اچھا تو تمہاری عزت لٹی ہے…؟



ایک عورت کا ریپ تو چند بھیانک لمحے ہیں جو گزر جاتے ہیں۔۔۔ اصل کہانی تو اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ جس میں ایک طرف آدم کے بیٹے کی کھال میں موجود بھیڑیا ابن آدم کی پوری جاتی کو رسوا کرتا ہے۔ ایک ایسے غیر انسانی اور کریہ فعل کے لیے جو ان بیچاروں نے کیا ہی نہیں ہوتا۔ اور اس دوران جو جملے زبان زد عام ہوتے ہیں اس کی چند مثالیں یہ ہیں۔

سبھی مرد ایسے ہوتے ہیں۔
عورت اکیلی باہر نہ جائے کیونکہ ہر طرف بھیڑیے ہیں۔
مردوں کا کام ہی عورت کو ذلیل کرنا ہے۔
مرد کا دوسرا نام ہوس ہے۔
مرد جنسی بھوک کا غلام ہے۔
جنسی بھوک مرد کو جانور بنا دیتی ہے۔
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اور یہ لکھتے ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ یہی مرد ایک باپ، بھائی اور شوہر بھی ہوتا ہے۔

اور یہی وہ گھڑی ہوتی ہے جب ایک مرد کو اپنے بارے میں یہ وضاحت دینی پڑتی ہے کہ وہ ایک اچھا مرد ہے۔ یعنی کہ اسے اپنی بریت ظاہر کرنے کے لیے اپنے ساتھ لفظ اچھا لگانا پڑا۔ اور وضاحتی بیان بھی دینا پڑا۔

دوسری طرف جب یہ سارے جملے ایک باپ بھائی یا شوہر اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر کسی چینل پر کسی میڈیا پر سنتا ہے تو یقین مانو ایک دوسرے کی طرف نظر نہیں اٹھائی جاتی۔

اور کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ تصویر کا ایک اور رخ بھی ہے جو اس سے بھی زیادہ اذییت ناک ہے۔ اور وہ ہے عورت کا معاشرتی ٹرائل۔ جی ہاں! اس عورت کا معاشرتی ٹرائل جو خود ریپ کا شکار ہوئی ہے۔ اور اسے کے ساتھ معاشرے کی تمام عورتوں کا معاشرتی ٹرائل اور ان کے رہن سہن کی سکروٹنی۔

اور یہ اذیت ناک ٹرائل بھی دو قسم کا ہوتا ہے۔ پہلی قسم کا ٹرائل ہمدردی کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اور دوسری قسم کا ٹرائل ریپ وکٹم کی ذات و کردار کی چیرپھاڑ سے ہوتا ہے۔ نتائج دونوں کے ہی ایک جیسے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک طرف ریپ کی شکار خاتون کی ذہنی بحالی کو ناممکن بنانا اور دوسری طرف ریپ کرنے والے درندے کو چھوڑ کر معاشرے کی تمام خواتین پر ان کے رہن سہن کے حوالے سے ایک نام نہاد احستابی چوکی بٹھا دینا۔ جس کا واضح نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ واقعہ کچھ بھی ہو، ذمہ دار خاتون ہے۔

پہلی قسم کا جو ٹرائل ہے وہ ہمدردی کے نام پر ہوتا ہے مگر اس کا خلاصہ ریپ کا شکار خاتون کو عمر بھر کے لیے ٹیگ کر دینے کی سزا ہوتا ہے۔

اور وہ ٹیگ کیا ہوتا ہے؟
اس کی عزت لوٹ لی گئی۔
اس کی عصمت دری کی گئی۔
اس کی عصمت داغدار ہو گئی۔
خاتون کو داغدار کر دیا۔
بنت حوا میلی ہو گئی۔
بچوں کے سامنے ممتا داغدار ہو گئی۔
عزت گنوا بیٹھی۔۔۔ وغیرہ وغیرہ

زرا غور کیجیے۔۔۔ یہ اور ان جیسے تمام جملے و اظہار جو ہمدردی کے نام پر ہمارے ہاں بالکل عام ہیں۔ اور جن کو استعمال کرتے ہوئے شاید ہمیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ ہمدردی کے یہ میٹھے بول کتنی زہریلی تاثیر کے حامل ہیں۔ اور ریپ کا شکار خاتون کی روح تک کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ریپ تو ایک منحوس اور نا پسندیدہ لمحہ تھا۔ جو اس کے جسم کے ساتھ ہوا۔ مگر جو کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ اور جس معاشرتی رویہ کا سامنا ایک ریپ وکٹم کو اس کے بعد کرنا پڑتا ہے اس سے ہر روز اس کا ریپ ہوتا ہے۔ اس کی روح کا، اس کے دل کا، اس کے دماغ کا، اس کی سوچ کا، احساس کا۔

مختصر طور پر اگر یہ کہا جائے تو یوں کہیے کہ ریپ ایک ایسا جرم ہے جس میں مجرم کو سزا ملے نہ ملے، مجروح کو سزا موقع پر ہی سنا دی جاتی ہے، وہ بھی عمر بھر کے لیے۔

یہ ایک ایسا جرم ہے جس میں مجرم پہلے تو پکڑا نہیں جاتا اور اگر پکڑا جائے تو پھر برس ہا برس اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے عدالتوں میں ریپ وکٹم کا قانونی و عدالتی ریپ شروع ہو جاتا یے۔

پولیس والوں اور وکیلوں کے سینہ چیرتے، بے حیا اور بے لباس سوال۔۔۔

اہلکاروں کی اندر تک گڑتی نظریں اور دماغ کی چولیں ہلاتے ہوئے ٹائپ رائٹرز پر کھٹ کھٹ ٹائپ ہوتے الفاظ۔۔۔ ۔ ۔

اور صحافیوں کے بے حیا کیمرے۔۔۔
اس رات کیا ہوا؟
زرا تفصیل سے بتائیے۔۔۔
پورا واقعہ بتائیے میڈم۔۔۔
بات کو گھمائیے مت۔۔۔
گول مول لفظ استعمال مت کیجیے۔۔۔ سیدھا سیدھا بتائیے۔۔۔
کیسے کیا؟
کب کیا؟
کس طرح کیا؟
کیوں کیا؟
کتنی دیر کیا؟
کیا پہن رکھا تھا؟
شلوار یا یا جینز؟
زرا سارا واقعہ تفصیل سے بتائیے۔۔۔
کتنے آدمی تھے؟
چیخی کیوں نہیں؟
مدد کیوں نہیں مانگی؟
اس کے بجائے اس سے مدد کیوں نہیں مانگی؟
وہاں کیا لینے گئی تھی؟
اکیلی کیوں نکلی؟
گاڑی کا پٹرول کیوں چیک نہیں کیا؟
کہیں مرضی سے تو نہیں گئی؟
گھر سے نکلنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟
بعد میں لین دین کا تنازع ہو گیا ہوگا؟
پیسے اینٹھنا چاہتی ہو؟

وہ فلاں خاتون باہر سے آئی ہے اور پورا پاکستان گھوم رہی ہے کسی نے اس کا ریپ نہیں کیا، تمہارا ہی کیوں؟

میں کہتا ہوں کہ آپ وہاں اپنی مرضی سے گئیں تھیں اور اب دولت ہتھیانے کے لیے یہ ڈراما کر رہی ہیں؟
کیا یہ درست ہے کہ آپ انتہائی کھلے برتاؤ کی خاتون ہیں اور انتہائی کھلے فیشن کا لباس پہنتی ہیں؟
کیا یہ درست نہیں ہے کہ فلاں شخص کے ساتھ آپ کا افئیر تھا؟

کیا یہ درست نہیں ہے کہ آپ اور آپ کی بہنیں پورے محلے میں کافی خوبصورت اور فیشن ایبل و کھلے برتاؤ کی حامل مشہور ہیں؟

کیا یہ درست ہے کہ آپ کی والدہ کی یہ دوسری شادی ہے؟

یا کیا یہ درست ہے کہ آپ کی والدہ کا اپنے شوہر کے ساتھ گزارا نہیں ہوا۔۔۔ ۔ ۔ اور علیحدگی ہو گئی۔۔۔ اور آپ کی پرورش آپ کی والدہ نے کی۔۔۔

اور کیا یہ درست ہے کہ آپ کے بھی اپنے شوہر کے ساتھ تعلقات خراب تھے اور اس لیے آپ ان کے بغیر ہی آتی جاتی ہیں۔۔۔

ایک مجرم کو سزا پتا نہیں ملے گی یا نہیں اس جرم سے مجروح انسان جو کہ یقیناً ایک عورت ہی ہوتی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس کی اگلی پچھلی نسلوں کے کردار کے پرخچے اڑا دیے جاتے ہیں۔

تا کہ کسی بھی طرح یہ ثابت کیا جا سکے کہ ریپ کرنے والا معصوم ہے۔ اور جس کا ریپ ہوا اسی کے کردار و عمل کا یہ نتیجہ ہے جو وہ بھگت رہی ہے۔ اس کے لیے مذہب سے لے کر معاشرتی اقدار تک کے لحاف کو کھینچ کھانچ کر اس مجرم کو اوڑھایا جاتا ہے۔ جرم کی بالواسطہ یا بلا واسطہ توجیحات تلاش کی جاتی ہیں۔

خاتون کو اس دردناک معاشرتی ٹرائل کے تباہ کن نتائج جو اس کے ساتھ اس کی اگلی پچھلی نسل کی خواتین کو بھی کردار کشی و ریپ سے متاثرہ فیصلوں کی زد میں لا کھڑا کرتے ہیں ان سے ڈرایا جاتا ہے۔ اور نتیجتاً خاتون منظر سے غائب ہو جاتی ہے۔ یا کیس واپس لے لیتی ہے۔ پھر کیا۔۔۔

دیکھا؟ پیسے لینے کے لیے یہ کیا، اب قیمت وصول کر کے چپ کر گئی۔ مقصد پورا یو گیا۔۔۔ غرض ایک نیا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔

مختصر یہ کہ ریپ کا شکار خاتون عمر بھر کے لیے ٹیگ کر دی جاتی ہے کہ یہ وہ ہے جس کی عزت لٹ گئی۔۔۔ یعنی وہ جس کے پاس اب عزت، عصمت اور وقار باقی نہیں رہا۔ اور یہ بیانیہ اتنا بھیانک ہے کہ بہت سی عورتیں جن کے ساتھ یہ ہوتا ہے وہ موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔

یہ تو وہ منظر ہے جو ریپ کے رپورٹ ہونے والے کیسز میں نظر آتا ہے۔ اور رپورٹ ہونے والے کیسز کتنے ہیں؟ ایک اندازے کا مطابق محض چند فیصد۔ مگر ان چند فیصد کا منظر نامہ اتنا بھیانک ہے کہ 70 فیصد سے زائد ریپ کیسز نہ تو رپورٹ ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی کسی کو خبر ہوتی ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جو ریپ کے مجرموں کا حوصلہ ہے۔

ریپ کے ممکنہ منحوس نتائج سے متصلہ ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ ریپ کا شکار خواتین کے یا تو گھر ہی نہیں بستے یا بسے بسائے اجڑ جاتے ہیں یا پھر ان کی منزل کوئی گمنام اور تنگ و تاریک اور غلیظ منزل ہوتی ہے۔

ریپ کا شکار ایک خاتون کا بات چیت کے دوران کہنا تھا کہ جب میرے ساتھ یہ ہوا، جس میں میرا کوئی قصور بھی نہیں تھا تو میری اللہ سے ایک ہی دعا تھی کہ مجھے موت آ جائے۔ کیونکہ خود کشی حرام تھی اور میری دنیا تو خراب ہو ہی چکی تھی میں آخرت خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں اپنے رب سے ایک ہی دعا کر رہی تھی کہ میرا ریپ کرنے والا درندہ مجھے قتل کر دے۔ میری لاش کو آگ لگا دے۔ میرا کسی کو نشان تک نہ ملے یا میری لاش پہچانی ہی نہ جائے۔

مگر وہ مجھے زندہ چھوڑ گیا۔ نہیں۔۔۔ بلکہ نیم زندہ۔ اور جب مجھے ہوش آیا تو میرا ایک ہی فیصلہ تھا کہ میں مر جاؤں مگر واپس نہ جاؤں۔ کیونکہ گھر میں میرے علاوہ اور بھی جوان اور غیر شادی شدہ بہنیں تھیں۔ جن کی زندگی میں اپنے منحوس سائے سے برباد کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میرا باپ ایک شریف آدمی تھا اور میرا بھائی ایک پڑھا لکھا شریف نوجوان۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے دامن پر لگا کیچڑ ان کے اجلے اور عزت والے سفید دامن کو داغدار کرے اور میری وجہ سے ان کا اٹھا ہوا سر جھکے۔

لہذا میں نے اپنے ٹوٹے پھوٹے وجود اور چھلنی چھلنی روح کو سمیٹا اور اس جگہ آ گئی جہاں میں ہر روز نیلام ہوتی ہوں۔۔۔ مگر مجھے یہاں یہ کوئی نہیں کہتا کہ۔۔۔

” اچھا تو تمہاری عزت لٹی ہے۔۔۔؟“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).