خاتون ویرانے میں محفوظ تھی پھر اس نے پولیس کو مدد کے لئے کال کر دی


ابھی تک ذہن ماؤف ہے۔ سوچوں تو وجود میں سنسنی سی دوڑ جاتی ہے۔ خیالات ذہن میں اتنی بری طرح گڈ مڈ ہیں۔

اگر سننے والوں کو اس واقعے کے اثرات سے نکلنے میں ہفتے مہینے لگیں گے تو جن پر یہ دلخراش سانحہ گزرا، وہ مجبور ماں اور اس کے کمسن بچے تو شاید تاعمر اس سانحے کے اثر سے نکل نہ پائیں گے۔ یہ قیامت رات تو رہتی زندگی تک ان کی یادداشتوں میں نقش ہو جائے گی۔

اعتراضات ہیں کہ، نہ صرف حیران کن بلکہ شرمناک ہیں۔
خاتون کے رات کے وقت سفر، بغیر محرم کے اکیلے سفر، نقدی اور زیور کے ساتھ سفر۔ افففففف۔

کسی بھی غیر معمولی یا معمول کے حالات میں بھی، لوگوں کا رات کے وقت سفر کرنا عام بات ہے پورے ملک میں اسپیشلی دور دراز کے سفر کے لئے رات کی پبلک ٹرانسپورٹ منتخب کرنا بھی لوگوں کے لئے ایک معمول کی سرگرمی ہے۔

اپنی گاڑی پر تنہا سفر کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں، معمول سے زیادہ رقم ساتھ رکھنا بھی معمول کی بات ہے اور لاشعور میں وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی ایمرجنسی میں مشکل نہ ہوں۔

ایک جاننے والی خاتون جو کہ سالہا سال سعودیہ میں مقیم رہیں، کہتیں کہ حرم کے سفر کے دوران ہاتھوں اور گلے میں زیور ضرور پہنتی تھی کہ خدانخواستہ دوران طواف اگر جیب کٹ جائے تو، پیسوں کے لئے متبادل انتظام ہو، کہ پیسے ہوٹل کے کمرے میں چھوڑنا بھی غیر محفوظ تھا۔ ( یہ احتیاط اس معاشرے میں چوری کے اثرات سے بچنے کی ہے کہ جہاں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے ) ۔

پھر اعتراض کہ محرم کے بغیر کیوں گئی۔ اگر کوئی مرد ساتھ ہوتا، تو کیا یہ واقعہ نہیں ہو سکتا تھا؟
مسلح جتھے کہ سامنے مرد نے کیا مزاحمت کرنی تھی؟
کیا خاوندوں کے سامنے بیویوں کو بے آبرو کرنے، تشدد کرنے کے واقعات کبھی نہیں ہوئے؟

نقدی لوٹنے کے ساتھ جسمانی اور جنسی تشدد کی بنیادی وجہ تو انتہائی درجے کی دہشت پیدا کرنا تھا اور اگر مرد ساتھ ہوتا تو شاید وہ بھی اسی طرح کے تشدد کا نشانہ بن جاتا۔

اور سب سے بڑی بات لمحہ بھر کو مان بھی لیں کہ کہ گھر سے اکیلے نکلنا، رات کے وقت نکلنا، نقدی زیور لے کر نکلنا خاتون کی غلطی تھی تو کیا خاتون اس سزا کی مستحق تھی کہ اسے اور اس کے بچوں کو ذہنی، جنسی، مالی، اور جسمانی اذیت دی جاتی۔

سی سی پی او لاہور کی بات پرکیا اعتراض کرنا، ان جیسے افسران کی موجودگی ہی ادارے کی نا اہلی کا ثبوت ہے۔ اگر پولیس اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہوتی، تو اس طرح کا واقعہ رونما ہی نہ ہوتا۔

بہرحال افسر صاحب کی ہدایت بہت واضح ہیں۔ خاص طور پر خواتین کے لئے کہ اکیلے سفر نہ کریں، رات کو سفر نہ کریں اور نقدی کے ساتھ سفر نہ کریں کیونکہ ریاست آپ کی جان، مال، آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتی۔

اس سارے سانحے میں، ایک خیال جیسے ذہن سے چپک سا گیا ہے۔ موٹر وے کے لئے پولیس کی الگ فورس ہے جس کا کام موٹر وے سے متعلقہ معاملات اور پٹرولنگ ہے۔ خاتون نے پولیس کو کال کرنے کے بعد تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کیا، اور پولیس کی طرف سے مدد نہ آئی، کوئی روٹین کی پٹرولنگ گاڑی بھی وہاں سے نہ گزری، یعنی کم از کم ڈھائی سو کلومیٹر کے علاقے تک کوئی پٹرولنگ کی گاڑی موجود ہی نہ تھی۔

پھر ایک اور خیال ذہن میں آتا ہے اور دل کے ساتھ روح بھی کانپ جاتی ہے کہ معصوم بچوں کے سامنے ماں کی بے حرمتی پر افسوس کرنے والی معصوم جذباتی عوام کو سانحہ ساہیوال بھول گیا ہے شاید، کہ معصوم بچوں کے سامنے ان کی ماں، باپ اور بہن کو خون میں نہلا دیا گیا تھا۔

اور کون نہیں جانتا کہ خون کی ہولی کھیلنے والے کون تھے۔
کسی دوست نے تبصرہ کیا کہ خاتون ویرانے میں، بند گاڑی میں، محفوظ تھی اور پھر اس نے پولیس کو مدد کے لئے کال کر دی۔
بچے، بچیاں ہوں یا عورت اور مرد، استحصال کا شکار ہونے والے مجبور، مظلوم اور کمزور ہی ہوتے ہیں خدا سب کو اپنی امان میں رکھے اور آزمائشوں سے بچائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).