سی سی پی او لاہور عمر شیخ کے مبینہ ریپ کے واقعے پر بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل
’تین بچوں کی ماں اکیلی رات گئے اپنے گھر سے اپنی گاڑی میں نکلے تو اسے سیدھا راستہ لینا چاہیے ناں؟ اور یہ بھی چیک کرنا چاہیے کہ گاڑی میں پیٹرول پورا ہے بھی یا نہیں۔۔۔‘
جب سی سی پی او لاہور سے گزشتہ رات لاہور کے علاقے گجرپورہ میں موٹروے کے قریب ایک خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں پوچھا گیا، تو ان کا جواب کچھ ایسا تھا کہ کئی لوگوں کے ذہن میں مزید سوال پیدا ہو گئے اور ان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
خاتون نے اپنے بیان میں الزام عائد کیا ہے کہ گاڑی کا پٹرول ختم ہونے پر وہ مدد کا انتظار کر رہی تھیں جب دو افراد آئے، گاڑی کا شیشہ توڑا اور انھیں جنگل میں لے جا کر ان کے بچوں کے سامنے ان کا ریپ کیا۔
قانون نافذ کرنے والوں کی طرف سے یہ کہا جانا کہ رات گئے، اکیلے سفر کرتے ہوئے موٹروے پر مبینہ طور پر ریپ کا شکار ہونے والی خاتون کو دوسرے راستے سے جانا چاہیے تھا یا پھر پیٹرول نہ ہونا ان کی کوتاہی کا نتیجہ تھا، اس سے کیا پیغام ملتا ہے؟
سوچیں اگر آپ گھر سے نکلیں اور راستے میں کچھ لوگ آپ کو گھیر لیں، آپ کے ساتھ زبردستی کریں اور پھر آپ کا بٹوا، فون، گھڑی چرا کر بھاگ جائیں۔۔۔ تو اس میں قصور آپ کا ہوگا یا پھر ان مجرموں کا؟
ٹوئٹر پر اس بارے میں بحث چھڑی ہوئی ہے اور سی سی پی او عمر شیخ کی بات پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو خود دیکھ رہی ہیں اور ان کی ٹویٹ کے بعد کئی افراد ان سے سی سی پی او کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’ایک افسر کی طرف سے ایک اجتماعی ریپ کا شکار ہونے والی خاتون سے یہ کہنا کہ انھیں جی ٹی روڈ سے سفر کرنا چاہیے تھا، یا اس بات پر سوال اٹھانا کہ وہ رات کو اپنے بچوں کے ساتھ کیوں نکلیں، خود اس خاتون پر الزام لگانے کے مترادف ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔ میں اس معاملے کو دیکھ رہی ہوں۔ ریپ کی کوئی صفائی نہیں ہو سکتی۔ بس۔‘
For an officer to effectively blame a woman for being gang raped by saying she should have taken the GT Road or question as to why she went out in the night with her children is unacceptable & have taken up this issue. Nothing can ever rationalise the crime of rape. That's it.
— Shireen Mazari (@ShireenMazari1) September 10, 2020
وزیر صاحبہ کے اس سخت ٹویٹ سے پہلے بھی بہت سی خواتین سوشل میڈیا پر اسی طرح کی باتیں کر رہی تھیں۔
’مہنگی فیمینِسٹ‘ نامی صارف نے لکھا: ’سی سی پی او نے جو کہا، زیادہ تر صاحب اقتدار مرد بالکل ایسا ہی سوچتے ہیں۔ وہ ہمیشہ عورت کو ہی قصوروار ٹھہرانے کا راستہ ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ ہمارے کپڑے نہیں تو ہمارا رویہ اور اگر وہ بھی نہیں تو وہ راستہ جو ہم نے لیا ہو، مگر قصور کبھی ان مردوں کا نہیں ہوتا جو ہمیں پامال کرتے ہیں۔‘
WHAT THE CCPO SAID IS EXACTLY HOW MOST MEN IN POWER THINK, THEY WILL ALWAYS FIND A WAY TO BLAME WOMEN, IF IT IS NOT OUR CLOTHES, IT IS OUR ATTITUDES, IF NOT THAT THEN THE ROUTES WE TAKE BUT NEVER THE MEN THAT VIOLATE US. #menaretrash
— Meowngi Feminist (@mehngifeminist) September 10, 2020
اسی طرح سی این این کے ساتھ بطور پروڈیوسر کام کرنے والی صوفیہ سیفی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا: ’ہمارے ملک میں ریپ کلچر ایک حقیقت ہے۔ عورتیں تھک چکی ہیں اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے آواز بلند کرتے اور بدلے میں تضحیک کا سامنا کرتے کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لیے اکیلے سفر کرنا ذہنی طور پر تھکا دینے والا عمل بن جاتا ہے۔ مسلسل پریشانی اور خوف۔ یہ بھی کوئی جینا ہے۔‘
Rape culture is very real in our country. Women are tired of screaming for their rights and fighting for their safety only to be mocked , this is why travelling alone as a woman is so mentally exhausting. There is a constant cloud of anxiety and fear. This is no way to live.
— Sophia Saifi (@SophiaSaifi) September 10, 2020
صحافی سحر حبیب غازی نے لکھا: ’مجھ سے آدھی عمر کے ان لڑکوں کے لیے جو خواتیں کو محفوظ رہنے کے لیے ٹِپس ٹویٹ کر رہے ہیں۔۔۔ میں رات میں اکیلے ڈرائیو کرنا بند نہیں کروں گی۔ میں اکیلے عام مقامات پر دوڑ لگانے کے لیے جانا بھی بند نہیں کروں گی۔ میں خود کو اور اپنی آزادیوں کو کم نہیں کروں گی۔ ہاں اگلے عورت مارچ میں میری آواز مزید بلند اور غصے سے بھری ضرور ہو گی۔‘
To the boys half my age tweeting security tips for women. I’m not going to stop driving alone at night. And I’m not going to stop running alone in public places. I’m not going to shrink myself and my freedom. I’m just going to be a lot angrier and louder at the next Aurat March.
— Sahar Habib Ghazi (@SaharHGhazi) September 10, 2020
سپورٹس صحافی ریحان الحق نے لکھا: ’یہ انتہائی شرمناک ہے۔ اگر قانون نافذ کرنے والے ہی ریپ کے لیے عورت پر انگلی اٹھائیں تو خواتیں خود کو محفوظ کیسے تصور کر سکتی ہیں؟ ۔۔۔ تسلیم کریں کہ ہم نے اس زہریلے کلچر کو فروغ دیا ہے۔‘
ساتھ ہی کئی خواتین نے یہ بات واضح کرنے کے لیے کہ اس طرح کے واقعات کا تعلق عورت یا لڑکیوں کے کپڑوں اور رویے سے نہیں ہوتا، اپنے ساتھ پیش آنے والے جنسی زیادتی اور ہراس کے واقعات بھی بیان کیے ہیں۔
اور بات جہاں تک ہماری سمجھ میں آتی ہے تو یہ بالکل صاف اور واضح ہے کہ ریپ کی ذمہ داری صرف اور صرف ریپ کرنے والے پر عائد ہوتی ہے۔
- کینیڈا میں چار سو کلو خالص سونے اور لاکھوں ڈالر کی چوری کے کیس میں گرفتاریاں: ’منظم گروہ نے یہ سب نیٹ فلکس سیریز سٹائل میں کیا‘ - 20/04/2024
- انڈیا میں سول سروس کے امتحان میں کامیابی پانے والے مسلمان طلبہ: ’سخت محنت کا کوئی نعم البدل نہیں‘ - 20/04/2024
- ایرانی جوہری تنصیب اور ڈرون و بیلسٹک میزائل تیار کرنے والی فیکٹریوں کے مرکز اصفہان کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟ - 20/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).