یوم آزادی اور عصر حاضر کے تقاضے


یوم آزادی کی آمد آمد ہے لیکن کرونا کے خوف اور تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آ رہا جو ماہ اگست کا ہمیشہ سے خاصا رہا ہے۔ عوام ابھی تک گھروں کے اندر محبوس ہے اور یاسیت زدہ ہے کہ اس کرونا سے کب جان چھوٹے گی؟ 14 اگست ہر سال آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ہم بھی ایک دو دن قومی و ملی نغمے سنتے ہیں، تقریریں ہوتی ہیں، ارباب عقل و دانش وطن کی محبت پہ اپنا بھاشن دیتے ہیں۔ اینکرز اور کمپئیر الیکٹرانک میڈیا پہ اپنا منجن فروخت کر کے اپنا بنک بیلنس بڑھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن کوئی بھی فرد موجودہ انفرادی سوچ کا کوئی پائیدار حل نہ ہی پیش کرتا ہے اور نہ ہی اس پہ عملدرآمد کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

کوئی فلاسفر تو گھروں پہ جھنڈیاں لگانے کی بجائے درخت لگانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ دو چار سال کے بعد ہم ان پہ چھنڈیا ں لگا سکیں لیکن قیام پاکستان کی خوشی کا کیا کریں جو ہمیں صرف 14 اگست کے دن ہی یاد رہتی ہے اور بقیہ 364 دن ہم اسے کسی کونے کھدرے میں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ اس وطن کے قیام کے لئے کتنی بہنوں نے اپنی عزت کی قربانی دی تھی، کتنی ماؤں نے اپنے نوجوان اس ٓآزادی کی راہ میں شہید کروائے تھے۔

کتنی خواتین کے سہاگ اس مادر وطن کے ماتھے کی سرخ بندیا بن گئے تھے۔ یاد رہتا ہے تو یہ کہ جشن آزادی کی رات موٹر سائیکل کا سائلنسر نکال کر ون ویلنگ بھی کرنی ہے اور ہلہ گلہ بھی کیونکہ اب ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ اگر آپ ایک معلم ہیں اور اپنی جماعت سے یہ سوال کریں کہ کون ہے جو آج ہمیں آزادی کے فوائد و ثمرات پر ایک چھوٹی سی تقریر کر کے دکھائے گا تو 95 فیصد کلاس کے طلباء چپ شاہ کا روزہ رکھ لیں گے۔ جس کی بنیادی وجہ ان ٹھوس اور پائیدار نظریات کی کمیابی ہے جن کی بنا پر ایک عظیم قوم بنائی جاتی ہے۔

یہ وہی نظریات ہیں کسی بھی قوم کو ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح دنیا کے حوادث زمانہ سے ٹکرا دیتے ہیں اور ایک ایسی نسل کی تعمیر و تشکیل میں ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں جن کو طوفانوں سے ٹکرانے کا فن بھی آتا ہے اور جو کشور کشا بھی ہو ہوتے ہیں اور فاتح عالم بھی، اور یہ اس صورت مین ممکن ہے جب ہمیں اغیار کی کاسہ لیسی اور غلامانہ پالیسیوں سے نجات ملی گی۔

بر صغیر پاک و ہند کو انگریز کے نو آبادیاتی نظام سے چھٹکارا تو مل گیا لیکن اس مکتی سے پہلے ورلڈ آرڈر کی تکمیل کے حصول کی خاطر ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتا دھرتا اور سرمایہ کاری نظام کے موجد حضرات نے ہمیں غلامی کے ایک ایسے بندھن میں جکڑا، جس سے ہمیں آج تک نجات نہ مل سکی۔ پہلے تو ایک وائسرائے کی حکومت تھی لیکن آج ہم پر کئی وائسرائے مسلط کر دیے گئے ہیں جو تجارت، تعلیم اور معیشت کے اعلیٰ سنگھاسن پر برا جمان ہیں اور نوآبادی نظام کی آبیاری میں مصروف عمل ہیں۔

غیر مسلم حکمرانوں کا ازل سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ کسی بھی اسلامی ملک پر قبضہ جمانے کے بعد اس کی تہذیب وثقافت پر حملہ کرتے ہیں اور معصومانہ انداز میں ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں جس سے اس قوم کی نہ صرف وحدت پارہ پارہ ہو جاتی ہے بلکہ وہ نظریاتی غلام بن کر رہ جاتی ہے۔ اپنے مقصد کے حصول کے لئے نو آبادیاتی نظام کے کرتا دھرتاؤں نے سب سے پہلے ہمارے تعلیمی نصاب پر حملہ کیا اور بقول مورخ اسلام سید سلیمان ندوی ہمیں لارڈ میکالے کا ایسا نصاب تعلیم دیا گیا جس سے ”طفلانہ دلچسپیوں کے سوا تعمیر سیرت کا فائدہ اور زندگی کا قاعدہ معلوم نہ ہوا“ اس مقصد کے حصول کے لئے نئی نسل کو ہمارے ان تاریخی کرداروں کے حالات زندگی سے دور کیا جا رہا ہے جن کی زندگی ہمارے لئے آج بھی مشعل راہ ثابت ہو گی۔

ہمارے بچوں کو اسلامی طور طریقوں اور ٹھوس کردار سازی سے دور کر کے ان میں جدیدیت اور مادر پدر آزادی جیسے نظریات کو فروغ دینے کے حقوق نسواں اور انسانی حقوق جیسی موم بتی مافیا تنظیموں کی بھی سر پرستی کی جار ہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے نہ صرف نصاب بلکہ میڈیا کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔ اس لئے ضروروت اس امر کی ہے کہ ترکی حکومت کی طرز پر ہماری نئی نسل کو اسلامی تاریخ سے روشناس کروانے کے لئے ایسے ڈرامے اور کارٹون کیریکٹر تشکیل دیے جائیں جن کی وجہ سے ہماری نسل میں نہ صرف اپنی ثقافت اور وطن سے محبت کا جذبہ پیدا ہو بلکہ ان کی شخصیت سازی بھی ہو سکے۔

ترکی کی خلافت عثمانیہ کا دور حکومت تو صرف 600 سال ہے لیکن برصغیر پاک وہ ہند پر مسلمانوں کی حکمرانی کا عرصہ 1000 سال سے زیادہ ہے یہاں پر افغان حکمرانوں کے علاوہ خاندان غلاماں، خلجی، تغلق، سادات، لودھی اور تیموری خاندان حکومت کر چکے ہیں اگر اس وقت پاکستان میں ایسے ڈرامے بنائے جائیں جن سے ہماری نسل میں وطن سے محبت کا جذبہ پیدا ہو اور وہ جوش و خروش سے بطور ایک دیانت دار و ایمان دار کارکن اپنے وطن اور ریاست کی خدمت کر سکیں۔

ٓمختلف نظریات کے مطابق اگر کوئی بھی قوم زوال پذیر ہو تو سب سے پہلے اس کی قومی زبان پہ حملہ کیا جاتا ہے تاکہ اس سے ایک قومی تشخص چھینا جا سکے، آج جب میں اپنی نئی نسل کو اردو لکھتا اور پڑھتا دیکھتا ہوں تو ہنسی کے ساتھ ساتھ ایک دکھ کا تاثر بھی ابھرتا ہے کہ ہم اغیار کی غلامی میں اس حد تک آگے آچکے ہیں کہ اپنی قومی زبان میں ملاوٹ کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ دیکھا جائے تو اردو کو قومی زبان کا درجہ تو دے دیا گیا لیکن اس کی نشوونما ور آب یاری کے لئے کوئی مناسب اقدامات نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے اس وقت ہماری زبان وینٹی لیٹر پر پڑی اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔

یاد رہے کہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا سیاسی منشور یکساں نظام تعلیم کا وعدہ تھا، جس کے حصول کے لئے ایک بڑا بجٹ بھی مخصوص کر دیا گیا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اس وعدے پر کوئی یو ٹرن نہ لے اور اپنی قومی زبان میں ایک ایسا نصاب تشکیل دیا جائے جو ہماری دنیاوی، اسلامی اور نظریاتی ضروریات کے مطابق ہو کیونکہ کوئی بھی قوم اپنی جغرافیائی سرحدوں کی بنا پر قوم نہیں بنتی بلکہ مذہبی بنیادوں پر بنتی ہے جس کا دائرہ اختیار نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاک کاشغر ہوتا ہے۔

یورپ کے نو آبادیاتی نظام کی ناکامی کے بعد تاج برطانیہ کے وارثان ہمارے ملک میں نفاق اور نفرت کا وہ بیج بو گئے جس کی بیخ کنی اس وقت ممکن ہے جب ہم مذہبی و لسانی تعصب کی راہ چھوڑ کر اتحاد و اخوت کا راستہ نہیں اپنائیں گے۔ لسانی تعصب کی بنا پر پاکستان کی صوبائی تقسیم اس لئے کی گئی تھی کہ مستقبل میں پاکستانی عوام کو فروعی جھگڑوں میں الجھا کر من مانے نتائج حاصل کیے جا سکیں اس لئے قیام پاکستان سے لے کر آج تک ہم ایک قوم نہیں بن سکے۔

ایک لطیفہ مشہور ہے کہ کراچی میں ایک پٹھان سے ایک مہاجر نے نام پوچھا تو پٹھان نے جواب دیا ”میجر گل خان“ تو مہاجر نے پوچھا کہ کیا اپ فوج میں ہیں؟ تو پٹھان نے کہا کہ نہیں، مہاجر نے کہا کیا آپ کا باپ فوج میں میجر تھا؟ پٹھان نے کہا کہ میرا دادا فوج میں میجر تھا۔ مہاجر ہنسنے لگا اور کہا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پٹھان نے کہا اسی طرح جس طرح ہجرت تو تیرے دادا نے کی لیکن تم خود کو مہاجر کہنے پر بضد ہو۔ یہی حال اس وقت ہماری قوم کا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ہم مہاجر، سندھی بلوچ، پختون، پنجابی، سرائیکی کہلانے کے پاکستانی کہلانے پر فخر کرتے، ہم مذہبی اور لسانی فرقہ بندی میں کھو گئے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وطن کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے مل کر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو جائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments