کچھ پڑھنے کے بارے میں


یہ ایک عجیب وغریب حقیقت ہے کہ حاکمیت کا جذبہ انسانوں سے زیادہ متون پر حاوی ہونا پسند کرتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ انسان حاکمیت کو للکارتے ہیں یا للکارسکتے ہیں اور متون اپنے مسخ کیے جانے کے خلاف مزاحمت نہیں کرسکتے۔ دوم اس لیے کہ انسان جو کچھ جانتے ہیں اور سیکھتے ہیں ان کا سرچشمہ متون ہوتے ہیں، لہٰذا اگر متون کے من مانے معانی متعین کردیے جائیں تو ان کی مدد سے ان سب ذہنوں کو بھی قابومیں کیا جاسکتا ہے، جو یہ متون پڑھتے ہیں۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو انسانوں کے درمیان حقیقی کش مکش کی رزم گاہ کوئی نہ کوئی متن ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی متن کے استبدادی انداز میں معنی متعین کرتا ہے تو وہ بھی کسی نہ کسی اور متن پر انحصار کررہا ہوتا ہے، جو تحریر ی بھی ہوسکتا ہے اور زبانی بھی۔ ضروری نہیں کہ وہ ایک ہی متن ہو؛ وہ متون کا ایک نظام بھی ہوسکتا ہے، جو ایک مشترک تصور کائنات میں شریک تصور کیے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں متون کی کش مکش دراصل تصورہاے دنیا کی کش مکش ہوتی ہے، اور متون کو اس لیے رزم گاہ نہیں بناتی کہ متون حقیقی دنیا کی کامل وفاداری کے ساتھ ترجمانی کرتے ہیں، بلکہ اس لیے کہ متون چیزوں، تصورات اور بیانیوں کو مستقل طورپر محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں استبدادی انداز میں متن کے معنی متعین کرنے والا قاری کسی پرانے متن پرجو انحصار کرتا ہے، اس کی بنیاد متن کی اس سچائی کو پیش کرنے کی صلاحیت پر یقین ہوتا ہے جسے وہ قاری اپنی حقیقی زندگی میں مرکزی اہمیت دیتا ہے۔ لہٰذا اس قاری کی پہلی کوشش ان معانی کی توثیق ہوتی ہے جو اس نے کسی اور متن سے اخذ یا قبول کیے ہوتے ہیں، اور اگر توثیق نہ کرسکے تو ان اخذ شدہ معانی کو مسلط کرنے کی سعی ہوتی ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ ایک نئے متن کے روبرو ہونے کا تجربہ نہیں کرتے ؛ وہ کچھ حاصل نہیں کرتے، اپنے سابق حاصل کے ساتھ نرگسیت پسندانہ تعلق کو مستحکم کرتے ہیں۔ اس سادیت پسندانہ، استبدادی رویے کی ایک سے زیادہ نفسیاتی وجوہ ہیں۔ ایک وجہ شخصی ہے، جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ دوسری وجہ پرانے اور نئے کے تضاد کو حل نہ کرسکنے میں ناکامی کا احساس ہے ؛ پرانے متن سے جذباتی وابستگی، نئے متن کا خوف پیدا کرتی ہے۔ وہ نئے متن کو نظر انداز نہیں کرسکتا اور پرانے کے معانی سے دست بردار نہیں ہوپاتا اور اسی سے اس کے یہاں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ اس شخص سے زیادہ قابل رحم کوئی نہیں جو اپنے تضادات سے آگاہ نہ ہو اوراس سے بڑھ کر المیہ کس کا ہوگا جو اپنے تضادات کو حل نہ کرسکے۔

سپردگی میں ہوشیاری کا مطلب، زیر مطالعہ متن سے مسلسل مکالمہ ہے۔ آپ ہر ہر لفظ کو غور سے اور محسوس کرکے پڑھتے ہیں اور سوچتے جاتے ہیں۔ آپ زیر مطالعہ تحریر کو اپنی بات کہنے کا پورا موقع دیتے ہیں، پوری توجہ سے اسے سنتے ہیں ؛ اس کے آہنگ، اس کے لہجے، اس کی منشا، اس کے دلالتوں، اشارت سب کو سمجھتے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو ابھرنے کا موقع دیتے ہیں اور ان کے جوابات متعلقہ تحریر میں راست تلاش کرتے ہیں یا اس کی قائم کی ہوئی تخیلی یا تعقلی فضا میں دریافت کرتے ہیں یا پھر اپنی ذہنی دنیا میں دیکھتے ہیں یا پھر دیگر کتابوں یا اشخاص کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اچھی کتابیں کوئی خاص بات، نظریہ ذہنوں میں راسخ کرنے کے بجائے، ہمیں اپنی دنیا کو اپنی نظر سے دیکھنے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم اگر قاری سپردگی میں ہوشیار ہو تو ہر کتاب سوالات کو تحریک دینے کا باعث بن سکتی ہے، خود اپنے خلاف ہی سہی۔ مقتدر طاقتیں ایسی کتابوں کی اشاعت پسند کرتی ہیں جن کا پیغام غیر مبہم، ترغیب آمیز ہو اور ذہن کے استفساری عمل کو معطل کرتا ہو۔ مقتدرہ کے عزائم کو اگر کوئی شکست دے سکتا ہے تو وہ قاری کا استفسار پسند ذہن ہے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ پڑھنا بڑی حد تک موضوعی(Subjective) عمل ہے۔ باہر کی معروضی دنیا سے رخصت ہو کر، ذہن، تصور، تخیل، فنتاسی کی دنیاؤں میں ایک بچے کی سی حیرت کے ساتھ چلے آنا ہے، یعنی موضوعی حالت میں مبتلا ہونا ہے۔ عام طور پر موضوعی حالت کو منفعل کہا جاتا ہے یا خود پسندی پر محمول کیا جاتا ہے۔ لیکن عام موضوعی حالت اور پڑھنے کے نتیجے میں طاری ہونے والی موضوعی حالت میں فرق کیا جانا چاہیے۔ پہلی صورت میں آپ دوسروں سے یکسر بے خبر اور خود میں گم ہوتے ہیں، مگر دوسری صورت میں آپ کچھ بنیادی باتوں کا نئے سرے سے تجربہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ آدمی کے ذہن، تصور، تخیل اور فنتاسی کی حد یں کیوں کر قائم ہوتی ہیں؟ آپ پر کھلتا ہے کہ یہ متن ہی ہے جو ان حدوں کو قائم کرتا ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ اس کا تصور لامحدود ہے؟ تصور کا لا محدود ہونا محض ایک فنتاسی ہے، ایک ایسا تخیل ہے جو اس لیے قبول کر لیا جاتا ہے کہ ہم اپنے تصور کو لا محدود کرنا چاہتے ہیں۔ آدمی کا ذہن، تصور، تخیل، یہاں تک کہ لاشعور بھی ساختہ ہے۔ انھیں ان زبانی وتحریری متون نے ساخت کیا ہے جو ہم تک پہنچے ہیں، جن میں سے کچھ ہمیں یاد ہیں، باقی بھول گئے ہیں۔ نیز وہ ہمارے لاشعور میں پہنچ کر اپنی صورتیں اور ہیئتیں بدل لیتے ہیں۔ آدمی کی ذہنی دنیا میں اگر کوئی شے واقعی پراسرار ہے اور اسے پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا تو وہ ان متون کو نئی نئی تراکیب دنیا ہے۔ بالکل ایسے ہی، جیسے آپ بنیادی اعداد کی مدد سے کچھ حیرت انگیز اعداد وضع کرسکتے ہیں۔ لہٰذا پڑھنے کی اساسی، مکمل سرگرمی کو ممکن بنا کر ہم اس حقیقت کا ایک بار پھر ادراک کرتے ہیں کہ ہماری موضوعی دنیا ساختہ ہے، ایک تشکیل ہے، جس کا مواد ہم نے ’دوسروں‘ سے لیا ہے، مگر جسے ایک ترتیب ہم نے۔ مکالمے اور استفسار پسندی کی مددسے۔ دی ہے۔ اس بات کو قبول کرنا آسان نہیں، مگر قبول کرنے نہ کرنے سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ ہماری موضوعیتیں (Subjectivities) کی کنہ دوسروں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ہمارے اختیار میں بس یہ ہے کہ ہم ان پر سوال قائم کرسکیں اور انھیں نئی ترتیب دے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments