تحریک چلانے کا وقت ہوا چاہتا ہے


برے کام کرتے وقت، لوگ دن کی روشنی کا سامنا نہیں کر پاتے۔ اس لیے وہ اندھیرا ہونے کا وقت منتخب کرتے ہیں۔ تا کہ دنیا اور اپنے آپ سے نظریں چرائی جا سکیں۔ چوری ہو، ڈاکا ہو، کسی کی ملکیت پہ قبضہ ہو یا مارشل لا جیسے اقدام ہوں، یہ سب کام ہمیشہ رات کے پردے میں کیے جاتے ہیں۔ حق بات، دن دیہاڑے ببانگ دہل کی جا سکتی ہے۔

حال ہی میں شب کی تاریکی میں صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا۔ اس کے متن میں پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی تشکیل دی گئی ہے۔ اس آرڈیننس کے مطابق سندھ کے ڈنگی، بھنڈار اور بلوچستان کے جزیروں کو وفاق کے حوالے کرنے کا حکم نامہ جاری کیا گیا ہے، جہاں وفاقی حکومت کی مرضی سے نئے شہر تعمیر کیے جا سکیں گے۔ حیرت کن بات تو یہ ہے اس آرڈیننس کو پیش کرتے ہی اتنی سختی سے کام لیا گیا ہے کہ اس کے خلاف نہ کوئی کورٹ میں جا سکے گا، نہ کوئی اس کو رکوانے کی اپیل کر سکے گا۔ جب کہ سبھی جانتے ہیں کہ آئین پاکستان میں صوبوں کو یہ حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی حدود میں موجود، تمام قدرتی و معدنی وسائل کی نگرانی خود کریں۔ اگر چہ وہ اس کی ذمہ داری وفاق کو سونپنا بھی چاہیں، تو اس کے لیے ان کو صوبائی اسمبلی سے اکثریتی رائے سے بل پاس کروانا پڑے گا۔

یہ سیاہ آرڈیننس، آئین سے بالا تر دکھایا گیا ہے، جب کہ آرٹیکل 172 کے تحت ڈنگی اور بھنڈار جزیروں کی ملکیت صوبہ سندھ کے حصے میں آتی ہے۔ اسی آرٹیکل کے مطابق کوئی بھی وسائل اگر بائیس کلومیٹر کی اراضی تک کسی صوبے کی حدود ختم ہونے کے بعد پھیلے ہوں، تو وہ اسی صوبے کی ملکیت تسلیم کیے جائیں گے۔ صوبے کی کسی ملکیت پہ وہاں موجود حکومت کی اجازت کے بغیر کوئی منصوبہ شروع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا کہ گورنر سندھ عمران اسماعیل کے مطابق، پیپلز پارٹی کی حکومت نے انہیں اجازت نامہ دے دیا ہے۔

جب اس آرڈیننس کی کاپی سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی تو ہمیں امید تھی، سندھ حکومت کے وزرا اس فیصلے کے خلاف کوئی سخت اقدام اٹھائیں گے۔ پر دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے، صرف اکا دکا پارٹی ارکان کے علاوہ، ساری سیاسی قیادت چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے ٹویٹ اور بلاول ہاؤس میں پریس کانفرنس کر کے مذمت تو کی ہے، پر جس طرح کا یہ ڈاکا ڈالا جا رہا ہے، اس کی نسبت ایک ٹویٹ اور مذمتی بیانات انتہائی کم حیثیت رکھتے ہیں۔

اس آرڈیننس کے سامنے آنے سے یہ معما بھی حل ہوا کہ سندھ حکومت نے جولائی کی مہینے میں وفاق کو خط لکھ کر اس منصوبے کی اجازت دی تھی۔ حال ہی میں سندھ کے عوام کی طرف سے احتجاج ہوا، تو مجبوراً انہیں وہ خط واپس لینا پڑا۔ اگر سندھ کے وسائل سیاسی مصلحت اور مفاہمتی پالیسی کی نذر ہوتے رہے تو یہ صوبائی خود مختاری کے لیے ایک بہت بڑی وارننگ ہے۔ پیپلز پارٹی، جی ڈی ای اتحاد اور دیگر سندھی سیاسی جماعتوں نے جو خاموشی دکھائی ہے، اس چپ کو توڑنے کے لیے ایک زوردار چیخ کی، ایک پر زور تحریک کی ضرورت ہے، جس میں اتنی قوت ہو کہ عوام کی آواز کا اثر اعلیٰ ایوانوں کو لرزا سکے۔

ماضی میں جب سندھ پہ جبری طور ون یونٹ کا کالا قانون لاگو کیا گیا، تو بھی سندھ کی عوام نے اس کا بھرپور جواب دیا تھا۔ سندھ باسیوں نے 1983 ء میں ایم آر ڈی تحریک میں لازوال قربانیاں پیش کرتے ملک میں جمہوریت کی بحالی کروائی۔ یہ سندھی عوام تھے، جنہوں نے ”جیل بھرو“ تحریک چلائی، ڈکٹیٹر ضیا الحق کے ظلم و ستم جھیلے، اور جھکنے کے بجائے اپنے موقف پر ڈٹ گئے۔ جب سندھ دشمن کالاباغ ڈیم کا منصوبہ سندھ کی مرضی کے خلاف بنایا گیا تو بھی سندھ کے قوم پرست سیاستدان، بلکہ تمام دانشور اور دوسرے مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد اس تحریک میں شامل ہوئے۔ سندھ کی تاریخ ایسے تمام واقعات سے بھری پڑی ہے، پر وفاقی حکومت پھر بھی سندھ دشمنی سے باز نہیں آتی۔

سندھ سے نکلنے والے تمام معدنی وسائل کے ستر فی صد پہ قبضہ گیر وفاق نے کبھی یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ گیس کی فراہمی دینے والا سندھ، خود برسوں سے گیس کی قلت کا سامنا کر رہا ہے۔ بلکہ اب تو یہ اعلان ہو چکا کہ رواں ماہ اکتوبر سے لے کر آئندہ سال کی فروری تک سندھ کے تمام سی این جی اسٹیشنز کو گیس کی فراہمی معطل رہے گی۔

بات یہاں آ کر ختم نہیں ہوتی، گندم اور گنے کی بڑی مقدار میں رسائی دینے والا سندھ، ہمیشہ آٹا اور چینی کی قلت کا شکار رہتا ہے۔ اوپر سے سندھ کی دل کراچی میں سیکڑوں، ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں افغانی اور دیگر ممالک کے مہاجرین کو پناہ دے کر، دھرتی باسیوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بوگس ڈومیسائل پہ پنجاب اور دوسرے صوبوں کے لوگوں کو سندھ کی کوٹے میں سے نوکریاں دی جا رہی ہیں۔ سندھ کو اپنے حصے سے نا صرف پانی کم مل رہا ہے، پر دوسری تمام وسائل سے بھی جائز حصہ نہیں مل رہا۔

حال ہی میں کراچی کے جزیروں کی وفاق کو حوالگی نے یہ ثابت کر دیا ہے، پیپلز پارٹی صرف اپنے مفادات کی سیاست کرتی ہے۔ اب تو ماننا ہی پڑے گا، سندھ میں پی پی پی مخالف اپوزیشن جماعتیں ٹھیک ہی کہتی ہیں، یہ جیالوں کی پارٹی، صرف سندھ کارڈ کھیلتی ہے، لیکن جب جب سندھ کے حقوق پہ بات آئے، ضرورت پڑے، یہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ یونہی چپ چاپ رہنے سے اب کچھ نہیں ہے ملنے والا، وقت ہوا چاہتا ہے، سندھ باسی اپنی دھرتی کے حقوق کی جنگ خود لڑیں اور کسی سیاسی جماعت کے اعلان کا انتظار نہ کریں۔ حکومتی اتحاد میں شامل سندھ کی دیگر جماعتیں، جو وفاقی کابینہ کا حصہ بھی ہیں، وہ بھی اپنی مفادات کی خاطر سندھ دشمن فیصلوں پہ خاموش رہنے کے جرم میں ملوث ہیں۔

صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق بھی سندھ کے دار الحکومت کراچی سے ہے، پر انہوں نے مفاہمت کی سیاست کو ترجیح دیتے ہوئے، سیاہ رات میں ایک آرڈیننس جاری کر دیا، جو مارشل لا دور کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ جب پارلیمنٹ جیسا مقدس ادارہ موجود ہے، پھر بھی فیصلے کہیں اور سے ہو رہے ہوں، تو ایسے عوامی نمائندوں کا کیا فائدہ، جو صرف نام کے منتخب ہوں۔ سندھ کے جزیرے بھی اگر وفاق کو سپرد کر دیے جائیں گے تو اصلی دھرتی کے مالک، جو پہلے سے ہی اپنے حقوق سے محروم ہیں، ان میں احساس محرومی اور بڑھ جائی گی۔

بحریہ ٹاؤن، ذوالفقار آباد جیسے بڑے منصوبوں پہ بھی سندھ کے اصل باسیوں کو پیچھے چھوڑ کر، دوسری آبادیوں کو بسایا گیا ہے۔ اس کی قیمت سندھ کے لوگوں کو اس طرح چکانا پڑی کہ ان کے تمام قدیمی قبرستان اور بستیاں مسمار کر دی گئیں، اور ان کو اپنی آبائی زمینوں سے بے دخل کر دیا گیا۔ پر اب بہت ہو چکا، ہم سب کا اب فرض بنتا ہے، کسی بھرپور تحریک کا آغاز کریں، جو گلی کوچوں تک اپنے حقوق بچانے کی تشہیر کرے۔ نا صرف سڑکوں پہ آئیں، بلکہ مقامی، قومی، بین الاقوامی فورم دستیاب ہوں، وہاں بھی بھرپور آواز اٹھائیں، اور آئین و قانون کی پاس داری کرتے ہوئے اپنی مضبوط آواز سے سندھ دشمن ارادوں کو پست کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).