بھائی ویرسنگھ نانا کیسے بنے؟


جب تیسری بار میری نظر ان کے ہاتھوں پر پڑی جن میں ایک بھی انگلیاں نہیں تھیں تو وہ مسکرائے اور بولے : ’بیٹے، مجھے پتہ ہے کہ آپ کو تجسس ہو رہی ہے۔ پہلے میں ذرا چائے وائے کا انتظام کروا لوں پھر آپ کو قصہ سناتا ہوں۔‘ یہ کہہ کر وہ ملاقات کے کمرے سے اٹھے اور اندر تشریف لے گئے۔ مجھے تھوڑی شرمندگی ہوئی کہ میں بار بار ان کے ہاتھوں کو کیوں گھور رہا تھا۔ لیکن بات یہ ہے کہ نوجوانی میں اپنی آنکھ اور زبان پر کہاں کسی کو قابو رہتا ہے۔

میں اپنے والد کے ساتھ بھائی ویر سنگھ صاحب کے گھر پر ہوں۔ یہاں آنے کا سبب یہ ہے کہ میرے والد شہر کے ایک ہائی اسکول میں ٹیچر ہیں اور ملک میں چل رہی مردم شماری میں دوسرے اساتذہ کی طرح اپنے حصے کے کام کی انجام دہی میں لگے ہوئے ہیں۔ انہیں گیا کالج کے قریب کی انوگرہ پوری کالونی میں چند گھروں سے کچھ اعداد و شمار جمع کرنے ہیں۔

میرا مزاج اپنے والد سے بالکل مختلف ہے۔ وہ ایک عملی قسم کے آدمی ہیں جبکہ میرا ذہن میدان کارزار کے بجائے رومانوی اور خیالی دنیا کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ اور یہ بات، ظاہر ہے کہ، میرے والد کے لئے پریشانی کا سبب ہے۔ انہوں نے جب بھی مجھے کسی رو مانویت یا آئیڈ یلزم کے گڈھے میں گرتے دیکھا تو کمر سے پکڑ پکڑ کر نکالنے کی کوشش کی۔ پر میں نے بھی شاید قسم کھا رکھی تھی کہ جہاں اس طرح کا گڈھا ملے گا اس میں کود پڑوں گا۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہر انسان کی ایک ذہنی افتاد ہوتی ہے۔ گو خارجی عوامل اسے متاثر کرتے ہیں تاہم وہ اپنے اصل کے اعتبار سے تبدیل نہیں ہوتاہے۔

میں آپ کو ایک واقعہ بتاتاچلوں۔ ایک دفعہ میں اپنے بڑے ابا کے گھر ہزاری باغ گیا۔ وہاں میرا ایک دوست بھی رہتا تھا۔ اس کی کپڑے کی ایک دکان تھی۔ شہرکی جامع مسجد کے قریب۔ میں اپنے بڑے ابا اور بڑی اماں سے مل کراپنے ایک چچازاد بھائی کے ساتھ اپنے دوست سے ملنے گیا۔

میرا دوست ابن صفی کا پرستار تھا۔ اس نے اپنی دکان پر بھی مصنف کی ڈھیر ساری کتابیں رکھ رکھیں تھیں۔ اس نے ابن صفی کی اتنی تعریفیں کیں کہ میں نے اخلاقاًیہ کہنا ضروری سمجھا کہ میں بھی موصوف کے ناول پڑھنا شروع کروں گا۔ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔ اس نے مجھ سے کہا: ’یہ کتابیں لئے جاؤ۔‘ میں نے دو کتابوں کا انتخاب کیا۔ اس نے حیرت اور شفقت بھرے لہجے میں کہا : ’ارے یہ کیا؟‘ اور پھر اس نے ایک تھیلے میں بھر کے دو درجن کے قریب کتابیں تقریباً زبردستی مجھے عنایت کیں۔

یہ میری زندگی کا اپنی نوعیت کا پہلا اور آخری تجربہ تھا۔ زندگی میں پھر کبھی کس نے مجھے اس قدر پیار اور اصرار کے ساتھ کتابوں کا اتنا بڑا ذخیرہ تحفہ میں نہیں دیا۔ میں یہ کتابیں لے کر اپنے شہر آیا اور اپنے گھر میں ایک طاق پر انہیں سجا دیا۔ میں نے ان میں سے ایک ناول اٹھا کر پڑھنا شروع کیا۔ مجھے زبان کافی سادہ اور رواں محسوس ہوئی۔ فریدی اور عمران کے کرداروں سے ہلکی سی شناسائی پیدا ہوئی۔ ابھی اس واقعہ کو دو چار روز ہی ہوئے تھے کہ میرے والد کی نظران کتابوں پر پڑی۔ ’یہ کیا ہے؟‘ انہوں نے تفتیش شروع کی۔

میرے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ دل ہی دل میں میں نے اپنے آپ سے سوال کیا کہ ان کتابوں کو گھر لا کرکہیں میں نے کوئی غلطی تو نہیں کی۔ یہ کتابیں حکومت کی جانب سے ممنوع ہیں کیا؟ یا، خدا نخواستہ، ان میں فحاشی کی آمیزش تو نہیں؟ چونکہ میں کتاب کے متن سے پوری طرح واقف نہیں تھا لہذا ایک لمحہ کے لئے خجل سا ہو گیا۔ خیر، میں نے جواباً کہا: ’ابن صفی کی کتابیں ہیں۔‘

’ان سے کیا ہوگا؟‘ میرے والد نے پھر سوال کیا۔
’ اردو اچھی ہوگی۔‘ پتہ نہیں کہاں سے یہ جواب اس وقت میرے دماغ میں آیا۔

’کیا شبلی، مولانا آزاد، ڈپٹی نذیر احمد اور حالی کو پڑھنے سے اردو اچھی نہیں ہو گی؟‘ میرے والد نے پوچھا۔

میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور اگر ہوتا تب بھی مجھے بولنے کا یارا نہیں تھا۔ قہر درویش بر جان درویش۔ میں منہ پھلا کے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعدمیں اٹھا اور دل میں اپنے دوست سے معذرت کے ساتھ تمام کتابیں لے جاکر چھت پر موجود کباڑ خانے میں ڈال آیا۔

بعد میں میری بہن نے مجھے بتایاکہ اس نے ان تمام کتابوں کو کباڑ خانے سے نکال لیا تھا اور ایک ایک کر کے سب کو پڑھ ڈالا تھا۔ میں نے کہا: یہ بھی خوب رہی!

کچھ ہی مہینے بعد کی بات ہے میرے ایک دوست نے، جو پڑوس میں رہتا تھا اور بلریا گنج کے ایک مدرسہ میں زیر تعلیم تھا، نے مجھے نسیم حجازی کے ناولوں کو پڑھنے کی ترغیب دلائی۔ اس نے مجھے ’کلیسا اور آگ‘ پڑھنے کودیا۔ جب میں ناول پڑھ چکا اور میری سمجھ میں بھی آ گیا تو مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں ایک فاتحانہ چال چلتے ہوئے اپنے والد کے پاس پہنچا اور انہیں فخریہ بتایا کہ یہ ناول مجھے اچھا لگا۔ اس میں سقوط غرناطہ اور اندلس میں مسلمانوں کے مادی جاہ و جلال اورعلمی شان و شوکت کے زوال کی داستان بیان کی گئی ہے۔ میرے والد نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں فرمایا: ’اگر ایسا ادب پڑھنا ہے جس میں تاریخی عوامل کی کار فرمائی ہو تو قرۃ العین حیدر کو پڑھو۔ نسیم حجازی کو کیا پڑھتے ہو۔‘

وہ دن تھا اور آج کا دن ہے میں نے نسیم حجازی کی کتابوں کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ یہ میرے احتجاج کا انوٹھا طریقہ تھا جو شاید احتجاجی صلاحیت کے فقدان کے نتیجہ میں پیدا ہوا تھا۔

اسی زمانے میں میرا ایک دوست فیاض لاج میں رہا کرتا تھا اور بی اے کا طالب علم تھا۔ میں اس سے منٹو کی کہانیوں کا ایک مجموعہ عاریتاً لے کرگھر چلا آیا اور اسے ایک ایسی جگہ رکھ دیا کہ اس پر میرے والد کی نظر نہ پڑ سکے۔ اس بندہ خدا نے بارہا مجھ سے کہا کہ اسے اپنے گھر مت لے جاؤ۔ منٹو کی کہانیوں کے بارے میں سنسنی خیز بیانات، جسے لوگ ایک اسکینڈل کی طرح بیان کرتے پھرتے تھے، میں سن چکا تھا۔ اب اوپر سے اس دوست کابار بار یہ کہنا کہ منٹو کی کتاب اپنے گھرمت لے جا۔ ان باتوں نے میرے اندر کے سوئے ہوئے ایک بالغ اور باغی نوجوان کوجگا دیا۔ اور میں وہ کتاب گھر لے آیا۔

کتاب پڑھنے کے بعد بڑی مایوسی ہوئی چونکہ اسکینڈل نما باتیں سن سن کر ہم نے جو توقعات پال رکھی تھیں یہ کہانیاں ان پر پوری نہیں اتریں۔ اگر اس مجموعہ میں ’بو‘ نام کی کہانی نہ ہوتی توواقعی بڑا صدمہ لگتا۔ ہاں تو پھر یہ ہوا کہ اس سے پہلے کہ کسی کو اس بو کا سراغ ملے میں کتاب لوٹا آیا۔

ایک زمانہ وہ گزرا جب میں ایک طلبہ تنظیم سے منسلک ہو گیا او راس کے اکابرین کی لکھی ہوئی کتابیں پڑھنے لگا۔ ایک دن میرے والد نے مجھے سمجھایا کہ آدمی کو انتہا پسندی اور غلو سے پرہیز کرنا چاہیے اور اپنی ترجیحات درست رکھنی چاہیے۔

میں اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا۔ بجائے اپنا مضمون پڑھنے کے میں تنظیم کا لٹریچر پڑھتا رہتا تھا اوریہاں وہاں جا کر اجتماعات میں شرکت کرتا رہتا تھا۔ ایک دن جزبز ہو کر انہوں نے چند اکابر کی نشاندہی کرتے ہوئے مجھ سے کہا: دیکھو کسی کے بچے طلبہ تنظیم سے منسلک نہیں ہیں۔ اکثرکو اس نام نہاد فکر کی ہوا تک نہیں لگی ہے۔ جو بڑے بڑے لیڈران ہیں ان کے بچے انگلینڈ اور امریکہ میں پڑھ رہے ہیں یا برسرکار ہیں۔ تم جیسے لوگ زندگی بھر بینر ڈھوتے رہ جاؤ گے۔ اکابرین تحریک اپنی بیٹیاں تم جیسوں سے منسوب نہیں کریں گے۔ انہیں داماد بھی ڈاکٹر یا انجینئر چاہیے اور وہ بھی اگر انگلینڈ یا امریکہ میں ہو تو ہم خرما و ہم ثواب۔ مغربی تہذیب کے بخیے صرف تقریروں میں ادھیڑے جاتے ہیں اور قیام عدل صرف مائیک پہ ہوتا ہے۔

اس طرح کی ڈانٹ ڈپٹ پر میں اپنا منہ بسور لیتا اور دل ہی دل میں اپنے والد کو دنیا دار اور گمراہ تصور کرتا۔ بعد میں جب میں اس تنظیم کے ایک ادارے سے چند سال وابستہ رہا تو مجھے اس فکر کو پرکھنے اور عمائدین کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ تب جا کر میں نے اپنا کان پکڑا۔ شکر ہے اس پروردگار کا جس نے ہمیں بنایا اور سوجھ بوجھ عطا کی۔

خیر، ان دنوں میرے والد مجھ سے بہت خوش ہیں۔ اور لوگوں سے میرے تعریفیں بھی ہو رہی ہیں۔ دراصل مردم شماری کے کام میں میں ان کا ہاتھ بٹا رہا ہوں بلکہ سچ پوچھئے تو سارا کام میں ہی کر رہا ہوں۔ میرے رویہ نے شاید انہیں ایک خوشگوار حیرت سے دوچار کر دیا ہے اور انہیں یہ اندازہ مل رہا ہے کہ اب میں بفضلہ دنیا داری کی طرف مائل ہو رہا ہوں۔

ویر سنگھ صاحب ملاقات کے کمرے میں آچکے ہیں۔ ان کے آنے کے معاً بعد چائے اور اس کے لوازمات سے بھری ایک سینی بھی آچکی ہے۔ ویر سنگھ صاحب، جن کی عمر چونسٹھ پینسٹھ برس ہے، نے ہم سے مخاطب ہو کر کہا: ارے صاحب لیجیے نا۔ بیٹے شرماؤ نہیں۔ چکھ لو۔

اس اثنا میں میرے والد نے مردم شماری سے متعلق کچھ سوال کرنا چاہا تو ویرسنگھ صاحب نے فرمایا: جناب، یہ تو ہو جائے گا۔ پہلے چائے تو پی لیجیے۔ ہم لوگ کچھ بات چیت کر لیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ میں لوگوں سے ملنے کے لئے ترس جاتا ہوں۔ خاص طور پر ایسے لوگوں سے جو مجھے اچھے لگتے ہوں۔ آپ لوگوں کے تشریف لانے سے مجھے بے انتہا خوشی مل رہی ہے۔ آج کا المیہ یہ ہے کہ انسان کم ہو تے جار ہے ہیں۔

چونکہ میرے والد بڑی اچھی گفتگو کرتے ہیں اور بر محل اشعار، لطیفے، پہیلیاں، قصے اور کہانیاں کہنے میں انہیں یدطولی حاصل ہے۔ لہٰذا دونوں کی خوب گزر رہی ہے۔

اس دوران ویر سنگھ صاحب نے بڑے درد مندانہ لہجے میں کہا: تقسیم ملک نے ہم سب کو اپنی روایات سے یکسر کاٹ کر رکھ دیا۔ نہ صرف ملک اور خاندان کا بٹوارا ہوا بلکہ ہماری مشترکہ تہذیب اور معاشرے کو ایسی چوٹ لگی کہ آج تک ہم اس کی پیڑا جھیل رہے ہیں۔

میرے والد نے جواباً کہا:اس پر مستزاد یہ کہ اس ثقافتی ورثہ اور طرز معاشرت کی بازیابی کے بجائے ہم آج بھی تقسیم والی سیاست کو فروغ دینے میں لگے ہوئے ہیں۔

’سوفی صد درست۔‘ ویر سنگھ صاحب بولے۔

اور پھر گویا ہوئے : اپنی نوجوانی کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ سنا دوں آپ لوگوں کو۔ ہاں، اس سے خود ستائی ہرگز مطلوب نہیں۔ ہم لوگ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے ساتھ بڑے مزے سے گور داس پور میں رہتے تھے۔ تقسیم کے بعد تمام مسلمان اپنی عورتوں اور بچوں کے ساتھ سرحد پار کر گئے۔ ان میں سے کئی ایک لوگوں کی خیریت ایک زمانے تک ملتی رہی۔ اکثر اس کرب میں مبتلا رہے کہ ان سے ان کی زمین چھوٹ گئی۔ گاہے گاہے ان کے دل میں وطن کی ہوک اٹھتی تھی۔ لیکن ان میں سے اب جو لوگ زندہ رہ گئے ہوں گے وہ تو شاید یہی سوچ رہے ہوں گے کہ ٹھیک ہی تو کیا تھا جو چلے آئے تھے۔

مسلمان پڑوسیوں کے چلے جانے کے بعد گاؤں میں سناٹا ساچھا گیا تھا اور یہاں کی مسیت بھی ویران ہو گئی تھی۔ آس پڑوس کے لوگ اس کے اندر اپنے جانور باندھنے لگنے تھے اور ایک دو عورتیں اس کے باہری دیواروں پر اپلے سکھانے لگیں تھیں۔ گاؤں کے دوچار نوجوانوں کو جن میں ایک میں بھی تھا غیرت آئی۔ ہم نے تمام لوگوں کو سمجھا بجھا کر اس بات پر راضی کیا کہ یہ ہمارے مسلمان بھائیوں کی جائے عبادت ہے۔ اس پر انہیں کا حق ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ ہم اس کی بے حرمتی نہ کریں اور اسے ان ہی لوگوں کے حوالے کر دیں۔ لوگوں کو گل سمجھ آ گئی۔ اس کے بعد ہم لوگوں نے خود سے مسجد کو دھویا، رنگ و روغن کیا، اگر بتیاں جلائیں اور آس پاس کے گاؤں میں جو چند مسلمان رہ گئے تھے انہیں اس بات کی اطلاع کروا دی۔ وہ لوگ گاہے ماہے آتے، چراغاں کرتے، عبادت فرماتے اور ہم لوگوں کے حق میں دعائے خیر کرتے۔

میں ساری باتیں بغور سن رہا تھا لیکن میرا تحیر اور تجسس برقرار تھا۔ میری نظر پھسل کر پھر ویر سنگھ صاحب کے ہاتھ پر چلی گئی۔ دونوں ہاتھوں میں ایک بھی انگلیاں نہیں تھیں۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ جذام کے مریض ہیں لیکن چونکہ میں نے جذام میں مبتلا کئی فقیروں کو دیکھ رکھا تھا لہٰذا میں کہہ سکتا تھا کہ یہ انگلیاں جذام کی وجہ سے خراب نہیں ہوئی ہوں گی۔ پتہ نہیں کیا ماجرا ہے؟

ویر سنگھ صاحب پھر تاڑ گئے۔ ایک خفیف تبسم کے ساتھ انہوں نے اپنا باریش اور بارونق چہرہ میری جانب کیا اور یوں گو یاہوئے : میرے ایک ہی لڑکا تھا۔ لڑکی کوئی نہیں تھی۔ آج سے بیس سال قبل میرے بیٹے کی شا دی ہو ئی تھی۔ ہم لوگ بہو کو لے کر آگئے تھے اور شادی کی تمام رسو مات اور تقر یبات پا یہ تکمیل کو پہنچ چکی تھیں۔ لیکن ہمارے کئی ایک رشتہ دار ابھی ہمارے گھر پرمو جودتھے۔ ایک دن یوں ہوا کہ بجلی چلی گئی اورپتہ نہیں کیسے اسی وقت گیس والے چولہے سے گیس رسنے لگی۔ ابھی ہم لوگ جا کر دیکھتے کہ مسئلہ کہاں ہے کہ ہماری ایک ضعیف العمر رشتہ دارلالٹین جلا کرباورچی خانہ میں آپہنچیں۔ بس پھر کیا تھا وہ اور میری بیوی ایک جوالا میں تبدیل ہوگئے۔ میرا بیٹا ہمت کر کے باور چی خانہ کے اندر گیا اوراس نے سلینڈر کا ناب بند کر دیا لیکن اس اثنا میں وہ بھی آگ کی لپیٹ میں آ گیا۔

ویر سنگھ صاحب نے ایک سرد آہ بھری اور ایک مصرع پڑھا:
کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلہ پر پیچ و تاب

اور پھر گویا ہوئے : میری بیوی کافی زرق برق لباس پہنے ہوئی تھی جس پر زری کا ڈھیروں کام تھا۔ کلابتوں اور سلمے ستارے پگھل پگھل کر اس نازک اندام کے مرمریں جلدوں سے چمٹ رہے تھے اور میں دیوانہ وار اپنی انگلیوں سے مقیش لباس کے پگھلتے ہوئے مواد کو اس کے جسم سے کھر چنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اسی جدوجہد میں میری تمام انگلیاں جل جل کر گل گئیں۔ انگلیاں کھونے کے باوجود میں بے نیل مرام رہا۔ داغ بربا لائے داغ، میرا بیٹا اور میری رشتہ دار بھی زخم کی تاب نہ لا سکے اور۔ ۔ ۔

کیا بتاؤں؟ وہ ایک قیامت خیز منظر تھا۔ دل ہلا دینے والی چیخیں۔ لوگوں کا اضطراب اور ان کی آہ وزاری۔ میری بے بسی اور میرا دیوانوں کی طرح لوگوں کو بچانے کی نا کام کوششیں۔ خدا کسی دشمن کو بھی یہ دن نہ دکھلائے۔ حال حال تک مجھے نائٹ میئر آتے تھے۔ میں سوتے ہوئے میں چونک کر چیختا ہوا اٹھ کھڑا ہوتا تھا۔ میرے دل کی دھڑکن نہایت تیز ہو جاتی تھی اور میں پسینے سے شرابور ہو جاتا تھا۔

آپ دیکھئے کہ کیسے پل بھر میں شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ اس دن میں نے جانا کہ زندگی پر قابوپانے یا ہونے کا خیال محض ایک واہمہ ہے۔

ویر سنگھ صاحب خاموش ہو گئے۔ ان کے چہرے پر حزن کی ایک چادر کھنچ گئی۔ میں ساکت و جامد اور پرنم بیٹھا ان کو دیکھ رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ایک طوفان بلا خیز ہے جس پر بند باندھنے میں ویر سنگھ صاحب کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ غالبؔ نے تو ’انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا‘ کہا تھا لیکن اس شخص نے تو اپنی انگلیاں نثار کر کے وفا کی ایک نئی داستان رقم کی ہے۔

کچھ دیر بعد ویر سنگھ صاحب کے اوسان بجا ہوئے تو وہ پھر سے گویا ہوئے : دو چار دنوں بعد جب میری طبیعت اور حواس کسی قدر بحال ہوئے تو میں اپنی بہو کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ آج سے تو ہماری بہونہیں بیٹی ہے۔ من پریت مجھ سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

وہ ہمارے ساتھ ہی رہنے لگی۔ وہ بڑی پڑھی لکھی، سمجھدار اور شائستہ لڑکی تھی۔ ہم لوگ مذہب، فلسفہ، سماج اور سیاست جیسے موضوعات پر گفتگو کرتے، شاعری اور موسیقی سنتے اور اپنے غم غلط کرتے۔

میں اسے ناصر کاظمی اور منیر نیازی کی شاعری سناتا۔ وہ مجھے فیض اور ساحر کے کلام سناتی۔ امریتا پریتم اس کی پسندیدہ مصنف تھیں۔ اسے دو گیت بڑے پسند تھے۔ ایک تو عابدہ پروین کی آواز میں ’چھاپ تلک‘ اور دوسرے نصرت فتح علی خان کی آواز میں ’اکھیاں اڈیک دیاں‘ ۔

اسی سے مجھے پہلی بار پتہ چلا کہ ’چھاب تلک‘ امیر خسرو کا کلام ہے اور اودھی میں ہے۔ یہ بڑا ہی عارفانہ کلام ہے۔ بول نہایت شیریں ہیں۔ خسرو نے حضرت نظام الدین کے تئیں اپنی محبت اور عقیدت کا اظہار کیا ہے۔

چھاب تلک سب چھینی رے موسے نینا ملائی کے
بات ادھم کہہ دینی رے موسے نینا ملائی کے
پریم بھٹی کا مدھوا پلائی کے
متوالی کر لینی رے موسے نینا ملائی کے

لیکن جب وہ نصرت صاحب کی آواز میں ’انکھیاں اڈیک دیاں‘ سنتی تھی تو میرا کلیجہ کٹ کٹ جاتا تھا۔ ہم ایسے حالات سے دوچار ہوئے تھے کہ یہ گیت مجھے بڑا اندوہ ناک معلوم ہوتا تھا۔

اسی طرح ہم لوگ بلے شا ہ اور با با فرید کے کلام بھی سنتے تھے۔ ایک دن تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور یک گونہ تعجب بھی جب اس نے بتایا کہ سکھوں کی تاریخ پر خشونت سنگھ کی لکھی کتابوں کا اس نے بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے۔

اس دوران میں نے اپنے دوست احباب اور رشتہ داروں میں کہلوادیا تھا کہ میں من پریت کے لئے رشتہ ڈھونڈ رہا ہوں۔ ایک دن صبح صبح میرے ایک قریبی دوست کرتار سنگھ کا فون آیا جو جالندھر میں سکونت پذیر ہے۔ اس نے کہا کہ وہ من پریت کو اپنی بہو بنانا چاہتا ہے۔ میں نے کہا کہ میں اس سے پوچھ کر بتاؤں گا۔

میں اپنے دوست کے بیٹے امرندر سے کئی بار ملاقات کر چکا تھا۔ وہ بڑا ہو نہار منڈا تھا۔ اس نے دوا کی ایجنسی لے رکھی تھی۔ میں نے من پریت کے سامنے اس کی سفارش کی اور اسے سمجھایا کہ اب اسے اپنا گھر بسا لینا چاہیے۔ وائے گرو دی کرپا، دونوں کی شادی ہوگئی۔ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ اب ان کے دو بچے بھی ہیں ماشاء اللہ۔ یہ لوگ ہر سال گرمی کی تعطیل میں یہاں آتے ہیں۔ ایک ہفتہ ایک نانا کے یہاں قیام کرتے ہیں اور دوسرے ہفتہ دوسرے کے یہاں۔

ویر سنگھ صاحب ہنسے۔ ان کو ہنستا ہوا دیکھ کر مجھے اچھا محسوس ہوا۔ انہوں نے کہا کہ من پریت، امرندر اور ان کے بچے آئے ہوئے ہیں۔ انہیں سیر و تفریح اور زیارت کے لئے بودھ گیا، راجگیر اور پٹنہ جانا ہے۔ رکئیے میں آپ لوگوں کو بچوں سے ملواتا ہوں۔

یہ کہہ کر ویر سنگھ صاحب نے آواز لگائی: ’اوئے جگویر، اوئے نہار۔ ادھرآ پتر!‘
دونوں دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے : ’جی نانا جی!‘ ’جی نانا جی!‘

’بیٹے یہ بھی ناناجی ہیں انہیں سلام کر و۔ اور یہ ماماجی ہیں انہیں بھی سلام کرو۔‘ ویر سنگھ صاحب بولے۔

’سلام کی ہونا وا، نانا جی؟‘ دونوں بچوں نے بیک زبان پوچھا۔

۔ ’دوسر ے نو عزت بخشنے دی خاطر جس طرح اسی ساری نال ست سری اکال کہندی وے، انج ہی سلام وے ہوندا وے۔‘ ویر سنگھ صاحب نے بڑے شفقت آمیز لہجے میں سمجھایا۔

یہ سنتے ہی بچے چہچہا اٹھے : ’سلام نانا جی!‘ ’سلام ماما جی!‘

میرے والد نے کہا: ’خوش رہئے!‘ اور پھر انہوں نے دونوں بچوں کو پچاس پچاس روپے یہ کہتے ہوئے دیے کہ ’آپ لوگوں کی چاکلیٹ کے لئے۔‘

بچے جا چکے تب ویرسنگھ صاحب نے کہا: اب یہی بچے جینے کا سہارا ہیں۔ انہیں سے روز فون پر بات چیت کرتا ہوں اور جی بہلاتا ہوں۔ دراصل خدا کو مجھے ناناجی بنانا تھا تو میں دادا جی کیسے بن جاتا۔ خدا کی مرضی کے آگے تو ہم سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔

فیصل ہاشمی، بہار، ہندوستان
Latest posts by فیصل ہاشمی، بہار، ہندوستان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).