بیٹی پرایا دھن: ہم والدین ہیں یا تاجر؟


لفاظی میں بے مثل ہمارے معاشرے کے رویے بدلنے میں مذہب کافی حد تک بے بس نظر آتا ہے۔ کیونکہ جو قوم اپنی اخلاقیات اور مذہب کے اصولوں پر فخر تو کرے مگر عملی طور اس کی تعلیم و تربیت اور کردار سازی تجارت اور دنیا داری کے اصولوں پر کی جانے، وہاں اولاد جیسے حسین ترین معجزے کا بھی نفع اور نقصان کے ترازو میں تولے جانا کوئی انہونی بات نہیں۔ مذہب نے جس کو رحمت کہا اسے ہماری تاجرانہ ذہنیت نے ’پرائے دھن‘ کا خطاب دے ڈالا۔

اس رویے کو پرکھنے کے لیے یہی ثبوت کافی ہے کہ ایک بیٹی کو دیکھ کراپنے رب کی اس خوبصورت عنایت پر مسلمان تو نہیں بلکہ ایک کاروباری شخص ہی سر پیٹ سکتا ہے۔ اور جب والدین کا یہ رویہ ہو گا تو پھر کسی اور کا اس سے قابل عزت انسان کا برتاؤ کرنے کی توقع کیسی۔ اور ستم ظریفی یہ کہ جب والدین اسے بیاہتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ اگلا ان سے بھی بڑا تاجر ہے جو اس دھن سے پہلے ہی اپنے نفع نقصان کے تخمینے لگائے بیٹھا ہے۔ اور یوں اس لیں دین میں عورت کی اپنی شانخت کہیں گم ہو جاتی ہے۔ وہ خود بھی انہیں کاموں میں اپنی کامیابی دیکھتی ہے جو معاشرے کا معیار ہے۔ یعنی جلد از جلد شادی کرنے والی اور پھر جلد ہی بچوں کی لائن لگا نے والی بڑی کامیاب سمجھی جاتی ہے، جبکہ اعلی تعلیم یافتہ مگر غیر شادی شدہ، بے چاری!

معاشرتی رویے نہ ایک دن میں بنتے ہیں نہ تبدیل ہوتے ہیں۔ ہمارے ان رویوں کے پیچھے بھی لمبی داستان ہے۔

لفظ امت ام م یعنی ماں سے نکلا ہے۔ اور ایک امت کی تشکیل میں ماں کے کردارسے کس کو انکار ہے۔ لہذا جب سازشی قوتوں کو یقین ہو گیا کہ قرآن کی حفاظت کا وعدہ تو خدا کا ہے اور اس میں تحریف ممکن نہیں تو پھران کی تمام تر توجہ ایسی روایات کو ترویج دینے میں لگ گئی جس سے مسلم معاشرے کی بڑھتی ہوئی ترقی کو کمزور کیا جا سکے۔ اسی دوران ہی معاشرے میں عورت کے تعمیری کردار کو زک پہنچانے کے لئے بھی کوششیں کی گئیں، کیوں کہ کسی بھی معاشرے کو کمزور کرنے کے لئے اس سے کاری کوئی وار نہیں۔

چنانچہ ’ناقص العقل‘ اور ’ٹیڑھی پسلی‘ جیسے مفروضوں کو زبان زد عام کر کے سب سے پہلے عورت کی عزت نفس پر حملہ کر کے اس کو ان پڑھ اور لا علم رکھنے کے لیے میدان تیار کیا گیا تاکہ نہ وہ اپنی صلاحیتوں سے با خبر ہو اور نہ ہی معاشی طور پر خود مختار ہونے کی خواہش کرے۔ کیونکہ معاشی کمزور کا استعمال اور استحصال دونوں ہی بہت آسان ہیں۔ اور پھر ’خوب بچے جننے‘ والی عورت کا کردار سرخرو کیا گیا، تاکہ عورت لاتعداد بچوں کے جنجال میں گم رہے اور معاشی طور پر مرد کی دست نگر رہ کر اس کے رحم و کرم کی محتاج رہے اور اس کی ہر جائز و ناجائز خواہش کی آلہ کار بنے۔

اپنی قیمتی اولاد کو کیونکر کوئی کسی جنگجو یا دہشت گرد کا آلہ کار بنے دے گا مگر غربت اور کثیر اولادی یہ کام آسانی سے کروا دیتی ہے۔ اس میں کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ ’خوب بچے جننے والی‘ عورت اپنے تھکن سے چورمردہ جسم کے لئے تاج محل کا اعزاز تو پا سکتی ہے مگر اپنی اولاد کی نگہبانی، اخلاقی تربیت یا کردار سازی کے لیے نہ اس کے پاس وقت ہوتا ہے نہ ہی صحت اور فرصت۔ نتیجہ یہ کہ اس کے بچے یا تو گلیوں کے حوالے ہوتے یا مدرسوں کے اور پھر جو مرضی ان کا اچھا برا استعمال کرے۔

اسی سوچ پر عمل کے نتیجے میں میدان جنگ کو تو جنگجوؤں کی اچھی سپلائی جاری رہی مگر با کردار اور منصف لیڈروں، فہم وفراست رکھنے والے عالم اورسائنس دانوں کا بتدریج فقدان ہوتا گیا۔ جب جہالت مذہب کا لبادہ اوڑھ کر طاقت کے بل بوتے پر کسی معاشرے میں راج کرے تو وہاں جنگجو قابل فخرہو جاتا ہے اور مفکر اورمعلم کی عافیت بھی اس کے آگے سر نگوں کرنے میں ہی ہوتی ہے۔

ان فرسودہ روایات کے شکنجے میں صرف عورت کا ہی نہیں شریف النفس مردوں کا بھی دم گھوٹا گیا۔ محبت کرنے والی ہر دم تابعدار بیوی کی حوصلہ افزائی کے لئے نیکوکار اور جنتی کے خطاب اورعورت کی تکریم کرنے والے مرد کی حوصلہ شکنی کے لیے زن مرید جیسے القاب۔ کیونکہ ایسا مرد بیٹی کو بھی ذہنی اور معاشی طور پر مضبوط بنائے گا اور لاتعداد بچے پیدا کرنے کے فخریہ جنون سے بھی آزاد ہو گا۔ اور یہ مفاد پرسٹ ٹولیوں کو قبول نہیں۔

ان مروجہ روایات میں تنہا عورت کے غیر محفوظ اور بے وقعت ہونے، اور معاشی اور جسمانی طور پر مرد کی محتاج ہونے کا تصور راسخ کیا گیا، جب کے اس کے برعکس قرآن میں عورتوں کے اپنے فیصلوں میں با اختیار اور متحرک کردار اس تصور کی نفی کرتے دکھائی دتے ہیں۔

صفا و مروہ کو شعائر اللہ کہا جاتا ہے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں عورت کا محرم کے بغیر آنے پر بہت لے دے ہوتی ہے۔ مگر تاریخ میں وہاں پہ جو عورت سعی کرتی نظر آتی ہے اس کے محرم کو اسے تنہا چھوڑ دینے کا حکم ہوتا ہے۔ بے آب و گیا صحرا میں عرف عام میں کمزور تنہا عورت ایک شہر کو آباد کرنے کا مشن مرد کے مضبوط سہارے کے بغیر کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

آگے بڑھیں تو ناتواں موسیٰ علیہ سلام کو بچانے کوئی طاقت ور مرد نہیں چنا گیا بلکہ ناقص العقل عورتوں کی عقل کو اندھی مردانہ طاقت و جرات پر سبقت دی جاتی ہے۔

مزید آگے چلیں تو مریم کی والدہ ہیں جو خود رب سے ہم کلام ہیں۔ خاوند عمران کے ہوتے ہوئے بھی اپنے فیصلوں میں با اختیار عورت۔ نذر کا فیصلہ بھی ان کا، اور اپنی بچی کے نام کا چناؤ بھی ان کا اپنا ہے۔

پھر مریم کی آمد یہ کہ کر رد نہیں ہوتی کہ بچے جنتی رہو لڑکا پیدا ہونے تک، بلکہ اس لڑکی کو لڑکوں سے بڑھ کرموزوں کہا گیا۔ کہ عورت میں تخلیقی صلاحیت ہے جس سے بہرحال مرد محروم ہے۔ عورت کا تخلیقی عمل فطری ہے مگر مریم کے قصے میں مرد کے بغیر اس کی تکمیل کرنے میں مرد کے لئے سوچنے کے کئی پہلو ہیں۔ جو اس میں عاجزی، انکساری اور احساس تشکر پیدا کر سکتے ہیں۔ مرد تخلیق کے درد سے مکمل طور پر آزاد ہے۔ جبکہ عورت تخلیق کے ہر درد کو تنہا سہہ کر بھی مرد ہی کی تابعداری اور شکرگزاری کرتی نظر آتی ہے۔ مگر ستم ظریفی یہ کہ مذہبی لٹریچر میں اکثر یہ کوشش کی گئی ہے کہ مرد کہیں احساس کمتری کا شکار نہ ہونے پائیں۔ انکساری تو دور الٹا ایک سوشل کنٹریکٹ پر دستخط کرنے کے نتیجے میں اس کے آگے ( نعوذ با اللہ ) عورت سے سجدے کروانے کے جواز تراشے جاتے ہیں۔

پھر مریم کو بچے کی ولادت کے مراحل کے دوران تنہا رکھنا عورت کی بے بسی نہیں بلکہ ان مشکل ترین حالات سے بھی تنہا نبرد آزما ہونے کی طاقت اور خود مختاری کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ سب خواتین روتی دھوتی حالات کے آگے سر جھکانے والی محض گھریلوعورتیں نہیں ہیں بلکہ اپنے حالات سے مقابلہ کرتی ہوئی با ہمت خواتین ہیں۔

پھر زلیخا جیسی اپنی محبت کے اظہار میں بے باک عورت کا ذکر۔ سبق تو مرد کے لیے ہے کہ عورت کی اس بے باکی کے ہوتے بھی گناہ کا کوئی جواز نہیں مگر۔ یوسف علیہ سلام کو اپنا پیغمبر ماننے والے مسلم معاشروں میں عملی طور پر ایک کپڑے کے کم یا زیادہ ہونے پرعورت کی بے حرمتی کے لئے ہر دم چوکنا رہنے والے یوسف کے کم اور یزید کے پیروکار زیادہ نظر آتے ہیں۔ ایک مسلم معاشرے کو ایک تنہا عورت کے لئے محفوظ ترین ہونا چاہیے تھا مگر افسوس حقیقیت اس کے برعکس ہے۔ سمجھ نہیں آتا ہم کس کتاب سے جنگل کے قانون والے اتنے غیر مہذب رویے سیکھتے ہیں۔

موسیٰ علیہ سلام کے ہونے والے سسر بوڑھے ہیں توان کی لڑکیاں خود ہی کام پر نکل پڑیں نہ کہ سات پردوں میں چھپ کر کسی آسمانی امداد کی منتظر رہیں۔ پھر موسیٰ اپنی رحم دلی کی وجہ سے ان لڑکیوں کو پہلی نظر میں پسند آ جاتے ہیں تو عقل مند باپ نہ صرف اپنی بیٹی کے انتخاب کو بھانپ لیتا ہے بلکہ ان پر بھروسا بھی کرتا ہے۔ کیونکہ پھر وہ دو لڑکیوں کہ بجائے ایک کو تنہا ہی روانہ کرتا ہے کہ اس اجنبی شخص کو بلا کر لائے۔ یہ ہے اپنی اولاد پراور اپنی اقدار کی تعلیم پر اعتماد۔ کوئی غیرت کے نام پر قتل و غارت نہیں ہوتا۔ مگر مفسرین نے لکھا بھی توکیا کہ وہ شاید سر سے پیر تک پردے میں تھی اور اگر نہیں تو کیوں کہ پردہ تب واجب نہ تھا۔ یعنی ہر کہانی سے گھما پھرا کر ایک ہی سبق۔

منافقت کا ایک دلچسپ رویہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جب کوئی قرآنی واضح آیت آپ کا مقصد پورا کرتی نظر نہ آئے تو وہاں تاریخی پس منظر بہت اہم ہو جاتا ہے وگرنہ قرآن تمام زمانوں کے لیے ہوجاتا ہے۔ بہرحال جس سوچ کو پروان چڑھانے میں صدیوں کا عمل دخل ہو وہاں چند برسوں میں سوچ کی تبدیلی کی توقع رکھنا غیر حقیقت پسندانہ رویہ ہے۔

ملکہ سبا کو ایک کامیاب خاتون حکمران کے طور پر ہضم کرنا بھی ہمارے بہت سے علماء حضرات کے لیے بڑا چیلنج رہا ہے۔ جب قرآن سے اپنی من پسند سوچ کی مذمت نہ ملے تو ضعیف اور سیاق و سباق کے بغیر اخذ کی ہوئی روایات بھی قانون کے درجے پر فائز ہو جاتی ہیں۔ اور عورت کی حکمرانی زوال کا باعث۔ اور مرد کی حکمرانی فل ٹائم عروج اور خیر۔ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مرد حکمرانوں کی تشکیل کردہ حسین اور ہر طرف خیر ہی خیر بھری دنیا کا حال آپ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ویسے ملکہ سبا کو دیکھ کر نیوزی لینڈ کی جیسندا آرڈن کا گمان ہوتا ہے۔ بردبار اور وضع دار لیڈر۔ جنگ و جدل کے خلاف، اپنی عوام کی خیر خواہ اورہمدرد اور اپنی کابینہ کے مشوروں کو لے کر چلنے والی۔ اور بے شک دونوں خواتین کی ریاستوں کی خوشحالی ان کی قائدانہ صلاحیتوں کی بہترین مثال ہیں۔

سورہ مجادلہ میں ایک صحابیہ اپنے جائز حق کہ لیے آواز بلند کرتی نظر آتی ہے اور ان کا اللہ کے ہاں شنوائی پر خلیفہ وقت عمر بھی معترف ہو کر با ادب کھڑا ہوتا ہے۔ کوئی اس خاتون کو خاموشی سے اللہ کی رضا پہ راضی رہنے کا درس دیتا نظر نہیں آتا اور نہ ہی فحش گالیاں دیتا ہے کہ وہ کیوں صدیوں سے رائج قانون بدلنا چاہتی ہے۔

اصولی طور پر تو ایک پیغمبر کی مشرک بیوی کا قتل غیرت کی بہترین مثال ہونا چاہیے اور پیغمبر سے زیادہ غیرت مند کون ہو گا۔ مگر لوط علیہ سلام اور نوح علیہ سلام کی بیویاں نہ صرف اپنے فیصلوں میں آزاد تھیں بلکہ ان کے نتائج کی بھی تنہا ذمے دار، قرآن میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ان کے گھر کی عورتوں کی بے راہ روی پر ان کے باپ، بھائی یا خاوند کا گریبان پکڑا جائے گا۔ مگر ہمارے بہت سے حضرات کو اپنی غض بصر اور آخرت کی فکر سے زیادہ اپنے خالی خولی گریبان پکڑے جانے کی زیادہ فکر رہتی ہے۔ اور وہ کائنات کی تمام عورتوں کو راہ راست پر رکھنے اور پردہ کرانے کا دائمی فریضہ انجام دیتے دیتے دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پردہ کی آیات کے بعد بھول چوک پر عورتوں کے لئے عذاب کی کوئی وعید نہیں کیونکہ بہرحال عورت پر یہ زائد بوجھ اس کے اپنے کسی قصور کی بنا پر نہیں ہے بلکہ اس خطرے کے پیش نظر ڈالا گیا ہے جو اس کے جسم کی عنایت سے تاحیات اس پر مسلط رہتا ہے۔ اب تو پیدائش سے پہلے مادر رحم میں بے پردہ جننین کی زندگی بھی محفوظ نہیں اورنہ ہی مردہ لاش کی۔ مگر کیا کیا جائے کہ مردوں کے بے قابو خیالات اور نگاہوں پر نہ ہی کوئی پہرہ بیٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی خدائی قانون ان پر لاگو ہوتا ہے۔ لہذا عورت ہی سزوار ہونی چاہیے۔ ورنہ وہ حضرات جو پردے کے باوجود عورتوں کو تنگ کرنے سے باز نہ آئیں ان کے لئے قرآن میں بہت سختی کی وعید ہے، اور اگر اس پر عمل درآمد ہو تو پھر تو آدھی آبادی جیل میں ہو۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب معاشرے میں تبدیلی آ رہی ہے مگر یہ تبدیلی کسی اخلاقی یا مذہبی اقدار کی سربلندی کے نتیجے میں نہیں آ رہی بلکہ اس لئے آ رہی ہے کے عورت اپنی ذہانت اورعلمی قابلیت کو منواتے ہوئے معاشی خود مختاری کی طرف تیزی سے گامزن ہے۔ بے شک حقیقی مومن جنگجو مرد آج بھی بہت تعداد میں موجود ہیں، آج بھی وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں، ہر وار اپنے پر سہہ کر آوازیں کسنے والے اس ہجوم کے آگے کھڑے راستہ بنا رہے ہیں جو عورت کی اس ترقی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہی اکثر ’بے غیرت‘ کہلانے والے حقیقی مرد مومن ہیں۔

لہذا عورت کی اعلی تعلیمی قابلیت اور معاشی خود مختاری کو جنسی بے راہ روی اور بے پردگی سے جوڑنے کے بجائے اس سفر میں اس کا ساتھ دینے میں ہی معاشرے کا مفاد ہے۔ عورت چاہے مغرب کی ہو یا مشرق کی مذہب زیادہ تر اس کے استحصال کے لئے استعمال ہوا ہے۔ مگر اب وقت اور زمانہ اس کے ساتھ ہے۔ ابھی خود مختاری کا یہ سفر عورت کے لئے بھی نیا نیا ہے مگر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ عورت ہی ہوتی ہے، ان پڑھ یا پڑھی لکھی، جو ماں کے روپ میں اپنے بچوں کو اچھے برے کی تمیز سے روشناس کراتی ہے لہذا امید ہے کہ وہ لڑکھڑائے گی بھی تو خود ہی جلد یا بدیر اپنے اچھے برے میں تمیز کرنا سیکھ لے گی۔

یہ سفر بہرحال رکتا نظر نہیں آتا کیونکہ اب عورت کو تکریم، حقوق اور عزت کے خالی خولی نعروں سے بہلایا نہیں جا سکتا، وہ دیکھ رہی ہے کہ نفع نقصان کے اصولوں پر چلتی دنیا میں اسے اپنا مقام بنانے کے لئے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہو گا۔ وہ قربانی اور بے لوث محبت کو چھوڑ تو نہیں سکتی مگر اب یہ اس کے لئے ایک انفارمڈ چوائس ہو گی، مجبوری نہیں۔ اور آپ اس کا ساتھ دینے والوں میں ہو یا نہ ہوں مگر اب ’العصر‘ اس کے ساتھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments