لکھا کیسے جاتا ہے، لکھاری کا ذہن بانجھ ہو جائے تو کیا کرتے ہیں؟


لینگویج کے چار اسکلز یعنی چار مہارتیں ہوتی ہیں۔ لسننگ، اسپیکنگ، ریڈنگ اینڈ رائٹنگ۔ ان میں لسننگ اور ریڈنگ، ریسپٹو اسکلز ہیں۔ یعنی ہم جو کچھ سنتے ہیں اور جو پڑھتے ہیں وہ ہمارا ان پٹ ہے، جب کہ اسپیکنگ اینڈ رائٹنگ، یہ ہمارے پروڈکٹو اسکلز ہیں، یعنی ان کی مدد سے ہمیں آؤٹ پٹ دینا ہے۔ ہمیں انھیں پر زیادہ کام کرنا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک حصہ ہے رائٹنگ کا۔ آج ہم اسی پہ بات کریں گے۔ پہلے ذرا ذیل کی سطور کو پڑھیے گا۔

”میں نے ٹرین میں، ہوٹلوں میں اور ویٹنگ روم میں لکھنا سیکھا۔ جہازوں میں کھانے کی ٹرے ٹیبل پہ۔ ۔ ۔ میں کھانے کے دوران میں میز کے نیچے، یا غسل خانے میں نوٹس لکھتی ہوں۔ عجائب گھر کی سیڑھیوں میں، کیفے میں، گاڑی میں، موٹروے کے کنارے کھڑے ہو کر میں لکھا کرتی ہوں۔ میں لکھتی رہتی ہوں۔ کاغذ کے ٹکڑوں پر، نوٹ بکس میں، پوسٹ کارڈز پہ، اپنے دوسرے ہاتھ پہ، رومال پہ، کتابوں کے حاشیوں میں، عموماً یہ چھوٹے چھوٹے جملے ہوتے ہیں۔ چھوٹی تصویریں۔ مگر کبھی کبھی میں اخباروں سے اقوال بھی نوٹ کر لیتی ہوں۔ کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہجوم میں اچانک کوئی کردار نکل آئے، تو میں اپنے سفر کا راستہ بدل لیتی ہوں۔ اسی کی کہانی لکھنے لگتی ہوں۔ یہ ایک اچھا طریقہ ہے۔ مجھے اس پر کمال حاصل ہے۔ سال گزرنے کے ساتھ ساتھ وقت میرا ساتھی بن گیا۔ جیسا کہ ہر عورت کے ساتھ ہوتا ہے۔ میں شفاف، غیر مرئی ہو گئی۔ میرے آر پار دیکھا جا سکتا ہے۔ میں بھوتوں کی طرح ادھر ادھر گھوم سکتی ہوں۔ لوگوں کے کاندھوں سے پرے دیکھ سکتی ہوں۔ ان کی بحث تکرار سن سکتی ہوں۔ اور ان کو اپنے سفری بیگوں پر سر ٹکائے سوتا بھی دیکھ سکتی ہوں۔ یا ان کو آپس میں بات کرتے جو میری موجودی سے بے خبر ہوتے ہیں، ان کے ہونٹوں کو ہلتا دیکھ کر، میں ان کے لفظ ان کے سامنے بھی بول سکتی ہوں“ ۔

یہ سطریں ہیں (پولینڈ) پولش ادیبہ ”اولگا توکارچک“ کی کتاب ”فلائٹس“ سے، جس نے دو ہزار اٹھارہ میں ادب کا نوبل پرائز بھی حاصل کیا۔ آج کل میں اسی کتاب کا ترجمہ کر رہی ہوں۔

اس اقتباس سے پتا چلتا ہے کہ وہ کیسے لکھتی ہے۔ اور کہاں کہاں وہ نوٹ کیا کرتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کچھ چیزیں آپ کو اشارہ دے جائیں کہ اگر آپ بھی لکھتے ہیں اور لکھنے کا شوق رکھتے ہیں، تو آپ اس سے راہ نمائی حاصل کر سکیں۔

اب یہ چند سطور اور ہیں۔ ان کو پڑھیں :

”کریں گے احتیاط تو گزرے گی محفوظ برسات۔ موسمی برسات سے قبل جان و مال کے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔ اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ اور دیگر اشیا واسا کے مین ہولوں، سیوریج لائنوں اور ڈرینز میں ہرگز نہ پھینکیں۔ یہ موسمی برسات کے دوران میں بارشی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ پیدا کرتے ہیں“ ۔

جب آپ نے اولین سطور پڑھیں، تو آپ کے ذہن میں یقیناً یہ تاثر ابھرا ہو گا کہ یہ ادب کی کسی کتاب سے لی گئی سطریں ہیں۔ لیکن جب درج بالا سطریں پڑھیں تو آپ کے ذہن میں تاثر بدلا۔ ہم بات یہیں سے شروع کرتے ہیں۔

ہمارے یہاں لکھنے کے فن سے متعلق کچھ غلط تاثرات پائے جاتے ہیں۔ نمبر ایک: ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ لکھا جاتا ہے، وہ ادب کے زمرے میں آتا ہے۔ تو سمجھ لیا جائے کہ ہر رائٹنگ لٹریری (ادبی) نہیں ہوتی۔ کچھ رائٹنگ بزنس بھی ہوتی ہیں۔ جیسے ابھی میں نے دوسری مثال لکھی۔ یہ ایک اشتہار ہے۔ اس کا کانٹنٹ خاص کاروباری مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اشتہارات ہیں، جنگلز ہیں، اعلانات ہیں اور ایسی کئی طرح کی تحاریر کانٹنٹ رائٹنگ میں آتی ہیں۔ ان سب میں بھی کری ایٹو رائٹنگ اسکلز کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیوں کہ آپ نے ایسے بات کرنی ہے، جو بالکل ایک دم سے کلک کر جائے، اچھوتے انداز سے، نئے زاویے سے، ایک ایسا جملہ یا عبارت بنانی ہوتی ہے جو کیچی ہو، پکڑ میں لے۔ ایک دم توجہ حاصل کر لے۔ اس میں تخلیقی صلاحیت درکار ہوتی ہے۔

تو ہم اس بات کو اپنے ذہن میں واضح کر لیں کہ رائٹنگ اسکل سیکھنے کی بات کریں گے تو اس کے تحت ہر طرح کی تحریر آئے گی۔ ادبی بھی، کاروباری بھی، اور صحافتی بھی۔

سوال یہ ہے کہ لکھنے کی مہارت کیا ہے؟ یہ بالکل ڈرائیونگ اسکل جیسی ہی مہارت ہے۔ آپ گاڑی چلاتے ہیں۔ آپ گیئر بھی بدلتے ہیں۔ آپ بریک بھی لگاتے ہیں۔ آپ موڑ بھی کاٹتے ہیں۔ انڈیکیٹر بھی دیتے ہیں۔ آپ باتیں بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ بہت گہری سوچ میں بھی ہوتے ہیں۔ لیکن آپ کا جسم خود بخود ڈرائیونگ کے مکینکس کو کر رہا ہوتا ہے۔ لکھنا بھی ایسا ہی ایک میکانکی عمل ہے۔ یعنی فن تحریر کا جو فزیکل پارٹ ہے۔ وہ ایسا ہی مکینکل ہے کہ آپ اس کے میکینکس کو ایک بار سیکھ لیں، انھیں سمجھ لیں، پھر خود بخود اس کا اظہار ہوتا چلا جائے گا۔ رائٹنگ کا مطلب ہے، آپ کے الفاظ کا چناؤ، گرامر کے اصول، رموز اوقاف punctuation mechanics کا استعمال، تحریر کا بہاؤ اور جامعیت وغیرہ۔

دوسری غلطی ہم یہ سمجھنے میں کرتے ہیں کہ جو لکھنا جانتا ہے، وہ سبھی کچھ لکھ سکتا ہے۔ ایسا ضروری نہیں۔ اس کے لیے مثال یہ ہے کہ بہت سے لوگ جو ناول رائٹرز ہوتے ہیں۔ حتا کہ اسکرین پلے بھی اچھا لکھ لیتے ہیں۔ لیکن وہ بہت اچھے ڈائیلاگ نہیں لکھ پاتے۔ ایک شاعر بہت اچھا شاعر ہو سکتا ہے لیکن اس کے لیے ناول لکھنا بہت مشکل ہو گا۔ تو ضروری نہیں ہے کہ اگر آپ تخلیقی ذہن ہیں، تو آپ سبھی کچھ کر سکتے ہیں۔

تیسری بات: ہم نے یہ بھی سمجھ رکھا ہے کہ رائٹنگ پیدائشی صلاحیت ہوتی ہے۔ نہیں! ایسا نہیں ہے۔ لکھنے کا فن سیکھا جا سکتا ہے۔ ہاں! البتہ تخلیقیت پیدایشی ہو سکتی ہے۔ لیکن لکھنے کی مہارت کہ رائٹنگ کے مکینکس کیا ہیں، رائٹنگ کی تکنیکس کیا ہیں، رائٹنگ کے جو بھی لوازمات ہیں، ان کو آپ کیسے ان کارپوریٹ کرتے ہیں، اپنی تحریر میں، یہ سب سیکھا جا سکتا ہیں۔ کوئی بھی سیکھ سکتا ہے۔ کوئی ادبی مزاج نہیں، تو بھی سیکھ سکتا ہے۔

سب سے پہلے جب ہم رائٹنگ کے لیے فال ان کرتے ہیں۔ تو ہمیں اپنا ڈائیگنوسز کرنا چاہیے۔ تشخیص ضروری ہے۔ اس میں پہلی بات یہ کہ آپ کس طرح سے اپنے آپ کو ایکسپریس کر سکتے ہیں۔ دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ شاعری کے ذریعے اظہار کرتے ہیں اور دوسرا یہ کہ آپ نثر نگاری کے ذریعے ایکسپریس کر سکتے ہیں۔ خود کو پہچاننا بہت ضروری ہے کہ آپ کی قوت کیا ہے۔ یہ کہ آپ بزنس رائٹنگ اچھی کر لیتے ہیں، یا آپ اچھے کانٹنٹ رائٹر ہیں۔ آپ ایڈورٹائزمنٹ اچھی بنا لیتے ہیں، یا آپ جنگلز لکھ سکتے ہیں۔ تو پہلے خود کو پہچان لیں، اس کے بعد یہ دیکھیں کہ آپ کا رائٹنگ سٹائل کیا ہے۔

میرے نزدیک تحریر کی بنیادی طور پہ تین ہی اقسام ہیں۔ نمبر ایک ڈسکرپٹو یعنی آپ کا انداز تعارفی یا تعریفی انداز ہو گا۔ اس میں آپ ڈسکرائب کرتے ہیں چیزوں کی ہیئت کو، ان کی ساخت کو، ان کے ٹیکسچر یعنی بناوٹ کو۔ لوگوں کو، لوگوں کی وضع قطع کو، ان کے نقوش کو، ان کے رویوں کو، ان کی حرکات و سکنات کو۔ مقامات کو۔ ہر کونے کھدرے کو۔ ایک ایک چیز کو۔ پھٹا ہوا کاغذ کیسا دکھ رہا ہے۔ زمین کی ساخت کیسی ہے۔ اس کا کھردرا پن یا اس کی ملائمیت، اس سے اٹھتی گرم بھاپ اور خوش بوئیں تک محسوس ہوں۔ اس کے لیے آپ ایسے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ذہن میں مکمل تاثر آ جائے۔

اگر آپ بہت گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں اور آپ کی تحریر میں یہ سب بیان کرنے کی خوبی ہے، جو کہ بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے، تو پہچانیں خود کو، یہ آپ کی اسٹرینتھ ہے۔ رائٹنگ کی تینوں اقسام میں سے ڈسکرپٹو رائٹنگ سب سے مشکل قسم ہے۔

دوسری قسم ہے نیریٹو۔ یعنی بیانیہ انداز۔ آپ نے کیا محسوس کیا۔ کیا دیکھا۔ کیا سوچا۔ بیان کر دیا۔ کہانی دماغ میں بنی تو بیان کر دی۔ آپ کے دل پہ جو کچھ گزر رہی ہے، دماغ میں گھوم رہی ہے، وہ آپ لکھ دیتے ہیں۔ بیانیہ انداز سب سے کامن ہے۔ زیادہ تر لوگ تحریر کا یہی انداز اپناتے ہیں۔

تیسری قسم ہے ایکسپوزیٹری رائٹنگ یعنی آپ اس کی تحریر میں لاجک ہو گی۔ آپ کی اپروچ سائنٹیفک ہوتی ہے۔ آپ کوئی ہوائی بات نہیں کر سکتے۔ سنی سنائی گھسی پٹی بات کو نہیں لکھ سکتے بلکہ آپ جو بھی لکھیں گے، آپ اس کا کاز اینڈ ایفیکٹ (علت و معلول) بیان کریں گے۔ سائنسی انداز ہو گا۔

میں نے جب کتابیں پڑھنا شروع کیں، تو مستنصر حسین تاڑر کے سفر نامے پڑھے۔ ان کی تحریر سے جو کچھ میں محسوس کرتی تھی، جو تصویر میرے دماغ میں بنتی تھی، جب دنیا گھومی تو ویسا ہی پایا۔ بلکہ میں نے وہ خوشبوئیں بھی محسوس کیں، جو انھوں نے بیان کیں۔ لکھاری کے ڈسکرائب کرنے کا انداز ایسا ہی ہونا چاہیے کہ قاری کو لگے کہ وہ وہاں سے ہو کر آیا ہے۔ خود دیکھ کر آیا ہے۔

اس بات کی تشخیص بھی کر لیجیے کہ آپ کون سے تھنکر ہیں۔ آپ کریٹیکل تھنکر ہیں یا کری ایٹو تھنکر؟ اگر آپ کریٹیکل تھنکر ہیں، تو پھر تنقید لکھ سکتے ہیں۔ آپ ریویوز لکھ سکتے ہیں۔ آپ کالم، آرٹیکل لکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ کری ایٹو تھنکر ہیں، تو آپ فکشن کری ایٹ کر سکتے ہیں۔ آپ فینٹیسی ورلڈ میں اپنے ریڈر کو لے کے جا سکتے ہیں، آپ بہت کچھ لکھ سکتے ہیں۔ مگر آپ کی سوچ کا اظہار اوپر بیان کردہ آپ کی تحریر کے مخصوص انداز میں ہی ہو گا۔

لکھنا کیا ہے؟ اگر آپ ڈسکرپٹو رائٹر ہیں، تو آپ آرٹیکل، بلاگ، شارٹ اسٹوری یعنی افسانہ، ناول، شاعری لکھ سکتے ہیں۔ ان کے ذریعے آپ اشیا اور رویوں کی باریکیاں بیان کر سکتے ہیں۔ آپ کے لیے بہت سے آپشن ہیں۔ آپ کانٹنٹ رائٹر بھی بن سکتے ہیں۔ آپ اسکرین پلے بھی لکھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ آپ پورا منظر پیش کر سکتے ہیں۔ کمپلیٹ سیٹنگ۔ اگر آپ نیریٹو رائٹر ہیں تو آپ شارٹ اسٹوریز لکھ سکتے ہیں۔ ناول ہے۔ ٹریول لاگ یعنی سفر نامے ہیں۔ سوانح حیات، خود نوشت ہے۔ فکشن اور نان فکشن سب لکھ سکتے ہیں۔ آپ کا انداز بیانیہ ہو گا۔

اگر ایکسپوزیٹری رائٹر ہیں۔ آپ کی تحریر کا انداز وضاحتی ہے، تو چوں کہ آپ کی اپروچ سائنٹیفک ہے، فیکٹس اینڈ فگر کی بات کرتے ہیں، تو آپ نظریات پہ بات کر سکتے ہیں۔ آپ جرنل لکھیں، ٹیکسٹ بکس یعنی نصابی کتب لکھ سکتے ہیں۔ آپ کانٹنٹ، ٹیکنیکل، سائنٹیفک رائٹینگ کر سکتے ہیں۔

ایکسپوزیٹری اور ڈسکرپٹو رائٹنگ میں کیا فرق ہے؟ دونوں وضاحتی انداز تحریر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ڈسکرپٹو رائٹنگ میں آپ اپنے اینگل، اپنے زاویے سے بیان کرتے ہیں، لیکن ایکسپوزیٹری سچ بولتی ہے۔ اس میں آپ کو ایک اوبجیکٹو اپروچ کے ساتھ لکھنا ہوتا ہے۔

رائٹرز بلاک کیا ہوتا ہے؟ جو لوگ لکھا کرتے ہیں، لکھتے لکھتے انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کچھ عرصے سے کچھ لکھ نہیں پا رہے، اسی کو رائٹرز بلاک یا انقباض قلمی یا تخلیقی بانجھ پن کہا جاتا ہے۔ یہ بہت تکلیف دہ احساس ہوتا ہے۔ کری ایٹیویٹی کے بعد کی خوشی، جتنی راحت آفریں ہوتی ہے، یہ رکاوٹ اتنی ہی تکلیف دہ ہوتی ہے۔

ایک امریکی ماہر نفسیات ایڈمن برگلر نے اس تکلیف کا ادراک 1940 ء میں کیا۔ اس ”رائٹر بلاک“ کی چند وجوہ ہیں، جو مختلف اسکالر اور رائٹر نے بیان کیں۔ ان کے نزدیک تین یا چار وجوہ کی بنا پر رائٹر بلاک ہو جاتا ہے۔ ایک تو ہے ٹائمنگ۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ لکھاری کو محسوس ہو کہ لکھنے کا یہ صحیح وقت نہیں ہے۔ وہ لکھنے میں تاخیر سے کام لیتا ہے۔ اینڈ دا تھنگ از گون۔ اٹ از وینشڈ۔ وہ ہر بار لمحہ گنوا دینے سے ایسا ہو جاتا ہے کہ لکھنے کے قابل نہیں رہتا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments