کیا آپ کا بچہ بھی پورن دیکھتا ہے؟


اگر آپ کو ایک بار فحش مواد دیکھنے کا شوق پیدا ہو جائے تو یہ رکتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے اور آپ کو اس کی لت لگ جاتی ہے۔ پورن انڈسٹری نے اس فحش مواد کو مختلف کیٹگریز میں تقسیم کر رکھا ہے

سب فحش سائٹس پر 18 + درج ہوتا ہے۔ لیکن ان سائٹس کا وزٹ کرنے والے کیا واقعی ہی 18 + ہوتے ہیں؟

انٹرنیٹ سیفٹی کے مطابق آج کل تقریباً 10 سال کی عمر میں بچوں کے پاس کسی نہ کسی صورت میں موبائل فون موجود ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن کی تحقیق کے مطابق 11 سے 13 برس کے بچے بھی انٹرنیٹ کی فحاشی سے متاثر ہو کر خود بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کا حصہ بن جاتے ہیں، 13 سال کی عمر تک کے بچوں کو کہیں نا کہیں ایسا مواد موصول ہو جاتا ہے یا پھر وہ کسی اور کو بھیجتے ہیں۔

سائبر سیف آئرلینڈ کی ریسرچ کے مطابق 8 سے 13 کی عمر کے 43 فیصد بچے انٹرنیٹ پر غیروں سے بات کرتے ہیں، 8 سال کے 36 فیصد اور 10 سال کے 43 فیصد لڑکے 18 + گیمز کھیلتے ہیں اور ایسا جنسی مواد ان کے سامنے ہوتا ہے جو اس عمر کے لئے مناسب نہیں ہے۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ گیمز، انٹرنیٹ اشتہارات اور ویڈیوز کی مد میں کس قسم کے مواد تک آپ کے بچوں کی رسائی ہے؟
کیا موبائل کے ساتھ انٹرنیٹ کی دستیابی سے آپ کا بچہ اس سب محفوظ ہے؟
فحش مواد دیکھنے سے بچوں پر کون سے مضر صحت اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی سائیکالوجسٹ سدرہ اختر کہتی ہیں جب بچے فحش مواد دیکھتے ہیں تو ان میں پری میچورٹی آ جاتی ہے، وقت سے پہلے بلوغت کہہ لیجیے، جو کہ بعد میں جنسی فرسٹریشن کا باعث بنتا ہے، فحش مواد دیکھنے والے بچوں کا جب سی ٹی سکین یا ایم آر آئی کیا گیا تو دیکھا گیا کہ ان کا برین سائز چھوٹا ہو جاتا ہے، ان کی ساخت اور فزیالوجی دونوں میں تبدیلی واقع ہوتی ہے، بہت سے بچے فحش مواد دیکھ کر مشت زنی کی طرف چلے جاتے ہیں اور بعد میں احساس جرم انھیں نفسیاتی طور پر متاثر کرتا ہے۔ جسم میں کچھ ایسے ہارمونز ہوتے ہیں جو عمر کے ساتھ ہی بہتر رہتے ہیں اگر عمر سے پہلے وہ بننے لگ جائیں تو موڈ پر کافی اثر انداز ہوتے ہیں

سدرہ یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ بات توجہ طلب ہے کہ جو کارٹون بچوں کو دکھائے جا رہے ہیں ان میں کس قسم کی ڈریسنگ کی جاتی ہے۔ جب ماں باپ بچوں کو سلیو لیس لباس پہنائیں گے تو وہ بچی بڑے ہو کر کیسے دوپٹہ لے گی، ہمارے معاشرے میں نہ تو اخلاقی اور نہ ہی نفسیاتی ڈویلپمنٹ پر کام کرتے ہیں

سمیرا راجپوت جو کہ بلاگر بھی ہیں کہتی ہیں کہ ہمیں بچوں کو سیکس ایجوکیشن دینے کی ضرورت نہیں صرف رائٹ اینڈ رانگ ٹچ کی پہچان کرانا ضروری ہے۔

پاکستان میں واٹس ایپ اور فیس بک جو فحش مواد کے گروپس موجود ہیں ان میں 16 سے 24 سال کی عمر کے زیادہ افراد کی دلچسپی خود سے زیادہ عمر والی خواتین میں نظر آتی ہے۔ وجہ ہے انٹرنیٹ پر فحش مواد اور پھر ویسے ہی جسم کی خواہش، فحش مواد بنانے والی سائٹس خاص کو جسم کے خصوصی حصوں کی خوبصورت شیپ بنا کر دیکھنے والوں کے سامنے پیش کرتی ہیں۔

ان دنوں نوجوانوں کی زیادہ دلچسپی غیر فطری طریقہ سے سیکس کرنے میں پائی جاتی ہے اس کی دو وجوہات ہیں ایک تو ہمارے معاشرہ میں شادی سے پہلے اگر لڑکی کنواری نہ ہو تو اس کو شادی کے ساتھ بہت سے مسائل دیکھنے پڑتے ہیں اور بعض اوقات بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے لیکن اپنے بوائے فرینڈ اور اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے غیر فطری طریقہ استعمال کرتے ہیں، دبری اور اورل سیکس کا تناسب اسی وجہ سے پاکستان میں بڑھتا جا رہا ہے۔ دبری سیکس کی دوسری وجہ فحش مواد دکھانے والی ویب گاہیں ہیں جن کی وجہ سے اس غیر فطری عمل کی طرف رجحان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

جب آپ کے بچے اس قسم کے سین اور ویڈیوز دیکھیں تو ان کی خواہش بھی ویسی ہی پیدا ہوگی اور معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوگا، اپنے بچوں کے انٹرنیٹ پر گزرے وقت پر نظر رکھئے کیونکہ ذمہ داری پوری کرنا پچھتانے سے بہتر ہے

یورپ میں بچوں کو جنسی تعلیم بہت چھوٹی کلاسز سے دینی شروع کر دی جاتی ہے جس کی وجہ یہ بنتی ہے کہ بچے اپنی عمر سے کئی گنا زیادہ بڑے ہو جاتے ہیں اور وہ ایسا سب کچھ کرنے کا سوچتے ہیں یا کرتے ہیں جو ان کی عمر کے لئے بہتر نہیں ہوتا۔ لیکن ایک خاص عمر کے بعد بچوں کو بتانا بھی ضروری ہے اگر نہیں بتایا گیا تو ان کو یہ تعلیم فحش ویب گاہیں دیں گی جن کے اثرات انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔

ایک اور مسئلہ ہے کہ سیکس ایجوکیشن دے گا کون؟ کیا کالج کے اساتذہ دیں گے یا یونیورسٹی کے ابتدائی دور میں ایسا کوئی مضمون پڑھایا جائے گا؟ یہاں پر مسئلہ دوسرا پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہے استاد و طالبعلم کا جسمانی تعلق، گو کہ ایسی تعلیم دینے والے اساتذہ کی ذمہ داری بھاری ہوتی ہے لیکن کہیں کہیں طلبا بھی اساتذہ میں اتنی دلچسپی لیتے ہیں کہ بات جنسی عمل تک پہنچ جاتی ہے۔ دیگر جگہوں پر آپ نے سن رکھا ہے کہ اساتذہ کی جانب سے طلبا خاص کر لڑکیوں کو جنسی ہراسانی کے لئے بلایا گیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے حکومتی سطح پر ایک پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ ان مسائل کا حل تلاش کیا جائے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جائے

پاکستان میں نجانے کتنے فیصد ایسے خاندان ہیں جن کے بچوں کو تو انٹرنیٹ کی غلط استعمال کی زیادہ اور صحیح استعمال کی بہت کم سوجھ بوجھ ہے جبکہ ان کے والدین کو تو اس حساس معاملے کی سرے سے سمجھ ہی نہیں۔

وقار حیدر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار حیدر

وقارحیدر سما نیوز، اسلام آباد میں اسائمنٹ ایڈیٹر کے فرائض ادا کر رہے ہیں

waqar-haider has 57 posts and counting.See all posts by waqar-haider

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments