ووہان کا ڈاکٹر لیو اور آخری غروب آفتاب کا نسخہ


اگرچہ اس روز اجازت نامہ موصول نہیں ہوا تاہم ڈاکٹر نے اپنے رات کے دورے کے دوران میں اسے تیقن بھرے لہجے میں تشفی دی۔ ”بے فکر رہو۔ مجھے یقین ہے کہ کل ہم دونوں مل کر غروب آفتاب کا نظارہ کریں گے۔“

”ڈاکٹر، کیا کل دوپہر تک اجازت مل جائے گی؟“ اس کے لہجے میں تشکیک تھی۔

”ہاں، کیوں نہیں۔ شاید آج رات ہی یا کل صبح تک۔ مجھے اس کا یقین ہے کیوں کہ مجھے یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ تم ایک کام کیوں نہیں کرتے؟“

آفتاب احمد نے استفسار بھری نگاہوں سے ڈاکٹر کو دیکھا۔

”تمھاری اس خواہش کے اظہار سے لگتا ہے کہ تمھیں اتنا پسند ہے کہ تم نے اکثر اس کا نظارہ کیا ہے۔ پس، تم اپنی بیماری کو بھول جاؤ اور جب تک ہم واقعی اس منظر کو نہیں دیکھتے، اس دوران میں تم ماضی کے مناظر سے تصور کشید کرو کہ وہ نظارہ کیسا دل فریب ہو گا۔“

ڈاکٹر کی تجویز معقول تھی، لیکن اجازت نامہ ملنے اور نہ ملنے کے اندیشے کی درمیانی کیفیت زیادہ غالب قوت رکھتی تھی، جس کی وجہ سے رات یوں بسر ہوئی کہ جب بھی تصور قائم ہوا خدشے کے ناگ نے اپنا پھن اٹھا کر اسے زمیں بوس کر دیا۔ البتہ اس کشمکش نے اسے بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے دلی اور مایوسی سے دور کر دیا تھا۔

اگلے روز نرسیں اپنے معمول کے وقت پر دن گیارہ بجے آئیں لیکن ان کے ہم راہ کوئی ڈاکٹر نہیں تھا۔ ۔ ۔ ڈاکٹر لیو بھی نہیں۔ اس نے بے صبری سے ڈاکٹر لیو کے بارے میں استفسار کیا تو سسٹر چینگ ینگ کی جانب سے پیشہ ورانہ لہجے میں جواب ملا۔ ”اچانک ہی مریضوں کی ایک بڑی کھیپ آ گئی ہے اور انھیں فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر لیو دیگر ڈاکٹروں کے ہم راہ ان کے علاج میں دوسرے آئی سی یوز میں مصروف ہیں۔ جوں ہی فارغ ہوں گے، آ جائیں گے۔“

”۔ ۔ ۔ بس تھوڑی دیر میں، تمھیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔“ سسٹر شیاؤہوئی نے تھرما گن اس کی پیشانی کے سامنے تانتے ہوئے اضافہ کیا۔

”میں بس اتنا دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ میری درخواست پر انھوں نے کچھ کیا؟“ وہ مستفسار ہوا۔
دونوں نرسوں نے اپنے اپنے کام سے دھیان ہٹا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
”یہ تمھیں وہی بتا سکیں گے۔“ سسٹر شیاؤہوئی نے جواب دیا۔

ان دونوں نے اپنا کام نپٹایا اور اسے مضطرب چھوڑ کر نکل گئیں۔ وہ ایک ایک لمحہ شمار کرتے ہوئے لگ بھگ دو گھنٹے تک انتظار کے کرب سے گزرتا رہا۔

جب ڈاکٹر لیو کی آمد ہوئی تو اس کے ساتھ صرف سسٹر چینگ ینگ تھی۔ اس نے آتے ہی شگفتگی سے دریافت کیا۔ ”ہیلو نوجوان، کیسے ہو؟“

”ڈاکٹر بہت مضطرب ہوں۔“ اس نے دیانت داری سے جواب دیا۔

”ہم۔“ ڈاکٹر نے پوچھا۔ ”مضطرب کیوں ہو؟“ اور اس کا بلڈ پریشر، نبض، دل کی دھڑکن، سینے میں کھڑکھڑاہٹ ماپنے لگا۔ اس نے جواب دینے کے لیے منھ کھولا لیکن ڈاکٹر کو مصروف دیکھ کر دوبارہ سختی سے بند کر لیا البتہ اس آنکھیں مجسم سوال بنی ہوئی تھیں۔

”سسٹر۔“ ڈاکٹر نرس سے مخاطب ہوا۔ ”پہلے یہ سب آپ نے چیک کیا تھا؟“
”سسٹر شیاؤ ہوئی نے، ڈاکٹر۔“
”انھیں بلائیں۔“
”جی بہتر، ڈاکٹر۔“ کہتے ہوئے نرس چینگ ینگ چلی گئی۔

ڈاکٹر نے اسے کروٹ لینے کے لیے کہا اور اس کی پشت پر سٹیتھوسکوپ رکھ کر گہرے گہرے سانس لینے کی ہدایت کر کے پھیپھڑوں میں سانس کی روانی کا معائنہ کرنے کے بعد فائل میں اندراج کرنے لگا۔ اسی اثنا میں دونوں نرسیں آ گئیں۔

”سسٹر، ہم دونوں کی ریڈنگز میں یہ فرق کیوں ہے؟“ ڈاکٹر نے فائل شیاؤ ہوئی کی طرف بڑھائی۔
”ڈاکٹر، اس وقت یہی ریڈنگز آ رہی تھی۔“ نرس نے جواب دیا۔

”ہونہہ۔“ ڈاکٹر ہنکارا بھر کر آفتاب سے مخاطب ہوا۔ ”تم غروب آفتاب دیکھنے کے اتنے شائق کیوں ہو؟ کسی سے ملنا نہیں چاہتے؟“ پھر یاد آنے پر بولا۔ ”اوہ، تم تو پاکستانی ہو۔ ماں، باپ، بہن، بھائی یا کسی اور سے سکائپ پر تمھاری بات کروا دیں تو کیسا رہے گا؟“

”ڈاکٹر، میں انھیں بہت یاد کرتا ہوں۔ لیکن مجھے اس حال میں دیکھ کر وہ بے حد دکھی ہوں گے۔ یہاں پھیلنے والی اس وبا کی خبریں یقیناً ان تک پہنچ گئی ہوں گی اور وہ میرے لیے خاصے پریشان ہوں گے۔ میں انھیں مزید دکھ میں مبتلا نہیں کرنا چاہتا۔“

”تو اس لیے تم صرف اس منظر پر اکتفا کرنا چاہتے ہو؟“

”نہیں، ڈاکٹر۔ میرا نام آفتاب ہے۔ ۔ ۔ سورج۔ شاید اسی لیے میں بچپن سے ہی اس منظر کے سحر کا اسیر ہوں۔ میں نے سسٹر شیاؤ ہوئی کو بھی بتایا ہے۔“

”آفتاب۔ ۔ ۔ سورج۔ ۔ ۔ شیاؤ ہوئی۔“ ڈاکٹر نے پرخیال انداز میں دہرایا۔ ”تمھیں شیاؤ ہوئی کا معنی معلوم ہے؟“

”جی، ڈاکٹر۔“ اس نے جواب دیا۔ ”صبح سویرے کی نرم دھوپ۔“ وہ چین میں پچھلے چار برسوں کے قیام کے دوران میں چینی زبان پر خاصا عبور حاصل کر چکا تھا۔

”اگر تم طلوع آفتاب دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرتے تو میں بلاتاخیر، بلا جھجک کہتا سسٹر شیاؤہوئی کو دیکھ لو۔“ ڈاکٹر لیو ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولا تو دونوں نرسیں بھی ہنس پڑیں۔

”ڈاکٹر، طلوع آفتاب میں وہ نیرنگی نہیں جو غروب آفتاب میں ہے۔ آپ چاہیں تو خود دونوں کا نظارہ کر کے دیکھ لیں۔“

”اوہو، بہت خوب۔ گویا تم نے دونوں کا نہایت ڈوب کر نظارہ کیا ہے۔“
”جی، ڈاکٹر۔ طلوع بہت جلد ہو جاتا ہے، رنگوں کے ناپائیدار سحر کے ساتھ جب کہ غروب آفتاب میں۔ ۔ ۔“

”ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔“ ڈاکٹر نے قطع کلامی کی۔ ”بہرحال، تمھارے لیے خوش خبری ہے کہ حفاظتی نقطۂ نظر کی کچھ شرائط کی پابندی کے ساتھ اصولی طور پر تمھاری خواہش پوری کرنے کے لیے منظوری ہو چکی ہے۔ ہمیں بس تحریری حکم نامے کا انتظار ہے۔ جیسے ہی ہمیں وہ موصول ہوا، ہم تمھیں آج ہی نظارہ کروا دیں گے۔ ٹھیک ہے؟“

”جی، ڈاکٹر۔ بے حد شکریہ۔“

جواباً ڈاکٹر مسکرایا اور رخصت ہو گیا۔ اور وہ دل ہی دل میں اجازت نامہ جلد ملنے کی دعائیں کرتے ہوئے شدت سے انتظار کرنے لگا۔

شام پڑ گئی تھی۔ اس دوران میں وقفے وقفے سے طبی عملے کا معمول کے مطابق آنا جانا لگا رہا، لیکن ڈاکٹر لیو اور وہ دونوں خاص نرسیں غائب تھیں۔ شاید ڈاکٹر کثیر تعداد میں نئے آنے والے مریضوں کے فوری علاج معالجے میں الجھا ہوا ہو لیکن نرسیں؟ نرسیں بھی تو خاص معاون ہوتی ہیں جن کے بغیر ڈاکٹر ادھورے ہوتے ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک تو آکر اسے اجازت نامہ ملنے کی نوید سنا سکتا تھا۔ شاید ابھی اجازت نامہ موصول ہی نہ ہوا ہو؟

یا شاید ہو گیا ہو؟ لیکن باقی انتظامات نہ ہو سکے ہوں؟ یا کسی غیر متعلقہ فرد کے ہاتھوں میں پہنچ گیا ہو، جسے اس کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو اور اس نے اسے عملے کی ہنگامی مصروفیات کے پیش نظر معاملے کو بعد پر ٹالتے ہوئے ادھر ادھر رکھ دیا ہو؟ یا فوری توجہ کے متقاضی مریضوں کی بڑی تعداد کی اچانک آمد کی وجہ سے دانستہ معاملہ کل پر ٹال دیا گیا ہو؟ اور یہ قیاس اسے زیادہ غالب لگا، تاہم کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ اس تمام وقت میں ایسی ادھیڑبن میں اپنے اندر اضطراب کی بڑی بڑی لہریں اٹھتی محسوس کر تا رہا۔ وہ ڈاکٹر کے وعدے کو یاد کر کے اپنی بے قراری کو تھپکیاں دے کر سلانے کی سعی کرتا رہا۔

جس وقت سسٹر چینگ ینگ اپنے ہاتھ میں ایک فائل لیے آئی تو آفتاب احمد کے قیاس کے مطابق سورج ڈوب چکا تھا یا ڈوب رہا ہو گا۔ اس نے فائل میں رکھا ہوا کاغذ اس کے سامنے کیا جو اسے ہسپتال کے سامنے والے حصے کے علاوہ موزونیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں اطراف یا عقبی سمت میں سے کسی ایک مقام سے غروب آفتاب کا نظارہ کرانے کا اجازت نامہ تھا، جس میں معیاری طریقہ کار (SOPs) درج کر کے ان پر سختی سے عمل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

اس نے بتایا کہ یکایک مریضوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ اجازت نامے کی تیاری میں تاخیر کا باعث بنا کیوں کہ اس سے اوپر تک ہلچل مچ گئی ہے اور ڈاکٹر لیو سمیت تمام ڈاکٹر اس ہنگامی صورت حال سے نپٹ رہے ہیں ؛ ہسپتال ہی کے ایک حصے میں سستانے کے لیے جانے والے ڈاکٹروں اور دوسرے طبی عملے کو بھی بلا لیا گیا ہے ؛ تاہم اب حالات خاصے قابو میں ہیں اور وہ اگلے روز ہی اپنے مطلوبہ منظر کا نظارہ کر سکے گا کیوں کہ احتیاطی تدابیر کا بھی انتظام کرنا ہے۔ اس تمام تفصیل کو بیان کرنے کے بعد اس نے اجازت نامے کو آفتاب احمد کی کیس ہسٹری کے کاغذ گیر کے آخری مومی لفافے میں رکھا اور روانہ ہو گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments