیبت آگئی۔ خواہ مخواہ کا گرنا پھر اے ٹی ایس کا انجکشن اور گٹر کے پانی کی گندگی کا احساس اندر ہی اندر مجھے اپنے آپ سے بھی گھن آرہی تھی۔

ہسپتال سے گھر واپس پہنچی تو نلوں میں پانی نہیں تھا کیوں کہ پانی کا ٹرک والا نہیں آیا تھا۔ منور نے مجھے بتایا کہ آ تو ہمیشہ جاتا ہے کیوں کہ پانی کے تو ہم لوگ پیسے دیتے ہیں مگر ابھی کچھ دنوں سے مسئلہ ہورہا ہے کہ مقررہ پیسوں اور مقررہ دن کے باوجود اکثر و بیشتر پانی کے ٹرک والا غائب ہوجاتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ شاید پیسہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ پانی کا ٹیکس بھی جاتا ہے مگر نلکے میں کبھی کبھار پانی آجائے تو بڑی بات ہے۔ بہرحال غسل خانے میں بالٹی میں پانی ہے جس سے نہایا جاسکتا ہے۔

میں نہا کر باہر نکلی۔ میرے دونوں ہاتھوں میں سخت درد ہورہا تھا۔ میں نے سوچا کہ تھوڑا سولوں تاکہ پھر ہسپتال جاسکوں۔ میں نے جا کر دیکھا، امی اپنے بستر پر خاموش لیٹی ہوئی تھیں۔ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر بہت دیر تک بیٹھی رہی۔ ہم دونوں سوچ رہے تھے اور ہم دونوں کچھ کہے بغیر ایک دوسرے کو سمجھ بھی رہے تھے۔

کھانا کھا کر میں نے عشا کی نماز پڑھی پھر بستر پر لیٹی ہی تھی کہ محلے کی مسجد کے لاؤڈاسپیکر پر بہ آواز بلند تلاوت ہونے لگی۔ میں اونگھ اونگھ کر جاگ رہی تھی کہ کب تلاوت بند ہوگی مگر تلاوت کے بعد بچوں کی نعت خوانی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اونگھتے ہوئے امریکا میں ورجینیا میں اپنے مکان کو دیکھا جہاں میرے سارے بچے بغیر کسی ڈسٹربنس کے خاموشی سے گہری نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ گھروں کے چاروں طرف رات کا اندھیرا تھا، گیٹ کے اوپر دھیما سا بلب۔ چاروں طرف بلا کی خاموشی، نہ اُبلا ہوا گٹر، نہ سوکھے ہوئے نلکے اور نہ ہی رات میں دھاڑتی ہوئی مولوی صاحب کی آواز۔ وہ سب سکون سے سورہے تھے مجھے اچھا لگا تھا۔ بہت اچھا۔

اگلی صبح گیارہ بجے ہسپتال سے فون آیا کہ ابو کی طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہوگئی ہے۔ ہم لوگ جلدی جلدی ہسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ ابو گزر چکے ہیں۔

ماموں جان، تایا، دوسرے رشتہ دار جمع ہوگئے۔ ہسپتال کا بل جو تین لاکھ سے اوپر کا تھا، ادا کرکے لاش گھر لائی گئی۔ پھر وہی سب کچھ ہوا جو ایسے میں ہوتا ہے۔ میں گم صم سی ہوگئی۔ رشتہ دار پرسے کے لیے آرہے تھے۔ ذیشان کا روزانہ دو دو تین تین دفعہ فون آتا۔ مجھے لگتا کہ جیسے میرے اندر کی کوئی چیز مجھ سے مکمل طور پر بچھڑ چکی ہے۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میں ابو سے اتنی قریب ہوں، اس قدر ان سے محبت کرتی ہوں کہ جیسے وہ میرے وجود کا حصہ ہوں۔

امی کا اور بھی برا حال تھا۔ ان کی تسلی کے لیے میں ایکٹنگ کرنے کی کوشش کرتی مگر پھر ناکام ہوکر ہم دونوں ماں بیٹیاں آنسوؤں سے تر چہرہ لیے ایک دوسرے کو تکتے رہتے، روتے رہتے۔ میں نے ذیشان کو کہا تھا کہ پروفیسر شلٹنر کو فون کردے کہ ابو کا انتقال ہوگیا ہے، مجھے آنے میں دیر ہوگی۔ مجھے دوسرے دن ہی شلٹنر کے سیکریٹری کا فون آیا کہ پروفیسر مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔ پھر پروفیسر شلٹنر نے مجھ سے بات کی، مجھے تسلی دی، کہا کہ کام کی فکر نہ کروں کام تو ہوتے ہی رہیں گے۔ ابھی تم کو تمہاری ماں کے پاس رہنا چاہیے، اسے تمہاری ضرورت ہوگی، تم ایک ہی بیٹی ہو اس کی۔ ٹیک کیئر آف یور مدر، شی نیڈس یو۔ مجھے بڑا اچھا لگا تھا۔

سوئم کے بعد تایا اور ماموں جان دونوں نے کہا کہ بیٹی تم یہاں ہو تو بہتر ہے کہ تمہاری ہی موجودگی میں مکان وغیرہ کے کاغذات صحیح کرلیے جائیں، نجانے تم پھر کب آؤگی۔ مرحوم کی خواہش تھی کہ مکان تم کو دے دیا جائے۔ امی بھی یہی چاہ رہی تھیں۔ میں نے بحث نہیں کی، موقع نہیں تھا۔

پتا لگا کہ ہسپتال سے آتے ہوئے موت کا سرٹیفکیٹ تو لیا گیا تھا مگر قبرستان میں گورکن کو دیا گیا تو پھر وہاں سے واپس نہیں آیا۔ قبرستان کے آفس میں سرٹیفکیٹ نہیں ملا۔ اسلم نے ہسپتال میں جا کر دوبارہ فیس دے کر سفارش لگوا کر سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ کے ایم سی میں کسی دوست کے ذریعے رشوت دے کر پکا سرٹیفکیٹ بنوایا اور مجھے بعد میں تایا نے بتایا کہ کے ڈی اے میں مکان کے ٹرانسفر کے لیے پچاس ہزار رشوت دے کر کام ہوا تھا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5