کیا امن اور ہم آہنگی میں کلچر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟
لوگوں کویّک رُخا دیکھنے کی بجائے اُن کودرست طور پرسمجھنے کا شوق بڑھتا ہے، فاصلے کم ہوتے ہیں، دوستیاں، تعلقات، رشتے ناتے اورمحبتیں بڑھتی ہیں۔ نتیجتا ”لوگ دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرنے لگتے ہیں جو وہ اپنے بارے میں کرتے ہیں۔ مجموعی طور پرکسی بھی کثیرقومیّتی مُلک میں باہمی تعلقات اور روابط بڑھانا، امن اوور خوشحالی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔
امن و ہم آہنگی پر کام کرنے والی دانشور ’ایلیس بولڈنگ‘ کی رائے میں مختلف ثقافتوں میں پیش و پِنہاں امن اور ہم آہنگی کے تاروپود کو برقراررکھنا اورشعوری طور پر بڑھوتری دینا نہایت اہم ہے۔ چاہے ریاست اور سماج جیسے بھی حالات سے گزر رہے ہوں، امن اور شانتی کی روایات اور امکانات کو مضبوط کرنے کی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے، حصولِ امن کے لئے امن کا خواب دیکھنا ازحد ضروری ہے۔ اُسکی رائے میں امن وآشتی کا مُتبادل نظریہ چاہے جس قدر بھی غیر حقیقی دِکھائی دے۔
اُسکا پرچار ضروری ہے کیونکہ یہ سماجی تبدیلی کے لئے کلیدی کردارادا کرتا ہے۔ جنوب ایشیاء چونکہ مذہبی وثقافتی حوالے سے دنیا کا متنوّع ترین خطہ ہے، اِس لئے امنِ عامہ قائم رکھنے کے لئے اِسکی پُرانی اورننئی مذہبی اور ثقافتی روایا ت کو سمجھنا اور فروغ دینا بارآور ثابت ہو سکتا ہے۔ طالبان، راشٹریہ وشوْا پریشد جیسے علیحدگی اور تشدد پسند مذموم گروہوں کی حالیہ قتل و غارت اور نفرت انگیزی کے بر خلاف، امن، بھا ئی چارہ اور محبت یہاں کی نوع بہ نوع ثقافتوں اورمعاشروں کا حصہ رَس رنگ رہے ہیں، اہمساء اورحُبِ انسانی، مقامی مذہبی اور سماجی اعتقادات کا روح رواں رہے ہیں جِن کی خوبصورتی اورتاثیر کو پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے۔
مگر افسوس کہ اِتنی گہری روایات کے باوجود درایں اثناء یا ماضی قریب میں پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت، جارجیت، فرقہ ورایت، انتہا پسندی اور مذہبی عدم رواداری جیسے شدید مسائل سے دوچار رہے ہیں۔ ایسے تمام واقعات اور بودے، پُھسپُھسے خیالات چند ایک گروہوں یا سیاسی پارٹیوں کے بہلاووں، بہکاووں اوربھڑکاؤ بیانات کا نتیجہ ہوتے ہیں تاکہ لوگوں کو نفرت کی آگ میں جھونک کر وہ اپنا سیاسی ومعاشی کاروبار چمکا سکیں۔ مگر اِن حالات میں بھی ایسی قوتوں کو اورمضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جو تمام فرقوں، مذہبوں اور ثقافتوں کو آپس میں رُند باندھ سکیں۔
ایسے حالات میں عمومی روایت کے بر عکس، سماجی اور ثقافتی تاریخ کے ایسے تمام ادواروحالات کو بیان کرنا بہت مدد گار ثابت ہوتا ہے جب محبت کے رشتے اور باہمی سُکھ چَین عام رہا ہواورحقییقت بھی یہی ہے کہ تاریخ میں جنگ و جدل کے مقابلے میں امن و آمان کے ادوار زیادہ گزرے ہیں لیکن جرنیلی اور شاہی مزاج کے تابع مورخوں کا مزاج یاطمع بھی نہ صرف حرب و ضرب کی داستان گوئی بن گیا بلکہ پوری تاریخ ہی جنگ و جدل کا آئینہ بن کر رہ گئی، یہاں تک کہ تاریخ کا غیر رسمی مطلب جنگجوُوں یا جنگجوُئی کا بیان بن کر رہ گیا۔
اکٹھے رہنے والے لوگ، وہ چاہے کوئی بھی ہوں، کہیں بھی رہتے ہوں، ہمیشہ کم مختلف اور زیادہ مشترک اقدار کے حامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا عصرِحاضر میں مشترکہ سماجی اوراخلاقی روایات، خیالات اور رویّوں کو تلاش کرنا اور اُنہیں رسمی اور غیر رسمی طریقے سے عام کرنا ایک طرح سے ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔ رواداری اور باہمی احترام کو ہر دائرہء کارمیں ”ہر ذریعے سے بڑھانے اور پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔
خطے کی تمام ریاستوں میں ایسے عقائد، جمالیات اورفلسفہ ہائے وجود و کائنات موجود ہیں جو امن وہم آہنگی کا تانا بانا بُنتے ہیں۔ اپنی اپنی انفرادی شناخت برقرار رکھنے کے باوجود بھی کئی ایک ثقافتی دھارے ایسے ہیں جو تمام کمیونیٹیزمیں مشترک ہیں۔ برِصغیر پاک و ہند کی صوفیانہ فکر کے مطابق ’افتراق میں کُلیّت‘ اور ’وحدت الوجود‘ کی رنگا رنگ شرحیں محبت کرنے والے خُدا اور متنوّع فطرت کی عکاسی کرتی ہیں۔ اسلامی تصوف، ویدانتا، گوتم کے گاتھا، حتیٰ کہ اقلیتی مذہبی افکار یعنی زردشتیت، بہائیت اور سکھ مَت میں بھی ایسے ہی تصورات مقبول ومعروف ہیں جن کے مطابق انسانی تفریق وامتیازظاہری ہیں اورحیات وکائنات کی ڈُونگی سچائییاں ایک ہی ہیں۔ وحدت الوجود اوروحدت الشہود کے تذکرے اور مباحثے عام ہیں۔ اور ایسے ہی تصورات رواداری، وسعتِ قلبی اور کشادہ ذہنیت پیدا کرتے رہے ہیں۔
اس ضمن میں ذکر کرنا ضروری ہے کہ صلحِ کُل کا صوفیانہ رویہّ ہماری شاعری، ادب، لوک ورثہ، آرٹ اورآرکیٹیکچرمیں بھی سرایت کر چکا ہے۔ بھگت کبیر، گرو نانک، سچل سرمست، شاہ لطیف، خواجہ غلام فرید، غنی بابا، مست توکّلی، تاج محمد تاجل اور بُلھے شاہ کی شاعری انسانیت، سماجی انصاف اور عشقِ اُلوہی کے جذبات سے بھر پُور ہے۔ وہ ایک ایسے خدا کا تصور پیش کرتے ہیں جو بے حدودوقیود ہے اور تمام انسانوں کو یکساں شمار کرتا ہے اور سب سے یکساں پیار کرتا ہے۔
جمہوریت اورامن کا پرچار
ہر پانچ سال بعد یا قبل رسمی چُناؤ اورسیاسی پارٹیوں سے ہٹ کر جمہوریت کی اصل روح اقلیتوں، اقلیتی ثقافت، عقائد اور اُنکی شناخت کے تحفظ میں مضمر ہے۔ آج سے کوئی دو ڈھائی سو سال پہلے امریکی جمہوری آئین کے خالق جیمزمیڈیسن نے 1787 میں کہا تھا کہ جمہوری حکومتوں کا اہم ترین فریضہ اقلیتوں کو اکثریتی جبرسے محفوظ رکھنا ہے۔ اُن کواستحصال اورتشدد سے بچانے کے لئے اگر آئینی اور قانونی دفعات موجود ہ ہیں بھی تواُن پر عمل درامد ضروری ہے اور اگر نہیں ہیں تو لانے چاہیّین۔ ساتھ ہی ساتھ عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کی طاقت اور اختیارات کو عملی طور پر الگ الگ رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی زیادتی اور اِستحصال کی صورت میں اقلیتوں کو تحفظ دیا جا سکے۔
ہرچند کہ جوجمہوری نظام ہمارے مُلک یا کسی حد تک ہمسایہ ملکوں میں پریکٹس کیا جا رہا ہے کسی ب بھی حوالے سے آئیڈیل نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ آمرانہ اور تحکمانہ نظام سے کئی درجہ بہتر ہے۔ کیونکہ یہ صرف جمہوری فریم ورک ہی ہے جو تمام شناختوں اوور تمام نقطہ ہائے نظر اور متنوّع تصورات کو گنجائش فراہم کر سکتا ہے۔ باوجود اِس کے کہ قومی معاشی ترقی کی دوڑ، انفرادی مادی تعیّشات کا جنون اور حیرت انگیز ٹیکنالوجیکل انقلاب نے سہولتوں کے ساتھ ساتھ بہت سا سماجی، ثقافتی اور اخلاقی بحران بھی پیدا کر دیا ہے لیکن اسی فریم ورک کے اندر ہی مذہبی اور ثقافتی تنوّع، لسانی اور سماجی حُسن اور امتیاز کو منصفانہ مقام دینے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔
باہمی میل جول، بات چیت، تعلقات کی وسعت اور لبرلزم سماجی اخلاقیات اور رویّوں کو بہتر کرنے کی گہری صلاحیت رکھتے ہیں۔ روایتی ثقافتی وسائل نوزائدہ ثقافتی رحجانات کو مزید وسعت دے سکتے ہیں اور جدید کلچرل آرکیٹیکچر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ حالیہ دور میں کلچرل تصورات اور رنگارنگی کو بھی مستحکم جمہوریت اور ترقی کے لئے ایک اہم ستون کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کلچر کے بہت سے دوسرے اظہاریوں سمیت مقامی ورثے کو بھی، بالخصوص ترقی پذیر ملکوں میں، ترقی کا اہم ترین واسطہ شمار کیا جا رہا ہے۔
متفرق عقائد اور اقدار کے ساتھ ساتھ کلچر، عملی، روحانی، نظریاتی اور جذباتی پہلوؤں پر بھی مشتمل ہوتا ہے۔ اِسی لئے تمام کمیونیٹیز کی مذہبی اور ثقاتی ترجیہات کو مدِنظر رکھے بغیر دیرپاء امن اور سماجی و معاشی ترقی ممکن نہیں ہے۔ یہ کلچر ہی ہے جو لوگوں کو نہ صرف تنازعات اور اُسکے درپردہ اسباب کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے بلکہ مکالمے کے ذریعے براہ راست اور بالراست ترقی کا راستہ بھی ہموار کرتا ہے۔ مشترکہ دلچسپیوں، مسرتوں اور احساسات کی معرفت، کلچر سماجی اختلافات، فاصلوں اور فسادات کے زخم بھرنے کے ساتھ ساتھ امن و آشتی کا راستہ ہموار کرتا ہے بلکہ نئی راہیں بھی تخلیق کرتا ہے۔ کسی بھی جمہوری اور ترقیاتی عمل میں اگر لسانی، مذہبی اور ثقافتی شناختوں کو نظر انداز کیا جائے گا تو سماجی ہم آہنگی اور منصفانہ ترقی نا ممکن ہ جائے گی۔ قصہ مختصرانسانی حقوق پر مَبنی مشمولاتی ترقی اور لا مختتم امن کی کوششوں میں ثقافتی دھاروں کو شاملِ فکر رکھنا ناگزیر ہے۔
مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں
- اندر اماں اور بھابی سو رہے ہیں - 20/07/2023
- دستور پاکستان : بنیادی انسانی حقوق کی شرح اور جرح - 30/04/2023
- آلو، ٹماٹر کی طلب اور سیلاب کا تاوان - 01/09/2022
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).