انڈیا میں کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن: وزیر اعظم نریندر مودی کے خط پر مزدوروں کا جواب


انڈیا میں کورونا کی وبا پھیلی ہی تھی اور جیسے ہی اس پر قابو پانے کے لیے حکومت نے رات و رات ملک گیر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو ایک بڑا المیہ سامنے آیا۔ وہ یہ کہ اپنے گھروں سے دور مزدور واپسی کا راستہ کیسے طے کریں گے۔

اس سفر کے دوران پیدل چلتے، سائیکل چلاتے، اور بسوں اور ٹرکوں میں سوار ہونے کے لیے جدوجہد کرنے والے مزدوروں کی تصاویر طویل عرصے تک لوگوں کے دل و دماغ پر رہیں۔

بعض نے سائیکل سے لمبا سفر طے کیا تو کئی مزدور ننگے پاؤں تپتی دھوپ میں اپنی منزل کی جانب نکل پڑے۔

بعض حاملہ خواتین اپنے چھوٹے بچوں کو گود میں اٹھائے مسلسل پیدل چل رہی تھیں۔ یہ وہ تصاویر تھیں جو انسان کے ذہن میں نقش رہیں گی۔

شروعات میں ان لاکھوں مزدوروں کی حالتِ زار پر حکومت خاموش تھی یا یہ کہیں کہ وہ یہ تسلیم ہی نہیں کرنا چاہتی تھی کہ مزدور پورے ملک میں پیدل چل رہے ہیں اور ان کے پاس نہ کھانے کو کچھ ہے اور نہ ہی کوئی امید کہ انھیں کہیں سے ان کے گھر تک جانے کے لیے سواری ملے گی کیونکہ حکومت نے پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی تھی۔

اس دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے دوسرے دور اقتدار کے دو برس پورے کیے۔

اس موقعے پر انھوں نے عوام کے نام ایک خط لکھا۔ اس میں مشکل کی گھڑی میں عوام سے خود مختار ہونے کی بات کہی گئی تھی، سب کے ساتھ سب کا وکاس (ترقی) اور سب کے اعتماد کی بات کہی گئی تھی۔

اپنی کامیابیوں میں حکومت نے کشمیر کی خود مختاری کو ختم کرنا، تین طلاق سے متعلق قانون اور رام مندر کی تعمیر کو سر فہرست رکھا۔

اس میں نریندر مودی نے لاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں کو پیش آنے والی پریشانیوں کا ذکر نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ مزدوروں کو جو پریشانی اٹھانی پڑی اس کا حل نکالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

نریندر مودی کے اس خط کے جواب میں اگر غریب مزدوروں اور ان کے خاندان والوں کو جواب لکھنا ہوتا تو وہ کیا لکھتے، بی بی سی نے ان تین مزدوروں سے بات کی جو اس پورے المیے کی علامت بن گئے۔

ان کی کہانیاں یا دردناک تصاویر اس قدر وائرل ہوئیں کہ انڈیا میں لاک ڈاؤن کے بارے میں سوچتے ہی ان کی شکلیں یاد آتی ہیں۔

اشوک سنگھ گوڑ، شہ ڈول، مدھیہ پردیش

لاک ڈاؤن کے دوران مہاراشٹر کے اورنگ آباد کا ٹرین حادثہ اور ریل کی پٹری پر بکھری روٹیاں ایک دردناک داستان بیان کرتی ہیں۔

اس حادثے نے مزدوروں کی ایک ایسی دردناک کہانی بیان کی جس میں جو بے بسی سامنے آتی ہے وہ انسان کو اندر تک ہلا کررکھ دیتی ہے۔

آنسو تو مدھیہ پردیش کے شہ ڈول علاقے میں رہنے والے اشوک سنگھ گوڑ کے بھی نہیں سوکھ رہے۔ ان کا بیٹا اس حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا۔ اشوک سنگھ سے ہم نے پوچھا کہ وہ نریندر مودی کے خط میں کیا لکھنا چاہتے ہیں؟

ان کا جواب: ’24سال کا تھا، ایک بچہ بھی تھا، ڈیڑھ سال کا بچہ۔ قصوروار کس کو ٹھہرائیں؟ حکومت کو، ان بچوں کو، ریلوے کے محکمے کو یہ کس کو؟

’لاک ڈاؤن میں ہمارا بچہ گزر گیا تھا۔ دو پیسے کماتا تھا تو باپ بیٹے اپنا پیٹ پالتے تھے لیکن اب ہماری زندگی ادھوری ہوگئی۔

’وزیر اعظم جو کہیں گے ہم اس پر بھروسہ کریں گے۔ ہماری زندگی تو گزر گئی لیکن ان کے بال بچوں کے لیے روزگار چاہیے۔ ہمارا مطالبہ تو یہی ہے حکومت جو کہے گی ہم اسے مان لیں گے۔ ہمارا بیٹا تو گیا لیکن ان کے بچوں کے لیے تو کوئی سہارا چاہیے۔‘

’ہماری حکومت ہے، ہمارے وزیر اعظم ہیں، ہمیں ان کی تنقید کر کے کیا کرنا حاصل ہے؟ وزیر اعظم کو طے کرنا ہے پبلک کے ساتھ مذاق کرنا ہے یا ان کے ساتھ انصاف کرنا ہے۔ ہمارا خیال تو یہی ہے کہ جو کرنا ہے حکومت کو ہی کرنا ہے۔ ہم حکومت سے انصاف کی امید کر رہے ہیں۔ حکومت ہمیں انصاف دے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ: ’ابھی تو میرے بیٹے کا بیٹا ڈیڑھ سال کا ہے۔ اسے پالنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے۔ اگر بھگوان ہم سے ناراض نہیں ہوا تو ہمارے پاس اس کی شکل میں ایک سہارا تو ہے لیکن اگر بھگوان روٹھ گیا تو ہمارے پاس کیا رہے گا۔‘

’یقین دہانی تو کروا رہے ہیں کہ حکومت مدد کرے، ریلوے مدد کرے، کمپنی والے مدد کریں گے لیکن ابھی تک ہمیں کچھ نہیں ملا ہے۔ اگر ہمارے پاس زمین ہوتی تو ہم کھیتی کرتے اور روزگار کے لیے کبھی شہر نہ جاتے۔ غریب انسان اگر روزی کمانے باہر نہیں نکلے گا تو گھر میں چولہا کیسے جلے گا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ’آپ اگر راتوں رات لاک ڈاؤن نہ نافذ کرتے، ایک ہفتے کی بھی مہلت دے دیتے تو جتنے مزدور تھے وہ واپس اپنے گاؤں پہنچ جاتے۔ دقت تو ہے، حکومت کی جانب سے کچھ تو کمی رہے ہی، ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اگر لاک ڈاؤن سے پہلے ایک ہفتے کی مہلت مل جاتی تو سب اپنے گھر پہنچ جاتے۔‘

’جو ایک ماہ سے بھوک سے تڑپ رہے تھے، جن کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، انھیں ایک دن کی بھی مہلت نہیں ملی۔

ان کی موت کے بعد ریلوے ٹریک پر روٹی بکھری ہوئی پڑی تھی۔ ’اس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ 900 کلومیٹر پیدل چلنا تھا اگر روٹی بچا کر نہیں رکھتا تو کون روٹی دیتا؟‘

ریل کی پٹری پر چلتے ہوئے مزدور۔

ریل کی پٹری پر چلتے ہوئے مزدور

’سڑک پر پولیس کے ڈنڈے، صرف پٹری پر ہی سہارا تھا۔ جب تک چاند کی روشنی رہی چلتے رہے جیسے ہی زیادہ اندھیرا ہوا تو ریلوے لائن پر لیٹ گئے۔ یہی سوچا ہوگا کہ جب پوری رات ٹرین نہیں آئی تو اب بھی نہیں آئے گی۔ صبح ہونے والی تھی اس لیے آرام کرنے کے لیے لیٹ گئے۔‘

’جیسے ہی لیٹے نیند آگئی اس لیے ہی ٹرین کی آواز نہیں آئی۔ نیند کے لیے کوئی بستر نہیں چاہیے۔ جب انسان کو نیند آتی ہے تو وہ بستر نہیں ڈھونڈتا، وہ آرام چاہتا ہے بس لیٹنا چاہتا ہے میرے بیٹے نے بھی یہی کیا تھا۔‘

موہن پاسوان، دربھنگا، بہار

جیوتی کماری اپنے والد کے ساتھ

BBC/Chandand
جیوتی کماری اپنے والد کو سائیکل پر بٹھا کر کئی سو کلومیٹر کا سفر پورا کرکے اپنے گھر واپس لائی تھیں

بہار کی جیوتی کماری کا ذکر انڈیا اور انڈیا کے باہر ہورہا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان کی تعریف میں ٹویٹ کیا اور ان کے پاس مدد کرنے والوں کی بھی قطار لگ گئی۔

لیکن ایک وقت تھا جب دلی کے نواحی علاقے گروگرام سے وہ اپنے والد کو واپس بہار لانے کے لیے سائیکل کے سفر پر نکل پڑی تھیں اور انھوں نے سوچا نہیں تھا کہ اس میں انھیں کامیابی بھی ملے گی۔ اپنے والد کو واپس لاتے وقت انھیں راستے میں تمام مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کو مدد بھی ملی۔

سائیکل پر اپنے والد کو واپس گھر لے جاتے ہوئے ان کی تصویر اتنی وائرل ہوئی کہ اب وہ لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں کی پریشانی کی علامت بن گئی ہے۔ اگر جیوتی کے والد موہن پاسوان کو وزیر اعظم کے خط کا جواب دینا ہوتا تو وہ کیا کہنا چاہیں گے:

’ہم لوگ کسی طرح مر کر جی کر آئے ہیں۔ حکومت سے درخواست ہے کہ جو بھی مزدور شہروں میں پھنسے ہیں انھیں ملازمت دیں اور ان کی مدد کریں۔

جو مزدور پھنسے ہوئے اگر انھیں روزگار مل جاتا تو وہ گھر کیوں جاتے؟

یا اگر ہمارے کھانے پینے کا انتظام ہوجاتا تو ہم کیوں جاتے؟

یہ نہیں کہ ٹی وی پر کہہ دیا کہ انتظام ہوگیا اور گلی محلے میں کچھ بھی نہیں۔ ہم لوگ موت اور زندگی کے درمیان پھنسے تھے، صرف ہم ہی نہیں ہم جیسے لاکھوں لوگ اتنی مشکل میں تھے۔

لوگ پیدل چل رہے تھے، سائیکل پر تھے، ٹھیلوں پر تھے اور موٹر سائیکل پر۔ سڑکیں لوگوں سے بھری ہوئی تھیں۔ لوگ رات بھر سفر کر رہے تھے۔

لوگوں کا ہجوم دیکھ کر ہمت بڑھتی گئی۔ ایک یا ڈیڑھ لاکھ لوگ سڑک پر چل رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر حوصلہ مل رہا تھا۔

ہم نے لاک ڈاؤن کی پیروی کی، وہ ٹی وی پر کہہ رہے تھے کہ کھانا پینا ملے گا۔ لیکن ہمیں کچھ مل ہی نہیں رہا تھا۔ کہہ رہے تھے کہ گھر گھر جا کر راشن تقسیم کیا جائے گا لیکن ہم لوگوں کو کچھ نہیں ملا۔

ہم نے مانا کہ لاک ڈاؤن کے دوران کام نہیں تھا لیکن جو دوسرے علاقوں سے آئے ہوئے مزدور تھے انھیں بھوکا تو نہیں مارنا چاہیے تھا۔

ہم مزدور بھی انسان ہیں۔ نہ ہم سیاست جانتے ہیں اور نہ کچھ اور۔ اس سب سے بہتر یہ ہوتا جہاں لوگ پھنسے ہوئے تھے انھیں وہیں کھانا مل جاتا۔

سب سے زیادہ پریشانی کھانے کی ہوئی۔ نمبر لگایا، کھانے کی لائن میں کھڑے رہے لیکن کھانے کو نہیں ملا۔ دل دہل جاتا ہے اس وقت کے بارے میں سوچ کر بھی۔ ہماری بچی ہمیں اٹھا کر لے آئی۔

دوسروں کا غم دیکھ کر انسان اپنا غم بھول جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ جو مزدور چل رہے تھے ان کے پیر پیدل چل چل کر زخمی ہوگئے تھے۔ وہ خواتین پیدل چل رہی تھیں جن کے بچے ہونے والے تھے۔ چھوٹے چھوٹے بچے پیدل چل رہے تھے انھیں دیکھ کر ہمت مل رہی تھی۔

ہم سوچ رہے تھے کہ کتنے مشکل حالات ہیں۔ لوگ پیٹ کی خاطر گھروں کی جانب پیدل چل رہے ہیں۔ اگر کھانے پینے کا انتظام شہر میں ہی ہوجاتا تو اتنی مصیبت کیوں اٹھاتے؟‘

رام پکار پنڈت، بہار

رام پکار پنڈت

رام پکار پنڈت کی یہ تصویر بے حد وائرل ہوئی تھی

لاک ڈاؤن کے دوران جن مزدوروں کی اپنے گھر پہنچنے کے لیے کی متعدد دردناک تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں، ان میں ایک تصویر بہار سے تعلق رکھنے والے غریب مزدور رام پکار کی بھی تھی جو سڑک کنارے بیٹھے، ہاتھ میں پرانے ماڈل کا فون لیے زارو قطار روتے ہوئے کسے سے فون پر بات کررہے ہیں۔

میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق رام پکار اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر 11 مئی کو دلی سے پیدل ہی بہار کے بيگوسرائے میں واقع اپنے گاؤں بری یار پور کے لیے نکل پڑے تھے، لیکن پولیس نے انھیں اترپردیش اور دلی کے بارڈر پر روک لیا۔

اترپردیش کی پولیس انھیں پیدل جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی اور رام پکار کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ کرائے کی مہنگی گاڑی کر کے بہار چلے جاتے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ کار کے ذریعے دلی سے بیگوسرائے کا سفر طے کرنے میں 20 گھنٹے لگتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے سبب ٹرینوں اور بسوں کے بند ہونے کی وجہ سے رام پکار پیدل ہی اپنے گھر کی جانب نکل پڑے تھے۔

رام پکار کے پاس سمارٹ فون بھی نہیں تھا کہ وہ مزدوروں کے لیے اکا دکا جو خصوصی ٹرین چلی تھیں اس کا آن لائن ٹکٹ بک کروا لیتے یا بہار کی حکومت سے مدد مانگ لیتے۔ لیکن ایک سماجی کارکن نے ان کی مدد کی جس کے بعد وہ بہار پہنچے۔

رام پکار بتاتے ہیں کہ انھیں نریندر مودی سے کیا کہنا ہے۔

’مودی جی کے نام میرا خط ہے اگر وہ پڑھیں تو:

چار یا پانچ مئی کو میرے لڑکے کی طبیعت خراب تھی۔ میرے پاس دو ہزار روپے تھے جو ہم نے اس کے علاج پر خرچ کردیے۔ بچہ بچ نہیں سکا۔ ایک سال کا بچہ تھا۔

ہم سیمنٹ میں ریت ملانے کا کام کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن ہوگیا۔ لاک ڈاؤن میں بچہ بیمار پڑ گیا۔ تین لڑکیوں کے بعد لڑکا ہوا تھا .

میں اس لیے دلی سے نکل پڑا کہ اپنے بیٹے کی صورت دیکھ لوں۔ میں نے خود سے کہا تھا کہ اگر میں نے اپنے بیٹے کی صورت نہیں دیکھی تو میں مر جاؤں گا۔

اب کسی کام میں دل نہیں لگتا، دل پوچھتا ہے کہ میرا بیٹا کیا کہے گا؟

اس کی ماں کہتی ہے کہ مرنے کے بعد وہ مجھے کندھے پر لے کر جاتا لیکن میں اسے کندھے پر لے کر گئی۔ ماں اور کیا کہے گی؟ ماں کلیجے پر پتھر رکھ لے گی۔ اب میرے گھر میں میری اہلیہ اور تین بیٹیاں ہیں۔ حکومت سے یہی کہنا چاہوں گا کہ کوئی روزگار دلا دیں گے تو ہم کرلیں گے۔

ہم بس یہی کہیں گے کہ ہمارا گھر دیکھ کر، ہماری حیثیت دیکھ کر جو کرسکتے ہیں ہمارے لیے کردیں۔ وہ جو کریں گیں ہم قبول کر لیں گے۔ ہمیں صرف روزگار چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp