ووہان کا ڈاکٹر لیو اور آخری غروب آفتاب کا نسخہ


”ہاں۔“ ڈاکٹر لیو، جو پہلے ہی ٹکٹکی لگائے اسے دیکھ رہا تھا، تھوڑا سا نیچے جھکا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور دوسرا سورج کی طرف بڑھایا۔ ”وہ دیکھو۔“

آفتاب احمد نے سر موڑ کر نگاہیں دوبارہ سورج کی سمت سیدھی کیں۔ سورج سے ذرا اوپر گزشتہ دو روز کی گھٹاؤں کے پیچھے رہ جانے والے سفید بادلوں کی نچلے سنہرے کنارے والی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں تھیں۔ اس کی نگاہوں نے سورج کے اردگرد کا سفر کیا کیوں کہ ابھی اس کی کرنوں میں اتنی خیرگی تھی جو آنکھوں کو چبھتی اور دیر تک دیکھتے رہنے پر نگاہوں میں سورج کا چمک دار پرتو جنم دے کر وقتی طور پر نابینائی کا سبب بن سکتی تھیں جس سے وہ خاصی دیر تک منظر سے محروم ہو جاتا۔

فلک بوس عمارت کی سورج والی سمت بے حد روشن لیکن سامنے والا حصہ نیم تاریک تھا۔ نگاہیں عمارت کے ساتھ ساتھ پھسلتی ہوئی نیچے زمین کی طرف آئیں۔ وہ ہسپتال کے دروازے کے بیرون تک آنے والی سڑک پر بستر میں لیٹا تھا، جو سیدھی جا کر بڑی شاہراہ سے ملتی تھی۔ بڑی شاہراہ، جس پر شب و روز کثرت سے کاریں، بسیں اور دوسری گاڑیاں دوڑتی دکھائی دیتی تھیں، آج سنسان نظر آ رہی تھی۔ اس نے مستعجب ہو کر دھیرے دھیرے چاروں طرف نگاہیں دوڑائیں۔

پچھلے دو دنوں کی بارش سے ماحول نکھرا نکھرا اور درختوں کے گہرے سبز پتے دھل کر سہ پہر کی دھوپ میں چمک رہے تھے، لیکن ہر جانب ہو کا عالم تھا۔ چہار سو سناٹے اور ویرانی کا راج تھا۔ حد یہ کہ کوئی پرندہ تک پر مارتا دکھائی نہیں دیا، شاید وہ بھی خوف زدہ ہو کر انسانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے لاک ڈاؤن ہو گئے تھے۔ آج ویسا سناٹا طاری تھا جس کا وہ ہمیشہ متمنی رہا تھا تاکہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اپنے پسندیدہ منظر میں محو ہو سکے، لیکن آج وہی سناٹا اس کے اندر تیز دھار نشتر کے مانند کچوکے لگا رہا تھا۔

جب سورج مکمل طور پر غروب ہو گیا اور اس کی بچی کھچی لالی پر بھی تاریکی غالب آنے لگی تو اس نے ڈاکٹر لیو کے عملے کو پکارنے کی آواز پر پلکیں جھپکیں۔

”زندگی سے محبت کے لیے امنگ بہت ضروری ہے، چاہے وہ کسی خاص منظر سے عشق ہی ہو۔“ ڈاکٹر راہداری میں اس سے مخاطب ہوا۔ ”اس امنگ سے تم موت کو بھی شکست دے سکتے ہو، جیسا کہ تم نے کیا ہے۔“

اس نے چونکتے ہوئے نظریں اٹھا کر ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔

”ہاں۔“ ڈاکٹر نے توثیقی انداز میں اپنی پلکیں جھپکائیں۔ ”ہم تمھاری زندگی کی طرف سے مایوس ہو گئے تھے۔ لیکن پھر غروب آفتاب کا نظارہ کرنے کی امنگ نے تمھیں اپنی بیماری اور موت کی پیش آگاہی بھلا دی۔ اس چاہ میں تم کھانسنا اور ہونکنا بھولتے چلے گئے، جس سے تمھارے پھیپھڑوں اور سانس کی نالی کے زخم مندمل ہونے لگے ؛ دوائیں موثر ہو گئیں۔ پچھلے تین دن میں تمھارے بدن کا درجہ حرارت گرتے گرتے آج بالکل نارمل ہو گیا۔ ان دنوں میں ہم نے کئی مرتبہ تمھارے وینٹی لیٹر کی آکسیجن پہلے مختصر اور پھر طویل وقفوں کے لیے بند کر کے تمھارے تنفس کی بحالی کی استعداد کار کو جانچا۔ اور آج تم بغیر وینٹی لیٹر کے سانس لے رہے ہو۔ اسی لیے میں نے تمھیں بار بار یقین دلایا اور اب ایک بار پھر یقین دلاتا ہوں کہ یہ تمھارا آخری غروب آفتاب نہیں تھا۔“

ڈاکٹر لیو کی اس تمام گفتگو کے دوران میں۔ ۔ ۔ جسے آفتاب احمد منھ کھولے ہکابکا ہو کر سنتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ جب سے اس مرض کا شکار ہوا تھا کھانس کھانس کر اس کی اگلی پچھلی پسلیاں اور پھیپھڑے بری طرح درد کرنے لگے تھے، یہاں تک کہ ہلکا سا کھانسنا بھی بے حد تکلیف دہ ہوتا اور شدید بخار سے اسے خود بھی اپنا جسم پھنکتا ہوا محسوس ہوتا۔ لیکن پچھلے چند روز کے دوران میں اسے کھانسی نے کم تنگ کیا اور سانس لینے میں بھی کم دشواری کا سامنا ہوا۔

بدن کی حرارت بھی پہلے جیسی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ شاید اس سب کا سبب اس کے دھیان کا بیماری سے ہٹنا اور غروب آفتاب کے نظارے کی آس پر مرتکز ہونا تھا۔ ۔ ۔ اس کا پلنگ اپنے مخصوص مقام پر پہنچ گیا۔ ”آج کی شب تم آنے والے ایام میں اپنے پسندیدہ منظر کو دیکھنے کے تصور، یا آج کے منظر کے بارے میں سوچتے ہوئے، یا ماضی کے مناظر کی یادوں میں بسر کر سکتے ہو۔ کل تمھارا نمونہ ٹیسٹ کے لیے بھجوایا جائے گا۔ علامات کی بنیاد پر میں یقینی قیاس کر سکتا ہوں کہ نتیجہ منفی آئے گا۔“

”ڈاکٹر، آج کا منظر بہت اداس کر دینے والا تھا۔ زندگی سے عاری یا غالباً زندگی کی محبوسیت کے گہرے تأثر کا حامل۔ ڈوبتے ہوئے سورج کے سامنے پرندہ تک نہیں اڑ رہا تھا۔“ آفتاب احمد کے لہجے میں افسردگی اور تأسف تھا۔

”مجھے توقع ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔ ۔ بہت جلد۔“ ڈاکٹر نے اس کے کندھے پر تسلی بھری تھپکی دی۔ ”مایوس سوچوں سے اجتناب بہتر ہے۔“

”شکریہ، ڈاکٹر۔“ اس نے واپسی کے لیے جاتے ہوئے ڈاکٹر کو مخاطب کیا۔ ”آپ کا یہ احسان میں ہمیشہ یاد رکھوں گا۔“

ڈاکٹر سر ہلاتے ہوئے جواب دیے بغیر روانہ ہو گیا۔

ٹیسٹ کا نتیجہ منفی آنے کی خوش خبری اسے نرس شیاؤہوئی نے آکر چہکتے ہوئے لہجے میں سنائی۔ ”مبارک ہو۔ اگرچہ تمھیں شیاؤہوئی۔ ۔ ۔ صبح سویرے کی نرم دھوپ۔ ۔ ۔ پسند نہیں لیکن میں تمھیں زندگی کی صبح نو کی مبارک باد دیتی ہوں۔ تمھیں فوراً آئیسولیشن وارڈ میں منتقل کیا جا رہا ہے۔“

”کیا جانے سے پہلے میری ملاقات ڈاکٹر لیو سے ہو سکے گی؟“
”نہیں، وہ بہت مصروف ہیں۔“

آفتاب احمد کو آئیسولیشن وارڈ میں دو دن رکھنے کے بعد قرنطینہ میں بھیج دیا گیا۔ جہاں سے چند روز کے بعد ایک بار پھر ٹیسٹ کے لیے اس کا نمونہ لیا گیا۔ دوسری مرتبہ بھی نتیجہ منفی آنے پر اسے ہسپتال میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

”ڈاکٹر۔“ اس نے ہسپتال سے فارغ کرنے کی نوید سنانے والے قرنطینہ کے ڈاکٹر سے دریافت کیا۔ ”میں ڈاکٹر لیو سے کہاں مل سکتا ہوں؟“

چوں کہ ہسپتال بھر کے تمام عملے میں اس کے غروب آفتاب کے منظر دیکھنے کی خواہش کا چرچا رہا تھا اور بعد کے دنوں میں اس کے سامنے اس کا متعدد بار تذکرہ دلچسپی بھرے انداز میں ہوا تھا، اس لیے عملے کے کسی رکن کے لیے اس کا ڈاکٹر لیو سے ملنے کی خواہش کا اظہار اچنبھے کی بات نہیں تھی۔

”تم ان سے نہیں مل سکتے۔ COVID۔ 19 کا نتیجہ مثبت آنے پر وہ پچھلے چند روز سے آئیسولیشن میں ہیں۔“ ڈاکٹر نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔

جب ضروری کاغذات کی تکمیل کے بعد ایمبولینس اسے لے کر ہسپتال سے نکلی تو اس نے اس بغلی سمت میں الوداعی نگاہ ڈالنے کی نیت سے کھڑکی کے شیشے میں سے جھانکا، جہاں سے اس نے نظارہ کیا تھا، وہاں ہسپتال کے تمام عملے کو پیپلز لبریشن آرمی کا چاک و چوبند دستہ سلامی دے رہا تھا، جن میں یقیناً ڈاکٹر لیو شامل نہیں تھا۔ اس کے دکھ میں اضافہ ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments