ووہان کا ڈاکٹر لیو اور آخری غروب آفتاب کا نسخہ


ڈاکٹر لیو نے اپنا دستانہ پہنا ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کا کندھا نرمی سے تھپتھپا کر اسے پرسکون ہونے میں مدد دی۔ وہ اپنی سانسیں درست کرتا رہا اور ڈاکٹر بدستور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے صبرو تحمل سے چپ چاپ منتظر رہا۔

”سردیوں کے موسم میں جب آسمان پر کہر چھائی ہوتی ہے۔ ۔ ۔ دبیز پرت والی نہیں بل کہ بوندوں والا کہرا۔ ۔ ۔ وہ بوندیں یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے آسمان پر سنہرے رنگ کے موتی ٹانک دیے گئے ہوں۔ سورج کے بہت قریب کی بوندیں کبھی انگوروں کے بڑے بڑے خوشے دکھائی دیتی ہیں تو کبھی منشور بن کر ساتوں رنگ منعکس کرتی ہیں۔ جب سورج نیچے ہونے لگتا ہے تو ان کا رنگ بھی بدلتا ہے، زرد اور سرخ میں اور وہ لٹکے ہوئے پکھراج اور لعل دکھائی دینے لگتی ہیں۔

آہستہ آہستہ۔ ۔ ۔ سورج کے زمین کی مزید اوٹ میں آنے پر۔ ۔ ۔ ان کے ایک طرف کا حصہ سیاہ پڑنے لگتا ہے اور پھر دھیرے دھیرے تمام بوندیں چھپ جاتی ہیں، بس ان کے ایک رخ کی کمان بہت تھوڑی دیر کے لیے یوں زردی مائل سرخ رہتی ہے جیسے پہلی کے بے شمار چھوٹے چھوٹے چاند طلوع ہو گئے ہوں۔ واہ، کیا خوب نظارہ ہوتا ہے! قطعی ناقابل بیان! پھر وہ چاند بھی سورج کے ساتھ غروب ہو جاتے ہیں۔ ”وہ گہرے گہرے سانس بھرتے ہوئے قلیل وقفے کے لیے چپ ہوا تو ڈاکٹر نے اس کی خوابیدہ آنکھوں میں اس منظر کا نظارہ کرنے کی کوشش کی۔

”اور برف باری کے بعد۔ ۔ ۔ جب ابھی ہوا چلنے کے بعد برف مکمل طور پر شیشہ نہ بنی ہو بل کہ کچھ کچھ دھندلی ہو تو۔ ۔ ۔ یہی رنگ ایک مختلف بہار دکھاتے ہیں۔ مدہم مدہم جھلمل میں کہیں کہیں دمکتے برف کے ذرات یوں لگتے ہیں جیسے زمین ستاروں سے سج گئی ہو۔ لیکن سخت اور چمک دار برف پر کرنیں اس قدر زیادہ تیکھی اور چبھنے والی ہوتی ہیں کہ انعکاس کی سیدھ سے نظارہ کرنے سے بینائی متأثر ہو سکتی ہے۔ میں ہلکی سی چمک پڑتے ہی یہ خطرہ بھانپ کر ایک طرف ہو گیا تھا۔“

”ہونہہ۔“ ڈاکٹر نے ہنکارا بھرتے ہوئے اسے متوجہ کرنے کے لیے اس کا کندھا تھپتھپایا اور دیوار گیر گھڑیال کی طرف دیکھا۔

”ڈاکٹر۔“ وہ یوں چونکتے ہوئے بولا جیسے کسی اور دنیا سے ابھی ابھی پلٹا ہو۔ ”جھیل کے پانی پر رنگ برنگے سنگریزوں کا لہراتا ہوا راستہ اپنے اوپر چلنے کی دعوت دیتا ہے۔ کبھی دیکھا ہے، ڈاکٹر؟“

”امید ہے کسی روز تمھارے ساتھ یہ تمام مناظر دیکھوں گا۔“ ڈاکٹر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھتے ہوئے بولا۔ ”تم نے صاف آسمان پر بدلتے رنگوں اور مناظر کے بارے میں کچھ بتایا ہی نہیں؟“

”اوہ ہاں، ڈاکٹر۔ آسمان پر رنگ۔ ۔ ۔“

”معاف کرنا۔“ ڈاکٹر نے قطع کلامی کی۔ ”باقی کل سنوں گا۔ اب مجھے بہت سے دوسرے مریضوں کا معائنہ کرنا ہے۔ شام کو ملاقات ہو گی۔“

لیکن اس شام اور اگلے روز ڈاکٹر لیو کا دورہ، محض معائنے کی حد تک، بے حد سنجیدہ اور مختصر رہا۔ لگتا تھا جیسے وہ خاصا مصروف ہو۔ آفتاب احمد آگاہ تھا کہ کہ وہ دن بھی بے موسمی باد و باراں کا ہے لیکن پھر بھی اس نے بے چین ہو کر نرسوں سے دریافت کیا اور تصدیق ہونے پر اپنی بے کلی کو تھپک تھپک کر سلایا۔ اس کا وہ دن اور آنے والی تمام رات اگلے روز کے غروب آفتاب کے منظر کے مختلف تصورات اور خوابوں میں بیتی۔

اپنے معمول کے دورے پر ڈاکٹر لیو اور نرسوں نے اسے خوش خبری سنائی کہ وہ نظارے کے لیے تیار رہے۔ وہ نہ صرف پہلے ہی سے تیار بل کہ اپنی خواہش کی تکمیل کا منتظر تھا۔

سہ پہر ہوتے ہی ڈاکٹر لیو دونوں نرسوں چینگ ینگ اور شیاؤہوئی کے ہم راہ آیا۔ اس نے کچھ وقت اس کا دوبارہ معائنہ کرنے میں صرف کیا۔ آفتاب احمد بے قراری سے معائنے کے ختم ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ معائنہ مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر نے گزشتہ روز ہی کے مانند سٹول کھینچا اور بیٹھ کر بولا۔ ”نوجوان، تم ان مناظر کو اتنا خوب صورتی سے بیان کرتے ہو، اس موضوع پر کچھ لکھتے کیوں نہیں؟ کوئی مضمون؟ کوئی کہانی؟ کوئی کتاب؟“

”ڈاکٹر، کیا ہمیں کسی کا انتظار ہے؟“ اس نے اپنے اندر مچی کھلبلی کو دباتے ہوئے استفسار کیا۔
”ہاں۔“ ڈاکٹر لیو نے گہری سانس لیتے ہوئے جواب دیا۔ ”ہمیں ایک اور دن انتظار کرنا پڑے گا۔“

اور اس نے اپنا سیل فون نکال کر اس کی سکرین کو شہادت کی انگلی کی پور سے مس کر کے اس کے سامنے کر دیا۔ روشن پردے پر موسم کی پیش گوئی کرنے والی سائٹ گھنگور گھٹا دکھا رہی تھی۔

”کچھ ہی دیر پہلے میں نے بیرونی انتظامات کے جائزے کے لیے ہسپتال سے باہر کا چکر لگایا تو آسمان بالکل صاف تھا۔ اچانک شمال سے گھٹا اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے چھا گئی۔ خیر، آج رات تک بادل مکمل طور پر چھٹ جائیں گے اور کل سارا دن مطلع صاف رہے گا۔ یہ بتاؤ، تمھیں میری تجویز کیسی لگی؟“

”کون سی تجویز؟“ اس نے غائب دماغی سے پوچھا۔

”ان مناظر کو قلم بند کرنے والی۔ تم سورج کی کرنوں کے ساتھ زمین و آسمان کے بدلتے رنگوں کو کھول کر لکھو۔ میرا خیال ہے، تم اپنا گہرا مشاہدہ عمدگی کے ساتھ بیان کرنے کی اہلیت رکھتے ہو۔“

”ڈاکٹر، آسمان کے رنگ۔ ۔ ۔“

ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ ایک نرس تیر کی سی تیزی کے ساتھ آئی اور ڈاکٹر لیو سے مخاطب ہوئی۔ ”ڈاکٹر، آپ کی وہاں فوراً ضرورت ہے۔“

”معاف کرنا۔“ ڈاکٹر ترنت اٹھتے ہوئے اتنی ہی سریع آواز میں بولا۔ ”میری تجویز پر غور کرو۔ کل ہم ضرور نظارہ کریں گے۔“

اگلے روز، معمول کے معائنے کے بعد، ڈاکٹر لیو کی دوبارہ آمد سہ پہر کو ہوئی۔ ”یوم تکمیل!“ اس نے آتے ہی قدرے اونچی آواز میں نعرہ بلند کرنے کے انداز میں کہا۔ ”تم خواہ مخواہ پریشان تھے۔“

اپنے ہم راہ آنے والے عملے کو کچھ ضروری ہدایات دینے کے بعد، ڈاکٹر اس کا معائنہ کرنے لگا۔ ۔ ۔ تنفس کی رفتار، دل کی دھڑکن، نبض، فشار خون، انفراریڈ تھرما میٹر سے جسم کا درجۂ حرارت۔ ”پرسکون رہو۔ ہیجان میں مبتلا ہونے سے گریز کرو۔ تم پہلی مرتبہ یہ نظارہ کرنے نہیں جا رہے۔ ۔ ۔ نہ ہی آخری بار۔ بس، یہ سمجھو کہ تم اپنا ٹوٹا ہوا معمول دوبارہ بحال کرنے جا رہے ہو۔“ پھر اس کے منھ سے وینٹی لیٹر کا ماسک ہٹاتے ہوئے کہا۔ ”کچھ گہرے سانس لو۔ اس سے تمھیں اپنی کیفیت پرسکون رکھنے میں مدد ملے گی۔“

چند منٹ تک اس کی حالت کے متوازن ہونے کا انتظار کرتے ہوئے وہ مختلف مشینوں پر نظریں دوڑاتا رہا۔ پھر بولا۔ ”ایک بات اچھی طرح جان لو کہ تم نے اپنے آپ کو قائم نہ رکھا تو تمھیں دوبارہ کبھی یہ موقع نہیں ملے گا۔“

”جی، ڈاکٹر۔“ آفتاب احمد نے یقین دہانی کروائی۔ ”میں اپنے آپ پر مکمل قابو رکھنے کی کوشش کروں گا۔“

”خوب۔“ اور پھر وہ دوبارہ عملے سے مخاطب ہوا۔ ”جلدی کرو۔ ماسک کا پائپ وینٹی لیٹر سے ہٹا کر سلنڈر کے ساتھ لگا کے سلنڈر کو پلنگ کے سرہانے ایک طرف رکھ دو۔“

راہداری میں پہیوں والے پلنگ کے برابر چلتے ہوئے ڈاکٹر لیو بولا۔ ”سورج غروب ہونے میں لگ بھگ ایک گھنٹا باقی ہے۔ اس تمام وقت میں تم اچھی طرح نظارہ کر لو گے۔“

آفتاب احمد نے خاموشی سے سر ہلا دیا۔

”ارے، ہاں۔“ وہ یکایک یوں چونکتے ہوئے بولا جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ ”تم نے میری تجویز پر غور کیا؟“

”جی، ڈاکٹر۔ گزشتہ ساری رات میں اسی ادھیڑبن میں رہا۔ اپنے دیکھے ہوئے تمام مناظر یاد کر کے انھیں لکھنے کے لیے بہترین الفاظ سوچتا رہا۔“

”عمدہ۔ کیا لکھو گے؟ مضمون؟ مختصر کہانی؟ یا ناول؟ یا کوئی اور کتاب؟“
”آپ کے خیال میں کیا مناسب رہے گا؟“
”میرے خیال میں۔ ۔ ۔ ہم۔ ۔ ۔“ ڈاکٹر سوچنے لگا۔ ”میرے خیال میں۔ ۔ ۔“

اور یوں ہسپتال سے باہر نکلنے تک ڈاکٹر نے اسے باتوں میں الجھائے رکھا تاکہ وہ کسی ہیجانی کیفیت کا شکار نہ ہو۔

جب وہ اسے لے کر ہسپتال کا بغلی دروازہ عبور کر کے باہر نکلے تو ایک فلک بوس عمارت کی داہنی جانب ڈھلتا ہوا سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ عین سامنے موجود تھا۔ فلک بوس عمارت کے سورج والی طرف زمین تک کوئی عمارت، کوئی رکاوٹ نہ ہونے کے سبب افق تک نظر جاتی تھی۔ ڈاکٹر نے منظر دکھانے کے لیے عمدہ مقام کا انتخاب کیا تھا۔ پہیوں والا پلنگ دھکیلنے والے دونوں افراد الٹے چلتے ہوئے پیچھے ہٹ کر دروازے ہی پر ٹھیر جانے والے بقیہ عملے کے ساتھ جا ملے۔ آفتاب احمد نے تحیر بھری مسرت سے سورج کو دیکھا اور پھر ڈاکٹر لیو کی طرف آنکھیں گھمائیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments