باؤلی


”ارے یہ کیا؟“ اماں دہشت زدہ سی ہو گئیں۔
”یہ کہاں سے اٹھا لائی؟“ اماں پہ غصہ بھوت بن کر اتر رہا تھا۔
”اللہ میاں کی زمین سے“ نفیسہ نے رسان سے جواب دیا۔
”اللہ میاں نے کیا زمین پر تیرے لیے خاص فصل لگائی ہے بد ذات“
”تو آپ رہنے جو نہیں دیتے رات کو۔ ۔ ۔“ اس کی آواز میں لرزش سی آ گئی۔
”رات نہیں رہنے دیتے تو تو یوں پیٹ پھلا کر پھرے گی آگے پیچھے؟ ہیں!“
اماں درشت لہجے میں چلا رہی تھیں۔
”ارے نکالو اسے۔ باہر پھینکو۔ ۔ ۔ جوتے پڑواؤ کمبخت کو۔ ۔ ۔“

پورا گھرانا جمع ہو گیا اور سب برف بن گئے۔ سب کی آنکھوں میں حیرت اور تعجب کی ملی جلی آمیزش تھی۔ ”چل گرا کر آ یہ حرامی کہیں۔“
”حرامی کیوں؟“ وہ آنکھیں پھاڑ کر غرائی۔ ”میرا اپنا ہے۔“
”خاک اپنا ہے۔“ اماں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے بالوں سے گھسیٹ کر آدھا ادھورا بچہ کسی گٹر میں ڈال دیں۔

نفیسہ نے تو آؤ دیکھا نہ تاؤ، مٹک مٹک کر چلتی ہوئی باورچی خانے میں گھس آئی۔
”نجس، ناپاک“ اماں کو تو آگ لگی ہوئی تھی۔ باقی گھرانا بالکل نیوٹرل تھا۔ نہ اماں کی طرف داری نہ نفیسہ کی حمایت۔

”نفیسہ باؤلی پیٹ سے۔ ۔ ۔“
”نفیسہ کے پیٹ میں بچہ۔ ۔ ۔“
گھر بھر کو ایک موضوع مل گیا تھا۔

”کس کا بچہ؟ نفیسہ کی شادی۔ اونہوں۔ کہیں سے اٹھا لائی۔ کہتی ہے اللہ میاں کی زمین سے۔ ۔ ۔ کھی کھی کھی۔ ۔ ۔“ نوجوانوں کے لیے تو ایک شاندار چٹ پٹا اور لذیذ موضوع گفتگو تھا یہ۔ اور،
”باؤلی کو باہر نکالو۔ یہ اماں کی ضد تھی۔“

مگر عمل درآمد کروانے والے سارے باغی بنے ہوئے تھے۔ اللہ جانے یہ ہمدردی تھی یا کچھ اور۔ ۔ ۔ اور نفیسہ تھی کہ اماں کی گالیوں، طعنوں اور کو سنوں کے برستے تیروں میں مزے سے رہ رہی تھی۔ کوئی نکالنے والا ہی نہیں تھا کیونکہ آپا جان نے دبے دبے لہجے میں کہا تھا۔

”اماں کہاں جائے گی، بے چاری۔“
بے چاری کہنے پر تو اماں کے پیروں میں لگے اسپرنگ احتجاج کرنے لگے تھے۔ مگر اماں نے بھی غالباً سمجھوتے کی راہ اپنا لی تھی۔

ادھر نفیسہ کے نخرے تھے کہ بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔
”آپا جان ڈکاریں آ رہی ہیں۔ ۔ ۔“ وہ بے بسی سے ان کو دیکھتی۔
جتنا اماں اس سے کراہت محسوس کر رہی تھیں۔ اتنا ہی وہ گلے پڑ رہی تھی۔ ۔ ۔
”اماں کھٹا کھانے کا دل چاہ رہا ہے۔“

”مر کمبخت، ڈوب مر کہیں پانی میں۔ مگر تیرے لیے تو کہیں پانی بھی نہیں۔ جام شورو جا کر دیکھ، سوکھا منہ پھاڑے کھانے کو آ رہا ہے۔ کہاں ڈوبے گی تو؟ مگر ہاں سمندر بھی ناکافی ہے تیرے ایسے بے شرموں کے لیے تو۔“

دن میں کم از کم ایک بار تو اماں اور نفیسہ باؤلی کا ٹکراؤ ہو کر ہی رہتا، جسے سن کر آپا جان تو چپ رہنے کو ترجیح دیتیں مگر لڑکیاں اور دیگر ملازمین خوب چٹخارے لیتے۔ مثلاً جب اماں نے اسے پلاسٹک کی تھیلی سے کپڑے اور دوسرا سامان نکالتے ہوئے دیکھا تو انہیں یقین ہو گیا کہ نفیسہ کا لمبا ڈیرا ڈالنے کا پروگرام ہے ان کے گھر پر۔

”ارے بد ذات کوئی اور گھر دیکھ پیٹ ہلکا کرنے کے لیے۔ یہاں کیوں مری ہوئی ہے۔“ نفیسہ نے کوئی جواب نہیں دیا مگر کہیں سے ٹکڑا آ گیا۔ ۔ ۔

”اماں کہاں جائے گی اس حالت میں غریب؟“
”رکھے گی کہاں اس کو؟“
اماں تو سن کر بدحال ہو گئیں کہ ”وہ بھی یہاں پلے گی۔ ۔ ۔“
”پلے گا جی۔ ۔ ۔“ نفیسہ باؤلی نے پوری کھلی آنکھوں اور حلق کی طاقت سے احتجاج ریکارڈ کروایا۔
”ڈاکٹر بیٹا ہوں گے ہمارے یہاں تو۔ ۔ ۔“

”خواب دیکھو مردار کے۔ رہنے کو ٹھکانہ نہیں، کھانے کو روٹی نہیں، علاج کو دمڑی نہیں۔ ۔ ۔ اور ڈاکٹر بنائے گی۔“ اماں کے تیور غضب کے تھے۔

”کام کروں گی سب کے یہاں۔ ۔ ۔ روٹی بھاجی تو پکا لیتی ہوں۔ اب تو کپڑے بھی دھوؤں گی۔ برتن مانجھوں گی۔ باہر کا سودا سلف لا دیا کروں گی اور اب پیسے بھی لیا کروں گی کام کے ہاں۔ ایسے نہیں گھسواؤں گی اپنے آپ کو۔ ۔ ۔“

”دیں گے اچھی طرح تجھے لوگ پیسے۔ سب کے منہ لگی ہوئی ہے تو۔ ۔ ۔ پھپھوند ہو گئی ہے۔ ادھر آ، ادھر جا۔ ۔ ۔ سب تیرے دام جانتے ہیں۔ ۔ ۔ اب پیسے مانگے گی تو تھوکیں گے تجھ پر۔“
”اپنے لیے تھوڑی مانگیں گے، بٹوا کے لیے محنت کریں گے۔ ۔ ۔ بلکہ ان کے لیے تو بھیک بھی مانگنا پڑی تو وہ بھی مانگیں گے۔“

”آ گئی نہ اپنی اوقات میں، بھک منگی کہیں کی۔“ اماں پھنکاریں۔
جب بٹوا ڈاکٹر بنیں گے تو بولوں گی کہ بچوں کو سوئیاں نہ لگایا کریں۔ صبح صبح گاڑی میں اسپتال جائیں گے اور جب لوٹیں گے تو ہمارے لیے دوائیاں لایا کریں گے۔ ۔ ۔ ”

”تیرے لیے دوائیاں؟“
”بوڑھی نہیں ہو جاؤں گی تب تک؟“

”الٹیاں، متلی، ابکائیاں۔ ۔ ۔ ہر طرف ایسی ہی آوازیں سننے کو مل رہی تھیں۔ اتنی زور زور سے ڈکاریں لیتی تھی کہ سننے والے کو الٹی آتی محسوس ہوتی تھی۔“

”بھیا گولی لا دو“ نفیسہ نے جمیل ماموں کو راہ میں دیکھ کر روک لیا۔
جمیل ماموں اپنی فطری شرمیلی طبیعت کے باعث جھینپ سے گئے۔
”اری دیکھ بھال کر کھانا کچھ۔ کہیں گر ہی نہ جائے۔“ آپا جان نے تنبیہ کی۔

”گر جائے تو بہت اچھا ہے۔ ہم تو خود بدنام ہو جائیں گے۔ نوکر چاکر پھر رہے ہیں۔ سارے گھر میں۔ نہ جانے باہر والے کیا سمجھتے ہوں گے۔ باؤلی کے ساتھ کس نے منہ کالا کیا ہے؟“ اماں کوس رہی تھیں۔

”کیسے بولیں گے جی؟ آپ کون سا رات کو رہنے دیتے ہیں مجھے یہاں؟“ باؤلی چمک کر بولی۔

”تیرا کیا ہے، دن کیا کرے گا تجھے؟ یہ تو عزت اور حیا والوں کے سوچنے کی باتیں ہیں۔ تیرا کیا بھروسا؟ نہ خاندان نہ رشتہ۔ نہ ماں نہ باپ۔ ۔ ۔ ایک بہن ہے سو پوچھتی نہیں اور اب۔ ۔ ۔ اللہ توبہ۔ ۔ ۔ نہ شادی نہ نکاح۔ ۔ ۔ نہ آدمی نہ گھر۔ یہ پیٹ میں گناہ ڈالے گھوم رہی ہے، بے غیرتی سے۔“ اماں طیش میں تھیں۔

”گناہ پاپ کیوں بولتی ہیں بڑی بی آپ؟ کروا دیتیں نہ میری شادی۔ ۔ ۔“
”ارے آگ لگے تیرے ہوتے سو توں کو۔ میں کیوں کرواتی تیری شادی۔ ۔ ۔ تو کون؟ تیرا کیا رشتہ ناتہ ہم سے بھلا؟“

اماں کے لیے یہ سب برداشت کرنا خاصا مشکل تھا۔ یہ تو خاندان بھر کی نیم رضامندی نے انہیں باؤلی کو معہ اس کے تھیلے کے پھنکوانے سے باز رکھا ہوا تھا۔

نفیسہ باؤلی کو خاندان بھر جانتا تھا اور اب پورے خاندان میں اس نئی خبر کا چرچا تھا۔ سب نئے نئے چٹکلے ایجاد کر کے مزے لے رہے تھے۔ کراچی سے آپا جان کی بہو شبانہ آئیں تو اپنے منے بیٹے کے چھوٹے چھوٹے گرم کپڑے، موزے اور ننھے ننھے جوتے، تولیے، بستر، سب کارٹن میں بند کر کے باؤلی کے لیے لیتی آئیں۔

باؤلی تو خوشی سے چیخ پڑی۔ ۔ ۔ ”اللہ بڑی بہو بیگم یہ سب آپ ہمارے بٹوا کے لیے لائی ہیں۔“
وہ اچھل اچھل کر سب کی خدمتیں کر رہی تھی۔ شبانہ بہو کے بچوں کو نہلانا، دھلانا۔ ۔ ۔ کھلانا پلانا، سب کام اپنے ذمے لے لئے تھے۔

”ارے تو اپنا خیال کر، کچھ ہو جائے گا۔ ۔ ۔“ آپا جان اس کی چھلانگیں دیکھ کر دہل جاتی تھیں۔
”واہ۔ ۔ ۔ سب کو فکر پڑی ہے اس کمبخت ماری کی۔ ۔ ۔“
اماں جان ایسے میں عذابوں کو شمار کرتیں جو نفیسہ باؤلی پر نازل ہو سکتے تھے۔ ۔ ۔

”نہ شرعی نہ قانونی۔ ۔ ۔ اللہ توبہ۔ ۔ ۔ اللہ توبہ اور ہماری کیا بخشش ہو گی بی بی۔ ۔ ۔ جو آگے بڑھ بڑھ کر اس حرام کاری میں مدد کر رہے ہیں۔ حرام ہو رہا ہے اس گھر میں۔ ۔ ۔ حرامی پیدا ہو گا اب۔ ۔ ۔ اور یہ ساتھ ساتھ لیے پھرے گی اس کو۔ ۔ ۔“

باؤلی تو دور تھی۔ اس کی سماعت ویسے بھی بے پرواہ تھی۔ مگر آپا جان نے پہلی بار اپنا موقف واضح کیا۔ بڑے جلالی انداز میں۔

”اماں کیوں کہتی ہو حرامی آخر؟ پھر نہ کہنا۔ ۔ ۔ بچہ ابھی بنا نہیں پورا پیٹ میں۔ ۔ ۔ سانس پوری ڈالی نہیں اللہ نے۔ ۔ ۔ نہ تم سے کچھ لیا نہ دیا۔ ۔ ۔ اور دے دیا فتویٰ تم نے۔ واہ اماں یہ اچھی رہی۔ ۔ ۔ کیا لے رہی ہے غریب ہم سے آخر۔ ۔ ۔ باہر والے کیا بولیں گے۔ تم کو تو خود اس باؤلی سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ۔ ۔ اترن پہن لی، جھوٹا کھا لیا۔ ۔ ۔ جب چاہا دھکا مار کر باہر پھینک دیا۔ اللہ جانے اوپر سے گری ہے یا زمین سے نکلی ہے۔ ۔ ۔ نہ کوئی آگے نہ پیچھے، اب جب اللہ اس کو کچھ دے رہا ہے۔ تو ہم۔ ۔ ۔ حرامی، حرامی کہے جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ سچ پوچھو اماں پہلی بار باؤلی کو خوش دیکھ کر مجھے بھی خوشی ہو رہی ہے۔“

”نعوذ با اللہ، نعوذ با اللہ۔ ۔ ۔ سارے گھر میں شیطان نے ڈنڈا پھرا رکھا ہے۔ سب ہی اس کے چیلے لگ رہے ہیں۔ ۔ ۔ سب شریعت، سب اسلام۔ ۔ ۔ سارے قانون بھول گئے ہو۔ تم سب لوگ۔ ۔ ۔“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments