بکھری ہوئی بک بک برکھا․․


تو ہمارا بچپن، ڈاب کا پانی پیتے۔ ٹن میں سوراخ کر کے انناس کا رس پیتے، درختوں پر الٹے لٹک کر جھولا کھاتے (علی اور مریم بھی یہی کرتے تھے )، بیلی کی خرانٹ اماں کی نظریں چرا کر لال بیجوں والے امرود چراتے، لیچیاں، املیاں اور جھڑکیاں کھاتے، محلے کے بچوں کا سر پھاڑتے، پڑھائی سے بھاگتے اور۔ اور (سانس پھول گیا) لوگوں کے کان چباتے گزرا ہے۔ یا شاید ابھی تک نہیں گزرا۔ دھندلکے میں کھڑا اب بھی دور سے آوازیں دیے جا رہا ہے۔ کمبخت۔

ہماری زندگی کے ساتھ بہت سارے بڑے بڑے نام جڑے ہیں۔ خاندانی پس منظر کا ذکر کر کے اپنے بزرگوں کی توہین ہم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اس میں وہ، ہمیں کہاں فٹ کریں گے، ہم نہیں جانتے۔ جب ہوشمندی کا دامن بار بار ہاتھ میں آتے، آتے پھسل رہا تھا تو ہم اسکول میں تھے۔ ماموں میاں آئے ہوئے تھے۔ ہمیں اسکول یونیفارم میں دیکھ کر ایک دم غصے میں آ گئے کیونکہ دوپٹے کی جگہ پٹی لگی تھی، ہمیں دیکھ کر غرائے۔ ۔ شجو! اسے، برقع نہیں پہنایا؟

امی نے بوکھلا کر فوراً، اپنے برقع کی لمبائی کم کی اور دوسرے دن ہمیں پہنا دیا۔ روتے بسورتے، ہم برقع پہن کر اسکول گئے۔ اسکول میں لڑکیوں نے وہ تماشا بنایا کہ حد نہیں، ٹیچریں بھی ہنس پڑیں۔ واپسی پر بڑی مشکل سے الجھتے ہوئے بس سے اتر کر ایک دم احساس ہوا کہ بڑے زور کی بھوک لگی ہے۔ ہم بھوک کے بڑے کچے ہیں، اپنی گلی میں سناٹا دیکھ کر ہم سرپٹ بھاگے۔ برقع، پیروں میں الجھا، نقاب کی وجہ سے سامنے کے منظر بھی دھندلے تھے۔

ہم اوندھے منہ گر پڑے، پھرتی سے اٹھے۔ برقع کی گرد جھاڑی اور نقاب الٹ دی۔ سامنے ایک درخت سے لپٹی جنگلی، گلاب کی بیل پر پھول ہی پھول تھے، ایک جھکی ہوئی شاخ پرجھولتے ہوئے پھول دیکھ کر ہم بیتاب ہو گئے اور اچھل، اچھل کر انہیں توڑنے لگے (جنگلی گلاب کی یہ بیلیں اسلام آباد میں تقریباً ہر گھر کے باہر، درختوں سے لپٹی ہوتی تھیں۔ ۔ اب پتہ نہیں وہ بیلیں ہیں یا نہیں مگر وہاں، ہنستا، کھیلتا، ہمارا بچپن اب تک وہیں کی گلیوں میں ہمکتا، بھٹکتا پھر رہا ہے ) پھولوں کے ہاتھوں میں آتے ہی یاد آیا کہ بہت زور کی بھوک لگی ہے تو ہم نے پھولوں کو برقع کی گود میں بھرا لیکن اب کے ہم نے احتیاط یہ کی کہ منہ پر نقاب نہیں ڈالا بلکہ غرارے کی گوٹ کی طرح آدھا برقع بھی اوپر اٹھا لیا اور گھر کی طرف دوڑے۔ اوپر کا برقع، جھول کر گردن میں آ گیا۔ اندر جانے سے پہلے اپنا حلیہ درست کیا مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیونکہ۔ ۔

ماموں میاں، کھڑکی پر کھڑے، کڑھتے ہوئے، ہماری یہ فضول اور بیہودہ حرکتیں دیکھ رہے تھے۔ جب ہم ہاتھوں کے پیالے میں گلاب کے منے منے پھول لیے گھر داخل ہوئے تو وہ امی کی طرف مڑے اور پھر غرائے۔ شجو! اس کا برقع اتروا دے اور اسے چادر دے دے۔ پھر ہماری طرف مڑے اور تقریباً گرجے۔ برقع، اتار رہی ہے مگر خبردار! جو بزرگوں کی عزت اتاری ہو تو، کسی سے یہ نہ بتانا کہ کس خاندان سے تعلق ہے۔ ۔ ہم سہمی ہوئی چڑیا کی مانند کھڑے، ہاتھوں میں دبوچے پھول، سینے سے لگائے، کھڑے رہ گئے۔

پھر ہم نے دو باتوں کا خاص خیال رکھنا شروع کر دیا کہ ماموں میاں کی سرزنش کا پاس رکھیں تاکہ ہمارے بزرگوں کی روحیں شرمندہ نہ ہوں ( بس کہیں، کہیں بے اختیاری میں زبان اور قلم دونوں پھسل جاتے ہیں ) اور امی کہا ہوا یہ جملہ بھی پلے سے کس کر باندھ لیا جب انہوں نے اسلام آباد میں، پہلی بار، اسکول جانے سے پہلے ہمیں تیار کرتے ہوئے کس کر ہماری چٹیاں باندھیں، آخر میں حسب عادت انہیں جھٹکا دیا اور مستحکم، بردبار لہجے میں بولیں۔ ۔ سنو!

یہاں کسی کو نہ بتانا کہ تم وہاں کیا تھے، جو تمہیں جانتے ہیں، انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ تم وہاں کیا تھے مگر جو نہیں جانتے وہ یہی کہیں گے کہ وہاں سے ہر آنے والا یہی کہتا ہے، اس لیے، ہمیشہ اس بات کا خیال رکھنا۔ ہم نے آنسو بھری آنکھوں سے سر ہلایا کہ نہیں کہیں گے کہ۔ ہل مین۔ سے اتر کر پیدل سڑک پر آ گئے ہیں۔ اس دن بھی اسکول کی اٹیچی کی جگہ کتابیں ہاتھ میں لیے، سینے سے لگائے، سر جھکائے پیدل جا رہے تھے کہ کانوں میں فقیر کی آواز آئی۔ دس پیسے کا سوال ہے بابا!

ہم پلٹے۔ سنو! تمہارے پاس تیس پیسے ہیں؟ وہ کیوں؟ فقیر حیران رہ گیا۔ ۔ تاکہ ہم بس سے اسکول چلے جائیں (اس زمانے میں اسلام آباد میں، اسٹوڈینٹ کا ہاف ٹکٹ، تیس پیسے کا ہوتا تھا) پھر ہم تلخ لہجے میں بولے۔ اگر ہمارے پاس، تمہیں دینے کو دس پیسے ہوتے تو کیا ہم پیدل جا رہے ہوتے؟ وہ فقیر ہکا بکا، اپنا کشکول لیے وہیں سن سا کھڑا رہ گیا اور سر جھکائے ہم، اسکول کی طرف چل پڑے۔

جوانی میں بھی چال چلن اتنا ہی دل آویز رہا۔ جتنا کہ پہلے تھا۔ بس، ڈاب، انناس، اور لیچیاں وقتی طور پر غائب ہو گئیں اور جھڑکیاں بڑھ گئیں ( مگر موصوف سے شادی کے بعد سب واپس آ گئیں، جھڑکیوں سمیت) اماں کو بھی ہمارے چلن کیا، چال پر بھی سخت غصہ تھا، وہ ہماری دلکی چال پر بھی اکثر بری طرح بھڑک اٹھتیں اور کلس کر کہتیں۔ دلہن! اس لڑکی کی چال تو دیکھو؟ دائیں طرف مڑی تو بائیں چوکھٹ سے ٹکرا گئی۔ الٹی طرف مڑی تو آنے والے کا سر گھما کر رکھ دیا۔ اسے آخر سیدھی طرح چلنا کیوں نہیں آتا؟

جیسے لڑکیاں بالیاں چلتی ہیں۔ خود بے دھڑک۔ چال بے ڈھنگی۔ توبہ ہے، سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ آگے جا رہی ہے یا پیچھے جا رہی ہے۔ دائیں مڑے گی کہ بائیں طرف۔ اس کی تو کوئی بھی کل سیدھی نہیں ہے کہ اچھے رشتے آئیں اور یہ اپنے گھر کی ہو جائے۔ کل پاؤ بھر لہسن چھیلنے کو دیے تو چھلے ہوئے لہسن کچرے کی بالٹی میں اور چھلکے ہاتھ میں۔ بتاؤ! ایسی ہولہ، خبطہ، لڑکی کو کون بیاہے گا۔ ؟ کوئی آنکھوں کا اندھا اور قسمت کا کھوٹا ہو گا جس کے پلے یہ بندھے گی۔ پھر بلبلا کر کہتیں۔ اس کے لیے تو پوری اندھی سسرال چاہیے جو، اس آنکھوں دیکھی مکھی کو نگل لے۔

بھولی برکھا۔ ۔ ! وہ کیا کہتے ہیں۔ گدھی پہ روپ۔ والا محاورہ بھی بالکل جھوٹا نکلا۔ خاندان تو خاندان، حد تو یہ ہے کہ محلے کے کسی لڑکے نے بھی نہ نظر بھر کر دیکھا، نہ ہی مٹھی بھر گھاس ہم پر ڈالی۔ نہ ہی ہماری گہری جھیل جیسی آنکھوں میں کوئی آنکھ بند کر کے کودا۔ نہ ہی کسی کا پاگل دل ہماری گھٹاؤں جیسی زلفوں میں اٹکا۔ ایک دفعہ شاید، ہلکا سا اشارہ ملا تھا مگر ہماری بھولی عقل کی گہرائی ناپنی ہے تو اس واقعے سے ناپیے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments