حیات بلوچ قتل: قصہ ختم نہیں ہوا


نوجوان حیات بلوچ کی افسوسناک شہادت کے بعد ایک بار پھر باوردی اہلکاروں کے اختیارات اور ان کے احتساب کا طریقہ کار زیر بحث ہے۔ یہ واقعہ ہمیں اسی طرح کے ماضی کے واقعات کی یاد دلاتا ہے، ان واقعات پر بھی خوب شور مچاتھا، لیکن شور تھمنے اور توجہ ہٹنے کے بعد پس پردہ ان واقعات میں ملزمان کو تحفظ دینے کے لیے کیا گیا اس سے آج بھی اکثر لوگ بے خبر ہیں۔ حیات بلوچ کے معاملہ میں ایسا کوئی گھناو¿نا کھیل نہ کھیلا جائے اس لیے سابقہ واقعات کی یاد دہانی ضروری ہے۔ لیکن ان واقعات کے ذکر سے قبل ایک واقعہ اس ملک کا بھی پیش خدمت ہے جس کی ترقی کے اسباب پر غور اور ان کے تجربے سے سے کھنے کے بجائے اس ملک سے جڑی سازشی نظریات کا تذکرہ ہمارا قومی مشغلہ ہیں۔

جارج فلائڈ امریکی ریاست شمالی کیرولائنا کا شہری تھا۔ ٹیکساس میں اسکول کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے فٹبال اور باسکٹ بال کا کھلاڑی رہا۔ جوانی سے فلائڈ غیر قانونی کاموں اور چھوٹے جرائم میں ملوث رہا۔ 1997 سے 2005 کے درمیان فلائڈ آٹھ مختلف جرائم کا مرتکب پایا گیاجس کے بعد قانونی تصفیہ کے نتیجہ میں اس نے چار سال جیل میں گزارے۔ 2014 میں اس نے رہا ہوکر اپنی زندگی کا دوبارہ آغاز کیا، ٹرک ڈرائیور اور سیکورٹی گارڈ کی نوکریاں کی تاہم 2020 میں کورونا وائرس کے معاشی اثرات کے پیش نظراس کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا۔

بیروزگاری کے اس زمانے میں فلائڈ کا ایک دکاندار سے جھگڑا ہوگیا جس کا الزام تھا کہ فلائڈ اس کو جعلی چیک دے رہا تھا، دکاندار نے پولیس کو طلب کیا اور فلائڈ کو حراست میں لے لیا گیا، دوران حراست گرفتاری سے قبل سڑک پر پولیس اہلکار نے فلائڈ کو زمین پر اوندھے منہ لٹا کر اس کی گردن پر اپنا گھٹنا آٹھ منٹ تک رکھا، اس دوران جارج فلائڈ اہلکار سے منتیں کرتا رہا کہ اس کو سانس نہیں آ رہا وہ اس کو چھوڑ دے لیکن پولیس اہلکار نے اپنا گھٹنا نہیں ہٹایا یہاں تک کہ فلائڈ اس کے اثر سے جان کی بازی ہار گیا۔

اس واقعہ کی ویڈیو سامنے آئی تو امریکا میں تہلکہ مچ گیا، شہر شہر مظاہرے ہونے لگے، ہزاروں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں، انہوں نے سرکاری اور ذاتی املاک پر حملہ کیا، پولیس اور مظاہرین میں پر تشدد چھڑپیں ہوئی، پورے ملک میں یہ آگ پھیل گئی اور گویا فلائڈ کی موت پر ایک تحریک شروع ہوگئی، 200 امریکی شہروں میں کرفیو نافذ کرنا پڑاجبکہ مختلف ریاستوں میں 62 ہزار خصوصی اہلکارامن وامان کی صورتحال قابو کرنے کے لیے تعینات کیے گئے۔ واضح رہے کہ واقعہ میں ملوث اہلکار کو حراست میں لیا جاچکا تھا، اب ریاست کی کوشش ہے کی نہ صرف اس کو بلکہ اس کے ساتھیوں کو بھی سخت سزائیں دلوائیں۔

ایسے واقعات پر امریکی اور پاکستانی عوام کے ردعمل میں اتنا ہی فرق ہے جتنا دونوں ملکوں میں ہے۔ ہمارے ملک میں باوردی طاقتوروں کو مدت ملازمت میں توسیع دلوانے کے لیے بینرز لگتے ہیں، ان کی حقیقی اور غیر حقیقی کامیابیوں کی خوشی میں ریلیاں تو نکلتی ہیں، ان کی مدح سرائی میں مسلک، فرقے، نظریہ اور طبقہ کے فرق سے قطع نظر ایک ہی لائن میں کھڑے نظر تو آتے ہیں، لیکن یہی وردی جب کسی کا حق مارنے کا سبب بنتی ہے تو چار سو خاموشی پھیل جاتی ہے۔

2011 میں کراچی کے ایک پارک میں رینجرز اہلکاروں نے سرفراز نامی 22 سالہ نوجوان کو گولی مار کر قتل کیا، اس ہولناک واقعہ کی ویڈیو آج بھی لوگوں کو نہیں بھولتی۔ حیات بلوچ کی طرح سرفراز کے معاملہ پر بھی خوب شور مچایا گیا، مگر نتیجہ کیا نکلا؟ واقعہ کی ویڈیو بنانے والے صحافی عبدالسلام سومرو کو اول روز سے دھمکیاں موصول ہونا شروع ہوگئیں، مجبوراً سومرو کو روپوش ہونا پڑا۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے واقعہ انسداد دہشت گردی عدالت کے حوالے کرنے کا حکم دیا، عدالت کے دباو پر چیف رینجرز سندھ کو عہدہ سے ہٹایا گیا اور تحقیقات میں بے ضابطگی پر آئی جی سندھ کو بھی فارغ ہونا پڑا۔

یہ 2011 کی بات ہے جب عدلیہ کا کچھ بھرم تھا، اب جبکہ ہم ’قمری‘ دور میں ہیں اور سیاسی ایوانوں سے لے کر عدالتی بینچوں تک ہر جگہ ”ڈاکٹرائن“ کی چھاپ ہے تو عدلیہ بھی اتنی متحرک و متاثر نہیں رہی۔ بہرحال سرفراز قتل کے ذمہ داررینجر اہلکار کو سندھ ہائیکورٹ نے سزائے موت سنائی جبکہ دیگر اہلکاروں کو قید کی سزا سنائی گئی تاہم 2019 میں یہ خبر سامنے آئی کہ ملزمان کو صدارتی معافی دے دی گئی ہے! صدر ممنون حسین کی جانب سے اس کی تردید کی گئی لیکن حقیقت کچھ واضح نہیں ہوسکی، مقتول کے بھائی جو مقدمہ میں مدعی تھے ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے (پاکستان میں ہر کمزور کی طرح جو طاقتور کے خلاف مقدمہ کرتا ہے ) کہا کہ انہوں نے ملزمان کو اللہ کی رضا کے لیے معاف کر دیا ہے۔

2019 میں کاونٹر ٹیرارزم پنجاب کے اہلکاروں کو خفیہ معلومات ملی کہ چند دہشت گرد ساہیوال کے قریب گاڑی میں کسی مقام پر جا رہے ہیں، یاد رہے کہ حساس معلومات حساس ادارے فراہم کرتے ہیں جن کی پیشہ ورانہ اور مافوق الفطرت صلاحیتوں کے قصے ہمیں رٹائے جاتے ہیں۔ معلومات کی بنیاد پر اہلکاروں نے کارروائی کی، مشتبہ گاڑیوں کو روک ان میں سوار لوگوں کو فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا، کچھ دیر بعد معلوم ہوا کہ گاڑی میں کوئی خطرناک دہشت گرد نہیں بلکہ ایک خاندان کے افراد اور ان کا دوست سوار تھے جو کہ کسی تقریب میں جا رہے تھے، فائرنگ کے نتیجے میں ایک خاتون سمیت چار بے گناہ افراد شہید ہوئے جبکہ بچے زخمی ہوئے۔

سی ٹی ڈی اہلکاروں نے واقعے کو توڑ موڑ کرپیش کرنے کی پوری کوشش کی لیکن بات نہ بن سکی، یہاں بھی مقتولین کے خاندان کے دھمکیاں دی گئی، ان کو اسلام آباد بلا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ ذلیل و خوار کیا گیا، ایک مقتول ذیشان کو تو پوری ریاست نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے دہشت گرد قرار دے دیا جبکہ اس کے گھر والے آج بھی انکاری ہیں۔ معاملہ یہاں ختم نہیں، عدالت میں مقدمہ چلا اور کارروائی کے بعد عدالت نے تمام اہلکاروں کو تمام الزامات سے بری کر دیا! جب عوام کے رد عمل کا خوف نہیں ہوتا تو اشرافیہ اسی طرح کے فیصلے کرتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مجرموں کوبھی بے نقاب کیا جاتا جن کی غلط اطلاع پر یہ کارروائی کی گئی اور اہلکاروں کو بھی قرار واقعی سزا دی جاتی لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔

حیات بلوچ کا قاتل ایف سی اہلکار عوامی دباو کے نتیجے میں گرفتار ہوگیا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس واقعہ کو بھولیں نہیں، اور جب تک ملزموں کو سزا نہیں ملتی، اپنی آواز اٹھاتے رہیں، ورنہ حیات کے بوڑھے ماں باپ کے آسمان کی جانب اٹھے ہاتھ ہم سب کو اٹھا لے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).