پرنم آنکھوں اور دکھی سماعتوں کا طارق عزیز کو آخری سلام


دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو طارق عزیز کا سلام اور پھر ایک لمحاتی وقفہ اور اس کے بعد اک اسٹائل سے خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ بالوں کی گہری لٹ کو بائیں ہاتھ سے پیچھے کرتے ہوئے ہمارے وقت کا یہ ہیرو جو صرف شوبز کی دنیا ہی کا ستارہ نہ تھا بلکہ وہ ہر گھر کا فرد تھا۔ آج ہم سے جدا ہوا۔ پروگرام تھا نیلام گھر اور اس کے ہیرو ہمارے وقت کے معروت اداکار، صداکار، شاعر، میزبان (یہ ہو سٹ کہلانے کا زمانہ نہ تھا) ، انتہائی نفیس، شفیق با لکل استاد کی مانند ہماری تربیت کر نے والے طارق عزیزصاحب تھے۔

اپنی پہلی ٹرانسمیشن سے ہی پی ٹی وی کا یہ اولین مقصد تھا کہ ہر پروگرام ایسا ہو جسے گھر کے تمام افراد مل کر دیکھیں اور اس میں ذوق جمال کی تسکین کے ساتھ سا تھ تعلیم و تربیت کا پہلو بھی نمایاں ہو۔ نیلام گھر اس کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ طارق عزیز اور نیلام گھر ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم حیثیت رکھتے تھے۔ اس پروگرام کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ گھر کے سب افراد اس کے شروع ہونے سے پہلے ہی ٹی وی کے آگے آکر بیٹھ جاتے۔

طارق عزیزکا ہر رنگ نرالا، ان کا ہنسنا، ان کا بولنا، ان کا مذاق مذاق میں لطیف طنز کر جانا یا شستہ مزاح کے رنگ بکھیرنا، ہر چیز لگتا تربیت کا ایک نیا در کھول دیتی ہو۔ ان کے شعر پڑھنے کا والہانہ انداز اورکسی اچھے شعر پر سر دھننا اور پھراختتام پر دل کھول کر دادو تحسین یا اسی میں کچھ اور اضافہ کرنا ان کی علمیت، تحقیق اور عمیق مطالعہ کی دلیل تھی۔ اور یہ وہ بلاواسطہ تعلیم تھی جو اس نسل کو مل رہی تھی، وو زمانے لگتا ہے اب خواب ہوئے۔ اب تو صرف بے ہنگم شور اور نمائش کے علاوہ کچھ نہیں۔

اسکول کا زمانہ تھا، ہمارے اساتذہ جو بچوں کی تر بیت ایک مشن سمجھتے تھے ان کی تاکید ہوتی کہ نیلام گھر ضرور دیکھ کر آنا، اس میں سے کل سوال ہوں گے۔ والد صاحب جو بچوں کی تربیت کے معاملے میں بہت حساس تھے وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر اس پروگرام کو دیکھا کرتے تھے۔ جمعہ کی چھٹی ہوا کرتی اور غالباً یہ شو جمعرات کو نشر ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں گیم شوز کا کوئی تصور نہ تھا بس یہ نیلام گھر ہی ہوتا تھا اور اس میں ا نعاما ت سے زیادہ ہماری دلچسپی سوال و جواب میں ہوتی کہ ہم ان میں سے کتنے سوالوں کے جواب جانتے ہیں۔

طارق عزیز صاحب ہر شعبہ سے مشکل سے مشکل سوالات کیا کرتے تھے اور شرکاء بھی بھرپور ادبی اور معلوماتی تیاری سے لیس آتے اور ہر طرح سے طارق عزیز صاحب سے جیتنے کی کوشش کرتے تھے۔ مگر طارق صاحب لگتا تھا کہ معلومات کا ایک سمندر تھے۔ کون سا شعبہ ایسا تھا کہ جس کے متعلق ان کی معلومات نہ تھیں، ہم حیران سے زیادہ پریشان ہوتے، یہ کتنا پڑ ہتے ہیں۔ طارق صاحب کے ادبی لطیفے، تاریخی اور ادبی شخصیات کے متعلق معلومات، ادب، علم و حکمت، فنون لطیفہ پر سوالات اور شعرو سخن سے بھرپور بیت بازی کے مقابلے۔ جہاں کسی نے شعر پڑھنے میں کوئی غلطی کی، آپ فوراً اس کی تصحیح کے لئے اسٹیج پر آجاتے۔

ادبی شخصیات، فنکار، کھیل، غرض کسی بھی شعبے سے وابستہ مشہورشخصیات کی شو میں شرکت اور ان سے ٹی وی اسکرین پر ملاقات مسرت و شادمانی سے بھرپور ایک عجیب سی سحر انگیز کیفیت طاری کردیتی تھی اور ہم کئی دنوں تک اس کے سحر میں گرفتار رہتے تھے۔ مجھے اب تک یاد ہے کہ جب راحت کاظمی اور ساحرہ کاظمی کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور یہ ماڈرن اور خوبصورت جوڑا شوبز کی دنیا میں بہت مقبول ہورہا تھا، طارق عزیز صاحب نے انہیں اپنے شو میں مدعو کیا تھا۔ طارق صاحب کی اپنی بذلہ سنجی اور دونوں فنکاروں کی خوبصورت گفتگو پر مبنی وہ پروگرام کافی مقبول ہوا تھا اور ایک عرصے تک اس کا چرچا رہا تھا۔

ایک پروگرام میں طارق صاحب نے کسی ڈینٹسٹ کو بھی بلایا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب لوگوں کی اکثریت دانت صاف کرنے کے لئے منجن کا استعمال کیا کرتی تھی اور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال کم کم تھا اسی لیے ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش تک لوگوں کی رسائی اور اس کے متعلق معلومات بہت محدود تھیں۔ طارق صاحب نے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کو آگہی دی اور ڈینٹسٹ کے ذریعے اپنے ناظرین کو اس کے استعمال کا عملی مظاہرہ ایک ڈمی کے ذریعے فراہم کیا۔

آپ اس طرح کی بہت سی معلومات کھیل ہی کھیل میں بہت ہلکے پھلکے انداز میں لوگوں تک پہنچادیا کرتے تھے۔ اسی تربیت کا ایک اور انداز کہ اچانک لوگوں سے پوچھنا کہ آ ج کسی کی جیب میں بس کا ٹکٹ ہے۔ جی ہاں اس زمانے میں بڑے بڑے لوگ سرکار کی جانب سے چلائی جانے والی بسوں میں سفر کیا کرتے تھے اور سرکاری پبلک ٹرانسپورٹ لوگوں کی نقل و حمل کا بہتریں ذریعہ تھی۔ چنگچی اور کوچز، کہ اب اتفاق سے وہ بھی عنقا ہو گئی ہیں، میں سفر کرنے والی آج کی نسل کو یہ بات عجیب لگے گی کیونکہ انھوں نے تو سرکاری بپلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا ہی نہیں۔

مگر پھر بھی اس زمانے میں کچھ لوگ بس میں کنڈیکٹر کی نظر چرا کر بغیر ٹکٹ بھی سفرکیا کرتے تھے۔ طارق صاحب کا ٹکٹ مانگنا ایک طرح سے لوگوں کی تر بیت کا ایک پہلو ہی تھا کہ لوگ ٹکٹ خرید کر سفر کرنے کی عادت اپنائیں تا کہ حکومت کے خزانے کو نقصان نہ پہنچے (نجکاری کی وبا اس وقت تک نہیں پھیلی تھی اورلوگ حکومتوں پر اعتبار کرتے تھے ) ۔ پھر کسی دن شو کے شرکا سے بجلی کا بل مانگ لیا کہ سب سے کم بجلی کا بل کس کا ہے تاکہ لوگ بجلی بچائیں اور لوگ شوق ہی شوق میں یہ سب چیزیں جیب میں ڈال کر لے آتے تھے۔

ابتدائی دور میں یہ پروگرام کراچی کے مشہور تاج محل ہوٹل (آج کے ریجنٹ پلازہ) میں ریکارڈ ہوا کرتا تھا اور ہم اخبار میں پڑھا کرتے تھے کہ اس پروگرام میں شرکت کے پاس حاصل کرنے کے لئے لوگ گھنٹوں لائن میں کھڑے رہا کرتے تھے۔

اس پروگرام کے ذریعے مشہور و معروف مصنوعات بنانے والی انڈسٹریز اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لئے مختلف انعامات کو اسپانسر کیا کرتی تھیں اور طارق صاحب اکثر ان مصنوعات کے اشتہاری نغمے اپنے انداز میں گنگنا کر ان کا تعارف کروایا کرتے، جیسے

۔ اماں تلو میں پکاؤ، ہمیں صحت مند بناؤ
۔ صبح بناکا، شام بناکا صحت کا پیغام بناکا
۔ اے خدا میرے ابو سلامت رہیں
۔ جہاں جہاں سورج ڈھلے فلپس کے بلب اور ٹیوب جلے
وغیرہ

جو لوگ سوال و جواب کی تیاری کرکے آتے تھے ان کو دیے جانے والے انعامات بھی بڑے دلچسپ ہوتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صارفیت پرستی (کنزیومرازم) کی وبا نہیں پھیلی تھی۔ لوگوں کی ضروریات محدود، شوق ادبی اور طبیعت لالچی نہیں ہوتی تھی اور لوگ انعامات کا لالچ نہیں کرتے بلکہ یہ انعامات ان کے لئے فخرو اعزاز کی بات ہوتی تھی۔ یہ رسمی انعامات واٹر کولر، پیڈسٹل فین، واشنگ مشین، جوسربلینڈر، فوڈ فیکٹری، صوفہ کم بیڈ وغیرہ ہوا کرتے تھے۔

ابتدا میں سب سے بڑا انعام موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی بعد میں کار سب سے بڑا انعام بن گئی۔ وہ لمحہ بھی بڑا یادگار تھا جب پہلی بار کسی نے موٹر سائیکل یا کار کا انعام جیتا تھا اور گھر بیٹھے ناظرین کی خوشی کا یہ حال تھا کہ جیسے یہ انعام انہوں نے ہی جیتا ہو۔ جب بھی کوئی بڑا انعام جیتتا ہم بچے خوشی سے تالیاں بجاتے۔ اس زما نے میں اگر کوئی انعام جیتتا تو اس کے محلے میں اس کی بڑی شہرت ہوتی اور لوگ اس انعام کو دیکھنے کے لئے آیا کرتے۔ وہ انعام اصل میں اس شخص کی علمیت کی دلیل ہوتی تھی اور ایسے لوگوں کو بڑے احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

طارق صاحب اپنے انداز تکلم سے صرف سوالوں کے جواب دینے والے کو ہی محظوظ نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ہال میں موجود ہر شخص کو یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسی سے مخاطب ہیں۔

اس شو کا ایک اور دلچسپ و مقبول مرحلہ جو صرف نئے شدہ شدہ جوڑوں کے لئے مخصوص ہوتا تھا مگر وہ اس شو کی جان ہوا کرتا تھا اور نئے جوڑے اس کی بھرپور تیاری کرکے آتے تھے۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ابھی صرف شادی کی مخصوص دھن بجنا شروع ہوتی تھی اور یہ جوڑے اپنی جگہوں سے اٹھ کر اسٹیج کی جانب آنا شروع ہو جاتے تھے پھر ان کے ساتھ دلچسپ سوال جواب اور ہلکے پھلکے مقابلوں کا ایک اپنا ہی رنگ ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح ایک اور مرحلہ اس دن پیدا ہونے والے لوگوں کے لیے بھی ہوتا تھا، جن لوگوں کی اس دن سا لگرہ ہوتی ان کو خاص انعامات سے نوازا جا تا۔

طارق عزیز صاحب کا شعری ذوق انتہائی اعلی تھا۔ نہ جانے کتنے اساتذہ کا کلام ان کی یادداشت میں محفوظ تھا بالخصوص علامہ اقبال اور بابا بلھے شاہ کے اشعار اکثر موقع محل کی مناسبت سے اپنے مخصوص انداز میں پڑھا کرتے تھے۔ ادب و سخن سے ان کا لگاؤ والہانہ تھا۔ اداس شاعری اور پنجابی شاعری ان کو بہت پسند تھی۔ نوحہ خوانی میں بھی ان کا اپنا ایک مخصوص انداز تھا۔ اکثر محرم الحرام میں وہ اساتذہ کا کلام تحت الفظ پڑھا کرتے۔

پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کے اس سب سے مقبول اور طویل عرصے تک نشر ہونے والے شو نے جو پہلے نیلام گھر اور بعد میں بزم طارق عزیز کے نام سے چلتا رہا، طارق عزیز اور ان کے چاہنے والوں کو اپنا اسیر کر رکھا تھا۔ اگرچہ کہ وہ ایک اچھے اداکار بھی تھے اور اکثر اپنے فن کے جوہر اپنے شو میں بھی دکھایا کرتے تھے مگر ان کا انداز ایسا مہذب کہ کبھی مذاقاً بھی تہذیب کے دائرے سے باہر نہ نکلتا۔ ان کا تنوع، ان کا مزاح، ان کی محبت بھری تنقید، شستہ زبانی اور شائستگی، سب کچھ اتنا بھرپور کہ کہیں کوئی سقم نظر نہ آتا۔

مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہم بچوں کا ایک ہی کام ہوتا تھا کہ پروگرام کے اگلے دن ہم اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے نیلام گھر کھیل رہے ہوتے تھے۔ طارق عزیز صاحب کی سی آواز بنانا، ان کے لب و لہجہ کی نقل کر کے ہم سوالات پوچھا کرتے، اپنی کتابوں سے مشکل سوالات تیار کرتے۔ اصل شو کے دوران ہماری کوشش ہوتی تھی کہ پوچھے جانے والے سوالات کے جوابات ہم دیں۔ کیا زمانہ تھا وہ بھی۔ شاید نیلام گھر اور کسوٹی وہ پروگرام تھے جن کو ادبی گھرانوں میں باقاعدہ تعلیمی سرگرمی کی طرح اہمیت دی جاتی تھی اور تربیت کے لیے ان کا دیکھا جانا جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا تھا۔

طارق عزیز صاحب کو طالب علموں سے بھی خصوصی لگاؤ تھا۔ مختلف کالجوں کی ٹیمیں ان کے پروگراموں میں حصہ لیا کرتی تھی۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ طلباء ان سے کچھ سیکھ کر جائیں۔ کسی انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ اپنے پروگرام کے سوالات کی تیاری کے سلسلے میں مختلف لائبریریوں کے چکر لگایا کرتے تھے، مختلف کتا بیں پڑھتے اور پوری تحقیق کے ساتھ سوالات تیا ر کرتے اور بعض اوقات پوری پوری رات اسی تیاری میں گزر جاتی۔

گزشتہ ہفتے ہی ان کا ٹویٹ کردہ ایک خوبصورت پنجابی قطعہ نظر سے گزرا :۔

میں نیل کرائیاں نیلکاں
میرا تن من نیل و نیل
میں سودے کیتے دلاں دے

طارق صاحب آپ نے تو واقعی لو گوں سے دلوں کے سودے کیے تھے اسی لیے آج آپ کی جدائی کے احساس سے دل بہت اداس ہے، آپ ہمیشہ دلوں ہی میں بسے رہے کہ آپ کو دلوں کی تسخیر کا فن آتا تھا۔ آپ کسی مرحوم کا ذکر کرتے ہوئے اکثر یہ مصرعے پڑھا کرتے تھے

۔ وہ جو ہم میں نہیں تم میں نہیں خاک میں پنہاں ہو کر
۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
آج جب یہ سطور لکھ رہی ہوں تو سمجھ نہیں آ رہا کہ یہ مصرعے آپ کے لئے کیسے لکھوں۔

آپ کے پروگرام کا اختتام بھی بڑا اچھوتا ہوتا تھا جب آپ کڑک دار آواز لیکن جذبات سے بھر پور لہجے میں کہتے،

عزیزان من، اس کے ساتھ ہی آج کا پروگرام ختم ہوتا ہے، سب مل کر بولیں،
پاکستان، زندہ باد!
اور اس طرح پروگرام کا اختتام ہوتا اورسٹیج کا پردہ گر جاتا۔

وہ کڑک دار آواز، وہ دبنگ لہجہ، وہ جو سب کو ہنساتا تھا ’ہمزاد کا دکھ‘ اسے لے بیٹھا اور یہ دبنگ آواز ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔

آج آپ اپنے سوہنے رب کے پاس ہیں اور اسی لیے آپ نے جانے سے پہلے اس سوہنے رب سے سر گوشی میں کہا تھا:
اج دی رات میں کلا واں
کوئی نہیں میرے کول
اج دی رات تے میریا ربا
نیڑے ہو کے بول

میری دعا ہے کہ جو دعا آپ نے لکھی، وہ پوری ہو اور آپ اپنے رب سے بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل کریں۔ آمین!

شکسپیئر نے کہا تھا کہ یہ دنیا ایک سٹیج ہے اور ہر شخص یہاں اپنا اپنا کردار ادا کرکے چلا جاتا ہے۔ کیا خوب کردار نبھایا طارق عزیز صاحب آپ نے کہ نسلیں سنواردیں اور اب خود خاموش نگر میں جا سوئے ہیں۔ دنیا کا شو تو جاری رہے گا مگر آپ جیسے کردار اب اس میں نہ ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments