صاحب جی


”کھانے پینے۔۔۔ موج منانے۔۔۔ ابا تیری موج تو یہ چارپائی ہے۔۔۔ اور کھانا۔۔۔ یہ کوا۔“ اس نے سوچا۔۔۔ ”تھو تھو، جان چھوٹے ان بدذاتوں سے۔۔۔ پانچ بجنے کو نہیں آتے۔“
”چل۔۔۔ منہ دھولے اور تیار ہو جا فٹافٹ۔۔۔ ورنہ آ جائے گا وہ صاحب۔۔۔ تیری باجی کا۔ پانچ منٹ دیر ہو جائے تو پہنچ جاتا ہے پٹرول ساڑتا ہوا۔“
”شکر ہے۔“ حلق سے لے کر ایڑی تک تازہ ہوا کا جھونکا نسرین کے اندر سرایت کر گیا۔

نسرین کے ماں باپ جہلم کی طرف ایک چھوٹے سے گاؤں سے کراچی آئے تھے۔ جہاں غربت کی دیواریں چاروں طرف سے انہیں ڈھکے ہوئی تھیں۔ تین بچے، جن کے پاس نہ پہننے کے لیے کچھ تھا نہ کھانے کے لیے۔۔۔ صبح سے شام تک زمین کے اندرسے آلو، گاجر، مولی اور پیاز نکالتے یا پھر ٹماٹر چنتے۔۔۔ 25 روپے کی دیہاڑی پر۔۔۔ اور کوئی کام نہیں تھا اور یہ کام تو بچوں کی فوج مل ملا کر ایک آدھ دن میں کر دیتی تھی۔۔۔ بڑے پھر ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔۔۔ کرنے کے لیے کچھ ہو تو بندہ کرے نا۔۔۔ حویلیاں بھی ویران ہو گئی تھیں۔ اندر تو کچھ بھی نہیں تھا باہر ہی تھوڑی شو شا رہ گئی تھی۔ بیگموں سے کام کا بولو تو کہتی تھیں۔ ”اندر پہلے ہی بہت ویلیاں (فارغ) ہیں، اوروں کو کیا کریں۔“

پر نخرے مک گئے تھے اب سب کے۔ چہروں پر اندر کے حال لکھے تھے کہ کسی کے پاس کچھ نہیں بچا۔۔۔ ایسی بری حالت دیکھ کر۔۔۔ اماں نے اٹھایا اپنا صندوق، ڈالے اس میں چندبرتن اور پھٹے پرانے کپڑے۔ ادھر ابا اماں کی اکلوتی انگوٹھی بیچنے نکل پڑا۔ 730 روپے میں بکی۔۔۔ اماں نے 1500 میں بنوائی تھی اور کرایہ کر کے تینوں بچوں سمیت ادھر آ گئے۔ بڑی کی تو شادی پہلے ہی کر دی تھی۔ چار چھ راتیں تو ادھر ادھر چھپتے ہوئے پارکوں میں گزریں۔ ایک دفعہ تو ایک پولسیئے نے دیکھ لیا اور پورے سو روپے بٹو رے ابا سے۔ پھر۔۔۔ اماں کو کام مل ہی گیا۔ کسی نے دو سو پر صفائی، برتن کا بولا توکسی نے ڈیڑھ سو، پر۔۔۔ ادھر بہت پیسہ ہے سب کے پاس۔ پورے سات سو روپے بنی تھی ایک مہینے کی پگھار، چار گھروں میں کام کرنے کے بعد۔۔۔

”700 روپے۔“ ابا کے منہ میں پانی بھر آیا۔
”ہڈیاں بھی تو تڑوانی ہیں۔“ اماں نے تڑاخ سے جواب دیا تھا۔
”مفت میں کس نے کھانے کو دینا ہے۔“ ابا ڈھٹائی سے بولا۔
”اور تو کیا کرے گا؟“ اماں نے طیش سے پوچھا۔
”گھر کی چوکیداری کروں گا۔“ ابا کو چڑانے میں شاید مزہ آ رہا تھا۔
”فٹے منہ تیرا۔ ہے کیا اس گھر میں جس کی تو رکھوالی کرے گا۔“ اماں نے پھٹکارنا شروع کر دیا۔

اماں نے منتیں کر کے، لوگوں کے آگے ہاتھ جوڑ جوڑ کر چھوٹے کو چھ سو روپے مہینہ، مفت کھانا پینا اور رہنا پرایک ورکشاپ میں لگا دیا، اور دیہاڑی پر بشیر کوکام مل گیا۔ نسرین کو ایک بنگلے پر، جس کی بیگم صاحبہ کے لیے ایک بچی سنبھالنا بھی جوکھوں کاکام تھا، آئے دن باورچی نکال دیتی تھیں اور کپڑے دھونے والی ماسی کی تو ہر روز شامت آتی تھی، وہاں کام پر لگا دیا۔

میرے لیے تو بہت اچھی ہیں بیگم صاحبہ۔ میں توان کو باجی بولتی ہوں۔ شروع شروع میں جب میں دانت صاف نہیں کرتی تھی۔ تب ڈانٹ پڑتی تھی اور اگر روز نہا کر کپڑے نہ بدلوں تب بھی غصہ ہوتی تھیں۔ اب تو مجھے بھی عادت ہو گئی ہے۔ جویریہ بی بی کو سلا کر Dusting کر کے نہا دھو کر روزانہ بیٹھتی ہوں۔۔۔ نہ نہاؤں تو خارش ہوتی ہے۔۔۔ ایک دن تو باجی نے کمرے سے نکال دیا تھا کہ جوئیں نکلوا کر آؤ۔۔۔ آخرکار میں نے بھی ہمت کر کے کہہ دیا کہ۔۔۔ ”باجی شیمپو منگوا دو۔۔۔ صابن سے بال صاف نہیں ہوتے۔“ باجی کو تھوڑا سا غصہ آیا تھا۔ ان کارنگ گلابی ہو گیا تھا اور بولیں، ”ساری دنیا صابن سے بال دھوتی ہے اور تمہارے صاف نہیں ہوتے۔۔۔“

”وہ باجی۔۔۔ میں نے کبھی صابن سے دھوئے نہیں نابال۔“ مجھے خود کو شرم آ گئی بات کر کے۔ اور باجی نے مجھے اوپر سے نیچے دیکھا بھی تو کیسے تھا مگر پھر نوکر کو کہہ کر ایک چھوٹی سی بوتل شیمپو کی منگوا دی تھی۔ اب تو میرے بال بھی باجی کے بالوں جیسے چمکدار ہو گئے ہیں۔ ویسے باجی کم چالا ک نہیں ہے۔ میں نے ایک روز چوری چوری باجی کے صابن سے منہ دھو لیا تھا۔ اتی دورباجی بیٹھی تھی۔ ایک دم چونک کر بولیں۔۔۔ میرے صابن سے منہ کیوں دھویا۔۔۔ ؟ خوشبو سے جان گئیں ہوں گی۔ میں تو بس ان کو دیکھ کر رہ گئی تھی۔

”چل اٹھ۔۔۔ پانچ بج گئے۔۔۔“ اماں کی آواز میں قدرے نرمی تھی۔

”چھوٹی جان۔“ دل ہی دل میں کہہ کر اٹھی۔۔۔ ساری جھگیوں کے ننگ دھڑنگ بچے آس پاس جمع ہو جاتے ہیں۔ ان سے تو قدرتی چڑ ہے مجھ کو۔۔۔ سارے گندے ہیں۔ کالے، کوجھے، بدصورت۔۔۔

”دس روپے ماں۔۔۔“ کبھی خود سے ماں کو یاد نہیں رہتے۔
”کھا نہیں جاؤں گی تیرے دس روپے۔“
”جوبلی کھاؤں گی نا۔۔۔“ میں نے بولا تھا۔
”کھائے گی نہیں تو مر نہیں جائے گی۔“
”دے دے دس روپے۔۔۔“ ابا نے نفرت سے زور دے کر کہا۔
”بولا نہ مل جائیں گے۔۔۔ چل اب دفع ہو یہاں سے۔۔۔“ اماں پھر سویرے والی بھوکی شیرنی بن گئی۔

”کتے، کمینے، سور۔۔۔ میری کمائی پر پلتے ہیں، نہیں لا کر دوں نہ پہلی پر ڈیڑھ ہزار روپیہ تو بھوکے مر جائیں سارے کے سارے۔ بشیر مجھ سے تو اچھا رہتا ہے۔۔۔ سگریٹ بھی پیتا ہے۔ یاروں میں بھی جاتا ہے۔ سینما بھی دیکھتا ہے۔ پتہ نہیں خود کتنی دیہاڑی مارتا ہو گا۔ ابا کو تو کم ہی دیتا ہو گا۔ باقی خود چٹ کرتا ہے۔“ نسرین کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے۔ جو ٹوٹی لڑی کی طرح بکھرے جا رہے تھے۔

جویریہ نیند میں سے اٹھ کر اپنی توتلی زبان سے اسے ہی پکار رہی تھی۔۔۔ باجی نے ایک دم لپک کر اسے گلے لگایا۔۔۔ ”شاباش بچہ۔۔۔ چلو اب سنبھالو جویریہ ڈارلنگ کو۔“ اور خود لپکیں صاحب کے کمرے میں۔ تھوڑی دیر بعد دونوں کے قہقہوں کی آوازیں آنے لگیں۔ دونوں ہنس ہنس کر اوپر نیچے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔۔۔ جانو۔۔۔ جانو۔۔۔ جان جان کہہ کر بلاتے ہیں ایک دوسرے کو۔۔۔ آفس سے آنے کے بعد تو ایک منٹ بھی صاحب باجی کو اپنے سے دور نہیں ہونے دیتے۔ اگر ذرا سی باہر نکلتی ہیں تو فوراً کمرے سے آوازیں لگانے لگ پڑتے ہیں۔ یا پھر کتاب ہاتھ میں لیے ادھر ہی آ جاتے ہیں۔ ابھی باجی کمرے سے نکلیں گی۔ گہرا گلابی رنگ ہو رہا ہو گا اور سیدھی آئینے کے سامنے جائیں گی۔ پھر دونوں ساتھ چائے پئیں گے۔۔۔ صاحب باجی کو گدگدی کرتے رہیں گے۔ باجی انہیں پیار کرتی رہیں گی۔ ہائے کیسے مزے سے رہتے ہیں۔ بالکل فلمی ہیرو ہیروئن کی طرح۔۔۔ میں جویریہ بے بی کو کارٹ میں گھمانے باہر لے کر جاؤں گی۔ اسے بہلاؤں گی۔ ”کیٹ“ اور ”ڈاگی“ دکھاؤں گی۔ باجی بہت سخت ہیں کہ ان کو بلی اور کتا نہ سکھاؤں۔ بار بار پانی کی بوتل ان کے منہ سے لگاؤں گی۔۔۔ اور صاحب اور باجی۔۔۔ بائے بائے۔۔۔ ٹاٹا، کرتے ہوئے اپنی لمبی سی کار میں گھومنے نکل جائیں گے۔

زندگی ہو تو ایسی۔ ایک میری زندگی ہے اور ایک میری بہن کی زندگی جس کو میاں صابن تک نہیں لا کر دیتا۔ سارے شادی کے کپڑے بھی اس کی ساس اور نندوں نے بانٹ لیے آپس میں۔ بالیاں بیچ کر اس نے اپنی بیمار بیٹی کا علاج کروایا تھا اور اب اس کامیاں کہتا ہے دوسری شادی کروں گا۔۔۔ یہ تو منحوس ہے۔ چھ سال میں ایک لڑکی پیدا کی ہے اس نے تو۔ وہاں گاؤں میں کتنی دفعہ رو رو کے گھر آئی تھی۔ کبھی منہ سوجا ہوا، کبھی بدن پر نیل دکھاتی اور سرسے خون نکل رہا تھا ایک دن تو۔۔۔ اللہ معافی دے۔

زور زور سے چیخ چیخ کر اپنی ساس، نندوں اور میاں کو گالیاں دیتی تھی۔ میاں کا تو نام ہی اس نے ”کنجر“ رکھا ہوا ہے اور آگے۔۔۔ ماں کیا کہتی ہے۔۔۔ کہ میری شادی بھی ماموں کے بیٹے سے کروائے گی۔۔۔ کالا بھٹ۔۔۔ موالی۔۔۔ جب میں گاؤں میں تھی تو آتے جاتے ایسے گھورتا رہتا تھا کہ میرے تو ہاتھ پاؤں ہی کانپنے لگ جاتے تھے۔ میں کروں گی شادی اس سے۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔ میرے لیے یہ ہی رہ گیا ہے کیا؟ پرلے دن باجی مجھے کہہ رہی تھی کہ تم سانولی ہو مگر تمہارے نقش بڑے تیکھے ہیں۔۔۔ میں نے اس دن آئینہ دیکھا تھا۔ میری شکل کتنی پیاری لگ رہی تھی۔ میں تو گوری ہو گئی ہوں۔۔۔ ہاں باجی جتنی چٹی تو نہیں ہوئی ابھی۔ اب باجی کریمیں بھی تو کتنی لگاتی ہیں۔ صبح الگ، شام الگ، رات الگ اور صابن بھی کتنے مہنگے استعمال کرتی ہیں۔

میرا تو وہی لال والا صابن ہے اور کریم تو کوئی بھی نہیں۔ ایک دن ہونٹ پھٹ گیا تو باجی نے ویزلین دے دی لگانے کے لیے اس میں بھی میرے ہونٹ چمک رہے تھے۔ اگر لپ اسٹک لگائی تو۔۔۔ باجی ایسی پیاری؟ چلو اتی نہیں تو ان سے کچھ کم، پر پیاری تو لگوں گی نا۔ باجی کوئی مجھ سے زیادہ خوبصورت تھوڑی ہیں لیکن وہ چیزیں بہت لگا لیتی ہیں۔ امیر ہیں اس لیے لگا لیتی ہیں۔ صبح صبح پانی میں شہد گھول کر پیتی ہیں۔ پھر مجھ سے پورے بدن کی مالش کرواتی ہیں۔ ملتانی مٹی میں نیلے پیلے کیپسول کھول کر ڈالتی ہیں اور اپنے منہ پر لگاتی ہیں۔ اگر میں یہ سب کر سکتی تو۔۔۔ باجی کیا ہیں، میرے سامنے۔۔۔ اور میں تو ابھی پندرہ سال کی ہوں۔۔۔ باجی تو بڑی ہوں گی بہت۔۔۔ بس جب انگریزی بولتی ہیں تب بہت اچھی لگتی ہیں۔ بالکل انگریزوں جیسی اور کپڑے بھی تو انگریزوں جیسے پہنتی ہیں۔ تنگ تنگ شرٹ اور پینٹس اور ٹراؤزر۔۔۔ بالکل گڑیا ایسی لگتی ہیں، جب بھی نئے کپڑے پہنتی ہیں صاحب تو بس صدقے واری ہوتے رہتے ہیں۔۔۔

وہاں۔۔۔ ہمارے گاؤں میں کوئی اپنی بیوی کو ذرا سا پوچھ لے تو سب ہنسنے لگ جاتے ہیں۔ زن مرید کہتے ہیں ایسے آدمیوں کو وہاں اور۔۔۔ وہاں تو سارے میاؤں کو اپنی بیویاں زہر لگتی ہیں۔ دوسری عورتوں پر مرتے ہیں سب کے سب۔ دوسروں کو تحفے بھجواتے ہیں۔ کبھی کانوں کی بالیاں، بھی بالوں کی گتیں تو کبھی گلے کے ہار۔۔۔ اور کھانے پینے کی چیزیں۔۔۔ صاحب تو اتنے امیر ہیں ان کو تو بہت عورتیں مل سکتی ہیں جس کو بھی اشارہ کریں۔ پر وہ تو کسی کو بھی نہیں دیکھتے۔ نہ ہوٹل میں نہ آس پاس۔ ایک دن صاحب سب کو ”پیزا“ کھلانے لے کر گئے۔ میں بھی گئی تھی۔ اللہ کتنے مزے کا تھا۔ اوپر سے پیپسی کا پورا گلاس۔ جویریہ بے بی کو بھی صاحب نے سنبھالا ہوا تھا۔ وہ کرسی میں ان کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ صاحب باجی کے اوپر جھکے پتہ نہیں کیا کیا باتیں کیے جا رہے تھے۔۔۔ کیے جا رہے تھے اور ساری لڑکیاں ایسی خوبصورت خوبصورت صاحب کو جیسے نظر نہیں آ رہی تھیں۔ باجی بھی ایسی شرماتی رہتی ہیں جیسے کہ کل ہی ان کی بارات پہنچی ہو۔ ہمارے پاس تو دلہن بھی ایسے نخرے نہیں دکھاتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شہناز شورو
Latest posts by ڈاکٹر شہناز شورو (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4