شہید پائلٹ کے بستر پر بڑے بھائی کی ایک رات


وہ ہفتہ لانگ ویک اینڈ بنتا تھا سو جمعہ سات اکتوبر کو لوگ اپنے اپنے گھروں کو عازم سفر ہوئے۔  استاد بھی رسالپور سے اسلام آباد آ گیا۔ ہفتہ آٹھ اکتوبر کی صبح 9 بجے وہ زلزلہ آیا کہ استاد کی رہائش کے قریب ایف۔ دس میں مارگلہ ٹاور گر گیا اور کئی رہائشی جان بحق ہوئے۔  شام تک معاملہ واضح ہوا کہ زلزلے کا مرکز آزاد کشمیر میں مظفر آباد تھا اور بڑے پیمانے پر تباہی اور اموات واقع ہوئی ہیں۔  استاد پیر کو واپس کالج پہنچا تو پتہ لگا کہ طفیل اپنے گھر مظفر آباد گیا تھا اور زلزلے میں مالک حقیقی سے جاملا ہے۔  استاد نے چادر کو کس کر اپنے گرد لپیٹا تو یہ جوان سال موت بھی ہمیشہ کے لیے ساتھ بندھ گئی۔

استاد کی یاد میں ایک اور مضطرب بھی ہے۔  یونیورسٹیوں میں طالبعلم اپنے گھر چھوڑ کر مختلف جگہوں سے آتے ہیں۔  استاد اسے ہجرت کہتا ہے، اور ہجرت کچھ کو کم اور کچھ کو زیادہ مضطرب کر دیتی ہے۔  استاد کی کلاس میں وہ ایک مضطرب تھا جو ڈیرہ اسمعیل خان سے آیا تھا۔ استاد کو علم نہ تھا کہ اس کے سوال، اس کی تیزی اس لیے تھی کہ اس کے پاس وقت کم تھا۔ کالج میں چھٹیاں ہوئیں تو وہ کرائے کی گاڑی میں ڈیرہ اسمعیل خان کو جا رہا تھا کہ ایک بڑے ٹرک کو کراس کرتے کنٹینر اس کی کار پر گر گیا۔ چار نوعمر جو مل کر اس کرائے کی گاڑی کا کرایہ اٹھا رہے تھے، اگلے جہاں کو اٹھ گئے۔  استاد کی چادر میں ایک درد کا پیوند اورلگ گیا۔

ضرار، زین العارف، طفیل، مدثر اور کئی اور؛ استاد کئی شہیدوں کا جانتا ہے۔  انکوائریاں ہو رہی ہیں، ہوتی رہی ہیں، ہوتی رہیں گی مگر اس سے قطع نظر شہادت کا سرٹیفکیٹ بلا معاوضہ فوراً مل جاتا ہے۔  ہاں، سکسیشن سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے رشوت دینا ہوتی ہے۔  استاد نے غمزدہ ماں باپ کے ساتھ جج کے سامنے پیشی دی۔ یہ غم کا ایک بڑا امتحان ہے، جوان سال موت کے بعد بیٹے کی بچت، بنک اکاونٹ سب کے لیے سامنے آکر بیان دینا پڑتا ہے، نہ چاہتے، بادل نخواستہ، روتے دل کے ساتھ، مگر کیا کریں قانون قانون ہے۔

سکسیشن سرٹیفکیٹ نہیں بنا، آبجکشن کے لیے بڑے قانونی نکتے ہیں۔  کچہری کے اہل کار کے نزدیک استاد قابل احترام تھا کہ شہید کا بھائی تھا، اس کا بڑا درجہ تھا۔ شہید کا سکسیشن سرٹیفکیٹ فوراً بننا چاہیے کہ اس نے ملک وقوم کے لیے جان دی ہے، مگر دیکھیے کچہری کے نظام کی مجبوری ہے، خرچہ پانی کرنا پڑے گا۔ استاد کے ذہن میں پچھلی پیشی پر ماں باپ کے غمزدہ چہرے تھے۔  اس نے غمزدہ چہروں کے بارے میں سوچا، انہیں دوبارہ جج کے سامنے بیان دینے کی اذیت سے گزرنے کا خیال کیا اور پیسے پکڑاتے اللہ سے ”الراشی و المرتشی کلا ہما فن نار“ کی صف میں کھڑے ہونے کی معافی مانگی۔

استاد کی یاد کے ساتھ سائنس آمل کھڑی ہوئی۔ استاد کی پی۔ ایچ۔ ڈی کا موضوع ملٹی ریزولوشن انیلیسس تھا۔ چیزوں کو موقع کی مناسبت سے مختلف پیمانے پر دیکھا جاتا ہے، سکیل بدلتا رہتا ہے، کہیں مائکرو میٹر کی پیمائش ہے اور کہیں شمسی سالوں کا ناپ ہے۔  استاد کو خیال آیا کہ اخبار کی خبر کیسی سرسری اہمیت رکھتی ہے،  ”ایک سائیکل سوار کار کی زد میں آکر ہلاک ہوگیا“۔  عام سی خبر ہے، ہوتا رہتا ہے، اخبار ایسی خبروں سے بھرا پڑا ہے، یہ تو آج کے زبان نکالے پیاسے میڈیا کے دور میں بریکنگ نیوز بھی نہیں بنتی۔

مگر ایک دوسرے پیمانے پر سائیکل سوار کے گھر والوں کی زندگی اس لمحے کے بعد کبھی ویسی نہ رہے گی؛ بیوی کا سہاگ لٹ گیا، بچوں کا باپ چلا گیا۔ سائیکل چلاتا تھا مگر تھا تو سہی۔ کاش کہ وہ جو ذمہ دار ہیں ملٹی ریزولوشن انیلیسس کر سکیں کہ ایک سکیل پر یہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔  استاد نے اعداد وشمار ڈھونڈا تو دیکھا کہ ہر ماہ پاکستان میں چار سو سے زیادہ لوگ ٹریفک حادثات میں مرتے ہیں، یہ ہر روز کے چودہ لوگ اور خاندان بنتے ہیں۔

جہاز ایسے تواتر سے نہ گرتے اگر ریگولیٹری محکمہ اپنا کام کر رہا ہوتا۔ ٹریفک کے حادثات کا یہ تسلسل نہ ہوتا اگر ٹریفک انجینئرنگ، ٹریفک پولیس اور سڑکوں کا محکمہ اپنا کام کر رہا ہوتا، کمرشل گاڑیوں کے ٹھیک ہونے کی چیکنگ پر معمور محکمہ اپنا کام کر رہا ہوتا۔ سب نہ سہی مگر بہت سے افراد ان محکموں میں وقت گزارنے اور پیسہ کمانے جاتے ہیں۔  سول ایوی ایشن اتھارٹی کی سربراہی ایسی عمومی سمجھی جاتی ہے کہ کسی ماہر کی بجائے ریٹائرڈ کو نوازنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے یا وہ جو کسی وجہ سے اپنے ہاں بیکار ہو جائے۔

ریگولیٹری محکمے کی تاریخ پر نظر ڈالیں، کوئی لوٹ کا بازار لگا کر بھاگا، کوئی حب جاہ کا اتنا مارا تھا کہ ماتحتوں کی ایک تعداد نے دستخط کر کے دہائی دی کہ اس کا ذہنی معائنہ کروایا جائے۔  ایک حب شہوت کے مارے کے بارے میں جاننے والے جانتے ہیں کہ کسی قحبہ خانے پر پولیس چھاپے میں گرفت میں آیا۔ اب اپنے ہاں ٹھہرنے کی گنجائش نہ رہی تھی، کند ہم جنسوں نے نکالے جانے کی بجائے ڈیپوٹیشن پر آگے بھجوا دیا کہ جھپٹنے پلٹنے کا موقع چلتا رہے۔

انکوائریاں ہوتی رہیں گی، شہادت کے سرٹیفکیٹ بلامعاوضہ بٹتے رہیں گے۔  جہاز ہوں یا ٹریفک، ہسپتال ہوں یا پولیس سٹیشن، کچہری ہو یا تعلیم، سسٹم پر کام کریں۔  ملٹی ریزولوشن کو سمجھیے، کسی وقت اور مقام پر بے مقام ہی سب اہمیت رکھتا ہے۔  کسی پرانی سائیکل پر پھٹے پرانے کپڑے پہنے عامی کو بھی سرسری پیمانے پر نہ لیں، وہ ایک پیمانے پر کچھ کے لیے اس دنیا میں سب کچھ ہے۔

عاطف ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 73 posts and counting.See all posts by atif-mansoor

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments