وقت بے درد مسیحا ہے


میں اس بات پر بالکل بھی راضی نہیں تھا کہ اس سے ملوں کیوں کہ اس وقت میں بالکل بھی نہیں چاہتا تھا کہ میری بیٹی اس سے شادی کرے۔ میرا خیال تھا کہ ایک دفعہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرلے پھر عملی زندگی میں کسی عملی قسم کے آدمی کوپسند کرکے اس سے شادی کرے۔ یہ تو مجھے اندازہ تھا کہ وہ کسی بھی ایسے شخص سے شادی نہیں کرے گی جو صرف میری پسند کا ہو۔ ارینج میرج کے نام سے ہی اسے چڑ تھی لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی شادی خوابوں کی دنیا میں رہنے والے کسی ایسے آدمی سے ہو جو دنیا کے اصل داؤ پیچ سے واقف نہ ہو۔

آج کل کے بچے شادی کے ادارے کے بارے میں شکوک میں مبتلا ہیں اورارینج قسم کی شادی کو توکسی عذاب سے کم نہیں سمجھتے ہیں۔ میری بھی ارینج شادی ہی ہوئی تھی۔ حنا میری زندگی میں بہار کی طرح آئی اور بہار کی طرح ہی چھائی رہی تھی، کرن میری بیٹی اس کی ہی نشانی تھی۔ حنا کی زندگی میں میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس سے اتنی شدید محبت کرتا ہوں کہ اس کے جانے کے بعد کوئی بھی لڑکی مجھے جچے گی ہی نہیں۔

میری بہنیں، ماں اورباپ سب ہی مجھے کئی سالوں تک سمجھاتے رہے کہ کرن کے لیے بھی بہتر ہے کہ میں دوسری شادی کرلوں۔ میں تھوڑا بہت قائل بھی ہوجاتا تھا مگر نہ جانے کیوں حنا کی جگہ کسی اورکودینے کے لیے میرا دل آمادہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ شادی سے پہلے میں نے حنا کو دیکھا تک نہیں تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ابو، امی اور بہنوں کی پسند اچھی ہی پسند ہوگی۔ یہی بات سچ بھی ثابت ہوئی۔ شادی کے تھوڑے دنوں بعد ہی سے میں اس کا گرویدہ ہوگیا تھا۔ تھوڑی سی زندگی جو ہم نے ساتھ گزاری اس کی شاندار یادیں ایسی تھیں کہ وہ میرے جسم و جاں اور روح کا حصہ بن کر رہ گئی تھی۔

شادی کے فوراً بعد میں اسے لے کرنیویارک آ گیا تھا۔ اس زمانے میں میں نیویارک کے ایک علاقے کوئنز میں ایک کشادہ اپارٹمنٹ میں رہ رہا تھا۔ زندگی نے بے شمار کامیابیاں میری جھولی میں ڈال دی تھیں۔ میرا اچھا کاروبار تھا، اچھی آمدنی تھی، پاکستان میں کوئی خاص ذمہ داری نہیں تھی، امریکا میں مالی طور پر آسودہ لوگوں سے میری دوستی تھی۔ زندگی جتنی بھی حسین ہو سکتی تھی اتنی ہی حسین تھی۔

شروع کے تین سال تو نہ جانے کیسے گزرگئے۔ میں نے اسے ٹوٹ کرچاہا اور وہ بھی کسی دیوتا کی طرح میری پرستش کرتی رہی، میں اس کا عاشق تھا اور وہ میری۔ ہم دونوں نے پورے امریکا کوایک ساحل سے دوسرے ساحل تک سڑکوں سڑکوں گھوما اور جس شہر میں جو بھی قابل ذکر چیز تھی اسے دیکھتے گئے۔ حنا کو تاریخ اور عجائب گھروں سے بہت دلچسپی تھی۔ میں جب کام پر ہوتا تووہ دنیا اورامریکی تاریخ کو کھنگالنے میں اپنا وقت گزارتی تھی۔ میں کئی سالوں سے امریکا میں تھا مگر مجھے امریکی تاریخ سے کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی تھی۔

مجھے نہیں پتا تھا کہ امریکا کے قدیمی لوگ کہاں سے آئے تھے۔ وہ کیسے رہتے تھے، ان کا کیا مذہب تھا، چیف شیاٹل کون تھا اور تھینکس گونگ کی چھٹیاں کیوں ہوتی ہیں۔ امریکا میں گورے کیسے پہنچے تھے، کالوں کوکس طرح غلام بنا کر لایا گیا تھا او رکس طرح سے انہیں غلام بنا کر رکھا گیا تھا۔ حنا کی وجہ سے مجھے امریکی تاریخ کے ان گنت عجیب وغریب واقعات کا پتا لگا۔ اسے امریکا اور دنیا کی تاریخ پراچھی دسترس حاصل تھی۔

حنا کی ہی وجہ سے ہم دونوں ایک بار دس دنوں کے لیے واشنگٹن گئے، جہاں کے پانچ بڑے میوزیم میں ہم دونوں نے دل بھر کے دن گزارے تھے۔ امریکی تاریخ کے عجائب گھروں کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ امریکی اپنی برائیوں کونہیں چھپاتے ہیں۔ امریکی جنگ آزادی ہو کہ جنگ عظیم، ویت نام کی جنگ ہو یا امریکا کے اندر کی خانہ جنگی، وہ سب کچھ تاریخ کا حصہ تھی اوراسے اس کی اصل شکل میں دکھایا اور بتایا گیا ہے۔ اچھی یا بری تاریخ سامنے رکھ دی جاتی ہے۔ میں سوچتا تھا کہ وہ قومیں جو اپنی کمزوریوں کو چھپا کر رکھتی ہیں اس کے بارے میں بات ہی نہیں کرنا چاہتی ہیں، وہ دنیا میں کیسے رہ سکتی ہیں۔ حنا کی تاریخ میں دلچسپی کی وجہ سے میں بھی ایک اچھا خاصا تاریخ داں بن گیا اورمجھے بھی تاریخ اور تاریخی واقعات سے دلچسپی ہوگئی تھی۔

شادی کے چوتھے سال کرن روشنی کی طرح ہماری زندگیوں میں جلوہ گر ہوئی۔ دیکھتے دیکھتے وہ چار سال کی ہوگئی تھی، ہم دونوں کسی دوسرے بچے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ یکایک حنا کی طبیعت خراب ہوئی اور پتا لگا کہ حناکو خون کا سرطان ہوگیا ہے۔

تین سال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تین سال کس طرح سے گزرے اسے بیان کرنا بھی مشکل ہے۔ ایک چھوٹی سی بیٹی، ایک اس کی ماں اور یہی میری محبوب بیوی جو بڑی تیزی سے موت کی جانب سفر کررہی تھی اورایک اکیلا میں۔ بہت دنوں تک تو میں نے کسی کوبتایا ہی نہیں کہ حنا بیمار ہے۔ اس کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ تیزی سے زندگی کی بازی ہار رہی ہے کیوں کہ میں خود بھی ذہنی طور پر یہ ماننے کو تیار نہیں تھا۔ مجھے میڈیکل سائنس پر یقین تھا کہ ڈاکٹر اسے بچالیں گے۔

دوائیں، ریڈیوتھریپی، ٹرانسپلانٹ سرجری، کچھ نہ کچھ ہو جائے گا اور میری حنا بچ جائے گی۔ حالانکہ ڈاکٹروں نے صاف صاف بتادیا تھا کہ آج کل کے علاج کے ذریعے زندگی تھوڑی طویل توہو جائے گی مگرمکمل طور پر صحت یابی ممکن نہیں ہوگی۔ مجھے یاد ہے کہ نیویارک کے کینسر ہسپتال کی ڈاکٹر نے مجھے تفصیل سے سب کچھ سمجھایا مگرمیں اسے تسلیم کرنے کوتیار نہیں تھا۔

حنا نے بڑی بہادری سے اپنی بیماری کا مقابلہ کیا۔ وہ ایک ایک دن گن گن کر مری اورہرایک دن اس نے مجھے اور کرن کو چاہا۔ آخر کے دنوں میں میں اور کرن اس کے ساتھ ساتھ رہے اورایک دن وہ میرا اور کرن کا ہاتھ پکڑے پکڑے چلی گئی تھی۔ ہمیشہ کے لیے انجانے سفر پر۔

میری زندگی کرن کی زندگی کے چاروں طرف گھومتی رہی تھی، حقیقت تو یہ ہے کہ اس چھوٹی سی بچی نے میری زندگی پر راج کیا تھا۔ ہر ایک بات اس کی مانی تھی میں نے اور شاید وہی تھی جس کی وجہ سے کبھی بھی کوئی اور عورت میری زندگی میں نہیں آسکی یا میں نے اسے آنے ہی نہیں دیا۔

کرن پڑھتی رہی، اسکول سے نکلی، کالج چلی گئی اورکالج سے اسے نیویارک یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے داخلہ مل گیا۔ کرن میں اس طرح کی تعلیم کے جراثیم حنا سے آئے تھے۔ محسن سے اس کی ملاقات یونیورسٹی میں ہی ہوئی تھی۔ وہ اس سے دو سال سینئر تھا اوراسی کی طرح سے انتھروپولوجی میں پی ایچ ڈی کر رہا تھا۔ مجھے ان دونوں کی دوستی پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن شادی جیسے فیصلے پر یقینی طور پر بہت سارے اعتراضات تھے۔ میرے اعتراضات کے باوجود میں دیکھ رہا تھا کہ کرن اورمحسن کی دوستی محبت میں بدل گئی ہے اورآخر کار میں اس بات پر تیار ہوگیا تھا کہ محسن سے ملاقات کروں۔

محسن سے پہلی ملاقات خوشگوار تھی۔ وہ دبلا پتلا اورلانبے قد کا مالک دلچسپ قسم بندہ تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی جوٹھوری پر تھوڑی زیادہ بڑھی ہوئی تھی، گورے چٹے رنگ پر سنہری مائل سے بال اسے خوب جچتے تھے۔ بھری بھری مونچھیں تھیں جنہوں نے اس کے ہونٹوں کو چھپایا ہوا تھا۔ اس نے جینز کے اوپر کھدر کا کرتا پہنا ہوا تھا اور گلے میں سرخ و سیاہ رنگ کا مفلر تھا۔ مفلر کے سرخ رنگ کا عکس اس کے چہرے پر پڑرہا تھا جس کی وجہ سے اس کی شکل اوربھی زیادہ پرکشش ہوگئی تھی۔

وہ مجھے اچھا لگا تھا۔ اس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ اس کے والدین نیوجرسی میں رہ رہے تھے۔ اس کے ماں اورباپ دونوں ہی ڈاکٹر تھے اوربہت پہلے ہندوستان سے امریکا آکرآباد ہوگئے تھے۔ وہ پیدائشی امریکی تھا۔ مجھے حیرت تھی کہ امریکا میں پڑھنے پڑھانے کے باوجود اس کی اردو بہت شستہ تھی۔ وہ حیدرآبادی انداز میں اردوبول رہا تھا جومیرے کانوں کوبہت بھلا لگا۔

”تمہاری اردوبہت اچھی ہے۔“ میں نے اس سے کہا تھا۔

”جی ہم لوگ گھر میں ہندی ہی بولتے ہیں۔ میرے ابا، اماں اورخاص طور پر میری دادی، وہ ہروقت ہی اردوہندی میں بات کرتی ہیں اور ان کی ہی وجہ سے میں کئی دفعہ حیدرآباد بھی گیا ہوں۔ جب میں چھوٹا تھا تو میں ان کے ساتھ جاتا تھا مگر اب تو وہ بہت بوڑھی ہوگئی ہیں اورمیں اکیلا ہی جاتا ہوں اور ان کے لیے کتابیں رسالے لے کرآتا ہوں۔“ وہ ہنس دیا تھا۔ ”جب بھی واپس آتا ہوں تومجھے سونگھ سونگھ کر کہتی ہیں کہ تم سے حیدرآباد کی خوشبوآتی ہے۔“ یہ کہہ کر وہ دوبارہ زور سے ہنسا تھا۔

محسن کی باتیں بڑی دلچسپ تھیں۔ وہ سوشلسٹ تھا، اسے امریکا سے شکایت تھی، اسے سرمایہ داری نظام سے نفرت تھی، اس کا خیال تھا کہ منظم اور پرتشدد مذہب سارے مسائل کی جڑ ہے۔ دنیا بھر سے غلامی کا نظام ختم کرنا ہوگا۔ وہ کارل مارکس کا مداح تھا، کارپوریٹ سیکٹر، ملٹی نیشنل اوربینکنگ کے بارے میں اس کی معلومات بہت زیادہ تھیں۔ دنیا کی سیاست میں امریکا اور یورپی ممالک کے کردار کے بارے میں اس کے خیالات، بہت واضح تھے اورایشیاء افریقہ کے ممالک میں سیاستدانوں کی نا اہلی کے سلسلے میں اس کا ایک خاص نظریہ تھا۔ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ یونیورسٹی میں لڑکے لڑکیاں اس کے چاروں طرف جمع رہتے ہوں گے۔ اس میں ایک خاص قسم کی کشش تھی، ظالمانہ کشش۔ کرن کا متاثر ہونا میری سمجھ میں آ گیا تھا۔

محسن سے اور بھی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہ میرے گھر آتا جاتا رہا اور کئی دفعہ اس کے ساتھ مختلف ریسٹورانٹ میں اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کا موقع ملا۔ ہر بار اس نے مجھے متاثرکیا۔ ہربار وہ اپنے خاندان کی بات ضرور کرتا۔ ہر بار اپنی دادی کا کوئی نہ کوئی قصہ ضرور سناتا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ اس کی زندگی پر اس کی دادی کافی اثرانداز ہیں۔ اسے ہندوستان و پاکستان کے سماجی حالات کا خوب پتا تھا اور اس کا خیال تھا کہ یہ دونوں ملک نام کے آزاد ہیں کیوں کہ ان ملکوں کے عوام ابھی تک غلام ہیں اور یہاں ان ملکوں کے بڑے لوگوں کی ہی حکومت ہے، میری دادی کہتی ہیں کہ ہندوستان کو جو آزادی انگریزوں سے ملی ہے وہ ہندوستان کے عوام کو نہیں ملی ہے۔

اس کا خیال بھی یہی تھا اور اس کے خیالوں کی طرح اس کے خواب بھی تھے، امریکا کے بارے میں، یورپ کے بارے میں، ساری دنیا کے بارے میں۔ نوجوان ایسے ہی ہونے چاہئیں، خواب دیکھنے والے، جو نوجوان خواب نہیں دیکھتے ہیں وہ ہمیشہ بچپنے میں ہی زندگی گزاردیتے ہیں۔ میں کبھی کبھار سوچتا تھا کہ محسن عام پاکستانی ہندوستانی امریکن بچوں سے مختلف کیوں ہے۔ اس کا انداز فکر جداگانہ تھا وہ کچھ مختلف کرنا چاہتا تھا اورمختلف ہی کر رہا تھا۔

عام طور پر پاکستانی بچے کمپیوٹر، میڈیسن، انجینئرنگ پڑھتے ہیں، وہ اینتھروپولوجی پڑھ رہا تھا۔ بہت سارے پاکستانی بچے سارے امریکا بھر کو مسلمان کرنا چاہتے ہیں، وہ ساری دنیا میں انصاف چاہتا تھا۔ کچھ پاکستانی بچے پاکستان جا کر جہاد میں شامل ہوکر شہید ہونا چاہتے ہیں وہ جہاد کو سعودی شہنشاہوں کا فساد کہتا تھا۔

ایک دن اس نے ہم دونوں کواپنے گھر مدعو کر لیا۔ مجھے پتا تھا کہ ایک دن مجھے اس کے امی ابو سے ملنا ہوگا۔ ایک دن یہ رشتہ داری ہو جائے گی کیوں کہ کرن اورمحسن ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے تھے۔ میرا خیال تھا کہ میرے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود بھی وہ دونوں ساتھ ہی رہیں گے، اسی لیے میں خود بھی چاہ رہا تھا کہ محسن کے گھر والوں سے مل لوں۔ ایک دن کرن نے تو چلے ہی جانا تھا۔ یہی دنیا کا دستورہے، وقت کس کے لیے ٹھہرا ہے۔ میرے لیے بھی نہیں ٹھہرے گا مناسب یہی تھا کہ میں اس کے خاندان کے لوگوں سے تعلقات قائم کرلوں۔

محسن کے امی ابو دونوں ہی اس کی طرح خوشگوار لوگ تھے۔ دلچسپ اور گرم جوش۔ مجھے شروع سے ہی اندازہ ہوگیا کہ میری خوب جمے گی۔ تھوڑی دیر ان سے بات چیت میں گزری ہی تھی کہ محسن کی دادی اپنے واکر کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی محسن کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔

”یہ ہیں میری دادی، میری باغی دادی جنہوں نے مجھے ہندی اور اردو سکھائی ہے۔“

میں نے خوبصورت بوڑھی عورتیں کم ہی دیکھی ہیں۔ ان کی عمر نوے سال سے زائد تھی اور وہ خود واکر کے سہارے چلتی ہوئی آئی تھیں۔ محسن جیسا ہی گورا رنگ، چوڑی پیشانی اور ستواں ناک کے ساتھ پتلے پتلے ہونٹ۔ ابھی بھی وہ ہنستی تھیں تو ان کے دونوں گالوں پر گڑھے نمودار ہو جاتے تھے۔ وہ حیدرآبادی لہجے میں صاف اردوبول رہی تھیں۔ ان کی پوری شخصیت میں ایک خاص قسم کا حسن تھا، ایک ٹھہراؤ وہ انتہائی جاذب نظر شخصیت کی مالک تھیں۔

”مجھے لگتا ہے کہ محسن کے اندر آپ کا باغی بولتا ہے۔“ میں نے باتوں باتوں میں ان سے کہا تھا۔

وہ دھیرے سے مسکرائیں اوربولیں ”نہیں میں تو صرف ایک آواز ہوں باغی تو محسن کے دادا تھے جنہوں نے نہ صرف بغاوت کی بلکہ بغاوت کی آگ میں جل بھی گئے۔“ یہ کہہ کر وہ رکیں۔ کچھ سوچتی رہیں پھر بولیں ”باغی تو مخدوم اور اس کے ساتھ تھے، میں تمہیں باغی مخدوم کے کچھ شعر سناتی ہوں، جس نے ہم سب کی زندگیوں میں بغاوت گھول دی تھی۔“ پھر وہ آہستہ آہستہ بولی تھیں :

برق بن کر بت ماضی کو گرانے دے مجھے
رسم کہنہ کو نہ خاک ملانے دے مجھے
تفرقے مذہب و ملت کے مٹانے دے مجھے
خواب فردا کو بس اب حال بنانے دے مجھے
آگ ہوں آگ ہوں ہاں ایک دہکتی ہوئی آگ
آگ ہوں آگ میں اب آگ لگانے دے مجھے

اسی آگ میں محسن کے دادا جل گئے اور وہی آنچ محسن کے چاروں طرف نظر آتی ہے مجھے انہوں نے بڑے غرور سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ہم سب ہنس دیے مگر میں ان کے حافظے اور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا، مجھے اندازہ ہوگیا کہ اس دبلی پتلی بوڑھی عورت کا اپنا ایک کیریکٹر ہے، ایک شخصیت ہے، اپنا ایک وجود اور اس وجود کے اندر سوچنے سمجھے والا ایک دماغ۔ انہوں نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے اوراپنا اور اپنے شوہر کا سب کچھ اپنے پوتے کو دینے کی کوشش میں لگی رہی ہیں۔ میں سمجھ گیا تھا کہ محسن کی سوچ مختلف کیوں ہے۔ وہ دوسری ہندوستانی پاکستانی بچوں سے سے جدا کیوں ہے۔

کھانے کی میز پر بات بڑھ گئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اورمحسن کے دادا حیدرآباد میں تلنگانہ کی انقلابی تحریک کے دوران ملے تھے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ حیدرآباد کے آس پاس کوئی جگہ ہے جہاں پاکستان ہندوستان بننے سے پہلے کوئی انقلابی مہم چلی تھی جہاں کسان جاگے تھے، جو دھرتی کا مالک بننے کا خواب دیکھتے ہوئے زمینوں پر قابض ہوگئے تھے، جنہوں نے نوابوں، راجاؤں، جاگیرداروں، زمینداروں کے خلاف بغاوت کی تھی۔

پاکستان میں تو ہم لوگوں کو اس بارے میں تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا اور نہ ہی ہمیں کچھ بتایا جاتا ہے۔ ہندوؤں اورہندوستان سے نفرت بھری تاریخ پڑھائی جاتی ہے، ایسے ہی جیسے ہندوستان میں ہر طرف مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ تلنگانہ میں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں نے مل کر زمینداروں اورجاگیرداروں کے خلاف بغاوت کی تھی۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ نظام دکن، ان کے سپاہیوں اور خاکسار تحریک کے کارکنوں نے غریب کسانوں کے گاؤں جلائے تھے، ان کی عورتوں کی آبروریزی کی تھی، ان کا قتل عام کیا تھا، تاریخ کی ان بے درد حقیقتوں کا مجھے کچھ نہیں پتا تھا۔

مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ مخدوم محی الدین نام کے اس شاعر کے بارے میں نظام دکن کا حکم تھا کہ اسے ماردیا جائے۔ ان تمام باغیوں کو تلنگا کہا جاتا تھا، مجھے یاد آیا تھا کہ کراچی میں یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران انقلابی قسم کے طالب علموں کو جو چی گویرا کے ٹی شرٹ پہنتے اور ماؤ کیپ سر پر لگاتے، تلنگا ہی کہا جاتا تھا۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ اس بغاوت کے دوران چار ہزار سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا گیا تھا۔

مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ تلنگانہ کی بغاوت میں حصہ لینے والا کوئی حسن ناصر بھی تھا جسے بعد میں پاکستان میں ایوب خان کے دور حکومت میں پھانسی لگادی گئی تھی جس کی لاش کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا، انہیں پاکستان کے بارے میں وہاں کے سیاست کے بارے میں اور وہاں کے مزدوروں کسانوں سے ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں مجھ سے زیادہ بہت کچھ پتا تھا۔ ان کی دلچسپی مزدور، کسان اور انقلاب میں برقرار رہی تھی۔ ”

انہوں نے بتایا کہ وہ بھی کسانوں کے ساتھ جدوجہد میں شامل تھیں، جہاں ان کے والد کسانوں کی مدد کر رہے تھے۔ سترہ سترہ دیہاتوں کو ملا کرایک کمیون بنایا گیا تھا جہاں زمینیں کسانوں کودیدی گئی تھیں اورزمینداروں سے بغاوت کا اعلان کیا گیا تھا۔ اسی کمیون میں ان کی ملاقات محسن کے دادا محسن شاہ سے ہوئی اوران دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا تھا۔ وہ محسن ہی کے طرح کے تھے، شعلہ بیان اور ہرپل بے چین۔ کسی بڑے کام کو کرنے کے لیے تیار۔ انہوں نے اپنی تقریروں سے آگ لگادی تھی۔ وہ مخدوم اور راج بہاد کے ساتھ ساتھ ہر جگہ پہنچے ہوتے تھے۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئیں اور دور دیکھتے ہوئے جیسے اپنے ذہن کے پردے پر کچھ تلاش کررہی ہوں۔

کیا تلنگانہ کے کسانوں کو حق ملا؟ میں نے نہ جانے کیوں جھجکتے ہوئے پوچھا۔
ان کے چہرے پر جیسے روشنی آئی اورآنکھوں میں اداسی اترتی چلی گئی۔

باغیوں نے اکتالیس ہزار مربع کلومیٹر کے علاقے میں حکومت قائم کرلی تھی۔ کسانوں کو 100 ایکڑ سوکھی زمین اور 10 ایکڑ بھیگی زمین بانٹی گئی تھی، دو ہزار گاؤں میں سلیمان، مخدوم، حسن ناصر، پھلتسام، دھرما اور راجہ راؤ نے کسانوں کی حکومت قائم کردی تھی مگر آصف جاہ کی بادشاہت، انگریزکی حکومت اور خاکساروں نے پانچ سال کی مسلسل جنگ کے بعد سب کچھ ختم کر دیا۔ خواب بکھرگئے، گھر اجڑگئے، غریب غریب ہی رہا شاید دنیا غریبوں کے لیے ہے ہی نہیں، ان کی آزادی ان سے چھین لی گئی۔

چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ کہنے لگیں اور محسن تو جیسے ٹوٹ گئے، ساری زندگی جدوجہد کی، ہم سب کے لیے جیئے مگر تلنگانہ ان کی زندگی سے نہیں نکل سکا۔ ان کے ہونٹوں پر ایک سوگوار سی مسکراہٹ جیسے رقص کررہی تھی۔

میری دوستی محسن کے ابو امی سے زیادہ محسن کی دادی سے ہوگئی۔ شاید ہم دونوں کا درد ایک ہی تھا۔ عمروں کا طویل فرق تھا مگرہم دونوں کی کہانی کا آخری پنکھ ایک سا ہی تھا۔ ہم دونوں نے ہی اپنی اپنی محبتوں کو کھودیا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے انہیں حنا کی باتیں سن کر مزا آتا تھا، مجھے ان کے منہ سے محسن کے تذکرے میں بھری بھری محبت کی خوشبوآئی تھی میں ان کے سامنے حنا کی باتیں کرتا، اس کے قصے سناتا، بیتے دنوں کی بے شمار باتیں دہراتا۔ کرن محسن اس کے ابو امی میری اور ان کی باتوں کو سنتے۔ شام دبے پاؤں رات میں ڈھل جاتی، کسی شام کو اٹھنے سے پہلے انہوں نے اپنی دلکش آواز میں مخدوم کی یہ نظم سنائی تھی۔ وقت کے بارے میں جوبے درد مسیحا ہے۔

درد کی رات ہے
چپ چاپ گزرجانے دو
درد کومرہم نہ بناؤ
دل کو آواز نہ دو
نور سحر کونہ جگاؤ
زخم سوتے ہیں تو سو رہنے دو
زخم کے ماتھے سے امرت بھری انگلیاں نہ ہٹاؤ
دل کے بے آرام، پھپولوں کو سکوں ملتا ہے
وقت بے درد مسیحا ہے
یہ اک حکم جگادیتا جلادیتا ہے
قبر سے اٹھ کے نکل آئی ملاقات کی شام
ہلکا ہلکا سا وہ اڑتا ہوا گالوں کا گلال
بھینی بھینی سی وہ خوشبو کسی پیراہن کی
شب کے سناٹے کے جادو نے کمندیں پھینکیں
گوشہ دل کے کسی چاک میں لپٹی ہوئی
حسرت نے جو انگڑائی لی
خواہشیں رینگتی پھرتی ہیں کمیں گاہوں میں
کوئی یوسف نہ زلیخا
یہ وہ محمل ہے
یہ رات
درد کی کہکشاں ہے کہ صلیبوں کی بارات
رات اک ساقی ہے قفس کی مانند گزرتی ہے
گزرجانے دو
وقت
اور مشفق و محسن قاتل
رات کی نبض میں نشتر رکھ دے
رات کا خون ہے
بہہ جاتا ہے
بہہ جانے دو
وہ شام وہ رات ایک یادگار شام اور رات کی طرح گزری تھی جس نے میرے دماغ و دل کو مسحور کر دیا تھا۔

میرا محسن کے گھر آنا جانا بڑھ گیا، محسن کی دادی نے مجھ میں دوبارہ سے تاریخ میں دلچسپی کا پودا باریاب کر دیا تھا۔ وہ ہندوستان کی آزآدی کے قصے سناتیں اورخاص طور پر دکن کی حکومت، دکن کی سیاست اور تلنگانہ میں کامیابی کے بعد ناکامی کے قصے توجیسے ان کی ذات کا حصہ تھے۔

ایک دن انہوں نے مجھے کرشن چندر کے ناول ”جب کھیت جاگے“ کے مختلف صفحات پڑھ کر سنائے۔ مجھے اندازہ بھی نہیں تھا کہ تلنگانہ کے باغیوں نے کس طرح سے انقلاب برپا کیا تھا اور کس طرح سے تلنگانہ کی صورت بدل دی تھی اور کس طرح سے نظام اورہندوستان کی حکومتوں نے ان کے خوابوں کوچکنا چور کر دیا تھا۔ اگست کی آزادی سے پہلے ہی آزاد ہونے والوں کو دنیا کی قید سے ہی جبری آزادی دیدی گئی تھی۔ میں جب بھی ان سے بات کرتا تو ایسا لگتا جیسے تلنگانہ کے باغی بیدار ہورہے ہیں، جیسے کھیت دوبارہ جاگ رہے ہوں جیسے دور کسی گاؤں میں کمیون بن رہے ہوں اور کسان اپنے ہاتھوں میں درانتی اٹھائے انقلاب کا جشن منارہے ہیں۔ ان کی باتیں ایسی ہی ہوتی تھیں۔ خوابوں کی باتیں جو دل میں شوق جذبہ لگن پیدا کرتی ہیں۔ امید پیدا کرتی ہیں کہ وقت بدل جائے گا کیوں کہ وقت کو تو بدلنا ہی ہوتا ہے۔

ایک دن باتوں باتوں میں، میں نے ان سے پوچھا تھا کہ انقلاب دیرپا کیوں نہیں ہوسکا۔ کیوں جب مظلوموں نے حکومت سنبھالی تھی تو ان کے خواب بکھر گئے۔ آزادی سے پہلے تلنگانہ میں اور آزادی کے بعد ہندوستان میں۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت میں نہ کسان آزاد ہے، نہ مزدور، نہ عورت، نہ سماج۔

پہلی دفعہ ان کے حسین دلکش چہرے کے پیچھے ایک دوسرا چہرا نظر آیا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ نظر چرارہی ہیں۔ وہ تھوڑی دیر سوچتی رہیں اورایک اداس مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پرابھر آئی تھی۔ ”تلنگانہ کے باغی تو بے غرض محروم کسان تھے، انہیں نظام کی بادشاہت اورانگریز کی سرکار نے ختم کر دیا۔ پاکستان ہندوستان کے باغی تو باغی ہی نہیں تھے، وہ تو خودغرض موقع پرستوں کے سیاسی گھرانے تھے، بغاوت، سیاست اور مصلحت ساتھ ساتھ نہیں چلتی ہے، ان کی مصلحتوں نے ان کا گلا گھونٹ دیا، اپنے آپ کو خود ہی ختم کر دیا ان لوگوں نے!

تاریخ کا یہ سبق میں نے کہیں نہیں پڑھا تھا۔ ”

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments