ہم سب کی انفرادیت!


آن لائن جرنلزم یا نیو میڈیا کے ناموں سے معروف ڈیجیٹل جرنلزم یا ڈیجیٹل صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جہاں ادارتی مواد انٹرنیٹ کے ذریعے تقسیم کیا جاتا ہے۔ تحریر، سمعی اور بصری مواد کے ذریعے پیش کی جانے والی خبریں، تجزیے، فیچرز ڈیجیٹل میڈیا ٹیکنالوجی کے ذریعے وزیٹرز تک پہنچائے جاتے ہیں۔

ہم سب ایک ایسا علمی، بر حقائق پلیٹ فارم ہے، جو ہر لمحہ قارئین کو حالات و واقعات سے حقیقی آگاہی فراہم کر تا ہے، وہ تلخ حقائق بھی جو شاہد ہی کہیں اور ملتے ہوں۔ میں ہم سب کی جملہ ٹیم سے بے حد متاثر ہوا ہوں، جدت و معیار ایک ساتھ اس ادارہ کا طرہ امتیاز ہے۔ لکھاری حضرات کو کالم موصول ہونے، اور پھر کالم کی اشاعت پر باقاعدہ بذریعہ ای میل آگاہی فراہم کی جانے کے علاوہ چیک لسٹ بھی مہیا کی جاتی ہے۔ جو کہ یقیناً اعلیٰ ظرفی کی ایک تابناک مثال ہے۔ یہ مثال بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

بلامبالغہ ہم سب نے روایتی چیزوں سے ہٹ کر قارئین کو ایک منفرد ویب مہیا کی ہے۔ جو علم و آگاہی کا خوبصورت گلدستہ ہے۔ ہم سب کی جملہ ٹیم محترم وجاہت مسعود، محترم عدنان اور ہم سب کے ایک ایک فرد کو ہدیہ تبرک و سلام محبت پیش کرتا ہوں، جنہوں نے اس وقت، جب کہ اکثر کالم، مواد کو معیار کے بجائے تعلق کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے، جتنی بھی محنت، جانفشانی سے لکھاری محنت کریں، جگہ ہی نہیں ملتی کیونکہ ہر ادارے کی طرح اخبارات، ویب پر بھی جب تک سفارش نہیں کام نہیں کے مصداق نظام ہوتا ہے، ہم سب تحریر کو بعد از تحقیق مواد کے درست ہونے کی صورت میں شائع کرتا ہے، بصورت دیگر لکھاری کو اعتراض کر کے درستی کے لیے واپس ارسال کر دیا جاتا ہے۔

ہم سب کے لیے کوئی بھی لکھ سکتا ہے، اگر تحریر معیاری ہو تو خود ہی شائع کر دی جاتی ہے۔ نئے لکھاریوں، تشنہ علم کی کمال حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کے کالمز /تحریریں ہم سب کی وال کے علاوہ جناب وجاہت مسعود، جناب عدنان کاکڑ اپنی وال پر بھی شیئر کرتے ہیں، میں کسی ایک فرد کو بھی نہیں جانتا، لیکن ان کی شفقت، علم دوستی، میرٹ جیسی خوبیوں سے بے حد متاثر ہوں۔ ہم سب پلیٹ فارم میں بہت ہی قابل افراد سے شناسائی بھی ہوتی ہے، اور پھر قیمتی مواد، کالمز، بلاگ، تجزیوں، حقائق سے کماحقہ سیکھنے کا موقع میسر آتا ہے۔

ہم سب کے اس نئے میڈیم کا فائدہ یہ ہے کہ ماضی میں انتہائی مہنگا کام سمجھے جانے والا ابلاغ انتہائی قلیل لاگت سے بہت دور تک بآسانی پہنچایا جا سکتا ہے۔ ڈیجیٹل صحافت کے ذریعے اب جلد اور زیادہ سہولت سے وزیٹرز تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ڈیجیٹل صحافت اور ڈیجیٹل اردو صحافت کا آغاز انٹرنیٹ کے ابتدائی تعارف کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ روایتی میڈیا ہاؤسز نے بھی اس شعبہ کا رخ کیا تاہم اس سے قبل انفرادی سطح پر بھی اس پر کام شروع ہو چکا تھا۔ انگریزی ڈیجیٹل جرنلزم میں جہاں متعدد نام ملتے ہیں وہیں اردو ڈیجیٹل جرنلزم بھی پیچھے نہیں رہا۔

1970 میں ٹیلی ٹیکسٹ کے نام سے یوکے میں متعارف ہونے والا ٹول ڈیجیٹل صحافت کا نقطہ آغاز تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ ایک نظام تھا جس میں صارف کو موقع دیا جاتا تھا کہ وہ پہلے کون سی اسٹوری دیکھنا یا پڑھنا چاہتا ہے۔ ٹیلی ٹیکسٹ کے ذریعہ مہیا کی جانے والی معلومات مختصر مگر فوری ہوا کرتی تھیں۔ ورٹیکل بلیکنگ انٹرویل یا وی بی آئی کے نام سے معروف ٹیلی ویژن سگنلز فریم کے ذریعے معلومات کی ترسیل کی جاتی تھی۔

پریسٹل دنیا کا وہ پہلا نظام تھا جس کے ذریعے ویڈیوٹیکس کی تخلیق عمل میں آئی۔ 1979 میں متعدد برطانوی اخبارات مثلاً فنانشل ٹائمز نے اپنی اسٹوریز آن لائن مہیا کرنا شروع کیں۔ صارفین کی ضروریات پوری نہ کر سکنے کے سبب ویڈیوٹیکس 1986 میں ختم ہو گیا تھا۔ اسی دوران امریکا میں ویوٹورن، کی کام اور گیٹ وے وغیرہ شروع ہوئیں تاہم یہ بھی 1986 تک بند ہو چکی تھیں۔

1980 کے اختتام اور 1990 کے ابتدا بلیٹن بورڈ سسٹم متعارف کیا گیا۔ بی بی سی سافٹ ویئر اور ٹیلی فون موڈیمز کے ذریعہ متعدد چھوٹے اخبارات نے آن لائن نیوز سرور شروع کی۔

آن لائن نیوز ویب سائٹس نے سے کام شروع کیا۔ مبینہ طور پر شمالی کیرولینا کے امریکی اخبار دی نیوز اینڈ آبزرور نے نینڈو کے نام سے آن لائن خبروں کی فراہمی شروع کی۔ 1994 میں پہلے کمرشل ویب براؤزر نیٹ اسکیپ اور 1995 میں انٹرنیٹ ایکسپلورر کے متعارف ہونے والے کو ڈیجیٹل جرنلزم میں اضافے کا وقت تسلیم کیا جاتا ہے۔ 1996 تک متعدد ابلاغی ادارے آن لائن شکل اختیار کر چکے تھے۔ اس مرحلہ پر ادارتی مواد اخبار، ریڈیو یا ٹیلی ویژن کے لیے تیار شکل میں ہی انٹرنیٹ پر پیش کیا جاتا تھا۔

اے او ایل اور یاہو کی صورت جلد ہی نیوز ایگری گیٹرز سروسز متعارف کرائی گئیں جو خبروں سے متعلق پلیٹ فارم سے مواد جمع کر کے صارف کو فراہم کیا کرتے۔ 1995 میں سیلون متعارف ہوا۔ 2001 میں امریکن جرنلزم ریویو نے سیلون کو دنیائے انٹرنیٹ کا پہلا نمایاں پلیٹ فارم قرار دیا جس نے ڈیجیٹل صحافت کو ایک قدم آگے بڑھایا۔

اخبارات جگہ کی تنگی اور مخصوص وقت پر شائع ہوتے تھے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن زیادہ سے زیادہ معلومات کو سامع اور ناظر تک پہنچانے کے چکر میں انہیں بہت مختصر کر دیتے تھے لیکن ڈیجیٹل صحافت نے ناصرف بروقت معلومات مہیا کیں بلکہ صارف کو یہ سہولت بھی فراہم کی وہ اپنے مطلب کی معلومات پوری تفصیل سے حاصل کر سکے۔

1990 کی دہائی کی ابتدا میں انٹرنیٹ پاکستان میں متعارف کیا گیا جس کے بعد سے آئی سی ٹی یا انفارمیشن اینڈ کیمونیکیشن ٹیکنالوجی تیزی سے فروغ پانے والی صنعتوں میں نمایاں رہا۔ 2001 میں محض ایک اعشاریہ تین فیصد پاکستان انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے تھے تاہم آئندہ پانچ برسوں میں اس میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 2006 تک یہ تعداد بڑھ کر چھ اعشاریہ پانچ اور 2012 میں کل ملکی آبادی کا دس فیصد ہو چکی تھی۔ اکتوبر 2018 تک پاکستان میں براڈبینڈ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد انتیس اعشاریہ سات فیصد سے تجاوز کر چکی تھی، گویا چھ کروڑ بیس لاکھ افراد ورلڈ وائڈ ویب سے منسلک ہو چکی تھے۔ یہ تعداد پاکستان کو دنیا میں انٹرنیٹ سے منسلک ہونے والے بڑے ممالک میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کو ایشیا میں ٹیکنالوجی حب کا خطاب بھی دے چکی تھی۔

اسی عرصہ میں پاکستانی اخبارات انٹرنیٹ پر دستیاب ہونا شروع ہوئے۔ اکیسویں صدی شروع ہو کر آگے بڑھی تو پاکستان میں موبائل فونز کے فروغ اور انٹرنیٹ کی رسائی میں اضافہ نے مزید افراد کو اس جانب راغب کیا۔

وقت کے ساتھ ہم سب کی طرف رحجان بڑھ رہا ہے، وہ حقائق، اظہار رائے کا موقع بھی ملتا ہے جو یقیناً اگر مثبت انداز میں کی جائے تو معاشرے کو ایک جدت مل سکتی ہے۔ ہمیں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے، جس سے اصلاح ہو سکے۔ ہم سب ہمارا سرمایہ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو دن دوگنا، رات چوگنا ترقی عطا فرمائیں، اور اس کی جملہ ٹیم، ہر ممبر سلامت، آباد رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments