حیدر آباد 47 کلو میٹر


” لیکن اِرم! اگر کاروہاں موجود نہ ہوئی تو پھر کیا کریں گے؟ “ سرمد نے بہت پریشانی میں کہا۔

”اِرم نے ہائی وے کے اندھیرے کی طرف دیکھا۔ ایک لمحہ سوچنے کے بعد بولی:“ تو۔ ۔ ۔ تو پھر ہم لاش کو کہیں نہ کہیں گرا دیں گے! ”

”لیکن اِرم۔ ۔ ۔ ! “ سرمد نے پریشانی سے سوچتے ہوئے جواب دیا : ”یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ رانی کے ورثا نے اس کی تلاش شروع کر دی ہو اور اس کے ورثا یا پولیس بھی ہائی وے پر کہیں موجود ہو! “

”لیکن، اگر اس کی کار کے اردگرد کوئی ایسی صورتِ حال ہوگی تو ہم رکنے کے بجائے آگے چلے جائیں گے! “ اِرم نے کہا: ”ویسے بھی اس کی کار اور وہ صورت حال ہائی وے کی دوسری جانب ہی ہوگی، کیوں کہ تم نے اسے کراچی سے آتے ہوئے لفٹ دی تھی اور ہم اب کراچی کی طرف جا رہے ہیں۔ “

اچانک ہی سرمد کی گاڑی کے آگے کوئی چھوٹاساجانور آگیا۔ سرمد نے ایک دم بریک لگائی اور جھٹکے سے لاش کا ماتھا آ کر اِرم کی سیٹ کے پیچھے ٹکرایا۔ اِرم نے دہشت سے پیچھے دیکھا۔ لاش ایک طرف جھک رہی تھی۔ سرمد نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے لاش کوسیٹ کی طرف دھکا دیاتو لاش پھر سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔ سرمد نے کار کی سپیڈ مزید بڑھا دی۔

پورے ماحول پر رات کے آخری پہر کا اندھیرا اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ کسی وقت ہائی وے سے گزرتا ہوا کوئی ٹرک یاٹرالر خاموشی اور اندھیرے کو توڑ رہا تھا۔ رانی کی کار اسی جگہ پر ہائی وے کی دوسری طرف جھونپڑا ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔

سرمد نے یو ٹرن لے کر اپنی کار رانی کی کار کے پیچھے جا کر کھڑی کر دی اور ایک طویل ٹھنڈی سانس لے کر اِرم کی طرف دیکھا۔ اِرم کے چہرے پر خوف اور پریشانی کی پرچھائیاں نظر آ رہی تھیں۔ سرمد نے ہوٹل کی طرف دیکھا۔ ہوٹل میں نیم اندھیرا چھایا ہوا تھا، صرف ایک چھوٹا سا مدھم بلب جل رہا تھا اور چولھے میں سے دھواں نکل رہا تھا۔

اپنے خوف کو دبانے کی کوشش کرتے اور ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے سرمد نے اِرم کی طرف دیکھا: ”مَیں ہوٹل کے اندر جا کر اچھی طرح دیکھ آتا ہوں کہ کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا۔ “

سرمد کار سے اترا تو اِرم بھی خوف کے مارے جلدی سے اتر آئی اور اس نے آگے بڑھ کر سرمد کا ہاتھ پکڑ لیا: ”مجھے لاش کے قریب ڈر لگ رہا ہے، مَیں بھی تمھارے ساتھ چلتی ہوں۔ “

جھونپڑا ہوٹل کے نیم اندھیرے ماحول پر عجیب قسم کی پراسراریت چھائی ہوئی تھی۔ ایسی پراسراریت، جسے دیکھ کر اِرم کے ساتھ سرمد کے بھی رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ وہ دونوں خوف سے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر ہوٹل میں اندرداخل ہوئے۔ دونوں نے ہوٹل میں ہر طرف دیکھا لیکن وہاں کوئی بھی شخص نظر نہیں آیا، اس کے باوجود سرمد نے آواز لگائی: ”کوئی ہے؟ “ لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ وہ دو تین بارچلایا: ”کوئی ہے؟ “ لیکن ہوٹل میں خاموشی چھائی رہی، صرف چولھے میں سے آگ کے بھڑکنے کی ہلکی سی آواز آئی اور پھرخاموشی چھاگئی۔ دونوں نے آخری بار ہوٹل میں ہر طرف دیکھا اورایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے تیزی سے باہر چلے گئے۔

سرمد نے رانی کے بیگ کے ایک چھوٹے خانے سے اس کی گاڑی کی چابی نکالی اور رانی کی کار کی طرف چلا گیا۔ اِرم خوف سے اس کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ سرمد نے رانی کی کار کا دروازہ کھول کر، کار کے اندر کی لائٹ آن کر کے کار میں دیکھا۔ کار دوپہر والی اسی حالت میں بالکل خالی تھی۔ وہ رانی کی کار کا دروازہ کھلا چھوڑ کر، اِرم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی کار کے پاس لے گیا۔ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بہت تھکے ہارے انداز سے بولا: ”ارم! اب لاش کو نکال کراس کی کار میں ڈالنے میں میری مدد کرو! “

خوف سے اِرم کا پورا جسم کانپے لگا لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی انکار نہ کر سکی۔

سرمد نے ہائی وے کی دونوں طرف دیکھا۔ دور دور تک کوئی بھی گاڑی نہیں تھی، سوائے ایک ٹرالر کے جو انھی کے ٹریک پر آ رہا تھا جس پر وہ کھڑے تھے۔ سرمد اپنی کار کے ٹائر کو دیکھنے کی اداکاری کرتے ہوئے نیچے جھک گیا۔ چند لمحوں بعد ٹرالر ان کے پاس سے گزر گیا۔ ٹرالر کے جاتے ہی سرمد نے ایک دم سیدھا ہوکر اپنی کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور لاش کو باہر کھینچا۔ اس لمحے نہ جانے سرمد میں کہاں سے ایسی طاقت آ گئی کہ اس نے اِرم کی مدد کے بغیر ہی لاش کو بیٹھی ہوئی حالت میں ہی اٹھا لیا۔ اِرم خوف کے مارے تھوڑا دورہٹ کر کھڑی ہوگئی۔ سرمد اِدھر ادھر دیکھے بغیر ہی ہر ممکن احتیاط کر کے جما جما کر قدم رکھتے ہوئے رانی کی کار کے کھلے دروازے تک چلاگیا۔ ایک طویل سانس لے کر اس نے رانی کی لاش کو کھلے دروازے کے اندر دھکیل دیا تو لاش اگلی دونوں سیٹوں پر گر گئی۔ سرمد نے رانی کی کار کا دروازہ بند کردیا۔ قریب کھڑی اِرم نے سرمد کا ہاتھ پکڑلیا اور وہ دونوں اپنی کارکی طرف لپکے۔ ابھی وہ اپنی کار کے پاس پہنچے ہی تھے کہ رانی کی گاڑی کے سٹارٹ ہونے کی آواز نے ان دونوں کو بری طرح چونکا دیا۔ دونوں نے دہشت کے مارے رانی کی کار کی طرف دیکھا۔ رانی کی کار اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ ہائی وے پر آگئی اور تیز آواز کے ساتھ سڑک پر ٹائروں کے سکریچز چھوڑتی ہوئی انتہائی تیز رفتار سے حیدرآباد کی طرف جانے لگی۔ ان دونوں نے دہشت کے عالم میں اپنی کار کے دروازوں میں ہاتھ ڈالے تو اچانک ایک زوردار قہقہے نے ان دونوں کو ڈرا دیا۔ دونوں نے خوف کے مارے آواز کی طرف دیکھا۔ جھونپڑا ہوٹل کے نیم اندھیرے ماحول میں کھڑا ایک پرسراربوڑھا ان کی طرف دیکھتے ہوئے قہقہے لگا رہا تھا۔

سرمد کو ایک دم یاد آ گیاکہ یہ تو وہی بوڑھا ہے، جسے دن کو اس نے رانی کی کار کے پاس دیکھا تھا۔ سرمد شدید خوف کی حالت میں ایک دم ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اوردوسری طرف اِرم نے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر دروازہ بند کردیا، سرمد نے جلدی سے کار سٹار ٹ کی اور ان کی کارحیدرآباد کی طرف دوڑنے لگی۔

”لیکن اس طرف تولاش والی کاربھی گئی ہے! “ اِرم کی آواز دہشت سے کانپ رہی تھی۔

”ہمارا گھر بھی تو اسی طرف ہے، حیدرآباد میں! “ سرمد نے لمبی سانس لے کر جواب دیا۔

”لیکن۔ ۔ ۔ “ اِرم نے خوف سے چلا کر کچھ کہنا چاہا۔

سرمد نے اسے ٹوک دیا، ”پلیزارم! اب توخاموش ہو کر بیٹھ جاؤ، مجھے ڈرائیو کرنے دو! “

اِرم خاموش ہوگئی۔ سرمد نے کارکی رفتار بڑھا دی، کار کے سپیڈ میٹر کا کانٹا ایک سو تیس سے اوپر چلا گیا۔

رات تمام ہو چکی تھی۔ صبح کی ہلکی ہلکی روشنی ہائی وے پر پھیل رہی تھی۔ سرمد کی نظر اچانک کچھ فاصلے پر، سامنے روڈ سائیڈ پر کلومیٹر 47 کے سنگِ میل کے قریب کھڑی رانی کی کارپر پڑ گئی اورمارے خوف سے سرمد کے منھ سے چیخ نکل گئی: ”یہ تو وہی کار ہے نا! “

”ہاں! “ اِرم دہشت کے مارے روہانسی آواز میں چلائی اور اس نے سرمد کے بازو کو تھام لیا۔

”یہ وہی جگہ ہے جہاں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا تھا کہ رانی مر چکی ہے! “ سرمد خوف سے بولا۔

اسی لمحے جیتی جاگتی رانی اپنی کار کے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کرنیچے اتر آئی اور سرمد کی کار کو لفٹ لینے کے لیے ہاتھ سے اشارہ کیا۔ سرمد نے خوف سے اپنی کار کے ایکسی لیٹر کو پوری قوت سے دبا دیا، اور کار رانی کے قریب سے گزرتی ہوئی آگے نکل گئی۔

سرمد نے اپنی کار کے بیک مرر میں پیچھے دیکھا۔

رانی پیچھے سے آتی ایک اور کار کو لفٹ لینے کے لیے رکنے کا اشارہ کر رہی تھی۔

وہ دوسری کار رانی کی کار کے قریب آکر رک گئی۔

(سندھی سے ترجمہ: اظہر الحق نسیم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments