پاکستان کی ایک بیٹی امریکہ میں


”رشوت کیا ہے بیٹی بس فیس سمجھ لو۔ بنا اس فیس کے سالہاسال بھی لگ سکتے ہیں پھر کاغذات اِدھر اُدھر ہوجاتے ہیں۔ مرے ہوئے آدمی کا مکان کوئی اور خریدلیتا ہے اور بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصل گھر والوں کو گھر سے بھی نکل جانا ہوتا ہے۔ “ مجھے اچھا نہیں لگا کہ رشوت دے کر یہ کام کرایا گیا مگر شہر کے اصول یہی تھے۔ آج کا طریقہ یہی تھا تو میں کیا کرسکتی تھی۔ میرے بس میں کچھ نہیں تھا۔ سالوں کے بعد شہر کے طور طریقے سب کچھ بدل گئے۔ ابو کیا گئے کہ جیسے سب کچھ چلا گیا تھا۔

ابو نے کچھ رقم کی سرمایہ کاری کی ہوئی تھی۔ ان کاغذات کو نکال کر تایا کو دیا تو پتا چلا کہ جس ایجنٹ کے ذریعے یہ کام ہوا تھا، اس کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ میرے آنے تک تایا کی کوششوں کے باوجود مسئلہ نہیں حل ہوسکا تھا۔ مجھے یقین ہوچلا تھا کہ یہ پیسے ایجنٹ نے لے کر جعلی سرٹیفکیٹ ابو کو پکڑا دیے تھے۔ شکر ہے ابو کو زندگی میں یہ صدمہ نہیں ہوا، نجانے کتنا افسوس ہوتا انہیں۔

اسٹیٹ لائف انشورنس میں ابو کی دس لاکھ کی انشورنس کی پالیسی تھی۔ اس کا ماموں جان نے بتایا کہ اس کے کاغذات جمع ہوگئے ہیں۔ وہ ایک مہینے کے اندر مل جائیں گے۔ پھر وہ پیسے مل بھی گئے تھے۔

امی نے ہی مجھے بتایا کہ ایک فلیٹ جو ابو نے بڑی محبت سے کلفٹن میں خریدا تھا کہ بعد میں وہاں رہیں گے کہ مکانوں سے زیادہ اپارٹمنٹ کی سیفٹی ہے۔ اس پر کرایہ دار نے قبضہ کرلیا تھا۔ میں خود امی اور ماموں کے ساتھ گئی تھی۔ کرایہ دار نے کہا کہ جب اسے نیا گھر ملے گا تو یہ خالی کرے گا، ہم جو کرسکتے ہیں کرلیں۔ مجھے لگا جیسے کسی جنگل میں آگئی ہوں۔ کوئی قانون، کوئی اصول کچھ بھی نہیں تھا یہاں پر۔ میں پریشان ہوگئی تھی۔ صرف طاقتور کا راج ہے، کراچی ایسا تو پہلے نہیں تھا۔

واپسی میں ماما پارسی اسکول کے سامنے والے چوراہے پر ٹریفک جام تھا اور چاروں طرف سے گاڑیاں چلی آرہی تھیں۔ ایک پولیس والا سگنل کے باوجود کبھی ایک طرف دوڑ کر اسکوٹروں ویگنوں بسوں کاروں کو روکتا تو کبھی دوسری جانب اسے دوڑ کر جانا ہوتا تھا تاکہ ٹریفک کی بتیوں کی پاسداری کراسکے۔ بندروں کا ناچ نچادیا تھا اسے ٹریفک نے۔ پڑھے لکھے کاروں میں بیٹھے ٹائی لگائے ہوئے لوگ۔ میں حیرت سے سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ ٹریفک کے چلنے کی رفتار بہت ہی آہستہ تھی پھر میں نے یکایک دیکھا کہ ایک موٹرسائیکل والے نے اتر کر پولیس والے کو مارنا شروع کردیا تھا۔ چاروں طرف سے گاڑیاں ایک ساتھ چل پڑی تھیں۔ میں نے آنکھیں بند کرلی تھیں، غشی کا شدید دورہ پڑا تھا مجھ پر۔

آنکھ کھلی تو میں ہسپتال میں تھی۔ میں نے فوراً ہی بیٹھنے کی کوشش کی۔ نہیں، مجھے کچھ نہیں ہوا ہے۔ ہلکی سی شاید بے ہوش ہوگئی تھی۔ دھواں، ٹریفک، ہارن، آوازیں، شورشرابا مجھے اتنا ہی یاد تھا۔ اس کے بعد ماموں جان مجھے بندر روڈ پر ہی سیون ڈے ہسپتال لے آئے تھے۔ مجھے ہسپتال میں رکنے کی ضرورت نہیں تھی، میں اب بالکل ٹھیک تھی۔ کیزولٹی کے ڈاکٹروں نے یہی کہا تھا۔

میں نے امی سے کہا کہ امی اب میں ایک سال کے اندر آؤں گی۔ یہ سب کچھ ہم لوگ بیچ دیں گے پھر آپ کو بھی میرے پاس ہی رہنا ہے۔ یہاں پر آپ نہیں رہ سکتی ہیں۔ انہوں نے کچھ نہیں کہا، مجھے پتا تھا کہ وہ ابھی تیار نہیں ہیں، ابھی وقت لگے گا۔

واشنگٹن آنے سے ایک دن پہلے میں اسلم کے ساتھ تایا سے ملنے گلشن اقبال جارہی تھی کہ حسن اسکوائر کے چوراہے پر پھر گاڑی پھنس گئی۔ بڑی مشکل سے جب رینگ رینگ کر پولیس والوں کی مدد سے گاڑی نکلی تو ذرا سا آگے جا کر ایک پجارو نے زور سے گاڑی کو سائیڈ ماری۔ اسلم نے گاڑی روکی تو پیچھے سے ایک ویگن والا آکر دھڑام سے ٹکرایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ پجارو والا ڈرائیور ہنستا ہوا تیزی سے بھاگ نکلا تھا۔ یکایک کئی ویگن والے جمع ہوگئے۔ مجھ سے اسلم کی حالت دیکھی نہیں گئی تھی۔ اپنے پرس سے سو ڈالر کا نوٹ نکال کر میں نے ویگن کے ڈرائیور کو دیا اور اسلم سے کہا کہ گھر واپس چلو ورنہ شاید میں پھر بے ہوش ہوجاؤں گی۔

دوسرے دن شام تک میں گھر سے نہیں نکل سکی۔ کچھ بھی نہیں لینا تھا مجھے، کسی سے نہیں ملنا تھا بس یہی فیصلہ کیا تھا میں نے۔

صبح گیارہ بجے سوئس ایئرویز کا جہاز کراچی سے دبئی، دبئی سے زیورک، زیورک سے واشنگٹن پہنچا تھا۔ واشنگٹن کی عمارتوں، لائبریریوں، میوزیم، وائٹ ہاؤس، کیپٹل ہل کے اوپر تیرتا ہوا۔ واشنگٹن کے دریا کے ساتھ ارلنگٹن کے قبرستان کے اوپر سے ڈلس ایئرپورٹ پر اترا تھا۔ جہاز رکا تھا اور مسافر آہستہ آہستہ کرکے ایئرپورٹ میں داخل ہوئے تھے۔ میں بھی اپنا سفری تھیلا لیے ہوئے امیگریشن کے کاؤنٹر پر لگی ہوئی قطار میں پہنچی تھی۔ امیگریشن کا فارم، صحت کا سرٹیفکیٹ بھرلیا تھا۔ پاکستانی پاسپورٹ کے اوپر گرین کارڈ رکھا ہوا تھا، امیگریشن کی کھڑکی پہ۔

موٹے سے، لمبے سے، بھدے سے امریکن نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ میرا پاسپورٹ اور گرین کارڈ ہاتھ میں لیا اور مسکرا کر بولا، ”ویلکم ہوم۔ “

مجھے پتا تھا کہ رات اس نے شراب پی ہوگی۔ شاید پچاس فی صد امریکنوں کی طرح بغیر شادی کے کسی عورت کے ساتھ رہ بھی رہا ہوگا۔ صبح ناشتے میں انڈے کے ساتھ سرخ سرخ سور کا گوشت بھی کھایا ہوگا لیکن بے اختیار دل چاہا کہ اس کے گلے لگ جاؤں۔ ایسا ہی بھلا لگا تھا اس کا ویلکم ہوم کہنا۔
دوسرے دن کام پر جانے سے قبل میں نے امریکن قومیت اور پاسپورٹ کے لیے درخواست جمع کرادی تھی۔

Aug 9, 2019

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5