فلسطینیوں کے گھائل کرتے لفظ


کیسا ستم ہے یہ بھی کہ جب غیروں سے کچھ دلاسا اوراشک شوئی کی امید پیدا ہوئی تو اپنوں نے تیر برسانے شروع کردیئے۔ یہ وقت بھی آیا کہ یورپی یونین اسرائیل کو تنبیہ کرتی ہے۔ رک جاؤ بس اب بہت ہوگیا۔ بہتیرا ہڑپ کر بیٹھے ہو فلسطین کو، مزید آگے بڑھو گے تو اچھا نہ ہوگا۔ مگر یہ اپنے؟ متحدہ عرب امارات اور اس کے حالی حوالی سب، کچھ اندر خانے ملے ہوئے اور کچھ اب کھل کھلا کر سامنے آگئے ہیں۔ سفارتی تعلقات قائم۔ معاہدے کا شور وغوغا برپا۔

چاروں کھونٹ دھوم۔ ہمارے ہاں بھی بہتیروں کو ہوشیاری کہ بس اب ہمیں بھی جھپی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ بندہ کیا کہے؟ ڈال لینا پر ابھی وقت کی نزاکت کا تو کچھ خیال کرو۔ اردو ادب کی مایہ ناز لکھاری الطاف فاطمہ بہت یاد آ رہی ہیں جو فلسطین کے غم میں اس طرح نڈھال رہتی تھیں جیسے خود فلسطینی ہوں۔ وہ کہتی تھیں ہیں فلسطین کی تحریک آزادی میں لفظ اتنے ہی اہم ہیں جتنی تلواریں۔ دنیا کے اس اتنے بڑے المیے نے انسانی احساسات کو درد وکرب کے جن متنوع تجربات سے گزارا، ان کے اظہار کی صورتوں نے عربی ادب کو وسعت اور منفرد کیا۔

فلسطینی شاعرہ، مصنفہ اور رائٹس ایکٹیوسٹ ڈاکٹر حنان داوود عشراوی اگر ایک طرف اسرائیل کو لعن طعن کرتی ہے تو دوسری طرف امریکہ کو بھی کوستی ہے۔ اس کی پکار کیسے کلیجہ چیرجاتی ہے۔ ذرا سنیں تو۔

خدا نہ کرے تمہیں کبھی اپنے ملک کے چھن جانے کا کرب سہنا پڑے
خدا نہ کرے تمہیں کبھی کسی قابض کی نظر بندی میں رہنا پڑے
خدا نہ کرے تمہیں اپنا گھر مسمار ہوتے دیکھنا پڑے
خدا نہ کرے تمہیں اپنے ہی دوستوں کے ہاتھوں بکنا پڑے
وہ کہتی ہے۔

”نیلسن منڈیلا نے کہا تھا دنیا کی آزادی فلسطین کی آزادی کے بغیر بے معنی ہے۔“

وہ لکھتی ہے۔ اقوام عالم کی بے حسی اور سب سے بڑھ کر مسلم ا مہ کا یہ تغافلانہ اورظالمانہ رویہ ہمارے باپ دادا اور ہم زمانوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں۔ ہم نے آنکھیں کھولیں اور ظلم و ستم کا ہی راج دیکھا۔ امن تو فلسطین کی لغت سے غائب ہو گیاہے۔ پندرہ سال کی عمر سے شعر کہنے شروع کردیے تھے کہ اندر کے دکھ کو اظہار کی ضرورت تھی۔ نوعمری میں ہی میرا لکھنا میرا شعر کہنا گویا میرے اندر کے دکھوں کا اظہار تھا کہ لفظوں کی طاقت تلوار سے کم نہیں۔ فلسطین کی تحریک آزادی کوان لفظی تلواروں کی بہت ضرورت ہے۔ غاصب دنیا ان تلواروں کو کند کرنا چاہتی ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوگا۔

فلسطینی النکبہ (جڑسے اکھڑجانے کا عمل) کوبھی اب نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اس سانحے نے جو ادب، جو شاعری تخلیق کی اس میں دو رنگ ابھرے۔ ایک شکست خوردہ اور بے خانماں قوم کے افراد کا وہ دکھ، وہ کرب جو ان کی اپنی زمین سے کٹ جانے اور اجنبی جگہوں پر بکھراؤ کی صورت میں تھا اس کا اظہار ہوا۔ دوسرے اپنی ہی زمین پر محکوم بن جانے، ظلم وستم کا شکار بننے اور مسلم امہ کی بے رخی کے دکھ کو سہنے کی صور ت ہوا۔

ایسے میں جو کچھ بھی لکھا گیانثر میں یا شاعری میں یا آرٹ کی صورت کاغذوں پر بکھرا وہ سب فلسطین کے گرد ہی گھوما۔

غسان کنفانی کا ناول رًجال فی الشمس اًور ایمل حبیبی کا الًواقعتہ الغربیہ فی اختفا سعید ابی سخس المتشائل ً۔ دونوں ناول بہت اہم سمجھے گئے ہیں کہ کنفانی جو بحیرہ روم کے ساحلی شہر عکہ کا رہنے والا تھا صیہونیوں کے قبضے کے بعد جلاوطنی اس کا مقدر بنی۔ کبھی لبنان کے کسی چھوٹے سے گاؤں، کبھی دمشق کی کسی کچی آبادی، کبھی کویت دربدر دھکے کھاتے بیماری سے مقابلہ کرتے کہیں پینسل، کہیں برش، کہیں قلم، کہیں ہتھیارسے اپنے اندر کے دکھ کا اظہار کرتا رہا۔

فضل النجیب ہماری الطاف آپا جن سے بہت محبت کرتی تھیں، جو کئی بار پاکستان بھی آئے تھے نے کنفانی کے لیے ہی توکہا تھا۔ غسان کنفانی نے فلسطین کی کہانی لکھی اور پھر اس کہانی نے اسے لکھ ڈالا کہ وہ زندگی اور فلسطین کی محبت میں لڑتے لڑتے اسرائیلی ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔

کنفانی کا یہ ناول ایک ایسا شاہکار ہے جس کا انجام بندے کو زار زار رلا دیتا ہے۔ ایمل حبیبی کی تحریر طنز و مزاح کا رنگ لیے اسرائیل کے منہ پر جو تپھڑ رسید کرتی ہے۔ وہ بلاشبہ سراہنے کے قابل ہے۔

گلیلی کے محمد علی طلحٰہ ہوں یا ہیبرون کے ابوشاور، یحے ٰی یخلف، ذکی دوریش یا ممتاز افسانہ نگار لیانہ بدر اور سحر خلیفہ اسی طرح کے بیشمار نام جن کی کہانیوں، ناولوں میں ہجرت کے دکھ، کیمپوں کی زندگی اور ظلم و ستم کے تجربات رقم ہیں۔ سحر خلیفہ پانچ ناول لکھ چکی ہیں جن کا ترجمہ دنیا کی متعدد زبانوں میں ہوا ہے۔ سحر فلسطینی عورتوں کو بہت دلیر اور پر اعتماد دیکھنے کی خواہش مندہے۔ اس کے خیال میں فلسطینی عورت کو بہت فعال ہونے کی ضرورت ہے۔

فلسطین کے شعرا کی شاعری بھی بلاشبہ مزاحمتی ادب کی ایک قابل رشک مثال ہے اور فلسطینی اس پر نازاں بھی ہیں۔

توفیق زیاد جو فلسطینی شاعری میں سنگ میل کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ جدوجہد اور مزاحمت سے بھری ہوئی اس کی شاعری جسے لوگ لوک گیتوں کی طرح گاتے ہیں۔ ذرا دیکھئیے تو وہ کس طرح اس عزم صمیم کا اظہار کرتے ہیں۔

لدا میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ راملہ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گلیلی میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم یہیں رہیں گے
تمہارے سینے پر دھری دیوار کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تمہارے حلق میں
ٹوٹے شیشے کی کرچ کی طرح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناگ پھنی کے کانٹے کی طرح
تمہاری آنکھ میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آندھیوں کی دھول کی طرح
اپنے بچوں میں انقلاب کا خمیر اٹھائیں گے جیسے آٹے میں خمیر اٹھتا ہے
سمیع القاسم بھی مزاحمتی شاعری کا ایک بڑا نام ہے۔
جب میرے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوف کی لرزیدگی میں ان کو نہلایا جاتا ہے
کہ معلوم ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بہت سے کتوں کی ان پر نظریں لگی ہوئی ہیں
جب میرے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے ننھے کفن ان کا انتظار کرتے نظرآتے ہیں
اپنی ایک اور نظم میں وہ کیسے اپنے اور لاکھوں فلسطینیوں کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے۔
اگر تم میری آنکھوں کی تمام قندیلیں بجھاڈالو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے بچوں کے چہروں سے مسکراہٹ اکھاڑ پھینکو
میں مفاہمت نہیں کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں لڑوں گا۔ آخری دم تک لڑوں گا
عکہ اور یروشلم میں رہنے والی سلمیٰ ا لخضر الجیوی کیا دل تڑپانے والا لکھتی ہے
میں جانتی ہوں کہ وہ مر گئے تاکہ یہ وطن زندہ رہ سکے
ہمارا وطن مقتولوں کا وطن خون میں بھیگا ہوا کھیت
میں جانتی ہوں آزادی سرخ ہے اور یہ اس کی قیمت ہے
محمود درویش فلسطین کی پہچان اس کا عنوان ہیں۔
تمہاری آنکھیں فلسطینی ہیں تمہارا نام فلسطینی
تمہارے خواب، خیال و تمہار ا بدن، تمہارے پیر
تم حیات میں بھی فلسطینی ہو موت میں بھی فلسطینی رہو گی

اب اگر حدیل وحدان نے کہا کہ محمود درویش کی نظمیں اسرائیلی حکومت کے لئے خطرہ ہیں اور خود اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس کی شہرہ آفاق نظم شناختی کارڈ پر بحث ہوئی۔

ذرا دیکھئیے شناختی کارڈ میں شاعر نے کیا کہا ہے۔
لکھ لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں عرب ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میرے شناختی کا رڈ کا نمبر

پچاس ہزار ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے آٹھ بچے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور نواں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ گرما کے شباب میں تولد ہونے والا ہے۔

کیا تم جل بھن تو نہیں گئے۔
آگے دیکھئیے۔
صفحہ اول کے عین اوپر لکھ لو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں انسانوں سے نفرت نہیں کرتا
اور نہ میں اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاہم اگر میرا پیٹ خالی ہو
تو غاصب کا گوشت میری غذا بنے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بچو میری بھوک سے بچو۔
اور میرے غصے سے بھی

موشے بینا روچ مراکش کا یہودی جس کے آباواجداد سپین سے نکالے جانے کے بعد مراکش میں پناہ گزین ہوئے۔ اس کے احساسات و جذبات کسی طرح بھی فلسطینیوں سے مختلف نہیں۔ اس کی نظم ”ہم اپنے مردے گنتے ہیں“ نے اسرائیل میں بہت شور مچایا تھا۔ انتہاپسندوں کی طرف سے اسے دھمکیاں ملیں۔ مگر وہ وہی کر رہا ہے جسے وہ مناسب سمجھتا ہے۔

فلسطین کا ہر شاعر، ہر افسانہ نگار خواہ عورت ہو یا مرد ہو۔ مقبوضہ یروشلم میں ہو، غزہ یا مغربی کنارے میں یا کسی بیرون ملک۔ اس کے اندر سے فلسطین نہیں نکلتا۔ وہ تو سرتا پا فلسطینی ہے۔ اس کی ہر تحریر اسی فلسطین کے گرد گھومتی ہے۔

فلسطین کے سانحے سے انسانی حسیات جس جس انداز میں متاثر ہوئیں۔ اس دردو کرب نے متنوع صورتوں میں عربی ادب میں راہ پائی اور اسے بے پایاں وسعت دی۔

قانون قدرت ہے ہر رات کی سحر ہے گویہ را ت بہت طویل اور رنج و غم سے لبریز ہوگئی ہے مگر اسے طلوع تو ہونا ہے۔ اور فلسطینیوں کی بھی سحر طلوع ہوگی۔ انشاء اللہ

اور جب وہ وقت آئے گا عربی ادب کا دامن پھر نئے رنگوں سے بھرے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).