لاہور گرامر کی بچیاں اور مجید امجد کی نظم


”سنو! یہ جو ہم نے Straight As والی لڑکیاں اپنے سکول کے A لیول میں لی ہیں یہ تو ہمارے سکول کا نام روشن کریں گی اور یہ جو درمیانے قسم کے رزلٹ لے کر لڑکیاں آئی ہیں یہ بھی ٹھیک ہیں۔ اب آتے ہیں تیسرے نمبر کی ان لڑکیوں پہ جو C، D، Eگریڈ لے کر آئی ہیں اور ان کو پڑھنے سے کوئی خاص شغف نہیں۔ ان کی فیسوں سے ہمارے سٹاف کی تنخواہیں نکلتی ہیں۔ لہٰذا وہ لڑکیاں اگر سکول bunk کریں تو آپ نے انھیں روکنا نہیں ہے“ ۔ یہ وہ ہدایات تھیں بلکہ احکامات تھے جو لاہور گرامر سکول کی ایک مشہور برانچ کی ایک محترم Coordinator نے اپنے سٹاف کو جاری کیے۔

ہم شکستہ دل اور شکستہ دم تو ہو ہی چکے تھے اب شکستہ اخلاق بھی ہوچکے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کس کس بات کا رونا روئیں۔ ہم نے تو گلوں کو خس و خاشاک پہ سوتے دیکھا۔ جگر کے زخموں کو نمکین آنسوؤں سے دھوتے ہوئے دیکھا۔ ان دنوں لاہور گرامر سکول کی بچیوں کے مرد اساتذہ کی طرف سے جنسی ہراسانی کے قصے زبان زد عام ہیں۔ افسوس صد افسوس کہ ان بدکردار اساتذہ کی غلیظ حرکتیں پورے سٹاف اور پرنسپل تک کو پتہ تھیں لیکن سب خاموش رہے اور اس بات کو راز رکھا گیا تاکہ سکول کی بدنامی نہ ہو۔

بچیاں گاہے گاہے اپنی ایڈمنسٹریٹر ماہرہ عمیر جو معروف ٹی۔ وی اداکار عمیر رانا کی بیوی ہیں کے پاس اپنی شکایات لے کر گئیں تو انھوں نے جواباً کہا کہ تم لوگ کپڑے ایسے پہنتی ہو کہ مرد تمھاری طرف مائل ہوتے ہیں۔ ویسے بھی بہت سی بچیوں نے ان کے غیر مہذب اور بد اخلاق رویے کی شکایات کی ہیں۔ تو صاحب! سوال اٹھتا ہے کہ آل گرلز سکول میں مرد ٹیچر رکھتے ہی کیوں ہیں۔ اگر مرد اساتذہ بہت ضروری ہیں تو پھر ان کو نوکری دینے سے پہلے ان کے کردار کی ضمانت تو لینی چاہیے تھی ناں۔

سب سے پہلے تو اصولاً لڑکیوں کے سکولوں میں مرد اساتذہ ہونے ہی نہیں چاہئیں دوسری طرف اس طرح بہت سی ضرورت مند خواتین یوں باعزت نوکریاں مہیا ہوں گی۔ میری اپنی سکول کی بنیادی تعلیم لاہور کے ایک تاریخی اور نامور سکول سے ہوئی جو مخلوط تھا۔ لیکن ہمارے سکول میں صرف ایک ڈرائنگ اور PT کے ٹیچر مرد تھے جو ہفتے میں تین بار آیا کرتے تھے۔ بقیہ پورا سٹاف خواتین کا ہی تھا۔ مجال ہے کسی لڑکے نے اپنی ٹیچر کو جواب دیا ہو یا آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف دیکھا ہو۔

عجب عزت و احترام کا ماحول تھا۔ چھٹی جماعت سے ہمارے سکول کے کیمپس فرق ہو جاتے تھے۔ ایک بلاک لڑکیوں کا تھا اور ایک لڑکوں کا۔ ویلکم اور فیئر ویل پارٹیز بھی علیحدہ علیحدہ ہوا کرتی تھیں۔ اس میں بھی سادگی کا عنصر لازمی تھا۔ صرف سالانہ تقسیم انعامات کی تقریب مخلوط ہوا کرتی تھی جس میں والدین کی شرکت لازمی تھی۔ لاہور گرامر اور ایسے بہت سے دوسرے نجی ادارے ایک انڈسٹری نہیں بلکہ مافیا بن چکے ہیں۔ اس کی مثال یوں دیکھیے کہ کلاس تھری یا فور کی فیس ایک بچی کی 31 ہزار ماہانہ ہے۔ اب اگر 30 بچیاں بھی ایک کلاس میں ہوں تو ماہانہ 9 لاکھ 30 ہزار صر ف ایک سیکشن کا بنتا ہے۔ اب خود سوچ لیجیے کہ کتنی کمائی ہے ان پرائیویٹ سکولوں کی۔ 1 A 1 برانچ کی بچیوں کا کہنا ہے کہ وہ مس ندرت علیم کے پاس اپنی شکایات درج کروانے گئیں لیکن ان کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔ انھوں نے کہا کہ یہ معاملہ بہت سال پہلے ہوا تھا لیکن چوں کہ وہ استاد بہت نوجوان تھا اور اس کا کیرئیر خراب ہوجاتا، یوں اس واقعے کو رفع دفع کر دیا گیا۔

سوال اٹھتا ہے بچیوں کی عزت سے زیادہ اس استاد کا کیرئیر اور ان کی بدنامی کو ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ ان نجی سکولوں کی فیسوں کے معاملات بھی والدین عدالت تک لے کر گئے مگر وہ مسئلہ حل نہ ہوا۔ دوسری طرف اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر مہنگی فیسیں والدین کیا اس لیے دیتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں سے پیسے دے کر بچیوں کی عزت خراب کروائیں۔ شرم سے ڈوب مرنا چاہیے سکول اور اس کی انتظامیہ کو۔ سکول کی پرنسپل کو ہٹا دیا گیا ہے لیکن اب بھی کہا جا رہا ہے کہ انکوائری ہو گی تو معلوم ہو گا۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں عورت یا لڑکی کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں میں نے مراد راس صاحب جو سکولوں کی تعلیم کے صوبائی وزیر ہیں کی گفتگو سنی۔ ان سے میری درخواست ہے کہ وہ ہمیشہ کی طرح اس معاملے کو دبنے نہ دیں بلکہ اس پہ ہنگامی طور پہ عمل پیرا ہو کر پورے معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے۔ ان تمام ٹیچرز نے جن کا نام جنسی ہراسانی میں آیا انھوں نے اپنے تمام سوشل میڈیا کے اکاؤنٹس بند کردیے ہیں۔ شرم آنی چاہیے ایسے اساتذہ کو وہ کم سن بچیوں کے ساتھ یہ شرم ناک حرکتیں کرتے رہے۔ کیا یہ ہے مقدس پیشہ؟ کیا یہ ہے پیغمبرانہ پیشہ؟ کیا یہ ہیں ہمارے معاشرے کے روحانی ماں باپ؟ عمیر رانا جو ٹی۔ وی اداکار بھی ہیں انھوں نے بھی بچیوں کو ہراساں کیا افسوس ناک اور شرم ناک بات یہ ہے کہ اس کی بیوی نے اسے چھپاتے ہوئے اس کی نگہبانی کی۔ ایسی عورت کس طرح کے خالی اور ٹوٹے ہوئے رشتے کے ساتھ اپنی زندگی نبھا رہی ہے؟

سکول انتظامیہ آخر کس طرح بے خبر رہ سکتی ہے؟ سکول کی پرنسپل اور تمام اساتذہ کس طرح نارمل طریقے سے زندگی گزار سکتے ہیں؟ انھیں سکون کی نیند آخر کیسے آتی ہوگی؟ لیکن جن لوگوں کے ضمیر مر جاتے ہیں ان کے لیے اخلاقیات وغیرہ کوئی معنی نہیں رکھتے۔ متاثر ہ طالبات کی مدد کرنے کے بجائے وہ ان کی سرزنش کرتیں۔ جب اطوار وتیرہ بن جائیں تو پھر شرم و حیا انسان میں ختم ہو جاتے ہیں۔ گندی عادتیں فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں اور انسان بے دھڑک جرم کرتا چلا جاتا ہے۔

لاہور گرامر سکول المشہور LGS کے وہ تمام ٹیچرز عمیر رانا، اعتزاز شیخ، شبیر خٹک، عمر شریف اور زاہد وڑائچ ان سب کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ماں باپ کو بھی بچوں کی بات سننی چاہیے اور ان تمام کیسز میں فوری طور پر ایف آئی آر کٹوانی چاہیے۔ سکول انتظامیہ کو فوری عمل درآمد کرنا چاہیے بلکہ کم ازکم پانچ سالوں کے لیے LGS کی اس برانچ کو بند ہوجانا چاہیے تاکہ عبرت حاصل ہو۔ جب تک خواتین یا بچیاں جنسی استحصال اور ظلم کا شکار ہیں وہ معاشرے میں اپنا جائز مقام حاصل نہیں کرسکتیں۔

عورت اور بیٹی کا لفظ ہی سماج میں انسان کو عزت و حرمت سے آگاہ کرتا ہے۔ پاکستان کے ہر شہری پہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ جنسی تشدد کی شکار بچیوں اور عورتوں کے تحفظ کی بات کرے۔ ہم ظلم اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھا کر ہی اپنے معاشرے کو ترقی یافتہ اور خوش حال بنا سکتے ہیں۔ آخر میں مجید امجد کی نظم اپنے قارئین کی نذر کرتی ہوں۔

جب اطوار وتیرہ بن جاتے ہیں
اور لوگوں کے عمل میں جب اس رسم کا رس گدلا جاتا ہے
تب روحوں کو چیرنے والے تقاضے
ہوتے ہوتے، اپنے اعادے کے اندر ہی خود اپنی تکذیب میں مٹ جاتے ہیں
اور اوچھے عملوں کی تعمیلوں میں اچھے اعمال دھندلاجاتے ہیں
اور وہ سارے ظلم جنم لیتے ہیں جو ہم روز روا رکھتے ہیں!
کون بتائے، کتنے ظلم ہیں
جو ان معمولی معمولی باتوں کے معمول میں یوں ہم سے سرزد ہوتے ہیں
جیسے پتلیاں آنکھوں میں بے بس ہوکر اپنے آپ پہ جم جائیں
جب تھکے تھکے دل کے پیچھے اپنی کچھ اوچھی سوچھیں، چلتے چلتے
آستینیں الٹا دیں
جیسے دل کو سیدھی راہ پر لانے کا عندیہ
بے دھیانی میں، داڑھ تلے پس جائے
جیسے جی کو دکھانے والی چیزیں سامنے آ آ کر
بے حس نظروں کا روزینہ بن جائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments