خبرناک اور مجید امجد


مجھے اطمینان ہے کہ میں مجید امجد سے خالی، ہوائی اور دکھاوے کی محبت کرنے والا ڈھنڈورچی نہیں ہوں، جو مجید امجد کی شعری عظمت سے مطلق واقف نہ ہو اور نہ اسے ان کی حیات و مزاج سے واقفیت ہو مگر وہ محض اپنی چرب زبانی سے یہ ثابت کرے کہ جیسے مجید امجد سے جنم جگ کا ساتھ ہے۔

خبرناک میں مزاح کا معیار

اعتراض کیا گیا کہ پروگرام میں مزاح کا معیار عمدہ نہیں ہے۔ کچھ لوگوں نے جلدبازی میں ہم نوائی کرتے ہوئے آہ بھری کی وہ مزاح نظر نہیں آتا جو کمال احمد رضوی، معین اختر، انور مقصود کے دور میں ہوتا تھا۔ ۔ ۔ ان کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ صرف آپ کا اعتراض اور مسئلہ نہیں، سب کا ہے، مگر اس کے لیے چند چیزوں کو کھلے دل اور جاگتی آنکھوں سے تسلیم کرنا ہو گا:

1۔ ہم سب اتفاق کرتے ہیں کہ بدلتے وقت کے ساتھ کچھ چیزوں کے یکسر بدل جانے کا احساس نہیں ہوتا، جن میں ہمارے روزمرہ کے معمولات بھی شامل ہیں اور ہمارے رسم و رواج بھی۔ کئی برسوں بعد غور کرنے سے احساس ہوتا ہے کہ ہمارا سماجی ڈھانچہ نہ صرف یکسر تبدیل ہو گیا ہے بلکہ اس کی کئی اساسی چیزیں ایک نیا روپ اختیار کر چکی ہیں، اور تو اور فنون لطیفہ کی بہت سی چیزیں ہمارے مزاج کا حصہ بن کر ذوقی تشکیل میں اہم عنصر کا درجہ اختیار کر گئی ہیں۔

مگر یہ تبدیلیاں اس معاشرے میں بے کنار نہیں ہوتیں جہاں ایک مستحکم تہذیب کار فرما ہو۔ ۔ ۔ آپ گزشتہ ادوار کا جائزہ لیجیے، جب ہم بچے تھے، ہمارے بڑے لوگ پرانے نغمے شوق سے سنتے تھے، جو ہمیں بالکل اچھے نہیں لگتے تھے، اس وقت ہم جن گانوں کے دلدادہ تھے، وہ آج کل ہمارے بچوں کو اچھے نہیں لگتے، اور آج ہم موجودہ گانوں کو برا بھلا کہتے ہوئے اپنے دور کے گانوں کو پرانا کہہ کر پسند کرتے ہیں، آنے والے وقت میں یہی صورت حال ہمارے بچوں کو پیش آئے گی، دوچار دہائیوں بعد یہ نسل پرانے نغموں یعنی اپنے دور کی موسیقی کو لاجواب کہہ کر اپنے بچوں کے سامنے تماشا بنیں گے۔

۔ یہی حال رسم و رواج اور دیگر چیزوں کا ہے۔ مزاح کو بھی اسی پیمانے سے جانچیے ۔ ۔ ۔ ففٹی ففٹی اپنے وقت کا مقبول ترین پروگرام تھا، آج اپنے بچوں کو دکھانے، سمجھانے کی کوشش کر کے دیکھیں تو وہ ناک بھوں چڑھائیں گے۔ ففٹی ففٹی کی طرز پر مگر جدید تقاضوں کے ساتھ پروگرام ”ہم سب امید سے ہیں“ ڈاکٹر یونس بٹ نے جیو ٹی وی سے ایک لمبے عرصے پیش کیا، جس میں پہلی مرتبہ مماثل کرداروں ( ڈمیز) کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔

آغاز میں شاید تھوڑا سا عجیب لگا ہو، مگر بہت جلد یہ ناظرین کا بے حد پسندیدہ پروگرام بن گیا۔ خبرناک میں مماثل کردار ( ڈمی) کے تجربے کے علاوہ وقت کے ساتھ ساتھ مزاح کے لیے دیگر حربے آزمائے گئے، چست جملوں کا تبادلہ، جگت، تحریف، پیروڈی اور پھر منی تھیٹر کو بھی شامل کیا گیا۔ پروگرام میں ہر طبقہ فکر کی چیزیں شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، علمی و ادبی سیگمنٹس کی حیرت انگیز مقبولیت کے سبب شعر و سخن کے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ خبرناک پوری دنیا میں دیکھے جانے والے مزاحیہ معلوماتی پروگرامز میں امتیازی مقام رکھتا ہے۔ ۔ ۔ مجید امجد والے سیگمنٹ میں ہونے والی گفتگو کو انتہائی پذیرائی ملی مگر نہ جانے دوچار لوگوں کو اس میں کہاں توہین نظر آئی کہ انھوں نے اپنے موقف کی وضاحت کے لیے سوشل میڈیا پر گرد اڑانا شروع کردی، وی لاگ کا سہارا لیا، کچھ نہ بن پڑا تو اپنے موقف کو مضبوط بنانے کے لیے فروغ ادب اور تحفظ ادب کے نام پر فروغ گمراہی کا سلسلہ شروع کر دیا۔

اور ایسے لوگ جنھوں نے سرے سے پروگرام نہیں دیکھا تھا، ان کو غلط معلومات فراہم کر کے مرضی کی رائے حاصل کرنے کی کوشش کی گئی، کچھ مشاہیر کو فون کال کر کے اپنے الفاظ ان کے منہ میں رکھ کر مرضی کی آرا حاصل کرنا چاہیں تو افتخار عارف اور دیگر کئی لوگوں نے واضح طور پر کہا کہ ہم نے سیگمنٹ نہیں دیکھا، تو پوچھنے والے نے اس قسم کے شاطرانہ سوالات کیے، مثلاً کیا کسی شاعر کی توہین کرنی چاہیے؟ کون ذی شعور اس کا جواب اثبات میں دے گا۔

۔ اس قسم کے عمومی جوابات کو مجید امجد والے سیگمنٹ سے جوڑ کر پوائنٹ سکورنگ کی بھونڈی کوششیں کی گئیں۔ ۔ ۔ مقام افسوس ہے کہ دشنام طرازی کا سہارا لے کر سادہ لوح لوگوں کے جذبات برانگیختہ کر کے انھیں مائل بہ فساد کرنے کے عمل کو ادبی تحریک کا نام دیا گیا۔ مجید امجد کی توہین کا واویلا کر کے اکادمی ادبیات جیسے باوقار ادارے کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مارے گئے۔ ۔ ۔ مگر ان ساری منفی سرگرمیوں میں کہیں واضح نہیں کیا گیا کہ توہین والی بات کون سی ہے!

مجید امجد سے متعلق کون سی بات خلاف واقع ہے۔ ؟ نو منٹ کے سیگمنٹ میں معترضین کی توقعات کیا تھیں؟ کچھ نہیں معلوم۔ ہنسنے اور قہقہوں کی آوازوں کو تضحیک کہہ کر کامیڈینز کو بیہودہ القابات دیے گئے۔ ان کو کامیڈینز کی قدر کیا معلوم! کاش انھیں عظیم امریکی کامیڈین گلڈا ریڈنر کے ظریفانہ خیالات سے کچھ واقفیت ہوتی، جو کہتی ہے :

“cancer is probably the unfunniest thing in the world, but I ‘m a comedian, and even cancer could ‘nt stop me from seeing the
humor in what I went through. “

پروگرام کی ایڈیٹنگ کے وقت خوش گوار بات چیت کے دوران مختلف قسم کی لافٹر ساؤنڈ شامل کرنا ایڈیٹر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہلکی، تیز اور کبھی زیادہ زوردار لافٹر ساؤنڈز موقع محل کی مناسبت سے شامل کرے۔ ایسا ہی اس سیگمنٹ میں ہوا، اہل ادب جانتے ہیں کہ مجید امجد سادہ طبیعت ضرور تھے مگر زندہ دل، زندگی کی حرارت سے لبریز اور اس کی ہما ہمی سے لطف اندوز ہونے والا دماغ ان کے پاس تھا۔ ۔ ۔ انھیں جہاں ایک پنواڑی کی موت کے بعد اس کی جگہ کٹوریوں میں بیٹھنے والے اس کے لڑکے بالے سے ہمدردی ہے اور تپتی دھوپ میں بیلوں کی جوڑی سے ہل چلاتا دہقان انھیں تیسرا بیل دکھائی دیتا ہے۔

تو وہیں جوگی ہوٹل میں لگے کیلنڈر پر فلم سٹار کی تصویر دیکھ کر وارفتگی کے عالم میں ان کے ہاتھ سے چائے بھی چھوٹ جاتی ہے۔ ان کے دل کو شالاط کے لہجے کی خنکی راحت دیتی ہے اور اس کا حسن انھیں مسرور کرتا ہے، تو بتائیے، ہم اس عظیم انسان کے ایسے معاملات کا ذکر کرتے وقت خوشگوار تاثر کی بجائے ماتمی فضا پیدا کریں اور مسکراہٹوں، قہقہوں کی بجائے رونے پیٹنے اور بین کی صدائیں شامل کریں! ان مزاح ناآشنا لوگوں نے توہین ثابت کرنے کے لیے یہ پروپیگنڈا بھی کیا کہ مجید امجد کا مماثل کردار (ڈمی) گستاخانہ عمل ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان دقیانوسی ذہنیت کے حامل لوگوں کو مماثل ( ڈمی) کی اہمیت، افادیت اور تاثر کا مطلق اندازہ نہیں ہے۔

مماثل کردار (ڈمی) کیوں بنائی جاتی ہے؟ کیا مماثل کردار صرف کامیڈی کے لیے ہوتے ہیں؟

جس نے بھی مماثل کردار کے لیے ڈمی کا لفظ سب سے پہلے استعمال کیا، بڑی زیادتی کی، اس کے منفی اثرات آج ہمارے سامنے ہیں، کسی شخصیت کے حلیے کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسی مماثلت سے پنسل اسکیچ بنانا، لکڑی، پتھر کا مجسمہ بنانا یا عملی طور پر کسی کردار کو ویسا رنگ و روپ دینا کچھ مقاصد رکھتا ہے مگر ان کو ڈمی کہہ دینے سے ان سے مطلوب تاثراتی مقاصد کو زک پہنچتی ہے۔

میں نے کالج کے ابتدائی دور میں پرکاش پنڈت کی چھوٹی سی کتاب ”اردو کی بہترین غزلیں“ خریدی تھی۔ جس میں انھوں نے کئی ان دیکھے شعرا کے معلوم حلیوں کی مدد سے پنسل اسکیچ کا اہتمام کیا ہے۔ کیوں؟ تاکہ ان تصویری خاکوں سے شاعر کے کلام کا درست تاثر قاری تک پہنچے اور قاری اس کلام سے کماحقہ ’لطف اندوز ہو سکے۔ مجھے اگر بہت سے شعرا مثلاً امام بخش ناسخ، پنڈت دیا شنکر نسیم، میر مہدی مجروح، ریاض خیر آبادی، جلیل مانک پوری، بیخود دہلوی، پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی، سائل دہلوی، ثاقب لکھنوی، برج نرائن چکبست وغیرہ کی شخصیات کا اندازہ ہے تو یہ اس کتاب میں چھپے پنسل اسکیچ (تصویری ڈمیز) کا فیض ہے۔ فلم اور ڈرامہ میں اصل کرداروں کی جگہ مماثل حلیے والے کرداروں سے اداکاری کروانے کا رجحان بہت پرانا ہے، ہر تاریخی فلم اور ڈرامہ اس کی مثال ہے :

Ten Commandments, The Message, The Prophet Joseph

جیسی بہت سی شاہکار فلموں میں کس کس ہستی کا مماثل کردار اختیار نہیں کیا گیا۔ اسی طرح طنز و مزاح کے لیے مماثل کرداروں سے کام لینے کا سلسلہ یورپین ممالک میں تو عرصے سے مروج ہے۔ مگر شاید کچھ تنگ نظروں کے خوف سے ہمارے ہاں رواں صدی کے شروع میں رائج ہوا۔ ۔ ۔ مقام افسوس نہیں تو کیا ہے کہ فلم میں ہم بڑی بڑی ہستیوں کے مماثل کردار دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور اس وقت کسی کے اندر توہین کا کیڑا ڈنک نہیں مارتا، مزاحیہ پروگراموں میں سیاستدانوں کی ڈمیز دیکھ کر قہقہے لگاتے ہوئے لوٹ پوٹ ہوتے ہیں مگر کسی شاعر ادیب کی ڈمی کے وقت یہ فن جرم کی ذیل میں شمار کرنے لگتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments