کیا امن اور ہم آہنگی میں کلچر کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟


بامعنی ترقیاتی فریم ورک میں تمام شہریوں کے احترام اور آدرشوں کو مدِ نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ چاہے اُن کا تعلق کسی بھی فرقے، عقیدے یا ِلسانی گروہ سے ہو۔ تمام جمہوری اور ترقیاتی اقدامات مُنہ کے بَل گِر پڑتے ہیں جب تک معاشرے میں رہنے والے تمام گروہ اپنے اوراپنے ہمسائیوں کے ساتھ موافقت نہ رکھتے ہوں۔ مراد یہ ہے کہ امن اور منصفانہ سماجی ترقی ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں۔

تاریخی ورثہ، مقامات، نوادرات اور برت برتاوے کی پُرانی چیزیں بھی سماجی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جنوبی ایشیاء کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اہمیت کے پیش نظر ثقافتی سیاحت بھی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے اور آپسی جڑت پیدا کرنے میں نُمایاں کردار ادا کر سکتی ہے، جیسا کہ پاکستان میں کرتار پور اور سیالکوٹ کے قدیم جگناتھ مندر کو کھول کر ایک کو شش کی گئی ہے۔ دراصل کلچر مزاج، علوم اور اقدار کا مبداء ہونے کے ساتھ ساتھ رہن سہن، طرزِبُودوباش اور اپنے طبعی ماحول، جغراففیہ اور فطرت سے تعلق، توازن اور مطابقت کا نام بھی ہے۔

امن کاری اور مفاہمت میں کلچر کا کردار

خلافِ توقع، انٹرنیٹ، الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور سماجی رابطوں کے برق رفتار ذرائع کے اِس دور میں مُلکی اورعلاقائی امن اور استحکام کو بے شُمارخطرات لاحق ہیں۔ مذہبی ونسلی تعصبات بڑھتے جا رہے ہیں اور اقلیتوں کو شہرکے حاشیوں میں دھکیلنے کا رُحجان عام ہوتا جا رہا ہے۔ اُن کی تاریخ، زبانوں اور ثقافتوں کو غیر مہذب، غیر ترقی یافتہ اور مضحکہ خیز حتٰی کہ غیر انسانی قرار دینے کا رواج پکڑ رہا ہے۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ، فرانس، بھارت، میانمر، سری لنکا، پاکستان اورچین میں کئی اقلیت مخالف واقعات دیکھنے اور پڑھنے میں آرہے ہیں۔

بعض جگہوں پر انتہائی بھیانک اور دل دہلا دینے واقعات رونما ہو رے ہیں۔ ایسے تمام واقعات میں سوشل میڈیا کا منفی استعمال خصوصی طور پر شامل رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ جدید میں اقلیت کُش متشدد واقعات کے اسباب پر غوروخوض، بحث مباحثہ اور سدِباب کے نئے راستے تلاش کرنا از حد ضروری ہو چکا ہے۔ کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ ”امن کوکسی بھی جگہ اور کسی بھی کمیونٹی کے لئے خطرہ ہر جگہ، ہر ایک کے لئے خطرہ ہے“۔

ثقافتی لین دین کو سمجھنا اور تسلیم کرنا ایک دوسرے کو قبول کرنے میں وسعت لاتا ہے اور جمہوری اصولوں کے مطابق آزادئی فکرواظہار میں اضافہ کرتا ہے۔ ہمسایہ کمیونیٹیز کا ثقافتی ورثہ اَمن، رواداری اور جمہوری اقدار میں گہرائی لاتا ہے اور اُنکے اخلاقی اور ثقافتی ڈانڈوں کو مضبوط کرتا ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں بے بُنیاد پروپگنڈا ختم کرنے اور سماجی اخراج کو کم کرنے سے باہمی رشتے پختہ ہوتے ہیں۔ ثقافتی سرگرمیوں میں ذوق و شوق سے شرکت غریب، کمزور اور ذَد پذیر لوگوں کو معاشرے میں ایک مساوی اور باعزت شہری کے طور پر شریک ہونے میں متعاون ہوتا ہے۔

ہر کمیونٹی کے تہواروں تقریبوں میں شامل ہونا کثیرثقافتیت میں گہرائی اورر چاؤ پیدا کرتا ہے، ہر ثقافت کے عالمگیر عناصر کا اثرو نفُوذ بڑھاتا ہے اور دوسراہٹ کے زہرکو خارج کرتا ہے۔ مذہبی یا نسلی فسادات کے بعد ثقافتی سرگرمیاں، مشترکہ میلے ٹھیلے اور ناٹک بولیاں ایک دوسرے سے شاکی کمیونیٹیز کے درمیان اعتماد کی فضا ہموار کرنے اور اُنہیں دوبارہ اپنی زمین سے پیوست ہونے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ مشترکہ ثقافتی خدوخال پُرامن بقائے باہمی کے لئے تعمیراتی قالب کا کردار ادا کرتے ہیں۔

تنازعات کے اسباب کو مختلف ثقافتی و لسانی اور مذہبی شناختوں سے جوڑنا اور یہ تصور کرنا کہ تفریق بدیہی اور لابدی ہے مسائل کی جَڑ بُنیاد ہے، یہ سراسرغلط تصور ہے کیونکہ امن کے حصول یا تشکیل کے لئے ضمنی شناختوں کو مندمل یا ختم کرنے سے امن حاصل نہیں ہوتا بلکہ بعض صورتوں میں، اور جنوبی ایشیاء کی تاریخ گواہ ہے، اقلیت اوراکثریت میں فاصلے اور کشیدگیاں اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ جبکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنوبی ایشاء میں بہت سی کمیونیٹیز اپنے مذہبی اور شناختی امتیاز کے با وجود باہمی امن اور خوشحالی سے ساتھ ساتھ یا گُھل مِل کے رہتے رہے ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست یا راج نیتی کے لئے طاقتور مُلاء، پنڈت، اور بھکشُو، اشرافیہ، صنعت کار، جاگیردار یا سیاستدان ممذہبی اور سیاسی تفریق کے لئے مبالغہ آمیز نظریات تخلیق کرتے ہیں، تاریخی واقعات ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُن پرداستان سرائی کا سرکہ لگاتے ہیں اور پھر بھڑکا ؤبھاشنوں سے عوام کو مشتعل کرتے ہیں تاکہ طاقت تک رسائی یا پھر شہرت حاصل کریں چاہے وہ منفی ہی کیوں نہ ہو۔

سچ تو یہ ہے کہ نظری، تاریخی، مذہبی اور نسلی تفاوّت کے باوجود دنیا اور جنوبی ایشیاء کے تمام مُعاشرے کم از کم ایک مُشترک انسانی جذبات اور اِحساسا ت کے حامل ضرور ہیں جن کوباقاعدہ سوچ سمجھ کرآگے بڑھایا جا سکتا۔ باہمی ثقافتی رشتوں کا احترام پیدا کرنے کے لئے تفریق اور تنوع سے لگاؤ پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ قومی ریاستی ڈھانچوں کی بازتشکیلیت مساوی شہریت اور انسانی حقوق کا تقاضا کرتی ہے تاکہ یونیورسل اخلاقیات کو جنم دیا جا سکے۔

ہرچند کہ جنوبی ایشاء میں دنیا کے بَدترین کمیُونل فسادات رونما ہو چکے ہیں لیکن مِل جُل کر رہنے کی مثالیں بھی کم نہیں۔ زیادہ دُور جانے کی ضرورت نہیں، یہیں کرا چی میں ایک بستی نارائن پورہ کہلاتی ہے جہاں ہندو، سِکھ اورعیسائی اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ گُھل مِل کر رہتے ہیں اور خلوص و مسرت سے ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں یعنی ہولی، بیساکھی، کرسمس، عیدیَن اور دوسری تقریبات میں شریک ہوتے ہیں۔ اِسی طرح سُمندری (فیصل آباد) کے گاؤں خاصپور میں کئی دہائیوں سے مسلمان اور مسیحی کمیونیٹیز امن و اعتماد سے اِک مِک رہتے ہیں۔

یہاں تک کہ اُن کا قبرستان بھی مشترک ہے۔ اِسی طرح گھوٹکی کو چھوڑ کر سندھ کے کچھ اضلاع مثلاً عمر کوٹ، تھر پارکر، جیکب آباد اور نواب شاہ میں ہندو اور مسلمان بڑی حد تک برابری اورچَین شانتی سے رہتے ہیں۔ سفاک اختلافی حقیقتوں کے با وجود ایسی مثالیں ہندوستان اوربنگلہ دیش میں بھی کم نہیں ہیں۔ ایسی تمام کمیونیٹیز سے تہذیبی اور ثقافتی لین دین سیکھا سمجھا اور مزید پھیلایا جا سکتا ہے۔

دنیا میں کوئی ریاست ایسی نہیں ہے جہاں لکڑی لوہے کیطرح یکساں لسانی و مذہبی معاشرہ آباد ہو۔ معاشرے فیکٹریوں میں نہیں بنتے، پراڈکٹ نہیں ہوتے بلکہ زمین پر جنم لینے والے جیتے جاگتے نامیاتی مظاہر ہوتے ہیں۔ انسانی فکری ارتقاء، تجربات، جمالیات اور نظریات سے متنوّع افراد اور ثقافتیں جنم لیتی ہیں۔ تنوّع اور افتراق کو سراہنے کی بجائے یکجائی اور یّک نظری پر زور دینا یا مکینکل یکسانیت کی کورچشمانہ سیاسی کوشش، جہاں بھی ہو، کسی مدعُو کردہ المیے سے کم نہیں ہے۔

بالائی تفریق کے ساتھ ساتھ اگر قریب قریب رہنے والے معاشروں کے ’مشترکہ ورثہ‘ کو بھی تسلیم کیا جائے تو کاٹنے بانٹنے اور علیحدگی پسندانہ رویوں سے بچ کر ہم دوسروں کو بھی اپنے وجود کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ مشترکہ ورثہ ایک ایسا زاویہء نظر ہے جو ہمیں زبانوں اور ثقافتوں کے طول و عرض میں افتراق کے ساتھ ساتھ اشتراک فہمی کا شعُور بھی دیتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments