رات کو اکیلی گھومتی ہو؟ جاؤ بی بی واپس جاؤ ہماری ”قدریں“ نہ بگاڑو


سی سی پی او ایک فرد نہیں، نمائندہ ہے ایک مخصوص ذہنیت کا جو ملک خداداد کی اکثریت کی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو ہر ایسے جرم کے بعد یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ اگر رات کو اکیلے باہر نکلو گی تو ایسا تو ہوگا، ماڈرن کپڑے پہنو گی تو ایسا تو ہوگا، دوپٹے کے بغیر گھومو گی تو ایسا تو ہوگا، چست کپڑے پہنو گی تو ایسا تو ہوگا، محرم کے بغیر سفر کرو گی تو ایسا تو ہوگا، بن ٹھن کے باہر جاؤ گی تو ایسا تو ہوگا، حجاب نہیں کرو گی تو ایسا تو ہوگا، نقاب نہیں پہنو گی تو مردوں کے جذبات تو برانگیختہ ہوں گے، سائیکل چلاؤ گی، استغفراللہ!

یعنی اگر کوئی عورت مذکورہ بالا فہرست میں سے کوئی بھی کام کرے گی تو پھر اس کا ریپ ہونا منطقی اور برحق ہے۔ سارا مدعا اس بات سے شروع ہوتا ہے کہ مرد تو چونکہ اپنی ”فطرت“ کے ہاتھوں ایک بے بس مخلوق ہے اس لئے وہ بے چارہ بس ایک مجبور محض ہے۔ مذکورہ بالا خواتین اس کی عاقبت کی خرابی کا باعث جہنمی عورتیں ہیں، نہ یہ ہوتیں نہ مرد کو گناہ پر اکساتیں۔ افسوس ہے ایسی ذہنیت پر اور ایسی ذہنیت کا دفاع کرنے والوں پر۔

ہمیں جرم سے زیادہ اس مائنڈ سیٹ سے خطرہ ہے۔ جرم سے بڑا مسئلہ جرم کو قبولیت بخشنے، دفاع کرنے اور مظلوم کو مورد الزام ٹھہرانے کا ہے۔ کیونکہ اس ذہنیت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس قسم کے جرائم میں مستقبل قریب یا بعید میں کمی واقع ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ جس کو جب بھی موقع ملے گا وہ حسب استطاعت ایسا، یا اس سے کچھ کم یا زیادہ کر گزرے گا۔

اسی مائنڈ سیٹ کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ بیمار ذہنیت کے لوگ اعداد و شمار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فرانس، امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک میں ایسے کیسز پاکستان سے کہیں زیادہ ہیں، اس لیے کہ وہاں پر عورتیں زیادہ ”ماڈرن“ ہیں چھوٹے کپڑے پہنتی ہیں، اکیلی باہر نکلتی ہیں اس لئے وہاں یہ واقعات زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے سارا قصور ”ماڈرن“ ہونے کا ہے یعنی جرم کا شکار ہونے والی عورت کا اپنا ہی قصور ہے اگر وہ یہ سب کچھ نہ کرتی تو اس کے ساتھ یہ نہ ہوتا، میرا خیال ہے کہ ایسے لوگوں کو کسی ماہر نفسیات کو فوراً دکھا لینا چاہیے کیوں کہ ان میں سے ہر ایک میں ایک ممکنہ ریپسٹ چھپا بیٹھا ہے جو موقع ملنے پر کبھی بھی باہر آ سکتا ہے۔ اور سی سی پی او کی باتیں سن کر اندازہ ہوا کہ یہ مائنڈ سیٹ صرف کم پڑھے لکھے، ان پڑھ یا منبر سے علم کشید کیے ہوئے انسانوں کا نہیں بلکہ ہمارے انتہائی پڑھے لکھے، مقابلے کا امتحان پاس کرنے والوں کا بھی مائنڈ سیٹ یہی ہے۔

ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں جرائم بھی ہوں گے۔ کسی معاشرے کے اچھا یا برا ہونے کا، اعلی اور پست ہونے کا معیار اس بات سے طے ہوتا ہے کہ جرم ہونے کے بعد معاشرے کا ردعمل کیا ہے۔ اس معاشرے کی اکثریت جرم کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے۔ کتنے لوگ اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ سے مجرم کو رعایت دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کا جرم کے شکار فرد کی طرف کیا رویہ ہے۔ اسے معاشرے کی کتنی اور کس قسم کی مدد دستیاب ہوتی ہے۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے کس قسم کی قانونی اور اخلاقی مدد فراہم کرتے ہیں۔ مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے کیا کوششیں کی جاتی ہیں۔ مجرموں کے پکڑے جانے اور سزا پانے کی شرح کیا ہے۔ جن ممالک کا ذکر کیا جا رہا ہے کیا وہاں کوئی مجرم ایسی حرکت کرنے کے بعد بچ سکتا ہے؟ نہیں بالکل بھی نہیں، جان و مال کی حفاظت پر معمور لوگوں کا رد عمل ایسا ہوتا ہے؟ نہیں۔ بالکل نہیں! ، وہاں مظلوم کو ہی ظلم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے؟

نہیں! وہاں پر لوگ ایسے واقعات رپورٹ کرنے سے جھجکتے ہیں؟ نہیں! یہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں زیادہ تر تو ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے کیونکہ لوگ اپنی عزت جانے کے ڈر سے ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں کرتے کیوں کہ سب کو پتا ہے کہ ان کو ہی مورد الزام ٹھہرا دیا جائے گا، ظلم کا شکار عورت کے کردار کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا، کوئی اس کو اپنانے، اس سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہوگا کیوں کہ وہ اب ایک استعمال شدہ چیز ہے۔ اس کی ”عزت“ جا چکی ہے۔ پھر بھی اگر کوئی عورت ہمت کر کے ایسے جرم کو رپورٹ کر دے تو اس کو عدالت میں ذلیل کیا جائے گا۔ ایسے ایسے بے ہودہ سوالات پوچھے جائیں گے کہ عورت تو کیا کسی شریف مرد کے بھی پسینے چھوٹ جائیں، تھانوں میں بلا کر اس کو ذلیل کیا جائے گا۔

انصاف کا نظام اتنا مہنگا اور صبر آزما ہے کہ اس زلف کے سر ہونے تک بڑوں بڑوں کا صبر جواب دے جاتا ہے، جمع پونجی ختم ہو جاتی ہے اور ہمت بھی۔ انہی سب وجوہات کی بنا پر بے چاری عورت پولیس والوں کے آگے ہاتھ جوڑ رہی تھی کہ میں کوئی رپورٹ درج نہیں کروانا چاہتی، اسی لئے وہ اپنی شناخت کو راز میں رکھنا چاہتی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس بیمار معاشرے میں لوگ ایسی عورتوں کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں، اور کن کن طریقوں سے ہمدردی کی آڑ میں مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان بیمار ذہنیت کے لوگوں کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ان وجوہات کی بنا پر کیسز کم رپورٹ ہوتے ہیں۔ ورنہ کس کو نہیں پتا کہ ہمارے ”پاکیزہ“ خاندانوں اور ”اسلامی“ معاشرے میں کیا کیا نہیں ہوتا، کوئی آنکھیں بند کر لے اور میں نہ مانوں کی رٹ لگاتا رہے تو کیا کیا جا سکتا ہے۔

حالیہ کیس، زینب کیس کی طرح ایک ہائی پروفائل کیس بن گیا ہے سوشل میڈیا پر لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے لوگوں کا حسب معمول مطالبہ ہے کہ مجرم کو سرعام پھانسی دو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردو، نامرد بنا دو، جیسے کہ ایسا کرنے سے جرم رک جائے گا۔ مایوس کن بات یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو گا کیونکہ مسئلے کا حل سزا کی نوعیت نہیں بلکہ سزا کا یقینی ہونا ہے۔ اگر مجرموں کو یہ پتہ ہو کہ وہ جرم کر کے بچ نہیں پائیں گے۔ پولیس پاتال میں سے بھی ان کا کھوج لگا لے گی، عدالتیں عدم ثبوت کا بہانہ بنا کر چھوڑ نہیں دیں گی تو لازماً جرائم میں کمی آئے گی۔

دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جہاں سزائے موت کا قانون نہیں لیکن جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے۔ وجہ؟ قانون کی حکمرانی اور شفافیت۔ سب جانتے ہیں کہ جس دن زینب کے قاتل کو پھانسی ہوئی بالکل اسی نوعیت کا ایک کیس اسی دن رپورٹ ہوا۔ اس کے بعد بھی ان گنت اسی نوعیت کے واقعات ہوئے۔ مروہ کیس اس کی تازہ ترین مثال ہے۔ جرائم تب رکتے ہیں جب مجرم کو پتا ہو کہ وہ کسی صورت بچ نہیں پائے گا وہ ضرور پکڑا جائے گا اور ہر صورت اس کو سزا ہوگی۔

لیکن اگر مجرم کو پتا ہو کہ ویڈیو کیمروں کے سامنے ایک کانسٹیبل کو کچل کر صاف بچ جائے گا کیونکہ ہمارا فرسودہ نظام انصاف ویڈیو کو شہادت نہیں مانتا تو وہاں جرائم نہیں رک سکتے۔ اگر مجرم کو پتا ہو کہ پہلے تو کیس رپورٹ ہی نہیں ہوگا اگر ہو بھی گیا تو لوگ الٹا مظلوم کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے تو وہاں جرائم میں کمی نہیں آ سکتی۔ یہ کیس بھی رپورٹ نہ ہوتا اگر خاتون پولیس کے آنے سے پہلے وہاں سے جانے میں کامیاب ہو جاتی۔

اس نے پولیس کو مدد کے لئے بلایا تھا نہ کہ کیس رپورٹ کرنے کے لیے۔ اس کیس میں بھی مجرم نے صاف بچ نکلنا تھا اگر اس کو اتنی میڈیا ہائپ نہ ملتی، سوشل میڈیا پر شور نہ مچتا۔ وزیر اعلی صاحب ”نوٹس“ نہ لیتے۔ اب چونکہ یہ ایک ہائی پروفائل کیس ہے اس لئے ریاست اس میں تمام تر وسائل جھونکے گی، ہزاروں لوگوں کی ڈی این اے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا تمام ریپ کے کیسز کے لئے یہی معیاری طریقہ کار ہے؟

سنا ہے کہ فرانس سے یہ خاتون اپنے بچوں کو اسلامی ثقافت دکھانے سکھانے اور اس میں پروان چڑھانے کے لئے آئی تھیں کہ بچے اسلامی طور طریقوں سے بہرہ ور ہو سکیں، اسلامی ثقافت سیکھ سکیں بچوں نے اسلامی طور طریقے اور ثقافت تو خیر کیا سیکھنی تھی ساری زندگی کے لئے ایک نہ ختم ہونے والے صدمے کا سامنا ضرور کریں گے۔ نفسیاتی طور پر شاید وہ کبھی بھی نارمل انسانوں کی طرح زندگی نہ گزار سکیں، ماں اور باپ اب شاید اس وقت کو کوس رہے ہوں گے جب انہوں نے بچوں کو اسلامی ملک میں پروان چڑھانے کا سوچا ہوگا۔

اس بے چاری کو کیا پتا تھا کہ ”اسلامی ملک“ میں سڑکیں تو ایک طرف کوئی گھروں میں بھی محفوظ نہیں لوگ گھر میں گھس کر ریپ کر دیتے ہیں اور محافظ یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ”جاگتے رہنا، ہم پر نہ رہنا“ ۔ جاؤ بی بی واپس جاؤ اور اپنے بچوں کو وہاں پالو جہاں مجرم پکڑے جاتے ہیں، مرد عورتوں سے نفرت نہیں کرتے، انہیں استعمال کی چیز نہیں سمجھتے، محافظ آپ کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے بلکہ آپ کی حفاظت کرتے ہیں۔ یہاں رہو گی تو الزامات کی بوچھاڑ سے ہی مر جاؤ گی۔ جاؤ، اور جو بچ گیا ہے اسے بچا لو۔ خدا تمہارا حامی و ناصر ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).