دو بار یتیم ہونے والا بچہ اور نفرت کی مار


میں گرینج ولیج نیویارک کے جیفرسن مارکیٹ کی لائبریری کے اندر ایک بینچ پر بیٹھا ہوا احمد کا انتظار کر رہا تھا۔ راستے سے ہی میں نے نیویارک ٹائمز کا تازہ شمارہ بھی لے لیا تھا جس پر اچٹتی ہوئی نظر ڈالتا، پھر لائبریری، اس کا احاطہ اور وہاں آنے جانے والے چہروں کو دیکھتا بھی جا رہا تھا۔ انہیں آتے جاتے چہروں میں مجھے وہ نظر آئی تھی۔ اس نے عبایہ تو نہیں پہنا ہوا تھا مگر اس کا سر ڈھنپا ہوا تھا، جیسے آج کل کچھ مسلمان لڑکیاں اپنے سر اور سر کے بالوں کو چھپا کر رکھتی ہیں۔ جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی مجھے لگا کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ گندمی رنگ، کتابی چہرہ، دبلا جسم وہ لائبریری کے بڑے دروازے سے میری نظروں کے سامنے داخل ہو رہی تھی۔

برسوں پہلے گرینج ولیج کے علاقے پر جنگ کے بعد ولندیزیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ اپنے ساتھ سیاہ فام افریقی غلاموں کو لے کر آئے تھے اور دریائے ہڈسن کے ساتھ اس زرخیز زمین پر انہیں کاشتکاری کرنے پر لگادیا تھا۔ سونا اگلتی ہوئی وہ زمین آج بھی سونا ہی اگل رہی ہے۔ 1644 میں ولندیزیوں نے گیارہ افریقی غلاموں کو آزاد کر دیا تھا اور زمین کے کچھ حصے انہیں دے دیے تھے۔ 1666 ء میں انگریزوں نے ولندیزیوں کو شکست دے کر یہاں قبضہ کر کے گرینج ولیج کی داغ بیل ڈالی تھی۔

ولیج میں بے شمار ریسٹورنٹ ہیں جہاں ہر طرح کا کھانا مل جاتا ہے۔ یہاں کے بعض آئرش شراب خانوں کا تو کوئی جواب ہی نہیں ہے۔ وہی ڈبلن جیسا ماحول اور آئرش موسیقی کے ساتھ گرمیوں میں ٹھنڈی بیئر، جب میں نیویارک میں رہتا تھا تو اکثر شامیں انہیں ریسٹورنٹ اور آئرش شراب خانوں میں گزرتی تھی۔ آج تین سال کے بعد پھر نیویارک آنا ہوا تھا تو میں نے احمد کو جیفرسن لائبریری میں بلا لیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی یہاں کے مشہور شراب خانوں اوھنلسن یا فورمینس لائر میں بیئر پینی تھی۔ آئرش انقلابی اور باغی گانے سننے تھے اور پرانی یادیں تازہ کرنی تھیں۔

مگر اس سے پہلے کہ احمد آتا مجھے یہ عورت نظر آئی تھی۔ مجھے یاد نہیں آ رہا تھا مگر مجھے لگا تھا کہ میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ اس سے بات ہوئی ہے، قریب آنے کے بعد اس نے بھی ایک نگاہ مجھ پر ڈالی اور آگے بڑھتی چلی گئی تھی مگر تھوڑا سا آگے جا کر وہ پھر واپس آئی اور میرے سامنے آ کر مجھے غور سے دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ سلام علیکم سر! آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔

مجھے ابھی بھی یاد نہیں آیا کہ میں نے اسے کہاں دیکھا تھا لیکن یہ تو اب یقینی تھا کہ میں اس سے مل چکا ہوں اور یہ شاید میری ہی کوئی طالبہ تھی، میرے وارڈ میں شاید کام کر کے گئی ہوگی۔
میں مسکراتا ہوا کھڑا ہو گیا تھا، معاف کرنا مجھے تمہارا نام یاد نہیں آ رہا ہے، میں نے خجالت کے ساتھ کہا اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گیا تھا۔
میں بتول ہوں۔ ڈاکٹر بتول، آپ ہمارے ہسپتال میں کیمپ کرنے آئے تھے۔

میرے ذہن میں جھماکا سا ہوا۔ اوہ بتول مجھے ایک دم سب کچھ یاد آ گیا تھا۔ صحرا میں وہ ہسپتال احمدیوں نے بنایا تھا۔ پندرہ سال پہلے بہت سارے مریض جمع کیے تھے ان لوگوں نے اور ہم لوگوں کی ٹیم نے وہاں جا کر سرجری کی تھی۔ صحرا میں رہنے والی چالیس سے زیادہ محنت کش عورتوں کا آپریشن کیا تھا اس ہفتے! بتول اور اس کا شوہر اسی ہسپتال میں کام کر رہے تھے۔ مجھے سب یاد آ گیا تھا۔ کیمپ سے آنے کے تقریباً دو ماہ کے بعد میرے وارڈ کی ڈاکٹر صبا نے صبح صبح مجھے وہ بری خبر دی تھی۔ صبا میرے ساتھ اس کیمپ میں گئی تھی میری نائب بن کر ۔

سر وہ جو ہسپتال میں کیمپ کیا تھا ہم لوگوں نے دو ماہ پہلے وہاں کے ڈاکٹر کا قتل ہو گیا ہے۔ آپ کو یاد ہے نا، ڈاکٹر بتول تھی وہاں پر ۔
مجھے بالکل یاد ہے، بتول بھی یاد ہے اور اس کا شوہر اسرار بھی یاد ہے۔ گزشتہ سالوں میں کئی احمدی قتل ہوئے، اسرار بھی انہیں میں شامل ہو گیا تھا۔

مجھے سب یاد آ گیا اور میرے چہرے کے تاثر کو دیکھتے ہوئے وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ میں اسے پہچان گیا ہوں۔ اس کے چہرے پر حزن و ملال کی ایک چادر سی پھیل کر پھر سمٹ گئی تھی جیسے چراغ جلتے ہی بجھ جاتا ہے۔

یہ سارا کچھ چند لمحوں میں گزر گیا تھا، ایک تیز فلم کی طرح میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا کہ بتول سے یہاں ملاقات ہو جائے گی۔ اس سرجیکل کیمپ کے اسپتال سے وابستہ قتل کی خبر کے بعد سے مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ ہسپتال قائم بھی ہے کہ نہیں۔

تم یہاں کیا کر رہی ہو، بہت دنوں کے بعد دیکھا تھا اس لیے نہیں پہچان سکا تھا لیکن اب پہچان گیا ہوں۔ کیسی ہو تم، یہاں کیا کر رہی ہو۔ میں نے دوبارہ سے پوچھا تھا۔
میرا بیٹا راشد یہاں نیویارک میں ہے۔ میں اس سے ملنے آئی ہوں۔ اس نے جواب دیا تھا۔

اوہ بہت خوب کہاں ہے وہ، مجھے یاد ہے، اس وقت شاید چودہ پندرہ سال کا تھا، جب ہسپتال میں ملاقات ہوئی تھی، اب تو جوان ہو گیا ہوگا۔ کہاں ہے وہ میں نے خوش دلی سے جواب دیا تھا۔

کام ختم کر کے یہاں ہی آئے گا، ہم دونوں کا پسندیدہ ایک ترکش ریسٹورنٹ ہے وہاں ہی کھانا کھائیں گے۔ کھانا اچھا حلال اور ذبیحہ ہوتا ہے۔ چلیں سر آپ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھائیے۔ اس نے مجھے دعوت دی تھی۔

میں آئرش پب، احمد اور ٹھنڈی بیئر کے بارے میں سوچ رہا تھا لہٰذا میں نے کہا کہ کھانا تو نہیں لیکن میں اس سے ملوں گا ضرور۔ کب آئے گا وہ، میں اپنے دوست کا انتظار کر رہا ہوں تم بھی اپنے بیٹے کا انتظار کر رہی ہو لہٰذا یہیں بیٹھ جاؤ اس کے آنے تک اور بتاؤ کہ امریکا میں کیا کر رہی ہو۔ میں نے معذرت کے ساتھ جواب دیا اور سوال کر لیا تھا۔

مجھے ایسا لگا جیسے ایک اور درد کی چادر سی اس کے چہرے پر پھیلی اور اس کے پرسکون چہرے کو اتھل پتھل کرتے ہوئے غائب ہو گئی۔

لمبی کہانی ہے سر، مگر اوپر والے کے راز بس وہی سمجھے، وہی یہاں لے آیا تھا، شاید وہ ہم سے کوئی کام کرانا چاہتا ہے، وہی کر رہی ہوں۔ مگر مجھے پتہ نہیں ہے کہ اسرار کی شہادت کے بعد جو کچھ ہوا اس کا آپ کو علم ہے کہ نہیں۔ اس نے دھیرے سے رک رک کر پوچھا تھا۔

نہیں مجھے کچھ پتہ نہیں ہے۔ میں نے تھوڑے سے احساس جرم کے ساتھ کہا مگر مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا تھا۔ وہ گھڑی تو قیامت کی گھڑی ہوگی آپ کے لیے۔ ہم سب نے بھی وہ خبر دکھ سے سنی تھی۔ تمہارا نقصان تو بہت بڑا نقصان تھا۔ تمہارا درد تو تمہارا ہی درد ہے وہ کوئی بھی محسوس نہیں کر سکتا ہے۔

قیامت تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے سر۔ میں اس کے بعد دوبارہ بیوہ ہو گئی تھی۔ اس نے اسی لہجے میں کہا تھا۔ قیامت نہیں قیامتیں گزر گئیں ہیں، ایک کے بعد ایک۔
میں چونک گیا تھا، کیا ہوا تھا۔ میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔

اسرار کے بڑے بھائی انیس یہاں امریکا میں کینٹکی میں رہتے تھے۔ اسرار کی شہادت سے دو مہینے پہلے ان کی بیوی کا ایک ٹریفک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا۔ وہ بہت اچھی خاتون تھیں، وہ ڈاکٹر تھیں اور انیس کمپیوٹر انجینئر تھے۔ لاہور سے پڑھ کر شادی کے بعد امریکا آ گئے تھے ان کے بچے نہیں ہوئے تھے۔ ان دونوں کا علاج چل رہا تھا اسی سلسلے میں وہ ڈاکٹر کے پاس جا رہے تھے کہ یہ حادثہ ہو گیا۔ اسرار کی شہادت کے بعد میں تینوں بچوں کے ساتھ اپنے سسر کے پاس خان پور چلی گئی تھی جہاں ان کی زمینیں تھیں۔ پھر کچھ اس طرح سے ہوا کہ میرے سسر اور میرے والدین کی مرضی سے انیس پاکستان واپس آ کر زمینوں کی دیکھ بھال میں لگ گئے اور میری دوسری شادی ان سے ہو گئی۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئی تھی۔
میں سراسیمہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا، اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی میرے دل کی حرکت جیسے رک سی گئی تھی۔ میرے خدا میرے خدا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2