کیا امن اور ہم آہنگی میں کلچر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟


کلچرل ربط و ضبط بڑھانے میں تعلیم کا کردار

زور زبر دستی کی نام نہاد قوم سازی، اپنے سیاسی مفادات کی آبیاری اور ہمسایہ ممالک سے دُشمنانہ جذبات کو برقرار رکھنے کے لئے ہندوستان، بنگلہ دیش اور پاکستان نے اپنے تعلیمی نظام اور سب سے بڑھ کر سماجی تعلیم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ تمام مُلکوں کے حقیقی معاشی مفادا ت کو تقویت اور توسیع دینے کی بجائے تعلیم کو فاصلے اور دراڑیں بڑھانے کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ معاملہ یہیں تک نہیں تھما، بلکہ مقابلہ بازانہ یکساں قوم کی ترکیب وتشکیل میں تینوں ملکوں نے اپنے اندرونی تنوّع کو بھی شک و شبہ کی نظر سے دیکھتے ہوئے بیگانہ وار شکست و ریخت کا شکار کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر ہماری تعلیم، بالخصوص پاکستان میں، نہ صرف تنگ نظر مولوّیانہ اورکور چشمانہ نقطہء نظر کا شکار رہی ہے بلکہ اپنے اپنے اندرونی سماج اور لسانی تنوّع اور حُسن و مُسرت کو سمونے اور اپنانے میں ناکام رہی ہے۔

پاکستان میں درسِ نظامی کی کشادہ قلب صوفیانہ روایت کو چھوڑ کر وفاق المدارس اور تنظیم المدارس دونوں نے رُجعت پسندانہ، فرقہ وارانہ اور غیر مساویانہ تعلیم کو رواج دیا۔ گو کہ ہندوستان میں عمومی سائینسی تعلیم نسبتاً بہتر ہے لیکن انتہا پسند ہندوتوّا قوتوں یعنی ’راشٹریہ سوامی سیوک سنگھ‘ اور ’وشّوا ہندو پریشد‘ نے بڑی حد تک سماجی تاریخ، آثارقدیمہ، مُسلم شناخت اور باہمی تعلقات کو مَسخ کیا ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی ایک طرف تو پاکستان مخالف کہانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور دوسری طرف غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف پراپگنڈا بھی عام ہے۔ گویا ہردو یعنی مذہبی، اور تنگ نظر سرکاری تعلیم نے مِل کر تینوں ملکوں میں آزادیء فکرو اظہار کو اورخصوصاً اقلیتی مذہبی آزادیوں اور اُنکی مساوی شہریت مگرجُداگانہ شناخت کو شدید دھچکا لگایا ہے۔

ہر چند یہ بات بھی دُرست ہے کہ پاکستان میں پنجاب اور سندھ نے گزشتہ ایک دہائی میں اپنے سماجی علوم کا سکول نصاب کافی حد تک بہتر کیا ہے اور کسی حد تک انسانی حقوق، غیر مسلموں کے حقوق، اُن کا پاکستان بنانے میں کردار اور دوسری ممتاز غیر مسلم شخصیات کواُنکا جا ئز مقام دینے کی کوشش بھی کی ہے۔ مگر اِسی دوران خیبر پختونخواہ کے نصاب میں جماعتِ اسلامی کے زیرِاثرابتدائی اور ثانوی نصاب کو مزید رُجعت پسندانہ بنادیا گیا ہے، جبکہ بلوچستان کا نصاب جیسے تھا ویسے ہی ہے جس میں کوئی حوصلہ افزاء تبدیلیاں نہیں کی گئی ہیں۔

موجودہ پاکستانی حکومت ایک بار پھر یکساں نظامِ تعلیم اور قوم سازی کا عندیہ دے کر اگلے سال تک نیا نصاب متعارف کروانے جا رہی ہے۔ اس پراسس میں تنوّع اور اقلیتی مذاہب کو کِس حد تک مَساوی شہری وقار بخشا جاتا ہے، کُچھ کہا نہیں جا سکتا۔ تاہم اٹھارویں ترمیم 2010 کے بعد سے کریکولم ایڈوائزری بورڈ اور صوبائی ٹیکسٹ بُک بورڈ نے کسی حد تک امن و آمان قائم کرنے میں نصاب کے کرداراور لسانی، مذہبی اور سماجی تنوّع کو تسلیم کرنا شروع ضرور شروع کیا ہے جو ایک قابلِ تعریف بات ہے۔

قصہ مختصر، تنگ نظر، متعصبانہ اور سیاسی مفادات پرمبنی مذہبی اورریگوُلر تعلیم بچوں کوعقلی استدلال اور سائینسی فکر کی بجائے اندھا دُھند تقلید اور سنسنی خیز جذبات پسندی پر مائل کرتی ہے جبکہ اچھی اور منطقی تعلیم نوع بہ نوع زبانوں، ثقافتوں اور مذاہب کا احترام دِل میں لاتی ہے۔ اگرغورو فکر اور موثر طریقے سے استعمال کیا جا ئے تو تعلیم ایک ایسا ہتھیار ہے جو طلبہ وطالبات کے دلوں میں باہمی احترام اورسرحد پارلوگوں کے لئے بھی برابر کے انسانی جذبات بیدار کر سکتا ہے۔

طلباء وطالبات کو یہ جاننا چاہیے کہ لوگوں کا مختلف افکار، نظریات اور عقائد رکھنا عَین فطری بات ہے۔ حیات اور کائنات کے بارے میں دُنیا کی تاریخ میں کبھی بھی افراد اور معاشروں کے نظریات ایک جیسے نہیں رہے۔ اگر انسان حیوانِ عاقل و ناطق ہے تو ہر انسان کی فکر، ردو قبول اور بات چیت میں فرق ہو گا اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ زمانہ جدلیاتی تسلیم واِجتناب سے ہی آگے بڑھتا ہے۔

رسل و رسائل اور ربط ومعاملات کے نئے نئے طریقوں کے ساتھ ساتھ بڑھتے پھیلتے ہوے کاسموپولٹن شہروں میں ہمہ ہمی اور رنگا رنگی بڑھ رہی ہے۔ تمام ثقافتیں بھی اظہاروبیان کے نوع بہ نوع اندازو اسلوب تلاش کر رہی ہیں۔ ایسے میں فقط تعلیم ہی وہ طاقتور ترین ادارہ ہے جس کے ذریعے سب کا وقار اور مساوی احترام اُجا گر کیا جا سکتا ہے۔ جدید سیکُولر تعلیم ہی طلباء و طالبات کو مہذب تبالہء فکر، مکالمہ، نئی اقدار اختیار کرنا، ایک دوسرے پر انحصار اور مذہب و ثقافتی فرق کو سمجھا سکھا سکتی ہے۔

اختلافات جیسے اور جتنے ہی شدید کیوں نہ ہوں، نوجوانوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ بات چیت سے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ صرف تعلیم ہی اُنکو سائینس اور سماجی سائینس دونوں دائرہ کار میں آزادیء فکرواظہار کا شعُور دے سکتی۔ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ اُنہیں یہ باور کرانا بے حد ضروری ہے کہ سماجی اور صنفی مساوات سے ہی ایک دوسرے پر بھروسا، امن و سکون اور اجتماعی شعور پیدا کیا جا سکتا ہے جو پاکستان اور خطے کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments