منصب سازی میں کے زعم میں مبتلا بھکاری قوم


دل درد سے معمور ہے۔ رات کے پچھلے پہر طالب علم کاذہن جب یہ الفاظ اگل رہا ہے تو انتشار فکری کے باوجود اس بات پر مرکوز ہے کہ دنیا بھر کے وسائل سے نواز دی گئی یہ قوم عقل سے کام کیوں نہیں لیتی؟ کہتے ہیں خالق جب کسی سے کوئی چیز چھیننا چاہے تو عقل چھین لیتا ہے۔ بے نیازخالق کا آئین اٹل ہے۔ کوئی ترمیم اس میں ممکن نہیں کہ الیوم اکملت لکم کا فل سٹاپ لگا دیا گیاہے۔ خالق کے اس آئین کا بنیادی اصول یہ ہے کہ علم اور جدوجہد کرنے والا فرد ہو یا قوم اس کی محنت کبھی ضائع نہیں کرتا۔

کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز میں تفکرکا سبق دینے والاآئین ہم نے ریشم کے غلاف میں لپیٹ کر طاق نسیاں کی زینت بنا ڈالا ہے۔ سوال کرنا اس معاشرے میں وبال جان ہے کہ دستار پوش کا علم اس کا جواب دینے کی سکت سے محروم ہے۔ تبھی اس نے سوال کو گناہ کا درجہ عطا کیا ہے۔ افسوس میری قوم حصول علم کی راہ پر صرف نوکری کے جال تک پہنچ کر خود کو کامران سمجھتی ہے۔

معاملہ کوئی بھی ہو، مسئلہ کوئی بھی درپیش ہو، مشکل کیسی ہی کیوں نہ ہو، ہدف پر نظر ان کی کم ہی رہتی ہے۔ حکمرانوں سے شکوہ کیسا؟ جیسا دودھ ویسی دہی۔ جیسا بیج ویسا پھل۔ ببول کے بوٹے سے کبھی گلاب اور موتیے کی خوشبو آئی ہے؟ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھنے والوں کا منصب قدرت نے بھکاری سے زیادہ کچھ نہیں رکھا۔

کچھ دن گزرے ہیں سوشل میڈیا کے منہ زورگھوڑے نے خبر دی کی مملکت خداداد پاکستان میں تشکیل دیے جانے والے اقلیتی کمیشن میں احمدی برادری کو نمائندگی دی جائے گی۔ بال کی کھال اتار لینے والی اس قوم کے کسی کھوجی کو نہیں معلوم کہ یہ خبر کس نے اڑائی۔ لٹھ لے کر ساری قوم احمدیوں کے پیچھے پڑگئی۔ تسلیم کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں۔ انسان بھی ہیں یا نہیں؟ خالق کی اس دنیا میں وہ محنت کرتے ہیں اور رزق پاتے ہیں۔ خالق نے ان کو اس خطے میں پیدا کیا تو اپنی منشا سے۔

کیا انہیں جینے کا کوئی حق نہیں؟ دین حنیف کا کوئی عالم یہ کیوں نہیں بتاتا کہ میرے لئے میرا دین، تمہارے لئے تمہارادین کا اصول ہی رواداری کی بنیاد ہے۔ یہی وہ اصول ہے جس پر ایک خوشحال اور پر امن معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ کوئی تو بتائے کہ مسلمان نہ سہی غیر مسلم کے حقوق تو وہ رکھتے ہیں۔ مرتد کانعرہ مار کر دلوں کو گرمانے والوں سے کوئی پوچھے ارتداد کے معنی کیا ہیں؟ خاکسار کی مانند اس دنیا میں اربوں انسان ایسے ہیں جو دنیا میں پیدا ہوئے تو ماں باپ کا مذہب اختیار کیا اور موت تک اسی پر کاربند رہے۔

کوئی جاندار اس کائنات میں اپنی مرضی سے پیدا ہوا ہے نہ خوشی سے موت کو گلے لگاتا ہے۔ میں کیا میری اوقات کیا، خالق خود اپنے محبوب کا قصیدہ خواں ہے۔ محمد ﷺکا نام ہی محبت، درگزر اور کرم کا استعارہ ہے۔ جن کے بارے اہل اسلام تسلیم کرتے ہیں کہ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمائے گئے۔ کیا ان کے نام لیواکو روا ہے کہ جس وصف سے وہ ابدل آباد تک جانے جائیں گے اسی وصف سے منہ موڑ لیں۔ ابلاغ یا نفسیات کے تمام اصول کھنگال لیجیے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ کسی کو استہزا کا نشانہ بنا کر اسے اپنا ہم نوا بنایا جا سکے؟ اشرف المخلوقات کا ذہن اس کائنات میں ترقی کا ماخذ ہے۔ ایک جانور کو بھی پیار سے آپ پچکاریں، کچھ دن اس کے رزق کا بندوبست کریں تو ساری زندگی کے لئے مشکور نگاہیں آپ کی راہ میں بچھاتا ہے۔ دھمکانے یا ڈرانے سے کوئی آپ کی بات تسلیم کرنا تو کجا سننے پر بھی تیار نہ ہوگا۔ حسن اخلاق اور مخلوق کی بے لوث خدمت کا ہتھیار اس قدر طاقتور ہے کہ شہنشاہ وقت کو بھی درویشوں کے دروازے پر ننگے پیر چل کر آنے کے لئے مجبور کردے۔ بے باکی شاید طویل ہو گئی۔ ناگوار گزرے تو خاکسار معافی کا خواستگار ہے۔

تین ماہ ہوتے ہیں اس دنیا کو وبا نے اپنی لپیٹ میں لیا۔ ساری گالیاں اور ساری تنقید کیا عمران خان کے لئے ہے؟ تخت نشیں کوئی بھی ہو، معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے کیا عوام کی ذمہ داری صرف نعرہ زنی تک ہے؟ اپنے گریبان میں جھانکئے! حکومت لاک ڈاؤن کی منادی کرتی ہے تو ایک گروہ لٹھ لے کر چڑھ دوڑتا ہے، کاروبار زندگی کو معمول پر لانے کی بات کی جائے تو دوسرا گروہ تلوار سونت لیتا ہے۔ نظم وضبط بھی کسی شے کا نام ہے یا نہیں۔

ہم شکوہ کرتے ہیں کہ ریاست مدینہ کا دعوی کرنے والوں نے اپنا پیمان نبھایا نہیں۔ ریاست مدینہ تشکیل دینے والوں کے طریق میں پہلے معاشرہ منظم کیا گیا، پھر ادارے بنے، تب جا کر ریاست وجود میں آئی۔ تقسیم کے ہنگام ہم نے ریاست تو پالی لیکن سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود نہ معاشرہ تشکیل دے پائے نہ ادارے۔ گویا ترتیب ہی الٹ ہو گئی۔ الٹے پیر چلتی گاڑی بھی کبھی منزل کو پہنچی ہے؟

نوزائیدہ مملکت کو منظم معاشرہ اور مستحکم ادارے دے کر ہم شاندار ریاست کے عناصر ترکیبی مکمل کر سکتے تھے۔ خدا لگتی بات کہئے! وبا کے ان دنوں میں ہم میں سے کتنے ہیں جنہوں نے طبی ماہرین اور حکومت کے بتائے گئے اصول اپنائے؟ ریاست کیا ہر گھر پر پہریدار کھڑا کرے؟ ڈنڈے کے زور پر تو درندوں کو منظم کیا جاتا ہے۔ کیا انسان کا مزاج جانوروں سے بہتر نہیں ہونا چاہیے۔

صدیاں بیت گئیں راجہ داہر اور محمد بن قاسم کو رزق خاک ہوئے۔ ہم آج ان کے منصب کے تعین میں ہلکان ہیں۔ دنیا آنے والی نسلوں کے مسقبل کا نقشہ بنانے میں مصرو ف ہے جبکہ ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر صدیوں پرانے ماضی میں لڑھک رہے ہیں۔ جس دین کا نعرہ ہم لگاتے ہیں، علم کو اس نے ہماری میراث بتا یا ہے۔ شرط یہ نہیں کہ یہ میراث کس سے لینی ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ جہاں سے بھی ملے لے لو۔ چانکیہ جیسے بے بدل سیاسی سکالر کو ہم نے نفرت کا استعارہ بنا دیا۔ صرف اس لئے کہ وہ ہمارا ہم مذہب کیوں نہ ہوا۔ کیا علم کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے؟ حق پرستوں کوحوالہ زنداں کرنے اور ان کی گردنیں اڑانے میں ہم طاق ہیں۔

ہزاروں سال کی تاریخ کھنگالنے کے باوجود ہم چین میں کسی مذہب کے آثار تلاش نہیں کرپائے۔ تو پھر چین میں حصول علم کی حدیث کیوں بیان کرتے ہیں؟ کیسا علم ہے جو چین سے ملے گا؟ کتنے ہیں اس قوم میں جنہوں نے اس زاویے سے سوچا ہو؟ قانون قدرت اٹل ہے۔ جو جس چیز کے لئے مشقت اٹھاتا ہے وہ کامران ہوتا ہے۔ چین آج دنیا کے رہنما کے منصب پربراجمان ہے جبکہ ہم ایک وبا کے مقابلے کے لئے قابل نفرت ٹھہرائے گئی قوموں کے محتاج۔ علم سے منہ موڑ لینامیری قوم کا ناقابل معافی جرم ہے۔ اپنے آبا ء کی عظمت کے گن تو ہم گاتے ہیں لیکن خوداپنے ہاتھوں کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ جس دن حصول علم کی مشقت کو حرز جاں بنا لیا یہ قوم انسانوں کی رہنمائی کے منصب پر فائز ہوگی۔ بصورت دیگر ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments