حیدر آباد 47 کلو میٹر


کار کو سائیکل جیسی رفتار سے سلو ڈرائیو کرتے ہوئے وہ کتنی ہی دیر سوچتا رہا مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ تصور میں کتنی ہی بار جیل، کال کوٹھڑی اور پھانسی گھاٹ دیکھنے کے بعد اس کے ذہن نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ تب اس نے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے اپنے ایک انتہائی قریبی دوست کو فون کیا: ”یار! مَیں ہائی وے پر ہوں اور میرے ساتھ بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے! “

”کیا ہوا؟ کوئی ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے تمھارا؟ “ دوست نے پوچھا۔

”نہیں۔ “ سرمد نے خشک ہونٹوں سے ا لفاظ نکالنے کی کوشش کی: ”نہیں اس سے تو بہتر ہوتا کہ میرا ایکسیڈنٹ ہوجاتا۔ ۔ ۔ مَیں مر جاتا تو اچھا تھا! “

”آخر ہوا کیا ہے؟ “ دوست نے انتہائی فکر مند ی سے پوچھا۔

سرمد نے جب پوری بات دوست کو بتائی تو اس کے دوست نے کسی بھی قسم کی مدد سے انکار کردیا کہ اس قسم کے معاملے میں ہاتھ ڈالنے سے اس کاسیاسی کیرئیر خراب ہو جائے گا۔

”مگر یار! میری عزت، میرے گھر اور میری زندگی کا سوال ہے! “ سرمد نے اس کی منّت کی۔

”عقل سے کام لو اورلاش کو ہائی وے پرکہیں پھینک کر جان چھڑاؤ۔ “ دوست نے اسے مشورہ دے کے فون بند کر دیا۔

سرمد نے موبائل فون ڈیش بورڈ پر رکھ کر لاش کی طرف دیکھا۔ ائیر کنڈیشنر کی کولنگ کے باوجود سرمد نے ماتھے پر پسینا بہتا محسوس کیا۔ ایک لمحے کے لیے لاش کو ہائی وے پر پھینکنے والے مشورے پر بھی سوچا اور دوسرے ہی لمحے اس نے یہ سوچ کر یہ مشورہ رَد کر دیا کہ کسی نے دیکھ لیا تو پھر۔ ۔ ۔ اس نے جیسے اپنا گلا دبتا ہوا محسو س کیا۔ اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیر کر ہائی وے کی طرف دیکھا، ہائی وے کے دوسری طرف ٹریفک مسلسل چل رہی تھی۔ اس کولگا کہ اس کے آج کا سفر جیل کی کال کوٹھڑی پر جا کر ہی اختتام ہوگا۔ اس نے خشک ہونٹوں پر خشک زبان پھیرنے کی کوشش کی تو اپنے ہی موبائل فون کی بیل سے چونک اٹھا۔ اس نے ڈیش بورڈ سے موبائل اٹھا کر دیکھا تو پریشان ہو گیا۔ موبائل فون کی سکرین پر اس کی بیوی اِرم کی تصویر تھی۔ اس نے ٹھنڈی سانس لے کر نہ چاہتے ہوئے بھی کال اٹینڈ کی: ”ہیلو! “

”دو گھنٹے میں کراچی سے حیدرآباد پہنچ جاتے ہو۔ آج تین گھنٹے ہو گئے ہیں، تم ہو کہاں؟ “ اِرم نے ہلکی ناراضی اور فکرمندی سے پوچھا۔

”اِرم۔ ۔ ۔ مَیں۔ ۔ ۔ مَیں آ رہا ہوں، ہائی وے پر ہوں! “ سرمد نے بہ مشکل کہا۔

”کیا! “ اِرم نے حیرت آمیزغصّے سے پوچھا : ”مگر کیوں؟ “

”اصل میں۔ ۔ ۔ میری۔ ۔ ۔ میری گاڑی پنکچر ہو گئی ہے“۔

”گھر نہ آنے کے تو تمھارے پاس ہزار بہانے ہوتے ہیں! “ اِرم نے غصّے میں کہا : ”ساتھ کون ہے تمھارے؟ “

سرمد چونک اٹھا، اس نے ایک نظرساتھ بیٹھی لاش پر ڈالی اور خود کو سنبھال کر بولنے کی کوشش کی: ”کک۔ ۔ ۔ کک۔ ۔ ۔ کون ہے۔ ۔ ۔ کوئی بھی تو نہیں۔ ۔ ۔ بس مَیں تھوڑی دیر میں پہنچ جاؤں گا گھر۔ ۔ ۔ “

سرمد نے موبائل واپس ڈیش بورڈ پر رکھا۔ کچھ لمحے سلو ڈرائیو کرتے ہوئے سوچتا رہا اور پھر کار کو روڈ سے اتار کر روک لیا۔ سیٹ بیلٹ کھول کر پچھلی سیٹ سے پانی کی بوتل لے کر کچھ گھونٹ اپنے خشک ہوئے حلق میں انڈیلے۔ ایک لمحے کے لیے اپنے ساتھ بیٹھی لاش کی طرف دیکھنے کے بعد کار سے اتر آیا۔ کار کا سپیئر وہیل اور جیک نکال کر فرنٹ لیفٹ وہیل کے قریب رکھ کر وہیل بدلنے کا ڈراما کرتے ہوئے اس نے محتاط نظروں سے ہائی وے کی دونوں طرف دیکھا۔ جب اس نے محسوس کیا کہ کوئی گاڑی قریب نہیں تب اس نے کار کادروازہ کھولا۔ لاش کی سیٹ بیلٹ کھول کراس نے لاش کو باہر نکالنے کی کوشش کی، مگراچانک ایک تیز رفتار کوچ کے ہارن سے چونک گیا تو اس کے ہاتھ لاش سے نکل گئے۔ کوچ تو ایک لمحے میں دور نکل گئی، لیکن سرمد کاتیز تیز دھڑکتا دل سینے سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے دور جاتی کوچ سے نظریں ہٹا کر لاش میں دوبارہ ہاتھ ڈالے ہی تھے کہ دور کہیں سے پولیس کار کے سائرن نے اس کے دل کی دھڑکن میں دہشت بھر دی۔ اس نے جلدی سے کار کادروازہ بند کر دیا۔ سپئیر وہیل اور جیک واپس گاڑی میں رکھ کر تیزی سے جا کر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ خوف سے کانپتے ہاتھوں سے لاش کو سیٹ بیلٹ لگا کر، کار سٹارٹ کر کے جلدی سے سڑک پر آ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد ایک ہائی وے پولیس کی ایک کار روڈ کے دوسرے ٹریک سے گزرتی چلی گئی۔ اس نے اپنے بکھرے ہوئے بالوں میں ہاتھ پھیر کرکارکی رفتار کم کردی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ رانی کی لاش کوسڑک پر نہیں پھینک سکے گا۔ اِس احساس نے اسے مایوس کر دیا۔ اس کے اندر اندھیرا پھیل گیا، کال کوٹھڑی جیسا اندھیرا۔ خوف و درد سے اس کا سر چکرانے لگا۔ لیکن پھراچانک کال کوٹھڑی کے روشن دان سے روشنی اندر آنا شروع ہوئی اور اس کے اندر ایک امید جاگ اٹھی۔ اس نے ڈیش بورڈ سے موبائل فون اٹھاکر نمبر ٹچ کیا۔ کچھ لمحوں بعد اس کے اپنے بچپن کے دوست سمیر کی خوشی بھری آواز سنائی دی : ”ہیلو سرمد! کیا حال ہے؟ “

”سمیر یار، ! مَیں۔ ۔ ۔ ایک بڑی مصیبت میں پھنس گیا ہوں! بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے میرے ساتھ! “

”فکر نہ کرو یار! سب ٹھیک ہو جائے گا۔ “ سیل فون سے سمیر کی آواز آئی: ”تمھارا مسئلہ میرا پرابلم ہے، مجھے کیا کرنا ہے؟ “

”فقط۔ ۔ ۔ فقط میری تھوڑی سی مدد کرنی ہے تمھیں! “ سرمد نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔

”یار تم حکم تو کرو! “ سمیر کی آواز میں محبت کی جھلک تھی : ”تم آرڈر کرو، آسمان کے سبھی ستارے، چاندسمیت اتار کردو منٹ میں تمھارے قدموں میں بچھا دوں گا۔ “

”شکریہ۔ ۔ ۔ ! بہت شکریہ سمیر! “ سرمد نے اپنے اندر کچھ سکون اور امید محسوس کی: ”یار! مَیں نے۔ ۔ ۔ ہائی وے پر ایک لڑکی کو لفٹ دی تھی مگر۔ ۔ ۔ مگر وہ لڑکی بیٹھے بیٹھے میری کار میں مر گئی ہے! “

”کیا! “ سمیر کی آواز کی تیزی سرمد کے دل کے اندر اتر گئی اور اس کے دل کی دھڑکن مزید بڑھ گئی۔

سرمد نے ہمت کر کے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ اس کی آواز میں منّت تھی: ”یار! تم اتنے بڑے بیوروکریٹ ہو، آسانی سے میرامسئلہ حل کر سکتے ہو! “

”نہیں! “ سمیر کی آواز میں صاف انکار تھا : ”مَیں ایسے معاملے میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ معاملہ میڈیا میں آ جائے گا میرا پروموشن رک جائے گا! “

”پلیز یار! پھنس جاؤں گا مَیں! “ سرمد کی آواز رونے جیسے ہو گئی۔

”ویری سوری! مَیں تمھاری کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا! “ سمیر کی آواز میں اجنبیت شامل ہونے لگی۔

سرمد نے دوبارہ منّت کرنے کی کوشش کی: ”یار! اگر تم میری مدد نہیں کرو گے تو۔ ۔ ۔ “

سمیر نے سرمد کا جملہ کاٹ دیا : ”مَیں تمھاری اتنی سی مدد کر سکتا ہوں کہ پولیس کو اطلاع نہ دوں! “

کال ڈس کنکٹ ہو گئی۔ سرمد نے فون کان سے ہٹا کر، ایک نظر موبائل سکرین پر ڈالی اور پھرمایوسی سے موبائل کو ڈیش بورڈ پرپھینک دیا۔ اس نے ایک نظر قریب بیٹھی لاش پر ڈالی اور دونوں ہاتھوں سے سٹیرنگ کو جکڑ لیا۔ بے اختیار اس کے پاؤں کا دباؤ ایکسی لیٹر پر بڑھ گیا اور کار کی رفتار ایک جھٹکے سے بڑھ گئی۔ اس نے غصّے میں آکر ایک ہاتھ سے کار کے سٹیرنگ کو مکامارا، کا ر کا بیلنس بگڑ گیا اور کار ترچھی ہوکر ایک طرف کے دو پہیوں پر چلنے لگی اور پیچھے سے آتا تیزرفتار ٹرالر تیز آواز سے ہارن بجاتا ہوا اوور ٹیک کرنے لگا۔ سرمد نے بریک لگانے کے ساتھ کار کے بیلنس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کی تو کارذرا سے فرق سے ٹرالرکے پہیوں میں پھنسنے سے بچتی ہوئی، کچے میں اتر کر رک گئی۔ موت سے منھ سے بچ کر اس نے لمبی لمبی سانسیں لیں اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی لاش کی طرف دیکھا۔ سیٹ بیلٹ میں جکڑی ہوئی لاش زندہ سلامت لڑکی کی طرح ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ سرمد اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرکر، بند ہوچکی کار کوسٹارٹ کر کے دوبارہ سڑک پر لے آیا، مگر اب وہ کافی گھبراچکا تھا۔ اس کے چہرے سے مایوسی اور خوف چھلک رہا تھا۔ رک رک کر اس کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ اس کی کانپتی ہوئی آواز کے ساتھ ہلکی ہلکی سسکیاں اس ہونٹوں سے نکل رہی تھیں : ”یا اللہ! مَیں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔ ۔ ۔ کیا کروں مَیں۔ ۔ ۔ کہاں جاؤں۔ ۔ ۔ میری مدد کر۔ ۔ ۔ اے میرے مالک۔ ۔ ۔ میری مدد کر۔ ۔ ۔ “

وہ سلو ڈرائیو کرتے دل ہی دل میں دعائیں مانگتا رہاکہ اچانک فون کی بیل نے اسے چونکا دیا۔ اس کا ہاتھ اپنے موبائل کی طرف بڑھتے بڑھتے رک گیا، کیوں کہ یہ اس کے موبائل کی بیل نہیں تھی۔ اس کادھیان ڈیش بورڈ پر رکھے رانی کے پرس کی طرف چلاگیا، جس میں سے موبائل فون کی آواز آ رہی تھی۔ سرمد نے خوف سے ایک نظرقریب بیٹھی رانی کی لاش پر ڈالی اورپھر رانی کا پرس اٹھاکر اس میں سے موبائل فون نکال لیا۔ بیل مسلسل بجے جا رہی تھی۔ سکرین بھی روشن تھی لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ کال کرنے والے کا نام یا نمبر سکرین پرموجود نہیں تھا، سکرین بالکل خالی تھی۔ سرمد کے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی، پھر بھی اس نے کاپتے ہاتھوں سے کال کو رسیو کرکے فون کان پر رکھا تو چونک گیا، اس کا چہرہ زرد ہو گیا۔ موبائل فون سے کسی چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی، اور وہ بھی کچھ پراسرار قسم کی آواز۔ تھوڑی دیرمیں ہی کال خودبہ خود ہی ڈس کنکٹ ہو گئی۔ سرمد نے خوف کے مارے موبائل فون کو کان سے ہٹایا اورپرس میں واپس ڈال کر، پرس کو ڈیش بورڈ کی طرف اچھال دیا۔ اسے سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ کیا تھا یہ سب کچھ! اس نے خوف سے قریب بیٹھی رانی کی لاش کی طرف دیکھا تونہ جانے کیوں رانی کی لاش میں سے بھی اسے پرسراریت کا گہرا احساس ہوا۔ سرمد کی رگوں میں خون کے بجائے خوف دوڑنے لگا۔ خوف کے اسی احساس سے اس کے منھ سے بے اختیار نکلا: ”یا اللہ! “ اور اسی لمحے اس کی نظر روڈ کے کنارے مسجد پر پڑی۔ مسجد پر نظر پڑتے ہی اس نے اپنے اندر کچھ سکون محسوس کیا۔ کچھ سوچ کر اس نے کار کارخ مسجد کی طرف موڑ دیا۔ ویرانے میں موجودچھوٹی سی مسجد کے دروازے کے کچھ فاصلے پر اس نے کار روک لی اورکار میں بیٹھے بیٹھے اردگرد کا جائزہ لیا۔ دور دور تک کوئی بھی نہ تھا۔ اس نے خوف زدہ نظروں سے لاش کی طرف دیکھا اورکار سے اترکر مسجد کے اندر چلا گیا۔ مسجد میں پہنچ کر اس نے ذہنی طور پر خود کو بہت ہلکا اور پر سکون محسوس کیا۔ اس نے مسجد میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کردعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بے اختیاررو پڑا اور اس کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برس پڑیں۔ سسکیوں کے ساتھ اس کی آواز مسجد میں گونج اٹھی: ”اے میرے مالک! مجھے معافی دے۔ ۔ ۔ مجھے معاف کردے۔ ۔ ۔ اے میرے مشکل کشا! اس مشکل وقت میں میرا کوئی بھی نہیں ہے تیرے سوا۔ ۔ ۔ یا اللہ! اپنے پیاروں کے صدقے میری عزت رکھ لے۔ ۔ ۔ اے میرے مالک! اس عذاب کی گھڑی سے مجھے آزاد کر۔ ۔ ۔ “ اور پھرلفظوں پر اس کی سسکیاں حاوی پڑ گئیں۔ کتنی دیر تک وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا۔ جب اس کی سسکیاں بند ہوئیں تو دعا کے لیے اٹھے ہاتھ چہرے پر پھیرکربیٹھے بیٹھے ہی اس نے کچھ لمبی سانسیں لیں تو اس کے جسم کوجیسے نئی طاقت مل گئی۔ اس نے اٹھ کر منھ دھویا اور مسجد سے باہر چلا گیا۔ مسجد سے نکل کر، کار میں بیٹھی لاش کی طرف دیکھے بغیر ہی اس نے جاکر کار کا دروازہ کھولا اور ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کار کو سٹارٹ کر کے لاش کی طرف دیکھا تو اس کی نظرکار کی کھڑی سے باہر کی جانب چلی گئی۔ کچھ فاصلے پرایک آدمی تیز تیزقدموں سے کار کی طرف آ تے ہوئے اسے رکنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ سرمد کا خوف زدہ ہوگیا۔ اس نے ایکسی لیٹر دبایا اور کار تیزی سے ہائی وے کی طرف چلی گئی۔ سرمد نے بیک مرر میں پیچھے کی طرف دیکھا۔ وہ شخص دوڑتا ہوا ہائی وے کی طرف آرہا تھا۔ سرمد نے کار کی رفتار مزید بڑھا دی اور کار چند لمحوں میں کافی آگے چلی گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments