شہید پائلٹ کے بستر پر بڑے بھائی کی ایک رات


شیو کا سامان بے ترتیب پڑا تھا کہ جانے والا جلدی میں گیا تھا۔ استاد نے بیسن پر لگے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا۔ اس کی آنکھیں تھکی تھیں ؛ کئی رات کی جاگی، گہری تھکی مگر وہ آنکھیں اس شیشے میں ایک دوسرے چہرے کی دھندلی تصویر دیکھ سکتی تھیں۔  وہ چہرہ جس نے اس شیشے میں استاد سے قبل اپنا چہرہ دیکھا تھا۔ ایک چہرے کا عکس ابھی کہیں باقی تھا، ہلکا سا باقی، گرد ہوتا ہوا عکس جو شاید کچھ عرصے میں باقی لوگوں کے لیے ختم ہو جائے مگر استاد کی گہری تھکی آنکھوں میں وہ ہمیشہ کے لیے چھاپ چھوڑ جائے گا۔

استاد نے وہ رات اس زمین پر بچھے گدے پر گزاری جس میں ابھی بھی جانے والے کی خوشبو اور گرمائش موجود تھی۔ وہ عجب رات تھی، سوتے جاگتے گزرتی رات، محسوس ہوتا کہ کوئی کمرے میں موجود ہے، شاید کوئی ابھی دروازہ کھول کر آ جائے، شاید دروازے کے باہر کسی کے قدموں کی آواز ہے، شاید کچھ ہے یا شاید کچھ بھی نہیں، شاید کچھ باقی ہے یا شاید کچھ بھی باقی نہیں۔  کئی موقع پراستاد کو لگا کہ کمرہ زندہ ہے، سانس لیتا، سرگوشی کرتا، ابھی جانے والا آ جائے گا۔

اس رات کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کیا کوئی اس رات کو کوئی بیان کرے، ایک بڑے بھائی نے اپنے لحاظ سے چھوٹے بھائی کو خدا حافظ کہا، ایسے کہ ایک گمنام سی آس بھی ساتھ تھی۔ جب جانے والے کا چہرہ نہ دیکھا ہو تو انسان ایک آس میں جیتا ہے ؛ شاید سب جھوٹ ہو، شاید خواب ہو، شاید کوئی معجزہ ہوگیا ہو، شاید، شاید، اور شاید۔

صبح استاد کو بھائی کا سامان دیتے ایک افسر نے ایک طرف اکیلے میں بلایا اور کہا کہ آپ کے لیے میرے پاس کچھ ہے۔  افسر نے ہاتھ بڑھایا، استاد نے دیکھا کہ دینے والے کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ادھ جلا چمڑے کا بٹوہ تھا۔ کانپتی آواز میں اس نے کہا کہ یہ آپ کے لیے ایک نشانی ہے، ایک نشانی جو آخری وقت میں جانے والے کے ساتھ تھی۔ استاد نے بٹوے کو پکڑا اور کھولے بغیر جیب میں ڈال لیا۔ یہ عام چیز نہ تھی، یہ اس لمحے کی شاہد تھی جب جہاز آگ کے جلتے گولے میں تبدیل ہوا تھا اور جہاز کے ساتھ ساتھ سولہ انسانی جانیں بھی اگلے سفر پر روانہ ہو گئی تھیں۔  استاد اس نشانی کو اکیلے میں کھولے گا۔

استاد اس بٹوے کو کھولنا بھی چاہتا تھا اور نہیں بھی کھولنا چاہتا تھا۔ بٹوہ جو سرکریک کی دلدلی زمین پر جہاز کے باقی بکھرے ٹکڑوں کے ساتھ بے نام پڑا تھا۔ بے نام، مگر یہ بٹوہ بے نام نہ تھا کہ اس کے اوپر کسی تحفے کے طور پر جانے والے کا نام کندہ تھا، لیفٹیننٹ ضرار احمد۔ استاد کو پتہ تھا کہ دلدلی زمین پر سے اٹھائے جانے والی چیزیں بھی دلدل ہوتی ہیں، آدمی پھر ان میں دھنسا ہی رہتا ہے، چاہے جتنی مرضی کوشش کرلو نہیں نکل سکتا، یاد کا دلدل صرف آنکھ بند ہونے پر ہی رہائی دیتا ہے۔

استاد نے برآون بٹوے کی سطح کو دیکھا، وہ ایک طرف سے ایسے جل چکا تھا کہ چمڑے میں سوراخ ہوگیا تھا، ایک بے قاعدہ سا سوراخ جس کے کنارے جل کر سوکھ چکے تھے۔  وہ سوراخ بٹوے میں جھانک رہا تھا جیسے استاد کے لیے وہ بٹوہ فنا کے ایک لمحے کی جھانک تھا۔ استاد نے بٹوے کو کھولا؛ بٹوے کے پچھلے بڑے خانے میں کچھ کرنسی نوٹ ادھ جلے تھے۔  بٹوہ کھولنے کے بعد دائیں طرف کے خانے میں کچھ سکے پڑے تھے۔  استاد نے ہاتھ بڑھا کر وہ سکے نکالے ؛ سکوں کی ساخت بدل چکی تھی، وہ حرارت کے باعث پگھل چکے تھے۔

استاد کی انگلیوں کی پوریں جلنے لگی تھیں۔  استاد کو اس لمحہ نامعلوم کا احساس ہورہا تھا کہ جس کے بعد تابوت پوری طرح بند ہوتے ہیں، ہر جانب سے تختے مضبوط کیلوں سے ٹھک جاتے ہیں، مضبوطی کے ساتھ ٹھکے ہوئے کہ بند تابوتوں کو کھولنے سے کچھ نہیں ملتا۔ بائیں جانب بٹوے کے خانے میں پاسپورٹ تصاویر تھیں۔  سب سے اوپر والدہ کی تصویر تھی، والدہ جس نے اپنی زندگی اپنے بچوں پر تج کردی تھی۔ شہید کی والدہ بچپن میں جل گئی تھیں، جس سے ان کے دونوں ہاتھوں کی ایک ایک انگلی ضائع ہو گئی تھی اور چہرے پر نشان رہ گئے تھے، مگر بیٹے کے ادھ جلے بٹوے میں ماں کی تصویر نہ جلی تھی۔ استاد نے کبھی ماں کو بیٹے کی اس ادھ جلے بٹوے کی نشانی کا نہ بتایا، وہ کبھی یہ ہمت نہ کر پایا۔ اب جب ماں جی رخصت ہو گئی ہیں تو اس نے تحریر لکھنے کی ہمت کی ہے۔

ماں جی کی تصویر کو بٹوے سے ہٹایا تو نیچے بڑے بھائی کی تصویر تھی۔ یہ متوسط طبقہ بھی بڑا چھوت چھات کا مارا ہوتا ہے، یہاں گھر میں سکھایا جاتا ہے کہ بڑا بھائی باپ کی مانند ہوتا ہے۔  بڑے بھائی کا احترام ایک ججھک پیدا کر دیتا ہے۔  یہاں بڑے بھائی کے سامنے سگریٹ نہیں پی جاسکتی، اونچی آواز میں بات نہیں کی جاتی، اس کے ہاتھ سے سامان کا تھیلا پکڑ لیا جاتا ہے، مگر اپنے بٹوے میں بڑے بھائی کی تصویر بھی نہیں رکھی جاتی۔

استاد نے سوچا، یہ چھوٹا بھائی بھی عجب تھا، خداحافظ کیے بغیر چلا گیا مگر تصویر ساتھ رکھے تھا۔ جانے والا پریکٹیکل آدمی تھا، باتیں نہ بناتا تھا، عمل پر یقین رکھتا تھا۔ محنت کار تھا، ہاتھ سے کام کرتا۔ اس کے جانے کے بعد ماں ہمیشہ یاد کرتی تھی کہ گھر کے صحن میں یہ پودا، یہ درخت اس کے ہاتھ کا لگا تھا۔ استاد نے اپنی اور اپنے والدین کی زندگی پر نظر ڈالی، جانے والے کے بعد ان کی زندگی کی سمت ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔

یاد کا ایک اور بومرنگ گھوم کر استاد کے سامنے آ گیا۔ اکتوبر 2005 کا پہلا ہفتہ سمیسٹر کے آغاز کا بھی پہلا ہفتہ تھا۔ استاد کو آخری سال کی کلاس کو پڑھانے کے لیے نیا کورس ملا تھا، شاید منگل یا بدھ کا دن تھا کہ استاد کالج آف ایروناٹیکل انجینئرنگ میں جماعت کے سامنے کھڑا ہوا۔ عام طور پر یونیورسٹیوں میں ہر جماعت کا ایک نمائندہ ہوتا ہے جو اساتذہ اور انتظامیہ کے ساتھ رابطہ کار کا فریضہ انجام دیتا ہے، مختلف یونیورسٹیوں میں اسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، کہیں کلاس ریپریزنٹیٹیو، جسے مختصراً سی۔

آر کہتے ہیں، کہیں یہ سینئر مین کہلاتا ہے۔  استاد باقی استادوں سے فرق تھا، وہ اپنے مضمون کے لیے خود رابطہ کار چنتا تھا۔ اس نے کلاس سے پوچھا کہ جماعت میں سب سے زیادہ گریڈ کس کا ہے؟ ایسے سوال پر عام طور دوسرے طلبا نام لیتے ہیں، لائق طالبعلم خاموش ہی رہتا ہے کہ عموماً ”ہے جادۂ حیات میں ہر تیز پا خموش“۔  ایک جانب بیٹھے طفیل عزیز کی جانب اشارہ کیا گیا۔ استاد نے اپنے مضمون کے لیے اسے رابطہ کار کا فریضہ سونپا اور بتایا کہ اس کی کیا ذمہ داریاں ہوں گی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments