پاکستانی یادگار فلمی حمد، نعتیں اور قوالیاں


نہ جانے کیوں بعض دانشور پاکستانی فلموں اور اس سے منسلک شعبوں کو کسی قابل گردانتے ہی نہیں۔ جب کہ ہماری فلموں کے تمام شعبوں میں معیاری کام ہوا ہے جیسے حمد، نعتیں، منقبتیں اور قوالیاں۔ ہماری فلموں میں حمدیہ اور نعتیہ کلام نہایت اعلیٰ پائے کا لکھا گیا اور پھر ان کی طرزوں نے ایک ایسا سماں باندھا کہ آج بھی ان کو سنا جائے تو دل کھنچتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ فلمی گلوکاروں نے خوبصورت طرزوں اور بولوں کو ادا کرنے میں اپنی روح نکال کر رکھ دی۔

ایک جائزہ:

ایک مختصر سا جائزہ ماضی قریب سے شروع کرتا ہوں۔ 1995 میں۔ فلم ”سرگم“ نمائش کے لئے پیش ہوئی۔ اس فلم کی خاص بات یہ ہے کہ ”سرگم“ کو مختلف شعبوں میں 8 نگار ایوارڈ ملے۔ مذکورہ فلم میں ریاضؔ الرحمان ساغر کی لکھی ہوئی یہ حمد بہت مقبول ہوئی:

اے خدا اے خدا
جس نے کی جستجو
مل گیا اس کو تو
سب کا تو راہ نما

اس کی طرز عدنان سمیع خان نے بنائی۔ ان کی آواز میں صدا بند ہو کر ان پر فلمائی بھی گئی۔ حمد کے شعر بہت سادا اور اثر انگیز ہیں۔ ہماری مشرقی موسیقی میں گلوکاری کا تمام زور اور کام گلے سے لیا جاتا ہے جب کہ مغرب میں زیادہ کام سینے سے لیا جاتا ہے۔ عدنان نے دونوں سے کام لیا ہے اور واقعی اس حمد کو سن کر ایک نیا پن محسوس ہوتا ہے۔ سینما کی بڑی اسکرین پر دیکھ کر اور ہال کی آواز میں اس کو سن کر تو ایسا لگتا ہے کہ واقعی عدنان سمیع خان صبح صادق کے وقت قدرت کی تعریف، قدرتی ماحول میں کر رہا ہے۔

اب کچھ ماضی کے کام کا ذکر ہو جائے : 1957 میں بننے والی فلم ”داتا“ کا یہ حمدیہ کلام:
کر ساری خطائیں معاف میری تیرے در پہ میں آن گرا
تو سارے جہاں کا مالک ہے میرا کون ہے تیرے سوا

یہ مشہور زمانہ فلمی حمد، قتیلؔ شفائی نے لکھی جس کی طرز موسیقار تصدق حسین نے بنائی۔ گلوکار سلیم رضا نے کس قدر سوز میں ڈوب کر ریکارڈ کروائی کہ آج بھی سننے والے پر اثر کرتی ہے۔

ایک اہم بات ہمارے فلمی گیت نگار حضرت تنویر ؔنقوی کے حوالے سے یہ ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ دف کی تال پر فلم ’نور اسلام‘ ( 1957 ) میں یہ نعت لکھی:

شاہ مدینہ شاہ مدینہ یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی

خاکسار کو انٹرنیٹ پر مذکورہ نعت کے لکھنے والے کا نام نعیم ہاشمی بھی ملا ہے جو اسٹیج، ٹیلی وژن اور فلم کے اداکار، مصنف، شاعر، فلمساز اور ہدایت کار تھے۔ یہ اپنی نعت گوئی اور نعت خوانی میں بھی ممتاز تھے۔ مذکورہ نعت کی طرزموسیقار حسن لطیف للک نے بنائی جس کو سلیم رضا، زبیدہ خانم اور ہم نوا نے ریکارڈ کرایا۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ 63 سال ہونے کو آئے لیکن یہ نعت آج بھی پہلے جیسی مقبول ہے۔ حسن لطیف نے نعت کی طرز ایسی سادہ بنائی کہ ہر چھوٹا بڑا، خاص و عام سن کر خود بھی ’لے‘ میں پڑھ سکے۔ رہی شاعری تو شاعر نے آسان الفاظ میں کیا کمال دکھایا مثلا:

ہے نور تیر ا شمس و قمر میں
تیرے لبوں کی لالی سحر میں
پھولوں نے تیری خوشبو چرا لی
تشبیہات اور استعارے میں کیا خوبصورت بات کہی ہے۔

میں نے اس نعت کے شاعر کا معاملہ اپنے پاکستان ٹیلی وژن کے ساتھی اور اہل قلم، افتخار مجاز ؔ (م) کے سامنے رکھا تو انہوں نے اپنے بڑے بھائی اعزاز احمد آزرؔ کی کتاب کا حوالہ دیا۔ الحمد پبلی کیشنز لاہور سے چھپی ہوئی ان کی کتاب ’کلیات تنویر ؔنقوی‘ میں نے خود پڑھی۔ آزرؔ صاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے تنویرؔ نقوی کے لواحقین سے ان کی ڈائریاں لے کر ان کے قلم سے لکھی ہوئی نعت ”شاہ مدینہ“ خود دیکھی۔

خوبصورت نعت کی ایسی ہی ایک اور مثال ہدایت کار لقمان کی فلم ”ایاز“ 1960 ) ( کی ہے۔ اس میں بھی حضرت تنویرؔ نقوی کی لکھی نعت کی لازوال طرز موسیقار خواجہ خورشید انور نے بنائی۔ اسے زبیدہ خانم اور ہم نوا نے صدا بند کروایا۔ یہاں ’صلو علیہ واٰلہٖ‘ ردیف و قافیہ سے ملانے کے لئے کتنی خوبصورتی سے نبی پاک ﷺ کے لئے توصیفی الفاظ منتخب کیے گئے ہیں :

جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
تو جہاں تھا خواب و خیال ہی
صلو علیہ واٰلہٖ
نہ فصیل ہے نہ محل سرا
تیرا فرش ہے وہ ہی بوریا
تیری سادگی ہے کمال ہی
صلو علیہ واٰلہٖ

اس نعت میں حضرت تنویر ؔ نقوی نے حضرت شیخ سعدیؒ کی مشہور عالم نعت کی تضمین کر کے اس پر اپنے مصرعے لگائے ہیں :

بلغ العلی بکمالہ
حسنت جمیع خصالہ
1965 میں بنائی گئی فلم ”عید مبارک“ کی یہ نعت:
رحم کرو یا شاہ دو عالم ﷺ
نظر کرم یا نور مجسم ﷺ

بہت مقبول ہوئی تھی۔ یہ نعت فیاضؔ ہاشمی نے لکھی جس کی طرز موسیقار اے حمید نے بنائی۔ آوازیں نسیم نازلی المعروف مالا اور ہم نوا کی ہیں۔ واضح ہو کہ پاکستانی فلمی صنعت کی معروف موسیقار شمیم نازلی ان کی بڑی بہن تھیں۔ مذکورہ نعت اداکارہ زیبا، رخسانہ اور سیما پر فلمائی گئی۔ اس نعت کو جب بھی سنیں، ایک بے خودی طاری ہونے لگتی ہے۔

فلم ”زہر عشق“ ( 1958 ) کی نعت:
سنو عرض میری کملی والے
کوئی کیا سمجھے کوئی کیا جانے
میرے دل کی لگی کملی والے

اس نعت کوقتیل ؔشفائی نے لکھا اورموسیقار خواجہ خورشید انور نے طرز بنائی۔ یہ زبیدہ خانم کی آواز میں صدا بند ہوئی۔ اب بھی سنا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس کی طرز گویا خود فریاد کر رہی ہو۔ اس بات میں کتنا وزن ہے، اس کا فیصلہ آپ خود انٹرنیٹ پر دیکھ کر سکتے ہیں۔ فلم میں یہ نعت اداکارہ یاسمین پر فلمائی گئی۔

ہماری فلمی قوالیوں نے بھی ملک کی سرحدوں سے نکل کر ایک عالم میں دھوم مچا دیں مثلاً فلم ”الزام“ ( 1972 ) میں موسیقار ناشاد کی موسیقی میں مشہور فلمی شاعر مسرور ؔانور کا یہ حمدیہ کلام جو غلام فرید اور مقبول صابری قوال اور ہم نوا نے صدا بند کروایا:

آئے ہیں تیرے در پر تو کچھ لے کے جائیں گے
ورنہ اس آستاں پہ یہ جاں دے کے جائیں گے

دیکھئے کس قدر اعتماد اور یقین سے رو رو کے اپنی بات پیش کی جا رہی ہے کہ گویا مراد ملی ہی ملی۔ واضح ہو کہ قوالی کا پہلا مصرع ’آئے ہیں تیرے در پہ تو کچھ لے کے جائیں گے‘ با قاعدہ روز مرہ کا عوامی محاورہ بن گیا ہے۔

صابری برادران کی آؤ از میں پرنمؔ الہ آبادی کی لکھی ہوئی ایک نعتیہ قوالی بے حد مقبول ہوئی:
تاجدار حرم ہو نگاہ کرم ہو نگاہ کرم ہم غریبوں کے دن بھی سنور جائیں گے
حامیٔ بے کساں! کیا کہے گا جہاں آپ کے در سے خالی اگر جائیں گے

ان سطور کو پڑھنے اور نعتیہ قوالیوں کے سننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ قوال نعت یا حمد تک محدود نہیں رہتے وہ ادھر ادھر کے مشہور دوہے، دیگر شعراء کے اردو اور فارسی کلام بھی موقع مناسبت کے لحاظ سے اصل نعت یا حمد میں شامل کرتے جاتے ہیں۔ یہی قوالی کی ہیئت بھی ہے۔ اس قوالی کے مشہور ہونے کے بعد اسے ایک فلم میں شامل کر لیا گیا؛ بد قسمتی سے مجھے فلم کا نام یاد نہیں۔ اس نعتیہ قوالی کے قبول عام کو دیکھتے ہوئے آج کے گلوکار بھی اس کو فخر سے مغربی سازوں کے ساتھ ”گا“ رہے ہیں جب کہ حمد اور نعت پڑھی جاتی ہے گائی نہیں جاتی۔

فلم ”عشق حبیب“ ( 1965 ) میں صابری برادران کی قوالی:
میرا کوئی نہیں ہے تیرے سوا
مجھے نظر کرم کی بھیک ملے
میں یہ جھولی خالی لایا ہوں
قابل ذکر ہے۔ آج 55 سال ہو گئے لیکن یہ اپنی مثال آپ ہے۔
اسی طرح فلم ”بن بادل برسات“ ( 1975 ) میں ان ہی کی یہ قوالی۔ :
بھر دو جھولی میری یا محمد
لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی

آج بھی بصد شوق سنی جاتی ہے۔ یہی وہ سنہری قوالیاں ہیں کہ جب صابری برادران 1975 میں یورپ و امریکہ گئے توان کو سننے کے لئے آنے والے یورپ اور امریکہ کے مقامی لوگ کچھ نہ سمجھنے پر بھی جھوم جھوم جاتے تھے۔ 1978 میں ان قوالیوں کو امریکہ میں بھی ریکارڈ کیا گیا جس پراس وقت کے نیو یارک ٹائمز نے لکھا : ”یہ گراموفون ریکارڈ، سننے میں درویشوں کے رقص کے برابر ہے اور جذبہ احساس کی موسیقی ہے ”۔

قوالیوں کا ذکر ہو اور فلم ”توبہ“ ( 1964 ) کی بات نہ کی جائے، یہ کیسے ہو سکتا ہے! پاکستان کی فلمی صنعت میں مذکورہ فلم کی یہ اثر انگیز قوالی اپنا الگ تشخص رکھتی ہے :

نہ ملتا گر یہ توبہ کا سہارا ہم کہاں جاتے
ٹھکانہ ہی نہ تھا کوئی ہمارا ہم کہاں جاتے

سلیم رضا، منیر حسین، آئرین پروین اور ہمنوا کی آوازوں میں یہ ریکارڈ ہوئی۔ اس کو فیاضؔ ہاشمی نے لکھا اور موسیقار اے حمید نے طرز بنائی۔ یہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ فلم ”توبہ“ میں ادا کار کمار نے اس قوالی پر ایسی غضب کی اداکاری کی ہے کہ اداکاری ہی نہیں لگتی۔ یو ٹیوب پر یہ قوالی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ آج بھی 1964 کی طرح ترو تازہ ہے۔

”بھیا“ نام سے 1966 میں ایک فلم بنائی گئی تھی جس کی یہ قوالی بہت مشہور ہوئی:
مدینے والے سے میرا سلا م کہہ دینا
تڑپ رہا ہے تمہارا غلام کہہ دینا

اس نعت کو شاعرؔ صدیقی نے لکھا اور موسیقار روبن گھوش نے طرز بنائی۔ کیا عام فہم اور میٹھی طرز ہے۔ یہ احمد رشدی، مسعود رانا، عطا محمد قوال اور ہمنوا کی آواز میں صدا بند ہوئی۔ مذکورہ قوالی بہت زیادہ مقبول تھی اور آج بھی شوق سے سنی جاتی ہے۔ شاعرؔ صدیقی پاکستان ٹیلی وژن ڈھاکہ مرکز میں اردو گیت و غزل لکھنے سے مشہور ہوئے۔ یہ ان ہی کی لکھی مشہور غزل ہے :

کہاں ہو تم چلے آؤ محبت کا تقاضا ہے
غم دنیا سے گھبرا کر تمہیں دل نے پکارا ہے
جس کی گلوکارہ شہناز بیگم اور موسیقار کریم شہاب الدین تھے۔
1969 میں نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ”درد“ کی یہ قوالی بے حد مقبول ہوئی:
دنیا کے غموں سے گھبرا کر تیرے در پہ سوالی آئے ہیں
کچھ ٹوٹی ہوئی امیدیں ہیں کچھ ٹوٹے ہوئے دل لائے ہیں

گو کہ یہ قوالی فلمی کہانی کو آگے بڑھانے کے لئے فلم میں رکھی گئی لیکن اس کو ویسے بھی سنیں تو حمدیہ کلام دل پر اثر کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نمایاں آوازوں میں منیر حسین اور مجیب عالم ہیں۔ اس کی طرز موسیقار ایم اشرف نے بنائی جس کو خواجہؔ پرویز نے لکھا تھا۔ خواجہؔ صاحب سادا پیرائے میں اپنا منشاء بیان کر دیا کرتے ہیں جیسے فلم ”زندگی کتنی حسیں ہے“ ( 1969 ) کا گیت :

جب کوئی پیار سے بلائے گا
تم کو ایک شخص یاد آئے گا
1969 میں بننے والی پنجابی فلم ”دلاں دے سودے“ کی منقبت :
ہو لال موری پت رکھیو بھلا جھولے لالن
سندھڑی دا سہون دا شہباز قلندر

موسیقار نذیر علی کی موسیقی میں نورجہاں نے ریکارڈ کروائی۔ ویسے میری تحقیق کے مطابق فلم ”دلاں دے سودے“ سے کہیں پہلے 1956 میں بننے والی پنجابی فلم ”جبرو“ میں جناب ساغر ؔ صدیقی کی لکھی ہوئی اسی منقبت کی طرز ماسٹر عاشق حسین نے بنائی تھی۔ مجھے یہ بات ڈان ڈاٹ کام کے ایک پروگرام دیکھنے سے معلوم ہوئی۔ پھر میں لاہور میں ماسٹر صاحب کے گھر بازار حکیماں، تمغۂ امتیاز یافتہ موسیقار سجاد طافو کے ساتھ گیا اور ان کی بہو اور پوتے سے اس بات کی تصدیق کی۔

میرا قیام کئی برس ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں رہا۔ میرے حلقۂ احباب میں بر صغیر کی تمام اقوام کے لوگ شامل تھے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خوشی کے موقع پر منعقد ہونے والی موسیقی کی محفل میں تقریب کا آخری آئٹم یہی منقبت ہوا کرتی تھی۔ کیا ہندو، کیا سکھ، کیا بنگالی اور کیا پارسی ہر ایک اس پر جھوم جھوم جاتا تھا۔

یہ تو محض چند مثالیں ہیں وگرنہ اس فہرست میں اور بھی کئی فلموں کے نام آتے ہیں۔
بھارت میں حمد و نعت:

گو کہ قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان میں بھی بہت اچھی حمد، نعت اور قوالیاں مشہور ہوئیں اور آزادی کے بعد بھی بھارت میں شکیلؔ بدایونی و دیگر مسلمان اور ہندو شعراء نے بہت اچھی فلمی حمد و نعت لکھیں۔ پھر وہاں کے موسیقاروں نے ان کی بہت عمدہ طرزیں ترتیب دیں۔

ذیل میں کچھ بھارتی سدا بہار نعتوں کا ذکر ہو جائے جو یادگار ہیں :
شمشاد بیگم کی آ واز میں اپنے وقت کی مقبول نعت:
پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے ( 1935 ) ۔

یہ نعت انٹر نیٹ پر بر صغیر کے مشہور فلم ساز، ولی صاحب سے منسوب ہے جو نامور فلمی گیت نگار ناظم پانی پتی ( 1920۔ 1998 ) کے بھائی تھے۔ جب کہ مجھ کو پاکستان فلمی صنعت کی مشہور گلو کارہ ناہید نیازی کی چھوٹی بہن، گلوکارہ نجمہ نیازی صاحبہ نے خود بتایا : ”یہ نعت میرے والد سجاد سرور نیازی صاحب ( ڈائریکٹر آل انڈیا ریڈیو ) نے لکھی اور انہیں کی طرز میں شمشاد بیگم کی آواز میں آل انڈیا ریڈیو میں 1930 کی دہائی میں ریکارڈ ہوئی تھی“ ۔ نجمہ نیازی کا اصل نام ماہ رخ تھا اور وہ پاکستان ٹیلی وژن اسلام آباد ہیڈ آفس سے اعلیٰ عہدے سے ریٹائر ہوئیں۔

فلم ”مغل اعظم“ ( 1960 ) میں لتا منگیشکر کی آواز میں شکیلؔ بدایونی کی لکھی ہوئی نعت کو موسیقار نوشاد علی نے ’راگ کیدارا‘ میں کمپوز کیا :

اے میرے مشکل کشا فریاد ہے فریاد ہے
آپ کے ہوتے ہوئے دنیا میری برباد ہے
بیکس پہ کرم کیجئے سرکار مدینہ
گردش میں ہے تقدیر بھنور میں ہے سفینہ
اس کو جب بھی سنیں آپ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔
ایک افسوسناک بات:

افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے کچھ نامور قوال اور نعت خواں، نعت خوانی اور قوالی میں مشہور ہونے کے بعد بھی بھارت کے پرانے مشہور فلمی گیتوں کی طرز پر کسی سے حمدیہ یا نعتیہ کلام لکھوا کر ریکارڈ کرواتے رہے ہیں۔ خاص و عام ثناء خواں اور نعت خواں لا علمی میں ایسا نہیں کر رہے۔ ان کو اچھی طرح سے اس بات کا علم ہوتا ہے۔ ان بھارتی گانوں کو سن کر ہی تو ان کی طرز پر حمدیہ اور نعتیہ کلام پڑھا جاتا ہے۔ مثلاً 1962 کی بھارتی فلم ”پروفیسر“ جس کے موسیقار شنکر جے کشن اور شاعر حسرتؔ جے پوری تھے۔ اس فلم میں لتا منگیشکر او ر محمد رفیع کا گیت:

آواز دے کر ہمیں تم بلاؤ
محبت میں اتنا نہ ہم کو ستاؤ
اس گیت پر امجد صابری کی آواز میں یہ حمد ریکارڈ اور ٹیلی کاسٹ ہوئی:
کرم مانگتا ہوں عطاء مانگتا ہوں
الٰہی میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں

اسی طرح 1952 میں بننے والی فلم ”بیجو باورا“ میں لتا منگیشکر کی آواز اور نوشاد علی کو موسیقی میں شکیلؔ بدایونی کا مشہور زمانہ یہ گیت:

بچپن کی محبت کو دل سے نہ جدا کرنا
جب یاد میری آئے ملنے کی دعا کرنا
اس پر امجد صابری کی یہ نعت:
روشن میری تربت کو اللہ ذرا کرنا
جب وقت نزع آئے دیدار عطاء کرنا

اگر بھارتی فلموں کے پرانے مشہور گیتوں کی طرزوں پر پاکستان کے صف اول کے قوال اور ثناء خواں، نعتیہ اور حمدیہ کلام پڑھ سکتے ہیں تو پھر پاکستانی فلموں کا کیا قصور ہے! ہمارے ہاں کی اردو، پنجابی، پشتو، گجراتی اور سندھی فلمی گیتوں پر یہ نیک کام کیوں نہیں!

ہماری فلمی صنعت میں جتنی محنت اور خلوص سے پہلے کام ہوا وہ اب مفقود ہے۔ نہ وہ موسیقار رہے نہ شاعر نہ قوال۔ بس گلوکار رہ گئے ہیں جو انہیں ”ری مکس“ کرتے ہیں۔ پھر بھی ان کے معیار کو نہیں پہنچ سکے۔ آج محنت اور خلوص کی جگہ پیسے نے لے لی ہے، شاید اسی لئے آج کے دانشور اس پر تنقید کرتے رہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).