ریپ سے کون نمٹے گا؟


لڑکی پسند کی شادی کر کے گھر والوں کے عتاب سے بچنے کے لیے عدالت سے تحفظ مانگنے جائے تو اسے جج اپنے چیمبر میں ریپ کا نشانہ بنا دیتا ہے۔ اگر کوئی ریپ کا کیس رپورٹ کرنے تھانے جائے تو کبھی تھانیدار گینگ ریپ کا نشانہ بناتا ہے تو کبھی تفتیش کرنے کے لیے آنے والا اے ایس آئی۔ حالت یہ ہے سگے بھائیوں اور والد کی طرف سے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ معذور عورتیں، نابالغ لڑکیاں، لڑکے حتی کہ پانچ ماہ اور ایک سال کے شیر خوار بچوں کو بھی ہوس کا نشانہ بنانے کے واقعات رپورٹ ہوئے لیکن متنازعہ کردار کا حامل پولیس افسر جب بولتا ہے وہ بھی عورت کو نشانہ بناتا ہے۔

ہر معاملے کو مذہب کی عینک سے دیکھنے والا حکمرانوں کی چاپلوسی کے لیے ان کی تعریفوں میں زمین آسمان ایک کر دینے والا شعور سے عاری مولوی بولتا ہے تو ریپ جیسے سنگین جرم کو مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے پھیلنے والی بے حیائی قرار دیتا ہے۔ لیکن اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ معصوم بچوں کے منظم جنسی استحصال کا گڑھ مدرسوں میں کون سا مخلوط نظام تعلیم ہے۔

کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب مدرسے کے مولویوں کی جانب سے کسی نابالغ کے ریپ کا واقع منظر عام پر نہ آئے نوے فیصد واقعات تو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ کتنے ریپسٹ ہیں جو کو ایجوکیشن میں پڑھتے ہیں جو قبر سے لاشیں نکال کر ریپ کا نشانہ بناتے ہیں؟

پچھلے دو ہفتوں میں ریپ کے بیس کے قریب کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور ان کی تفصیلات ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو عورت کے لباس اور محرم کے ساتھ سفر نہ کرنے کو ریپ کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

ایک سے زائد معذور عورتوں کو گھر میں گھس کر کر ریپ کا نشانہ بنایا گیا ایک عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ ہونے کے باوجود گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے مختلف ڈکیتی کی وارداتوں کے دوران بھی ایسا ہی کیا گیا۔

پاکپتن سے ایک لڑکی نے سوشل میڈیا پر انصاف کی اپیل کی جس کا باپ اسے چھے ماہ سے جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا رہا تھا۔

جب بات کی جاتی ہے کہ مرد ریپسٹ ہوتے ہیں تو پھر معاشرے کا ہر خلیل الرحمن قمر لغویات کا در کھول دیتا ہے جو لوگ ریپسٹ کو سر عام پھانسی دینے کی بات کرتے ہیں وہ اس نقطہ نظر سے اختلاف کرنے والی خواتین کو ریپ کا نشانہ بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔ دراصل یہی رویہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ ہر مرد ایک پوٹینشل ریپسٹ ہوتا ہے کوئی ریپسٹ کا دفاع کرتا ہے کوئی خاموش رہتا ہے کوئی متاثرہ فریق کو قصوروار قرار دیتا ہے۔

ریاست کا رد عمل سخت سزا دینے کے لیے قانون بنا رہے ہیں مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے جیسے سطحی بیانات اور بڑھکوں تک محدود ہے۔

ریاست کی اولین ذمہ داری ہے خواتین اور بچوں کا تحفظ یقینی بنانا، جرائم کی روک تھام کے لیے کام کرنا اس کے بعد اگر سزا کی بات کرنی ہے سزا جو بھی ہو اس سزا کو یقینی بنانے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے اصل مسئلہ قانون بنانا نہیں بلکہ قانون پر عمل درآمد ہے۔ آخر حکومت کو یہ خیال کیسے آ گیا کہ جس معاشرے میں جج کسی لڑکی کو اپنے چیمبر میں ریپ کا نشانہ بنائے، تھانیدار ریپ کا کیس رجسٹرڈ کرنے کی بجائے متاثرہ فریق کو ریپ کا نشانہ بنائے، اور متاثرین اپنی زندگی کے خاتمے پر مجبور ہوں، ریپ کے مرتکب سزا پانے والوں کی شرح تین فیصد ہو اس معاشرے میں سخت سزا کا قانون پاس کرنے سے جرم رک جائے گا۔

ریپ ایک لائف اسٹائل بن چکا ہے جہاں پہ متاثرہ فریق کیس رپورٹ نہ کرا سکے وہاں پہ سزا کے سخت قانون کا کیا فائدہ۔
پاکستان میں 21 فیصد سے زائد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے ان کے ریپسٹ کو کون سزا دے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).