پاکستان میں عوامی تحریکیں اور مزاحمتی ادب


saeeda gazdar

سپریم کورٹ میں خان عبدالولی خان اور دیگر رہنماؤں کے بیانات پر مبنی کتاب ”اور بیاں اپنا“ ایک اچھا تاریخی حوالہ ہے جو پاکستان کے عوام دوست سیاست دانوں میر غوث بخش بزنجو، خیر بخش مری، عطا اللہ مینگل اور ارباب سکندر خلیل کے مکمل بیانات پرمشتمل ہے۔  اس کے علاوہ کتاب میں وہ جواب بھی شامل کیا گیا ہے جو نیشنل عوامی پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کی طرف سے بذریعہ قسور گردیزی سپریم کورٹ میں داخل کیا گیا تھا۔

اسی طرح انوار مزدکی کی کتاب ”ولی خان کی سیاست“ ان کی جمہوری جدوجہد کا اچھا احاطہ کرتی ہے۔  بلوچستان کی سیاست پر منصور قادر جونیجو کی کتاب ”جنرل مشرف“ میر شیر محمد مری پر مضامین اور ان کے درجن بھر انٹرویو پرمشتمل ہے۔

صحافیوں کی تحریکوں کے بارے میں کتابوں پر میں اپنے ایک اور مضمون میں تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔  یہاں صرف عبدالحمید چھاپرا کی کتاب Political Harlotry کا ذکر کروں گا جو ان کے 1990 کے عشرے میں چھپنے والے مضامین کا مجموعہ ہے اور جو 1999 میں شائع ہوا۔

طلبہ تحریک پر سلیم منصور خالد کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ”طلبہ تحریکیں“ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو حفیظ خان، امتیاز عالم اور جاوید ہاشمی سے لے کر سجاد میر، شیخ حجازی اور فرید پراچہ تک سابق طالب علم رہنماؤں نے لکھے ہیں اور طلبہ تحریکوں پر اچھا مواد مہیا کرتے ہیں۔

اسی طرح اشرف رضا کی ترتیب کردہ کتاب ”سیاسی جماعتیں طلبہ کی عدالت میں“ ہے۔  جو دسمبر 1970 کے عام انتخابات سے دو ماہ قبل اکتوبر 1970 میں شائع ہوئی۔ اس میں آٹھ بڑی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو طلبہ عدالت میں طلب کیا گیا اور طلبہ سیاست پر ان سے سوال جواب کیے گئے۔  اس مقدمے کی تفصیل سے اس دور کی طلبہ سیاست کو سمجھنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔

ڈاکٹر سید جعفر احمد کی کتاب ”جمہوریت کی آزمائش“ کا ذکر کرنا چاہوں گا جو بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت کے سیاسی رجحانات و مسائل کے بارے میں ہے۔  اس میں ڈاکٹر جعفر کے وہ مضامین ہیں جو انہوں نے 1993 سے 1996 تک کی سیاست کے بارے میں لکھے۔

اب ہم آتے ہیں ادب کی طرف۔ اب تک ہم نے دیکھا کہ جمہوری وسیاسی جدوجہد میں شامل لوگوں اور رہ نماؤں نے اپنے مشاہدات و تاثرات قلم بند کیے ہیں جو زیادہ تر حقائق پر مبنی تھے مگر یہ اکثر واقعات کے گزر جانے کے بعد لکھے جاتے ہیں۔  ایک ادبی قلم کار کے لیے یہ ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سامنے ہونے والے ظلم واستبداد کو نثر یا شاعری کا جامعہ پہنائے اور حاکم وقت کے عتاب سے بھی محفوظ رہے۔  ہم جانتے ہیں کہ فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر سے لے کر ظہیر کاشمیری اور حبیب جالب تک بہت سے شاعر اور دانش ور قیدو بند کی صعوبتیں بھی بھگتتے رہے اور اپنے احساسات کو مزاحمتی اور ترقی پسند ادب کی شکل میں صفحہ قرطاس پر منتقل بھی کرتے رہے۔

ترقی پسند ادب کے بارے میں تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے مگر مزاحمتی ادب کے بارے میں تحریریں نسبتاً کم ہیں۔  مزاحمتی ادب اور ترقی پسند ادب کیا ایک ہی طرح کے ادب ہیں یا ان میں کوئی واضح حد فاضل موجود ہے۔  اس سوال پر کوئی حتمی رائے دینا خاصا مشکل ہے۔  غالباً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مزاحمتی ادب ترقی پسند ادب کی ہی ایک شکل ہے کیونکہ دونوں کا بنیادی مقصد معاشرے کی نا انصافیوں کو سامنے لانا اور عوامی شعور کو بے دار کرنا ہوتا ہے۔

کرشن چندر کی ”ہم وحشی ہیں“ اور ”پشاور ایکسپریس“ سے لے کر حبیب جالب کی ”ایسے دستور کو، صبح بے نور کو میں نہیں مانتا“ تک اس طرح کا ادب نثر میں ہو یا نظم میں عوامی مسائل و مشکلات کی نشان دہی اور ان کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرتا ہے۔  یہ ضرور ہے کہ مزاحمتی شاعری پر کبھی کبھی نعرے بازی کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی شاعری نے معاشرتی استبداد کو للکارا ہے۔

یہاں ہم پاکستان میں اردو زبان میں لکھے جانے والے نثری ادب کی کچھ مثالوں سے یہ واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ ہمارے قلم کاروں نے ایسے شاہ کار لکھے ہیں جو عالمی مزاحمتی ادب میں بڑی جگہ پانے کے قابل ہیں۔  یہاں میں فخر زمان کو ضرور خرج تحسین پیش کرنا چاہوں گا جنہوں نے اکادمی ادبیات کے سربراہ کی حیثیت سے 1995 میں اردو اور انگریزی دونوں میں پاکستانی مزاحمتی ادب کے خاص نمبر شائع کرائے۔

مزاحمتی ادب کے اردو انتخاب کے مرتب رشید امجد تھے۔  جنہوں نے ”اردو میں مزاحمتی ادب کی روایت“ کے عنوان سے ایک مضمون بھی تحریر کیا اور ابرار احمد نے بھی ”مزاحمتی ادب“ پر ایک اچھا مقالہ رقم کیا۔ انگریزی میں Resistance Literatureکے منیجنگ ایڈیٹر مظہر الاسلام اور ایڈیٹر حافظ الرحمان تھے۔  انگریزی میں پاکستان کی کئی زبانوں کے مزاحمتی ادب کے تراجم شامل کیے گئے تھے۔

پاکستان آج 2019 ءمیں جن حالات سے گزر رہا ہے اور جس طرح کی پابندیاں زبان و بیان پر اب بھی عائد کی جارہی ہیں ان کوذہن میں رکھتے ہوئے جب آپ ماضی کا مزاحمتی ادب پڑھتے ہیں تو ایسے ادب کو زمان ومکان کی قید سے آزاد پاتے ہیں۔  پاکستان میں مزاحمتی ادب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور کی عکاسی کرتا ہے۔

مثلاً فیض نے جب بیسویں صدی میں یہ لکھا ہوگا۔

بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے

جسم و زبان کی موت سے پہلے

بول کہ سچ زندہ ہے اب تک

بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے

تو اس وقت فیض کو کیا معلوم ہوگا کہ اکیسویں صدی کے دو عشرے گزر جانے کے بعد بھی یہ مصرعے ایسے ہی بروقت و برمحل ہوں گے جیسے اس وقت تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments