پاکستان میں عوامی تحریکیں اور مزاحمتی ادب


یہ افسانہ ویسے تو علامتی معلوم ہوتا ہے لیکن اس سے زیادہ واضح اور شفاف عکاسی کیا کی جاسکتی ہے۔  ہم کتنی بار فتح ہوئے، کتنی بار کنٹرول روم کے سوئچ آف اور آن ہوئے اور کتنی بار وقت کو روکنے اور کلینڈر کو پیچھے لے جانے کی کوششیں کی گئیں۔  مزاحمتی ادب ہمیں یہی سب کچھ یاد دلاتا ہے۔

اور اب اردو ادب میں مزاحمتی ادب کا غالباً سب سے بڑا نام زاہدہ حنا، جنہوں نے درجنوں افسانے اور سینکڑوں اخباری کالم و مضامین کے ذریعے ریاستی استبداد کا بے خوفی سے پردہ چاک کیا ہے۔  ویسے تو ان کی کئی کتابیں اور افسانے قابل ذکر ہیں۔  مگر میں یہاں صرف ایک افسانے ”جسم و جاں کی موت سے پہلے“ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔

اس افسانے میں ایک قیدی جسے اذیتیں دی جارہی ہیں کس طرح سوچتا اور کن مظالم کا شکار ہوتا ہے ان کا ذکر ہے۔  اسے آپ حسن ناصر اور نذیر عباسی سے لے کر وکٹر ہارا تک سب کی کہانی سمجھ سکتے ہیں۔  افسانے کے شروع میں قیدی ایک ڈھول میں بند ہے اور اس ڈھول کو بے طرح پیٹا جارہا ہے پھر وہ خود کو رہٹ میں بیٹھا ہوا پاتا ہے۔  رہٹ تیزی سے نیچے جاتا ہے پھراوپر آتا لیکن کنواں خالی ہے۔  رہٹ رکتا ہے تو وہ سرکو دونوں ہاتھوں سے تھام لیتا ہے۔  کچھ دیر بعد وہ سوچتا ہے اور اس کاذہن ایک دم سوال کرتا ہے۔  یہاں زاہدہ حنا ایک شاندار جملہ لکھتی ہیں۔

 ”سوال کرسکنا یعنی To Question ذہن کا وہ ستون ہے جس پر انسان اور انسانیت قائم ہے۔ “

آگے لکھتی ہیں۔

 ”وہ اسے ایک بار پھر کوٹھری میں پھینک گئے تھے اور اب اپنے بھاری بوٹوں سے کوٹھری کی کھوکھلی چھت پر کود رہے تھے۔  نچلی منزل سے کوٹھری کے کھوکھلے فرش پر ڈنڈے مار رہے تھے۔

دھپ دھپ، ٹھک ٹھک ناقابل برداشت شور چھت سے برس رہا تھا، فرش سے ابل رہا تھا۔

اس نے اپنے آپ کو سمیٹا اور گٹھڑی بن گیا۔ سوجے ہوئے گھٹنوں نے اس کے کانوں کو ڈھانپ لیا۔  ”

آگے لکھتی ہیں۔

 ”وہ ہمت کرکے اٹھا تو پیروں کی بیڑیاں بج اٹھیں۔  اس نے سنبھل سنبھل کر چلنا شروع کیا۔ چار قدم چوڑائی، چھ قدم لمبائی۔ اندھیرے میں چلتے ہوئے قدم گننا ضروری ہے ورنہ سر دیوار سے ٹکرا جاتا ہے۔

پھر ایک اور زاہدہ حنا کا کمال کا جملہ۔

 ”وہ بدن کے راستے ذہن کو توڑنا چاہتے ہیں۔ “

آگے لکھتی ہیں۔

 ”وہ کہاں کہاں نہیں پھرایاگیا تھا۔ ایک حوالات سے دوسری حوالات۔ ایک شہر سے دوسرے شہر۔ ایک کوٹھری وہ تھی جو دائرہ نما تھی اور جس میں رہنے کے چند دنوں بعد وہ اس قابل نہیں رہا تھا کہ سیدھا کھڑا ہوسکے۔  کھڑے ہوتے ہی اسے چکر آنے لگتے اور ایک کوٹھری وہ تھی جو اس کے قدم سے آدھی تھی۔ جوکوئی سگ خانہ ہو۔ اس میں وہ ہفتوں چاروں ہاتھوں پیروں پر چند قدم چلتا تھا اور پھر دیواریں اس کا راستہ روک لیتی تھیں جو اتنی تنگ تھی کہ اس میں پیر پھیلا کر سویا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ “

یہ پورا افسانہ اس قسم کی دل ہلا دینے والی تفصیلات سے پر ہے اور حیرت ہوتی ہے کہ زاہدہ حنا نے کس طرح اس اذیت ناک ماحول کی منظر کشی کی ہے۔  آگے چل کر شاہی قلعے کی عقوبت خانے کا منظر کھینچتی ہیں۔

 ”یہاں وہ غلام تھے جو آقا بن بیٹھے تھے۔  وہ خواجہ سرا تھے جنہیں اس بات پر اصرار تھا کہ وہ آختہ نہیں کیے گئے اورجو کہانیوں کے دُم کٹے لومڑ کی طرح ہر وقت اس تاک میں رہتے تھے کہ ان جیسوں کی تعداد میں اضافہ کیے ہوئے بدیسی آقا رخصت ہوچکے تھے اور یہ خواجہ سرا ان کی کمال نیابت کررہے تھے۔  یہ ان بستیوں کے فاتح تھے جن کی حفاظت ان کا روزگار تھی۔ “

یہ ان نہتوں کے قاتل تھے جن کا یہ نمک کھاتے تھے۔  نو آبادیات کی تجربہ گاہ میں انہیں سکھایا گیا تھا کہ قوموں کے ساتھ زنابالجبر کس طرح کیاجاتا ہے۔  وہ یہ بھی جانتے تھے کہ کسی قوم کو آختہ کرنا ہوتو اس کے بازو، اس کی پنڈلیاں، اس کے شانے کن مفادات کے تسموں سے باندھے جاتے ہیں۔  ”

غرض یہ مزاحمتی ادب اس قسم کے شہ پاروں سے بھرا پڑا ہے۔  چاہے وہ زاہدہ حنا ہوں یا سعیدہ گزدر، امجد رشید ہوں یا فخر زمان سب نے اپنے قلم کا حق خوب ادا کیا ہے۔

ٍایسے درجنوں اور افسانہ نگار ہیں جن کا یہاں مضمون کی طوالت کے پیش نظر ذکر نہیں کیا جاسکا۔ مگر مزاحمتی ادب ہر دور میں لکھاجاتا رہا ہے جو کچھ آج کل لکھا جارہا ہے اس پر مزید تحقیق و تجزیے کی ضرورت ہے۔  سیاسی تحریکیں مزاحمتی ادب کو تخلیق کرتی ہیں اور ریاستی ادارے اور جابر قوتیں اظہار رائے کو کچلنے میں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔  عارضی کامیابیاں یہاں ظلم و استبداد کو دوام نہیں دے سکتیں۔  اس کی واضح مثال اب بالآخر اسپین میں سابق فوجی آمر کی قبر کشائی ہے تاکہ اسے سرکاری یادگار سے نکال کر کسی عام قبر میں دفنایا جائے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments