کیا امن اور ہم آہنگی میں کلچر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟


تشکیلِ اَمن میں مشترکہ ورثے کا کردار

برِ صغیر پاک وہند کی ثقافتوں میں باہمی اشتراک دنیا کے کسی بھی خطے کی ہمسایہ ثقافتوں سے زیادہ ہے۔ ہر چند کہ اِس کا شعورلوگوں کو صدیوں سے رہا ہے لیکن حال ہی میں خورشید انور نے اِس تصور کی گہرائی اور وُسعت میں کافی اضافہ کیا ہے۔ اُن کے خیال میں جنوب ایشیائی تہذیبوں کے درمیان حیران کُن رنگا رنگی، فرق اور تنوّع کے با وجود پاتال میں کئی عناصر ایک جیسے ہیں۔ زبان، ادب، شاعری، موسیقی، لباس و آرائش، آرٹ و آرکیٹکچر، ذائقہ اورخوردونوش کی ترجیہات، حتٰی کہ مخصوص عقائد کو چھوڑ کرروزمرہ کا مذہبی اور صوفیانہ مزاج بھی ایک جیسا ہے۔

مثال کے طور پر ایک ہندوستانی مسلمان کی عادات و خصائل ایک عرب مسلمان کے مقابلے میں کہیں زیادہ اپنے ہندوُ یا بُدھ بھائی سے مِشترک ہو نگے۔ ایک پاکستانی مسیحی کے عادت و خصائل ایک یورپی یا افریقی مسیحی سے کہیں زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ملتے جُلتے ہیں کیونکہ اُس کا آئے روز کا واسطہ اور تعلق اُنہیں سے ہے وہ انہی کے ساتھ رہتا، کھاتا پیتا اور لین دین کرتا ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی سِکھوں کا شوخ و سجیلا مزاج اور زندہ دِلی کسی بھی جگہ رہنے والے سکھوں سے زیادہ پنجابی مسلمانوں سے ملتا جُلتا ہے۔ اِسی طرح اکئی اورمثالیں سوچی اور ارد گرد دیکھی جا سکتی ہیں۔

خورشید انور نے اپنے مُرتب کردہ مینوّل میں ہندی، اردوُ، سنسکرت، بنگالی، فارسی اور کئی دوسری مادری زبانوں کے الفاظ ولغت کا مبداء و منبع، قریبی تعلق اور تبدیلی کا سفر ڈھونڈ نکالا ہے۔ شاعری، ادب، راگ راگنیاں اور کئی ایک موسیقیاتی اقسام تمام ثقافتوں میں ایک جیسی ہی ہیں۔ خواجہ معین الدین چشتی، فرید الدین گنجشکر اور نظام الدین اولیاء سے لے کر راما نندا، نِمبارکا، والا بھاچاریہ، شری چیتیّانہ، نینا وت، وِشناراس، تُلسی داس، میرا بائی اور بھگت کبیر سمیت کئی دوسرے دانشور، صوفی اور شاعر ایسے رہے ہیں جنہوں نے قرونِ وسطیٰ میں حقیقت کی تلاش اور تشریح صلح جُو اور انسانیت پسندانہ انداز میں کی ہے۔ یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ اِسی دور میں یورپ اندرونی طور پر انتہائی کٹر اور انتہا پسندانہ مسیحیت اور فرقہ ورانہ تشدد کے دور سے گزر رہا تھا اور ہمسایہ مُسلم ممالک سے صلیبی جنگوں کا پیشوابھی۔

یہاں یہ ا شارہ بھی موضو ع سے ہٹ کرنہ ہوگا کہ اکبر بادشاہ کا مقصد بھی (بمطابق ایک غلط العام کے ) کوئی نیا دین ایجاد کرنا نہیں تھا بلکہ مناظروں اور مباحثوں کے ذریعے کسی عارفانہ سچائی تک پہنچنا تھا تاکہ ہندوستان میں ایک پُرامن متحدہ معاشرہ قائم رکھاجا سکے۔ زیر بحث تینوں ریاستوں میں آج بھی کئی شاعر، ادیب اور فنکار یکساں مقبول و معروف ہیں جِن میں امیرخسرو، رابندرناتھ ٹیگور، بسم اللہ خان، استاد ذاکرحُسین طبلہ نواز، استاد غلام علی، لتا منگیشکر، رُونا لیلیٰ اور کئی دوسرے شاعروں اور فنکاروں سے لے کر فراق گورکھپوری، جاوید اختر، امرتیا پریتم، ساحر لدھیانوی، گلزار، جالب، فیض اور فراز محض چند نام ہیں۔

ہندوستانی فلمیں پاکستان میں انتہائی پاپُولر ہیں جبکہ پاکستانی ڈرامہ انڈیا میں بہت شوق سے دیکھا اور سراہا جاتا ہے۔ مشترکہ ورثہ میں شعروادب کے علاوہ سماجی رویّے، مزاج، نفسیات، میلے ٹھیلے، خُوشیاں، تہوار، شخصیات، لوک کہانیاں، داستانیں اور تاریخی مقامات بھی شامل ہیں۔ ایسی تمام چیزیں صدیوں سے یہاں کے باسیوں میں سینہ بہ سینہ بغیر کسی بڑی تبدیلی کے مُنتقل ہوتی رہیی ہیں۔ باوجود بعض سیاستدانوں کی شعُوری کوشش کے جو اِن تمام ثقافتوں کو غیر مماثل ڈبوں اور لکیروں میں پا بند کرنے کی سوچی سمجھی کوشش کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے دو مزاحمتی شاعروں یعنی حبیب جالب اور فیض احمد فیض کا کلام (بالترتیب ’میں نہیں مانتا‘ اور ’ہم دیکھیں گے‘ ) آج بھی قومی شہری رجسٹریشن اورترمیمی ایکٹ ( 2019 ) کے خلاف ہندوستان کے طول و عرض میں شدومد سے گایا جا رہا ہے۔ لباس وآرائش میں عورتوں کی پسند ناپسند سرحدوں کے آر پار ایک جیسی ہے۔ تینوں ریاستوں کے عوام کو کرِکٹ کا جنون ہے۔ بہت سے شاعر، ادیب اور دانشور تقسیم کے دوران یا بعد میں اِدھر سے اُدھر یا اُدھر سے اِدھر آ ئے گئے اور اُن کے دِلوں میں اپنے آبائی وطن کی مخمُور یادیں دھڑکتی ہمکتی رہتی ہیں۔

پاکستان میں بہت کم ناول پسندوں کو معلوم ہوگا کہ ’آگ کا دریا‘ اور ’میرے بھی صنم خانے‘ کی لکھاری قُرات العین حیدر ہندوستان میں مستقل قیام سے پہلے کافی سال پاکستان میں رہتی رہی ہیں۔ جنوب ایشیاء بلکہ شاید بنگلہ دیش کے بھی کم ہی لوگوں کو معلوم ہوگا کہ بنگالی ترانے کے خالق رابندر ناتھ ٹیگور اورقومی شاعر نذرالاسلام کا تعلق کلکتہ (مغربی بنگال) سے تھا۔ مقبول و معروف ترانہ ’سارے جہاں سے اچھا ہندستاں ہمارا‘ پاکستان کے عظیم قومی شاعر علامہ اقبال کی قادرالکلامی کا شاخسانہ ہے اور پاکستان کے سحر انگیز قومی ترانے کے خا لق حفیظ جالندھری ککا تعلق موجودہ ہندوستانی پنجاب کے ضلع جالندھر سے تھا۔ مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ چہار اطراف سے انتہا پسندانہ ذہن سازی اور بیگانگت کی شعوری سیاسی اور مذہبی کو ششوں کے باوجود ثقافتی آثارووعلامات اب بھی زندہ سلامت ہیں۔

گوتم بُدھ، بابا نانک اور بھگت کبیر سے لے کربُلھے شاہ تک برِصغیر نے بیسیوں سَنت، بَھگت اور امن و عدم تشدد کے پرچارک جنم دیے ہیں۔ راسخ العقیدہ فکر کے برخلاف، متبادل نقطہء نظر اور نیا وژن غیر منصفانہ صنفی اور دوسری روایات کو ہدفِ تنقید بناتا ہے اور سماجی تبدیلیوں کے لئے راستہ ہموار کرتا ہے۔ شاید دُنیا میں متنوّع ترین خطہ ہونے کی وجہ سے ہی ہند، سندھ کے باسیوں نے حقیقتِ اولیٰ کی صوفیانہ شرح و تفسیر اور روحانیت پر زور دیا تاکہ ہر طرز کے ایمان و ایقان کو معنویّت اور روحانیت کی ایک ہی لڑی میں پِرویا جا سکے۔

مجموعی طور پر امن و شانتی کی تشکیل و تعبیر، اہمساء اور عشقِ انسانی ہی تمام صوفیوں، بھگتوں اور سَنتوں کا مطمعء نظر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ کلام اور پیغام پرمبنی بھجن، وانیاں، کافیاں اور دوہے پورے خطے کی رگ رگ میں دوڑتے ہیں۔ مگر افسوس کہ شاعری اور موسیقی سے بڑھ کر اِس پیغام کو سرکاری پذیرائی اور ادارتی حمایت حاصلی نہیں ہوئی، اِسی لئے ِاس کا دائرہ کار محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے۔ اور آرتھوڈاکس عقائد عام اور راسخ ہو گئے ہیں۔

تاہم یہ کہنا بھی حقیقت سے نظر چُرانے کے مترادف ہو گا کہ جو متفرق معاشرے صدیوں تک ایک دوسرے کے ساتھ رہتے رہے ہیں اُن کے درمیان سب گل و گلزار اور شیروشکر تھا اور کبھی کوئی اختلاف یا ردو کدوُرت نہیں تھی۔ جس طرح خورشید انور نے خود ذکر کیا ہے، اختلافات، کشیدگیاں، الگ الگ پہچان، وضع قطع، عقائد، رسوم و رواج حتٰی کہ تنازعات بھی مشترکہ وراثت ہی کاحصہ رہے ہیں۔ مگر ہم اہنگی اورآپسی اعتماد سازی کے لئے اختلافا ت سے صرفِ نظر کرنا، مشترکہ عناصر کو بڑھاوا دینا، رابطہ کارپُلیاں تعمیرکرنا اور اختلافات کو اجنبیت کے بجائے فِطری حُسن شمار کرنا زیادہ ضروری ہے۔

خطے میں مذہبی، لسانی اور سیاسی کشیدگیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی امن اور روشن خیالی کا تقاضا ہے کہ سماجی اور ثقافتی ورثے کے ذریعے تعاون اور بات چیت کی نئی نئی راہیں تلاش کی جائیں۔ سوشل میڈیا اور سماجی رابطہ کاری کے موثر اور فوری ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے ہمیں نئی نسل کو اپنے تاریخی اشتراک سے روُشناس کروانا چاہیے اور نئے تعلقات ایجاد کرنے چاہیں۔ تیزی سے پھیلتی ہوئی شہری تہذیب میں اُبھرتے ہوئے نئے اخلاقی نظام کے لئے ضروری ہے کہ ہم مشترکہ اورغیرمشترکہ ثقافتی وسائل کی اِسطرح پیوند کاری کریں کہ نہ صرف سابقہ اور موجودہ روایات میں مطابقت پیدا ہو سکے بلکہ نئی روایات اور نئی اخلاقیات کو بھی اپنے دامن میں جگہ دی جا سکے۔ سماجی اور معاشی ترقیاتی عمل میں ثقافتی ورثہ اچھی روایات کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ اہم اقتصادی اور سماجی ترقی کے لئے بہترین پہیّے اور دُھرے کا کام کر سکتا ہے

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments