امریکی صدارتی انتخابات 2020: علاقائی تناؤ کم کرنے سے لے کر طیارے میں تیل بھروانے تک، امریکہ کے صدر پاکستان کب کب آئے؟


ایک وقت تھا جب پاکستان کبھی امریکہ کا قریبی اتحادی کہلاتا تھا۔ مگر قربت کے اتنے برسوں میں صرف پانچ امریکی صدور نے پاکستان کا دورہ کرنا ضروری سمجھا۔

اس کے مقابلے میں انڈیا نے خود کو ’غیر جانبدار‘ رکھا اور امریکہ کے مقابلے میں اس کے بدترین حریف سوویت یونین سے قریبی تعلقات رکھے۔ اس کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اب تک سات امریکی صدور انڈیا کا دورہ کر چکے ہیں۔

ظاہر ہے کہ نہ سیاسی حالات ایک جیسے رہتے ہیں اور نہ ہی قومی مفادات، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاست میں نہ کوئی مستقل دشمن ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مستقل دوست۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک جمہوریت کی علم بردار عالمی طاقت امریکہ کے پانچ صدور نے دورۂ پاکستان کے لیے ہمیشہ ایسے وقت کا انتخاب کیا جب اقتدار پر فوج قابض تھی۔

سنہ 1971 سے قبل تین امریکی صدور پاکستان آئے مگر ان میں سے کوئی بھی اس وقت کے مشرقی پاکستان نہیں گیا۔ دو صدور کراچی، ایک لاہور، جبکہ پاکستان ٹوٹنے کے بعد دو امریکی صدور اسلام آباد تشریف لا چکے ہیں۔

سنہ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد برطانیہ اور دوسری یورپی نوآبادیاتی طاقتیں ایک صدی سے زیادہ عرصے تک عالمی سیاست پر اپنے نقوش چھوڑ کر پس منظر میں غائب ہو رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

موچی کا بیٹا جو امریکہ کا صدر بنا

امریکہ کے لیے ’انکل سیم‘ کی اصطلاح کیسے وجود میں آئی

پہلے پاکستانی فوجی صدر کا امریکہ میں فقیدالمثال استقبال کیوں ہوا؟

ایسے میں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیل امریکہ نے عالمی قیادت کے اس خلا کو پُر کرنا شروع کیا تو دوسری جانب سرمایہ داری اور جاگیرداری کے خلاف کمیونزم یا اشتراکیت کی علم بردار سویت یونین نے تیسری دنیا میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا شروع کر دیا۔

یہ امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ کا آغاز تھا۔ دونوں ہی طاقتوں نے معاشی، فوجی اور سماجی ترقی کے منصوبوں کے ذریعے کم ترقی یافتہ ملکوں کو اپنا حلیف بنانے کے پروگرام شروع کیے، اور ضرورت پڑنے پر ان ملکوں کے اندورنی معاملات میں کھلم کھلا اور پسِ پردہ مداخلت سے بھی دریغ نہیں کیا۔

پاکستان عالمی سیاست کی بساط پر

اس پس منظر و پیش منظر میں پاکستان امریکہ تعلقات کی داغ بیل اکتوبر 1947 میں پڑی تھی۔

اگرچہ جنوری 1950 میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک خفیہ مراسلے میں سوویت کمیونزم کو ’آزاد دنیا‘ کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا تھا تاہم اس میں پاکستان کا ذکر محض انڈیا کے ساتھ تنازع کشمیر کے حوالے سے کیا گیا تھا۔

امریکی محکمہ خارجہ کے اپریل 1950 کے ایک خفیہ مراسلے کے مطابق ’پاکستان کے ساتھ تعلقات کا بنیادی اصول وہاں کی حکومت اور لوگوں کی سمت امریکہ اور دوسری مغربی جمہوریتوں کی جانب موڑنا اور سویت یونین سے دور کرنا ہے۔‘

جنرل یحیٰ، امریکی صدر رچرڈ نِکسن

صدر نکسن (دائیں) دلی میں مختصر قیام کر کے پاکستان کے دورے پر آئے تھے

بعد کے حالات اور واقعات نے ثابت کیا کہ جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کے لیے پاکستان اس کا بے بدل حلیف ہے۔

مگر امریکہ نے سنہ 1949 میں انڈیا کو پاکستان پر ترجیح دیتے ہوئے سرکاری دورے کی دعوت انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو دی تھی۔ جس کے جواب میں اسی برس جون میں روس نے پاکستانی وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو کے سرکاری دورے پر مدعو کیا۔ لیکن حامی بھر لینے کے باوجود وہ ماسکو نہیں گئے۔

وجہ اب تک ایک راز ہے۔ شاید پاکستان نے مستقبل کو بھانپ لیا تھا!

واشنگٹن کو ماسکو کی دعوت پر حیرت ہوئی اور اب اس نے پاکستانی وزیر اعظم کو مدعو کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ مئی 1950 میں پہلی امریکہ پاکستان سربراہ ملاقات واشنگٹن میں ہوئی۔

آنے والے برسوں میں پاکستان نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ سِیٹو اور سینٹو سمیت مختلف دو طرفہ اور کثیرالجہتی دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے۔

کراچی پہلا پڑاؤ

صدر ڈوائٹ آئزن ہاور پہلے امریکی صدر تھے جنھوں نے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا۔ امریکی صدر کا سرکاری طیارہ ’ایئر فورس ون‘ سات دسمبر 1959 کو پہلی بار کراچی میں اُترا تھا۔ اس طرح کراچی خطے میں کسی بھی امریکی صدر کا پہلا پڑاؤ بنا۔

امریکی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ کے مطابق آئزن ہاور کا دورہ پاکستان ’غیر رسمی‘ تھا۔ ان کا استقبال اکتوبر 1958 میں ملک پر مارشل لا لگانے والے فوجی حکمراں جنرل محمد ایوب خان نے کیا تھا۔

سرکاری مہمان کی تواضع کا بھرپور اہتمام تھا۔ شہر کو دونوں ملکوں کے پرچموں، رنگین جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ امریکی صدر کی قیام گاہ کے قریب موسیقی کی لے پر ناچتی رنگین روشنیوں کا فوارہ نصب کیا گیا تھا۔

ایئرپورٹ سے ایوان صدر تک کی 15 میل سڑک کے دونوں اطراف لاکھوں لوگ ہاتھوں میں جھنڈے لیے معزز مہمان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

سفر کا آخری میل دونوں رہنماؤں نے ایک کھلی بگی میں طے کیا۔ اطراف میں عوام جوش و خروش کے ساتھ پاک امریکہ دوستی کے نعرے لگا رہے تھے جن سے صدر آئزن ہاور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

اگلے روز یعنی آٹھ دسمبر کو ہونے والی ملاقات میں جنرل ایوب خان نے امریکی صدر آئزن ہاور کو یہ باور کرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی کہ پاکستان، سوویت کمیونزم کے خلاف فری ورلڈ (آزاد دنیا)، خاص طور سے امریکہ کا قابل انحصار اتحادی ہے۔ انھوں نے امریکی صدر سے مختلف النوع ہتھیاروں اور اسلحے کی فراہمی پر زور دیا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے امریکی کردار کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

امریکی حکومت کی جانب سے بعد میں سرکاری طور پر منظر عام پر لائی گئی روداد کے مطابق اس اجلاس میں جنرل ایوب نے امریکی صدر سے کہا تھا کہ وہ افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ کو سویت یونین کے منصوبوں کے بارے میں خبردار کریں۔ جنرل ایوب نے چین اور روس کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے، 30 سے 60 برس کے اندر چین ایک زبردست عالمی طاقت بننے کے بارے میں بھی پیش گوئی کی تھی۔

اس وقت کے وزیر خزانہ محمد شعیب سے ایک علیحدہ ملاقات میں صدر آئزن ہاور نے پاکستان میں نجی سرمایہ کاری کے مواقع پر خوشی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ امریکہ واپس جا کر لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر راغب کریں گے۔

صدر آئزن ہاور کراچی سے نو دسمبر 1959 کو روانہ ہوئے اور کابل میں شاہ ظاہر شاہ سے مختصر ملاقات کر کے انڈیا کے دورے پر دلی پہنچے۔

سنہ 1953 سے سنہ 1961 کے درمیان امریکہ نے پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد دی تھی۔ انڈین وزیراعظم جواہرلال نہرو اس پر شاکی تھے مگر صدر آئزن ہاور نے انھیں یقین دہانی کروائی تھی کہ پاکستان کو دیا جانے والا اسلحہ انڈیا کے خلاف استعمال نہیں ہو گا۔

تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو

23 دسمبر 1967 کو صدر لِنڈن جانسن کا طیارہ تیل بھروانے کے لیے کراچی ایئر پورٹ پر محض ایک گھنٹے کے لیے رُکا تھا۔ اسے برائے نام دورہ قرار دینا بےجا نہ ہو گا کیونکہ وہ مشرقی ایشیا کے دورے کے بعد آسٹریلیا اور تھائی لینڈ رُکتے ہوئے واشنگٹن واپسی کے سفر میں تھے۔

ایئر فورس ون سے ہی بھیجے گئے ایک پیغام میں انھوں نے انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی سے اس بات پر افسوس ظاہر کیا تھا کہ وقت کی تنگی ان سے ملاقات کے آڑے آئی۔

اگرچہ پاکستان کا دارالحکومت 20 اگست 1967 کو اسلام آباد منتقل ہو چکا تھا تاہم صدر ایوب 23 دسمبر کو کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر صدر جانسن کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

یہ صدر جانسن کا پاکستان کا کوئی باضابطہ دورہ نہیں تھا بلکہ راستے کا ایک مختصر پڑاؤ تھا، مگر صدر ایوب اس مختصر وقت میں بھی امریکہ سے کچھ نہ کچھ اقتصادی اور فوجی امداد نچوڑنے میں کامیاب رہے۔ شاید سرد جنگ کی وجہ سے ان دنوں ’ڈو مور‘ کا مطالبہ پاکستان کرتا تھا!

ایئرپورٹ پر ہونے والی گھنٹے بھر کی اس ملاقات کے بارے میں امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر والٹ وِٹمین روسٹوو نے ایک خفیہ مراسلہ میں لکھا ’صدر جانسن نے صدر ایوب سے ملاقات کے عملی پہلوؤں کا مجھے یہ خلاصہ بتایا‘۔

’ہم خوردنی تیل کی صورت میں پاکستان کو پی ایل 480 کے تحت اضافی امداد کے امکان کا فوری جائزہ لیں گے۔ (پی ایل 480 مختلف ملکوں کو یو ایس ایڈ کے ’خوراک برائے امن‘ منصوبے کی بنیاد ہے۔)

’ہم پاکستان کو پانچ لاکھ ٹن گندم کی فراہمی کے امکان کا فوری جائزہ لیں گے، جس میں سے چار لاکھ ٹن پی ایل 480 کے تحت ہو گی اور ایک لاکھ ٹن تجارتی بنیادوں پر۔ اس کا مقصد اس عمومی سازگار ماحول میں پاکستان کے ذخیرے میں اضافہ کرنا ہے۔‘

’صدر ایوب نے کہا کہ کچھ کوشش کر کے وہ اس اضافی امداد کو ذخیرہ کر سکیں گے۔‘

’صدر جانسن نے 500 پرانے شرمن ٹینکوں کے بدلے پیٹن ٹینک فراہم کرنے کے امکان پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔ انھوں نے کسی تیسرے ملک (مثلاً اٹلی اور ترکی) کے ذریعے اس کی فروخت پر بھی رضامندی ظاہر کی، وہ چاہتے ہیں کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اگر شرمن کو ناکارہ بنا دیا جائے تو کیا ہم یہ (پیٹن ٹینک) براہ راست پاکستان کو فروخت کر سکتے ہیں۔‘

اونٹ رے اونٹ۔۔۔

ویسے نہ پاکستان صدر لنڈن جانس کے لیے نیا تھا اور نہ وہ پاکستانیوں کے لیے۔ وہ صدر جان ایف کینیڈی کے دور میں بطور نائب صدر اور نجی حیثیت میں بھی پہلے پاکستان آ چکے تھے۔

تاہم پاکستان میں ان کی شہرت کا سبب ایک منفرد واقعہ تھا۔

مئی 1961 میں جب وہ بطور نائب صدر پاکستان کے خیر سگالی کے دورے پر آئے تو کراچی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر صدر ایوب نے ان کا استقبال کیا۔ صدارتی قافلے کے لیے ہوائی اڈے سے آنے والی سڑک ڈرِگ روڈ (موجودہ شاہراہ فیصل) کو عام ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ جب صدارتی قافلہ کارساز کے مقام پر پہنچا تو لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔

امریکی نائب صدر کی گاڑی طے شدہ پرواگرم کے بغیر اچانک رُک گئی۔ سکیورٹی اور سفارتی عملے کے اندر کھلبلی مچ گئی۔ عملہ صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ امریکی نائب صدر جانسن گاڑی سے نمودار ہوئے اور پیدل ہی وہاں کھڑے مجمعے کی طرف روانہ ہو گئے۔

اس مجمعے میں ساربان بشیر احمد اپنی اونٹ گاڑی سمیت ٹریفک کے کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ گذشتہ برسوں میں امریکہ نے امداد کی شکل میں جو گندم پاکستان کو دی تھی اس کے شکریہ کے لیے اس موقع پر ’تھینک یو امریکہ‘ کے بینرز اور پلے کارڈ لگائے گئے تھے۔ بشیر ساربان نے بھی اپنے اونٹ کے گلے میں ایسی ہی ایک تختی لٹکا رکھی تھی۔

بشیر احمد کی حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب امریکی نائب صدر لِنڈن جانسن ان کی طرف بڑھے ان سے ہاتھ ملایا اور اور بقول بشیر احمد کے بیٹے کے ان سے پوچھا: ’تم میرے دوست بنوں گے؟‘

کراچی میں امریکی قونصل خانے کی جنوری 2016 میں جاری کردہ ایک ویڈیو میں ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے فوراً ہی دوستی کی حامی بھر لی، جس پر امریکی نائب صدر نے بشیر ساربان کو امریکہ آنے کی دعوت دی۔

لنڈن جانس نے اپنی اس دعوت کا پاس رکھا اور 15 اکتوبر 1961 میں بشیر ساربان نیویارک کے ہوائے اڈے پر سرکاری مہمان بن کر اترے، جہاں لنڈن جانسن نے اردو میں ’خوش آمدید‘ کہہ کر ان کا استقبال کیا اور کہا کہ ان سے ملے بہت وقت بیت گیا ہے۔

جواب میں بشیر ساربان نے کہا: ’مدت ہو گئی ہے آپ سے ملے ہوئے۔ یہ ہی انتظار تھا کہ خداوند کریم کب ملائے آپ سے۔‘

امریکہ میں انھیں نیویارک، واشنگٹن اور ٹیکساس سمیت کئی مقامات کی سیر کرائی گئی۔ وہ جہاں بھی جاتے لوگ تپاک سے ملتے۔

امریکہ جانے سے پہلے انھیں وہاں کے اطوار کی تربیت بھی دی گئی، ان کے لیے شیروانیوں اور جناح کیپ کا بندوبست کیا گیا۔

ان کے بیٹے کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے جب نیویارک میں اس وقت دنیا کی سب سے اونچی عمارت ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کو دیکھنے کے لیے نگاہ اٹھائی تو ان کی ٹوپی نیچے گر گئی تھی۔

بشیر ساربان کی سادگی کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب امریکہ میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران ان سے پوچھا گیا کہ وہ اپنے اونٹ کا کوئی نام رکھنے والے تھے اُس میں کوئی پیشرفت ہوئی، تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑے اور کہا: ’ارے کیا اونٹ کے بارے میں، وہ تو اونٹ ہے، کیا نام اس کا رکھا جائے گا۔‘

اس دورے کے دوران بشیر ساربان گھُڑ دوڑ میں امریکی نائب صدر کو ہرانے پر بہت خوش تھے۔

بشیر ساربان کا انتقال 15 اگست 1992 میں کراچی میں ہوا۔

لہور لہور اے

پاکستان کے دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوئے دو برس ہو چکے تھے۔ مگر جب دو اگست 1969 کو تیسرے امریکی صدر رچرڈ نِکسن نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا تو وہ لاہور آئے۔

جنرل یحیٰ کو اقتدار سنبھالے ابھی کم و بیش چار ماہ ہی ہوئے تھے۔ صدر نکسن دلی میں مختصر قیام کر کے پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ یہ ’سٹیٹ وزٹ‘ تھا۔ دونوں سربراہانِ مملکت کے درمیان یہ ایک نجی ملاقات تھی اور اس میں ہونے والی گفتگو کا کوئی ریکارڈ امریکی سرکاری دستاویزات میں نہیں۔

تاہم آنے والے عالمی سیاسی منظر پر اس ملاقات کے نقوش انمٹ ہیں۔ اس کی اہمیت سمجھنے کے لیے ہمیں ذرا ماضی میں جانا ہو گا۔

امریکہ چین مُخاصمت

چین میں چائنیز کمیونسٹ پارٹی نے چیئرمین ماؤ کی قیادت میں قوم پرست حکمران چینگ کائے شیک کے خلاف انقلاب برپا کر کے یکم اکتوبر 1949 کو بیجنگ میں حکومت قائم کی۔

چینگ کائے شیک اور ان کے ہزاروں فوجیوں نے تائیوان میں جلاوطن حکومت قائم کی۔ امریکہ اور چینگ دوسری عالمی جنگ میں جاپان کے خلاف اتحادی رہے تھے۔ امریکہ نے جلاوطنی میں بھی ان کی حمایت جاری رکھی۔ ویسے بھی کمیونسٹ چین اس کے لیے کیونکر قابل قبول ہو سکتا تھا۔ یوں امریکہ چین تعلقات کی بنیاد ہی مخاصمت سے شروع ہوئی۔

امریکہ، کمیونسٹ شمالی ویتنام اور اشراکیت مخالف جنوبی ویتنام کی خانہ جنگی میں پچاس کی دہائی سے الجھا ہوا تھا (1964 میں اُسے اس جنگ میں براہ راست کودنا پڑا)۔ جبکہ چین شمالی ویتنام کا حلیف تھا۔

سنہ 1950 میں امریکہ نے کمیونسٹ شمالی کوریا کے مقابلے میں جنوبی کوریا کی مدد کی جبکہ چین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔

سنہ 1954 میں چینگ کائے شیک کے فوجیوں نے آبنائے تائیوان میں دو جزیروں پر قبضہ کر لیا۔ چینی فوج نے ان جزیروں پر حملے شروع کر دیے۔ امریکہ نے چینگ کے قوم پرستوں کے ساتھ دفاعی معاہدے پر دستخط کیے اور سنہ 1955 کے موسم بہار میں چین پر ایٹمی حملہ کرنے کی دھمکی دی۔ اس سال اپریل میں چین نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کر دی۔

مارچ 1959 میں تبت میں چینی حکومت کے خلاف زبردست شورش شروع ہوئی۔ امریکی سی آئی اے نے پچاس کی دہائی کے اواخر میں شروع ہونے والی اس تحریک کو مسلح کرنے میں مدد کی تھی۔

سنہ 1965 کی جنگ کے بعد پاکستان میں اندرونی سیاسی خلفشار بڑھتا جا رہا تھا۔ صدر ایوب نے 26 مارچ 1969 کو صدارت سے استفعیٰ دے کر اقتدار فوج کے سربراہ جنرل آغا محمد یحیٰ خان کو منتقل کر دیا تھا۔

ادھر امریکہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ دو بڑی کمیونسٹ طاقتوں کے ساتھ ایک وقت میں محاذ آرائی اس کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس لیے وہ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے جن مشترکہ دوستوں سے رابطے کیے گئے ان میں سے ایک پاکستان تھا۔

صدر نِکسن اور جنرل یحیٰ کی اسی ملاقات سے امریکہ چین تعلقات کی بحالی اور سنہ 1972 میں نکسن کے دورۂ چین کی راہ ہموار ہوئی تھی اور بیس سال کی سرد مہری کے بعد دونوں ملکوں کو قریب لانے میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

جب صحافی جُل کھا گئے

صدر نکسن کے اس عمل کو سفارتی حلقوں میں ’نِکسنز چائنا گیم‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ صدر نکسن کے دورۂ چین کے لیے گراؤنڈ ورک کے دوران جولائی 1971 میں ان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، ہنری کسنجر، انتہائی خفیہ طور پر چین گئے تھے۔ اس مشن میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا تھا اور کسی کو کان و کان خبر نہ ہوئی تھی۔

امریکی نشریاتی ادارے پبلک براڈکاسٹنگ سروسز (پی بی ایس) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کسنجر نے اسلام آباد سے خفیہ طریقے سے بیجنگ سفر کی تفصیل یوں بیان کی تھی: ’میں نے ایشیا کا دورہ کرنے کا پلان بنایا اور صحافیوں کی نظروں سے بچنے کے لیے اپنے سفر کو حتی الامکان بیزارکن (بورنگ) رکھا۔ نتیجتاً جب میں اسلام آباد پہنچا تو یہ تاثر عام ہو چکا تھا کہ یہ بالکل ناکام دورہ ہے۔ صحافیوں کی بھیڑ چھٹ چکی تھی۔ آخر میں اس دورے کی رپورٹنگ کرنے والا صرف ایک صحافی بچا تھا۔ یحیٰ خان نے ہمیں عشائے پر مدعو کیا اور کھانے کے دوران میں دکھاوے کے لیے بیمار پڑ گیا۔‘

’انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں پہاڑوں میں ایک پُرفضا مقام پر (مری) جا کر آرام کروں جو انھوں نے اپنے لیے بنوایا ہے۔ ہم نے پریس میں اعلان کروایا کہ میں چند روز وہاں گزاروں گا۔ ہم نے انھیں دکھانے کے لیے کاروں کا ایک کانوائے بھی روانہ کر دیا۔ درحقیقت میں علی الصبح پانچ بجے سے پہلے بیدار ہوا اور ہم روانہ ہو گئے۔‘

نکسن

لاہور میں صدر نکسن ایک لیمو گاڑی سے اتر رہے ہیں

’ہم پاکستان ایئر فورس کے اڈے پر گئے، وہاں پی آئی اے کا ایک طیارہ ہمیں بیجنگ لے جانے کے لیے منتظر تھا۔ جب میں جہاز میں سوار ہوا تو میرے ہمراہ سیکرٹ سروس والے بھی تھے، جو اس زمانے میں ہمیشہ میرے ساتھ رہتے تھے، ہمارا سامنا ماؤ سوٹ میں ملبوس چار چینیوں سے ہوا جنھیں (چینی وزیراعظم) چو اینلائی نے ہمیں چین لے جانے کے لیے بھیجا تھا، مگر یہ بات ہمیں معلوم نہیں تھی۔ اور ہماری سیکرٹ سروس والوں کو تو جیسے سکتہ سا ہو گیا تھا۔‘

صدر نکسن کے بعد اگلے 30 برس تک کسی امریکی صدر نے پاکستان کا رُخ نہیں کیا۔

’ایک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک‘

وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے پورے دورِ حکومت اور ان کا تختہ الٹ کر ملک پر تیسرا مارشل لا لگانے والے جنرل ضیا کے ابتدائی زمانے میں پاک امریکہ تعلقات سرد مہری کا شکار رہے۔

تاہم سنہ 1979 میں افغانستان میں سوویت فوج کی مداخلت کے بعد جنرل ضیا الحق کے دور میں دونوں ممالک پھر قریب ہو گئے۔ سویت فوجوں کے خلاف لڑنے والے افغانوں کی امریکا سمیت مغربی ممالک اور پاکستان نے بھرپور حمایت اور مدد کی۔ سنہ 1981 میں امریکہ نے پاکستان کو تین ارب ڈالر سے زیادہ کی معاشی اور فوجی امداد کا پانچ سالہ پیکج دیا۔ بعد میں سنہ 1986 میں چار ارب ڈالر کا پیکج دیا گیا۔

اس جنگ کے نتیجے میں تقریباً پانچ لاکھ افغان پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

پاکستان نے افغان مہاجرین اور ’مجاہدین‘ کی کھل کر مدد اور حمایت کی، مگر اس کی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ ملک میں بم دھماکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جن میں کئی سو افراد ہلاک ہو ئے۔ پاکستان اس تخریب کاری کا الزام اس وقت افغان خفیہ ایجنسی خاد پر لگاتا رہا۔ ملک میں نیا نشہ ہیروئن متعارف ہوا اور کلاشنکوف عام ہوئی۔

سوویت افواج کے خلاف پاکستانی اور غیر ملکی ’مجاہدین‘ کی کھیپ تیار کرنے کے لیے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ ہزاروں عرب، چیچن اور دوسرے مسلم ملکوں کے شہری پاکستان کے سرحدی علاقے میں جا کر بس گئے۔ سعودی ارب پتی نوجوان اسامہ بن لادن بھی اسی زمانے میں یہاں پہنچے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ افغان جنگجو سویت فوجوں کے خلاف لڑ رہے تھے تو انھیں افغان مجاہدین کہا گیا۔ مگر بعد میں جب امریکا نے سنہ 2001 میں نائن الیون کے حملوں کے بعد فوجی آپریشن کے ذریعے طالبان حکومت کا خاتمہ کیا اور جب یہ افغان طالبان غیر ملکی افواج اور افغان سکیورٹی فورسز سے نبردآزما ہوئے تو انھیں ’شدت پسند‘ جبکہ عرب اور دوسرے غیر افغان جنگجوؤں کو ’دہشت گرد‘ کہا گیا۔

اپریل 1988 میں جنیوا ایکارڈ ہوا جس کی رو سے افغانستان سے روسی افواج کا فوری انخلا شروع ہو گیا۔ صدر جنرل ضیا نے یہ معاہدہ کرنے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو کی حکومت کو رسوائے زمانہ آٹھویں ترمیم کے تحت چلتا کیا۔ اگست میں جنرل ضیا طیارے کے ایک ’حادثے‘ میں کئی جرنیلوں اور دو اعلی امریکی افسروں سمیت ہلاک ہو گئے۔

فروری 1989 میں سوویت فوجوں کو افغانستان میں ہزیمت اٹھانے کے بعد نکلنا پڑا۔ کمیونسٹ سوویت یونین کا خاتمہ نوشتۂ دیوار بن چکا تھا اور دسمبر 1991 میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔

اس کے بعد افغانستان سے امریکی بے رخی کی کہانی سنہ 2007 میں بننے والی فلم ’چارلی وِلسنز وار‘ میں نہایت عمدہ پیرائے میں بیان ہوئی ہے۔

سوویت افواج کے انخلا کے ساتھ افغان مجاہدین دھڑوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ لاقانونیت کا دور دورہ تھا، عام شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی تھی۔ اس کے ردعمل میں ملا عمر کی قیادت میں طالبان تحریک شروع ہوئی جو رفتہ رفتہ جنگی کمانڈروں کا خاتمہ کرتی ہوئی 1996 میں کابل پر قابض ہو گئی۔ پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کر لیا۔

نئی ایٹمی طاقتوں کا ظہور

پاکستان کو ان 30 برسوں میں سائمنگٹن امینڈمنٹ، پریسلر امینڈمنٹ اور گلین امینڈمنٹ کے تحت مختلف امریکی اقتصادی اور فوجی پابندیوں کا سامنا تھا۔

مئی 1998 میں انڈیا کے جواب میں پاکستان نے بھی ایٹمی دھماکے کیے۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان پر مزید پابندیاں عائد کر دیں۔ بعض ماہرینِ اقتصادیات کے مطابق تو پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔

مئی تا جولائی 1999 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان، جو اب ایٹمی طاقت بن چکے تھے، کارگل جنگ ہوئی جسے رکوانے کے لیے امریکی صدر بل کلنٹن کو پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور براہ راست مداخلت کرنا پڑی۔

شاید خطے کی یہ ہی کشیدہ صورتحال چوتھے امریکی صدر کے دورۂ پاکستان کی وجہ بنی کیونکہ صدر کلنٹن اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے آخری چند ماہ میں 25 مارچ سنہ 2000 کو اسلام آباد آئے۔ وہ 19 سے 25 مارچ تک انڈیا کا ایک ہفتے طویل دورہ کر کے صرف چھ گھنٹے کے لیے اسلام آباد میں رکے۔

’امریکہ پاکستان دیرینہ دوستی‘ کے لیے ایک امریکی صدر 30 برس میں بس اتنا ہی وقت نکال سکا تھا۔

امریکہ، پاکستان

کشیدہ صورتحال چوتھے امریکی صدر کے دورۂ پاکستان کی وجہ بنی کیونکہ صدر کلنٹن اپنے آٹھ سالہ دور اقتدار کے آخری چند ماہ میں 25 مارچ سنہ 2000 کو اسلام آباد آئے

اس سے پہلے پاکستان میں اکتوبر 1999 میں فوج وزیراعظم نواز شریف کی منتخب حکومت کو برطرف کر کے چوتھی مرتبہ اقتدار پر قابض ہو چکی تھی۔ اور جنرل پرویز مشرف پہلے ملک کے چیف ایگزیکٹیو اور بعد میں صدر بنے۔

صدر کلنٹن نے صدر رفیق تارڑ اور چیف ایگزیکٹیو جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی، اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر پاکستانی عوام سے براہ راست مخاطب ہوئے۔ شاید امریکہ پاکستانی قائدین سے مایوس ہو چکا تھا۔

تقریباً 14 منٹ کی اس لکھی ہوئی تقریر کا آغاز انھوں نے ’السلام علیکم‘ کہہ کر کیا۔ انھوں نے کہا ’میرے لیے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں پہلا امریکی صدر ہوں جسے پاکستان کے عوام سے مخاطب ہونے کا موقع ملا، اور 30 برس سے زیادہ عرصے کے دوران پہلا صدر جس نے آپ کے ملک کا دورہ کیا۔‘

اپنے خطاب میں انھوں نے پاکستان سے امریکہ کی دیرینہ دوستی کے حوالے دیے، امریکہ، چین تعلقات میں پاکستان کے کردار، افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف پاکستانی تعاون، سرد جنگ کے خاتمے اور دہشت گردی کے خلاف پاکستانی تعاون کا ذکر کیا۔ انھوں نے کہا: ’یہ آپ کا مایہ ناز ورثہ ہے، ہمارا مایہ ناز ورثہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ نئی صدی کے آغاز پر پاکستان اس نئی دنیا میں بڑے اہداف حاصل کر سکتا ہے مگر اس کے راستے میں سیاسی صورتحال، معاشی صورتحال اور علاقائی کشیدگی بڑی رکاوٹیں ہیں۔

انھوں نے جمہوریت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بغیر جمہوریت کے آگے بڑھا مشکل ہوتا ہے۔ اور وہ جانتے ہیں کہ نہ تو یہ آسان ہے اور نہ ہی کامل۔

انھوں نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ماضی میں سیاسی حکومتوں نے لوگوں کو مایوس کیا ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت اس وقت تک نہیں پنپ سکتی جب تک اسے اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع نہ دیا جائے۔

ملک میں فوجی طالع آزمائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’ناقص جمہوریت کا حل اس کا خاتمہ کرنا نہیں بلکہ اسے بہتر بنانا ہے۔‘ انھوں نے جنرل مشرف کی طرف سے بلدیاتی انتخابات کے اعلان کے بارے میں کہا کہ یہ اچھا قدم ہے۔ مگر جمہوری سیاسی حکومت کے قیام کے لیے مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کی ضرورت، جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاہدوں ’این پی ٹی‘ اور ’سی ٹی بی ٹی‘ میں شمولیت، انڈیا کے ساتھ کشیدگی کم کرنے اور مسئلہ کشمیر کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ اس بارے میں انھوں نے انڈیا سے بھی بات کی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت کی اہمیت اور مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے دو مختلف مواقع پر انھوں نے جنرل مشرف کا تو نام لیا مگر سوِیلین صدر رفیق تارڑ کا نام پوری تقریر میں ایک بار بھی نہیں آیا۔

کہا جاتا ہے کہ صدر کلنٹن نے جنرل مشرف سے کہا تھا کہ اگر پاکستان القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کر دے تو ان کا ملک پاکستان کو زبردست معاشی پیکج دے گا۔

’ڈو مور‘ کا دور

صدر کلنٹن کے دورے کے ڈیڑھ برس بعد نائین الیون پیش آیا۔ امریکہ نے اس کی ذمہ داری افغانستان میں مقیم القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن پر عائد کرتے ہوئے طالبان حکومت سے ان کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔

طالبان کے انکار پر صدر جارج بش نے افغانستان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ پاکستان ایک مرتبہ پھر امریکہ کی ضرورت بن گیا۔ جنرل مشرف کی حکومت نے 180 درجے کا پلٹا کھاتے ہوئے طالبان حکومت سے تمام روابط ختم اور دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی مبینہ جنگ میں ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جواب میں صدر بش نے 22 ستمبر 2001 کو پاکستان پر کئی برسوں سے عائد اقتصادی پابندیاں اٹھا لیں۔

پاکستان میں ڈالر کی ریل پیل شروع ہو گئی۔ افغانستان میں غیرملکی افواج کے لیے رسد اور ترقیاتی کاموں کے لیے خام مال پاکستان سے جانے لگا۔ پاکستان نے سینکڑوں مبینہ ’دہشت گردوں‘ کو ڈالرز کے عوض امریکہ کے حوالے کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس زمانے میں امریکی فوج طالبان اور افغانستان میں موجود غیر ملکی قیدیوں کو تھوک کے حساب سے قیمت ادا کر کے لے جاتی تھی۔ پاکستان نے القاعدہ کے کئی اہم رہنما پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے۔

امریکہ کے حوالے کیے جانے والوں میں طالبان حکومت کے پاکستان میں سفیر ملا عبدالسلام ضعیف بھی شامل تھے جنھوں نے طالبان حکومت کے سقوط کے بعد پاکستان سے سیاسی پناہ کا مطالبہ کیا تھا۔

ملا ضعیف نے اس کی روداد پشتو میں اپنی کتاب ’د گوانتانامو اِنزور‘ یا گوانتانامو کی تصویر میں تفصیل سے بیان کی ہے۔

اس طرح سے ان کی حوالگی کو بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں کراہت سے دیکھا گیا تھا۔

مشرف، بش

امریکی صدر جارج ڈبلیو بش مارچ 2006 میں اپنے پیشروؤں کی طرح انڈیا سے ہوتے ہوئے اسلام آباد آئے

سنہ 2004 میں جب میں صدارتی انتخابات کی کوریج کے لیے کابل میں تھا تو پاکستانی سفیر نے مجھے بتایا تھا کہ کسی تقریب میں فرانسیسی سفیر ان کے پاس آئے اور کہا کہ تمھارے ملک نے یہ کیا کیا، ایسا تو سفارتکاری کی دو ہزار سالہ روایت میں کبھی نہیں ہوا کہ کسی سفیر کو دشمن کے سپرد کیا گیا ہو۔

اس بار امریکہ کا ساتھ دینے کی پاکستان نے بہت بھاری قیمت ادا کی اور اب بھی کر رہا ہے۔ سوویت یونین کے خلاف پاکستان نے افغان مجاہدین کی مدد و حمایت کے لیے جس نظریے کو بڑے شد و مد سے فروغ دیا تھا اس کے ماننے والے معروضی حالات سے سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ تھے۔

پاکستان میں شدت پسند حملے شروع ہو گئے جن میں، ہزاروں سکیورٹی اہلکار اور عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ سیاسی راہنماؤں حتٰی کہ خود جنرل مشرف کو بھی ہدف بنایا گیا۔ جو فصل 1980 کی دہائی میں بوئی گئی تھی وہ ابھی پھل پھول رہی ہے۔

ان حالات میں صدر جارج ڈبلیو بش تین تا چار مارچ 2006 کو اسلام آباد آئے۔ اپنے پیشروؤں کی طرح وہ بھی انڈیا سے ہوتے ہوئے آتے تھے۔

فوجی حکمراں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات میں انھوں نے ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کی تعریف کی، مگر ساتھ ہی القاعدہ کو شکست دینے کے لیے پاکستان سے مزید کرنے (ڈو مور) کا مطالبہ بھی دہرایا۔ اس زمانے میں دونوں ملکوں کے اعلی حکام اور سیاسی قیادت کی شاید ہی کوئی ایسی ملاقات ہو جس میں ‘ڈو مور’ کی بازگشت نہ سنائی دی ہو۔

فوجی وردی کو اپنی کھال سمجھنے والے صدر جنرل مشرف کے سامنے صدر بش نے اپنے پیشروؤں کی طرح جمہوریت کے محاسن بیان کیے اور پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے مکمل جمہوری حکومت کے قیام پر زور دیا۔

جنرل مشرف نے کہا کہ وہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعاون کا نیا دور دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔ البتہ صدر بش نے دو روز پہلے انڈیا کے ساتھ جس طرح کے سول جوہری امداد کے سمجھوتے پر دستخط کیے تھے ویسا کوئی سمجھوتا ہونے کے آثار بش، مشرف ملاقات میں نظر نہیں آئے۔ بلکہ امریکی صدر نے کہا کہ ’پاکستان اور انڈیا مختلف ملک ہیں جن کی ضرورتیں اور تاریخ مختلف ہے۔‘

ایوان صدر میں دو گھنٹے سے زیادہ طویل اس سربراہ ملاقات کے دوران شہر کی فضا میں امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر گردش کرتے رہے جبکہ زمین پر سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ اسلام آباد کو ہر طرح کی کمرشل پروازوں کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

ہفتے بھر سے ملک میں امریکہ مخالف مظاہرے ہو رہے تھے۔ سابق کرکٹر، اس وقت حزب اختلاف کے رہنما اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کو، جو اس موقع پر امریکہ مخالف احتجاجی جلوس کی قیادت کرنے والے تھے، ایک روز پہلے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

نرم گوشے کے اظہار کے لیے صدر بش نے امریکی سفارتخانے میں پاکستانی کپتان انضمام الحق، سلمان بٹ اور ایک سکول کے طلبہ کے ساتھ کرکٹ کھیلی۔ بیس بال کے شوقین امریکی صدر کو ٹینس گیند کے ساتھ کرکٹ کھلانے سے پہلے بشیر ساربان کی طرح کرکٹ کےاطوار سکھائے گئے۔ انھوں نے کپتان انضمام الحق کی دو گیندوں پر شاٹ کھیلے اور ایک ان کے کندھے پر لگی۔ صدر بش نے بالنگ کرانے کی بھی کوشش کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں کھیل پسند آیا تو انھوں نے کہا: ’میرے پاس ابھی بالکل مہارت نہیں ہے۔‘

شام کے کھانے پر انھوں نے شرکا کو محظوظ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک گوگلی پر ان کی تینوں وکٹیں گر گئی تھیں۔

انضمام الحق کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کرکٹ اور بیس بال میں فرق جاننا چاہتے تھے۔

پاکستان کی گوگلی؟

صدر براک اوباما 2010 اور 2015 میں دو بار تین، تین دن کے لیے دلی گئے مگر پاکستان نہیں آئے۔

ان کے دور میں امریکہ پاکستان تعلقات میں گرمجوشی ختم ہو چکی تھی اور یہ تاثر پختہ ہو چکا تھا کہ پاکستان افغانستان میں دوہرا کھیل کھیل رہا ہے، یعنی ایک طرف تو وہ طالبان کے خلاف امریکہ کا اتحادی ہے مگر دوسری جانب بعض حلقے، جن میں بعض سابق فوجی بھی شامل ہیں، طالبان کی مدد اور حمایت کر رہے ہیں۔

صدر براک اوباما

صدر براک اوباما 2010 اور 2015 میں دو بار تین، تین دن کے لیے دلی گئے مگر پاکستان نہیں آئے

اگرچہ طالبان کے سربراہ ملا عمر کی وفات سنہ 2013 میں افغان صوبے زابل میں ہوئی مگر باور کیا جاتا تھا کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں مقیم ہے اور پاکستانی حکام اس سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سنہ 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت نے پاکستان پر امریکہ کا رہا سہا اعتبار بھی ملیا میٹ کر دیا۔

پاکستان نے سرکاری طور پر ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ امریکہ اور افغان حکومت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کرتا رہا ہے۔

جنرل مشرف نے 19 سمتبر 2001 کو قوم سے خطاب میں امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے صلح حدیبیہ کا بطور خاص ذکر کیا تھا۔ یہ معاہدہ بظاہر مدینے کے مسلمانوں کی کمزوری ظاہر کرتا ہے مگر بعد میں ایک نوزائیدہ ریاست مدینہ کے لیے اس کے دور رس مثبت نتائج سامنے آئے۔

پاکستان نے امریکہ کو ہوائی اڈے اور زمینی گزرگاہیں دینے سے لے کر انٹیلیجنس تک ہر شعبے میں ممکنہ مدد دی مگر طالبان سے رابطے بھی رکھے۔ کیا 29 فروری 2020 کو قطری دارالحکومت میں امریکہ اور طالبان کے، جو خود کو امارت اسلامی افغانستان کہتے ہیں، درمیان امن معاہدہ کے ڈانڈے جنرل مشرف کی تقریر میں تلاش کیے جا سکتے ہیں؟

چشم براہ

صدر ٹرمپ نے جولائی 2019 میں وزیراعظم عمران کے دورۂ واشنگٹن کے دوران ان کی دعوت قبول کرتے ہوئے پاکستان جانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

مگر ظاہر ہے کہ اس کے عملی شکل اختیار کرنے کا انحصار ہمیشہ کی طرح اس بات پر ہو گا کہ امریکہ کو پاکستان کی کتنی ضرورت ہے کیونکہ بین الاقوامی سفارت کاری میں دو طرفہ تعلقات کی سطح ملکی مفادات طے کرتے ہیں۔

جذبۂ خیرسگالی اور دیرینہ دوستی کے حوالے محض زیب داستاں کے لیے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp