ووہان کا ڈاکٹر لیو اور آخری غروب آفتاب کا نسخہ


سو، یہی آفتاب احمد کے ساتھ ہوا تھا۔ اس کی عمر بمشکل سات آٹھ برس رہی ہو گی کہ جب اس نے پہلی مرتبہ غروب آفتاب کا نظارہ کیا تھا۔ وہ مارچ کے وسط کے خوش گوار موسم میں گاؤں کے دوسرے بچوں کے ہم راہ آبادی سے باہر کپاس کی پچھیتی فصل کی چنائی اور ڈنٹھلوں کے اکھاڑ لیے جانے کے بعد خالی چھوڑ دینے والے ایک قطعۂ اراضی میں کھیل میں مگن تھا کہ یکایک اس کی نظر مغرب میں ڈوبنے سے پہلے کے سورج پر پڑی اور وہ سورج کا دمکتا ہوا سنہرا پن دیکھ کر جہاں کا تہاں مبہوت کھڑا رہ گیا۔

اس نے گیند وہیں چھوڑی اور تنویم زدہ ہو کر سورج کو تکنے لگا، اسے اپنے ہم جولیوں کی چلا چلا کر اسے پکارنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں نہ ہی مخالف کھلاڑیوں کا اودھم۔ وہ اسی حیرت زدگی اور محویت کے عالم میں سورج کی طرف بڑھا گویا وہ اس نظارے کے طلسمی جال میں پھنس کر دنیا و مافیہا سے یکسر بے خبر ہو چکا ہو اور اس کی طرف یوں کھنچا چلا جا رہا تھا جیسے اس تک پہنچ کر اسے اپنی ہتھیلی پر رکھ لے گا۔ چلتے چلتے جب اس نے آگے آ جانے والے کھیت کی منڈیر سے ٹھوکر کھائی تو وہ چونکا۔

اس نے پہلے خفگی سے نیچے دیکھا کہ سدراہ کیا شے بنی ہے، اور پھر آس پاس نظریں دوڑائیں۔ ہر سو، سنہرا پن چھایا ہوا تھا جیسے ہر چیز پر کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر سونے کا سفوف چھڑک دیا ہو۔ گندم کے پودوں کی خیرگی بڑھ گئی تھی اور وہ کاملاً سونے سے تراشے ہوئے لگ رہے تھے۔ زمین اور کھیتوں کی منڈیروں کے کنارے ایستادہ درختوں کے پتوں پر اٹی دھول میں سونے کے ذرات ستاروں کے مانند چمک رہے تھے۔ ہر شے کا اپنا اصل رنگ کہیں بہت نیچے چھپ گیا تھا۔

پھر جب دھیرے دھیرے سورج کچھ نیچے اترا تو اس کی سنہری دھوپ میں نارنجی رنگ کی آمیزش نے ماحول کو ایک اور مسحور کن نیا رنگ دے دیا۔ اور پھر جب کچھ ہی دیر میں سورج جب کچھ اور نیچے ہوا تو اس کا چہرہ گویا طبیعت کے خلاف بات پر طیش میں آ جانے والے کی طرح لال پڑنے لگا جیسے وہ اپنی فنا سامنے دیکھ کر جلال میں آ گیا ہو۔ اس لالی کو اس نے اپنی سنگتری مائل سنہری کرنوں میں شامل کر کے دھرتی پر پھینکا تو آسمان اور فضاء کے ساتھ ساتھ زمین کی ہر شے میں بھی لال جھلک دکھائی دینے لگی۔

اور جب سنہرے، نارنجی اور ہلکی جھلک والے دوسرے رنگوں پر رفتہ رفتہ سرخی نے غالب آکر انھیں ماند کیا تو گویا کائنات پر لالی کی تہ یوں گہری ہو گئی جیسے کسی حسینہ نے اپنے ہونٹوں پر لال رنگ کی سرخی کی تازہ تازہ تہ جمائی ہو۔ اور پھر آہستہ آہستہ تاریکی کی پرت نے تمام منظر پر چھا کر حسن کے زوال پذیر ہونے پر مہر ثبت کرتے ہوئے تکمیل کر دی۔ قلیل وقت کے ایک ہی منظر کے بہ یک وقت مختلف رنگوں کے امتزاج سے لمحہ بہ لمحہ بدلتے ان گنت طلسماتی روپ۔ ۔ ۔ جنھیں وہ الفاظ میں بیان کرنے سے قطعی قاصر تھا لیکن اس کی روح انھیں اپنی گہرائی میں محسوس کرتی تھی۔ ۔ ۔ اور بظاہر اس ایک منظر نے اس پر ایسا سحر طاری کیا جس سے وہ کبھی نہیں نکل پایا۔

جب تک آفتاب احمد گاؤں میں رہا۔ ۔ ۔ اپنی نوجوانی تک۔ ۔ ۔ وہ اس منظر کو ہر روز اپنی آنکھوں کے راستے اپنی روح میں سمانے کے لیے بستی باہر آ بیٹھتا اور جھٹپٹا چھانے تک اپنے اطراف و اکناف سے کاملاً بے خبر رہ کر بیٹھا رہتا۔ جس روز اکا دکا بادلوں کی ٹکڑیاں ایک دوسرے سے فاصلے پر ہوتیں تو ان سے چھنتی ہوئی سورج کی سنہری، زرد، سرخ کرنیں ایک نیا طلسم جنم دیتیں۔ البتہ کبھی کبھار گھر آنے والے بادل۔ ۔ ۔ اکثر ساون بھادوں کے بادل۔

آفتاب احمد کو اپنے من پسند منظر کے چھن جانے پر مایوسی اور افسردگی سے دوچار کر دیتے۔ تاہم منظر اس سے کبھی نہیں چھوٹا کہ وہ بادلوں سے بھرے آسمان والے ایسے دن میں بھی نظارے کے لیے نکلتا البتہ منظر خود اسے چھوڑ جاتا، جس کا اسے بے حد قلق ہوتا۔ وہ دو دفعہ سیاحت کی غرض سے شمالی علاقہ جات میں گیا۔ ۔ ۔ پہلی مرتبہ کالج کے ساتھی طلباء کے ساتھ اور دوسری بار اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ۔ ۔ ۔ لیکن وہاں غروب آفتاب کے منظر کی عدم موجودگی نے اسے ایک بے طرح کی مایوسی بخشی۔

میدانی علاقوں کی نسبت وہاں سورج پہاڑ کے پیچھے یکلخت ہی غائب ہو جاتا اور تاریکی اترنے لگتی جب کہ ابھی دن کھڑا ہوتا۔ وہ پہاڑ کی چوٹی کے عقب میں آہستہ آہستہ غائب ہوتی روشنی سے دل بہلانے کی سعی کرتا لیکن تشفی نہ ہوتی بل کہ بے کلی فزوں ہو جاتی۔ ووہان آنے سے قبل ہی اس نے غروب آفتاب کے نظارے کی منصوبہ بندی کر لی تھی کہ وہ بھی چینیوں کے مانند ایک بائی سائیکل رکھے گا اور روزانہ سہ پہر کو اس پر سوار ہو کر آبادی سے باہر نکل جایا کرے گا۔

لیکن اسے اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کئی منزلہ ہاسٹل کی آخری منزل نے اس کا مسئلہ حل کر دیا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اسے زیادہ پاپڑ بیلنا پڑتے کیوں کہ وسطی چین کے صوبہ ہوبے کا دارالحکومت ووہان، جو دریائے یانگسے اور دریائے ہان کی وجہ سے منقسم تھا، قریب قریب واقع تین شہروں کے۔ ۔ ۔ ووچانگ، ہان کو اور ہان یانگ، جن کے ناموں کے ابتدائی حروف لے کر ان شہروں کو مشترکہ نام ووہان دیا گیا تھا۔

آپس میں جڑ جانے کی وجہ سے ایک نہایت گنجان آباد اور میلوں پر پھیلا ہوا ایک ایسا شہر تھا جس کی عمارتیں فلک بوس تھیں اور پہاڑوں ہی کی طرح غروب ہونے سے بہت پہلے سورج کو اپنی اوٹ میں لے لیتی تھیں۔ البتہ جلد ہی آفتاب احمد کو ایک ایسا مقام مل گیا جہاں سے وہ ڈوبتے سورج کا بھرپور نظارہ کر سکتا تھا۔ ۔ ۔ ووہان کی تمام جھیلوں میں سب سے خوب صورت اور قابل دید مناظر والی ’شرقی جھیل‘ کا کنارہ، جس کے پانی میں کرنوں کا عکس جھیل کے آرپار لحظہ بہ لحظہ بدلتے اور مختلف رنگوں کے امتزاج والا ایک ایسا راستہ تشکیل دیتا تھا جو بالآخر دھیرے دھیرے سرخ پڑ جاتا تھا۔

ہوا سے بننے والی لہریں اس بے مثل راستے میں ایسا تموج پیدا کرتیں کہ یوں لگتا جیسے وہ سنہری، نارنجی اور سرخ سنگریزوں سے بنی ہوئی فن کارانہ مہارت کی عکاس ایک عمدہ روش ہو۔ ۔ ۔ ایک اور بے حد مسحور کن منظر، جس سے شاید وہ پاکستان میں رہتے ہوئے محروم رہتا تاآنکہ کسی جھیل یا تالاب کے کنارے اس کا اتفاقاً واسطہ نہ پڑ جاتا۔

آفتاب احمد کی تمام رات غروب آفتاب کے تصور سے ہوتی ہوئی خوابوں کو دیکھتے ہوئے تمام ہوئی اور اسے پتا بھی نہیں چلا کہ کس نرس نے کب آکر اس کی ڈرپ بند کی یا معمول کے انجکشن دیے؟ کب اس کی کیس ہسٹری والی فائل لا کر واپس رکھی گئی؟ اسے تو یہ خبر بھی نہیں تھی کہ حسب معمول رات کے نو بجے اس کا پیمپر تبدیل گیا تھا یا نہیں؟ البتہ اب اس نے اپنا پائجامہ نیچے سرکتا محسوس کیا تو آنکھیں کھول کر صفائی والے عملے کو ایک ریڑھی پر نئے پیمپروں کے ڈھیر، بھیگے ہوئے ٹشو پیپروں (wipes) ، ڈیٹول، سینی ٹائزر اور دوسری پر اتارے ہوئے غلیظ پیمپر ڈالنے کے لیے ڈھکن والی پلاسٹک کی جسیم ٹوکری وغیرہم کے ساتھ دیکھا تو بے اختیار بول اٹھا۔ ”میں صاف ہوں۔“ لیکن انھوں نے سنی ان سنی کرتے ہوئے اپنی معمول کی کارروائی جاری رکھی اور ایک کارکن اپنا کام ختم کرنے کے بعد اس کا پائجامہ واپس اوپر چڑھاتے ہوئے بولا۔ ”خارش سے بچاؤ کے لیے یہ ضروری ہے۔ لیکن اب تمھارا پیمپر دوبارہ رات کے نو بجے ہی بدلا جائے گا۔“

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

ڈاکٹر اپنے مقررہ وقت پر دونوں نرسوں کے ساتھ آیا اور اس نے بتایا کہ اس کی خواہش سے اعلیٰ حکام کو تحریری طور پر مطلع کر کے ان سے انسانی ہم دردی اور مریض کی بہتری کو سبب بنا کر منظوری عطا کرنے کی استدعا کی گئی ہے ؛ اس نے اس کے معالج کی حیثیت سے ذاتی طور پر انھیں ٹیلی فون پر قائل کرنے کی کوشش بھی کی ہے اور توقع ظاہر کی کہ بہت جلد مثبت ردعمل ملے گا۔ ڈاکٹر کے لہجے میں وثوق نے آفتاب احمد کو اطمینان بھرا حوصلہ اور ہمت بخشی۔

اسے ڈاکٹر لیو ایک ہم درد اور شفیق انسان لگا، جو اس کی ایک خواہش پوری کرنے کے لیے بے حد تگ و دو کر رہا تھا۔ اس کا اندر ڈاکٹر کے لیے شدید احساس تشکر کے جذبات سے بھر گیا اور اس کی آنکھیں امڈ آئیں۔ ڈاکٹر نے اسے تسلی دینے کے لیے اس کا کندھا تھپتھپایا اور ایک بار پھر یقین دلایا کہ وہ بہت جلد غروب آفتاب کا نظارہ کر رہا ہو گا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments