بلبلی خانہ دہلی کی سلطان رضیہ اور غلام یاقوت کی قوت


نام رضیہ تھا۔ ہندوستان کی چار سال تک پہلی اور آخری مسلمان حکمران تھی۔ رضیہ اپنے لیے سلطانہ کا لقب پسند نہیں کرتی تھی کیونکہ اس کا مطلب ہے سلطان کی بیوی بلکہ اسے پسند تھا کہ اسے سلطان رضیہ کے نام سے پکارا جائے۔ ہم پاکستان ہندوستان والے اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ کس کے آگے پیچھے کون سا نام لگ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اسے رضیہ سلطانہ پکارتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جبڑا چوک والے جنرل صاحب کی تو مرضی تھی کہ ان کے من بھاؤنے کلاکاروں کی مدحت میں وزارت تعلیم تاریخ کی درسی کتابوں میں سلطان رضیہ کو ملکہ ہیما مالنی دختر التتمش اور اس کے سیاہ فام غلام عاشق کو جمال الدین یاقوت کی بجائے شتروگھن سنہا کے نام سے لکھا اور پکارا جائے۔ ان کے نزدیک Black Lives Matter کی تاریخ بھی بارہ صفحات کا آئین تھی جسے وہ اپنی صوابدید پر پیروں تلے روند سکتے تھے۔ اہل طاقت کو چھوڑیں وہ کب کسی کے ہوئے ہیں۔ آئیں اپنے بلڈی سویلین کی باتیں کرتے ہیں۔

جب سلطان التتمش کا وقت آخر آ گیا تو سرکار کے میڈیکل بورڈ نے اعلان کیا انہیں Thrombocytopenia کا مہلک عارضہ لاحق ہے۔ یہ سن کر بیٹے بہت گھبرائے۔ بہت واویلا کیا کہ اینی مشکل تے منحوس بیماری تے ساڈے خاندان وچ پہلے کدی کسی نوں نئی ہوئی۔ باجی رضیہ سے پوچھا۔ اس نے کہا پتہ تے مینوں وی کوئی نئی۔ ڈاکٹر عدنان یہ کہہ رہا تھا کہ ابا جی کے خون میں خرابی ہے۔ یہ سنا تو میں نے کہا تم بھی سوشل میڈیا کی بکواس سن کر بھارتی صدر گیانی ذیل سنگھ والی گھٹیا باتیں کرتے ہو۔

گھبرا کر کہنے لگا نہیں باجی اس کا مطلب ہوتا ہے کہ (low platelets count) ۔ باجی نے فوراً گوگل کیا تو پتہ چلا کہ ہر انسان کے جسم میں ایک مائیکرو لیٹر خون میں ڈیڑھ لاکھ پلیٹ لیٹ ہوتے ہیں۔ وہ گر جائیں تو پاکستان میں اس کا علاج صرف من پسند عدالت اور اپنی دھن میں مگن ڈیپ اسٹیٹ ہی کر سکتی ہے۔ میں نے بھائیوں کو کہا ڈیپ اسٹیٹ سے تو چاچو خود ہی لین دین کر لے گا۔ وہ چوہدری صاحب کے ساتھ ویگن میں برقعہ پہن کر چلا جائے گا۔ لاری اڈے کے پاس ہی گیٹ نمبر چار ہے۔ وہاں سے دونوں مختاریا کی طرح اندر وڑ جائیں گے۔ دولہا کی سالیوں، ہرے دوپٹے والیوں کا ایک ہی نعرہ ہوتا یے کہ ”پیسے دے دو۔ جوتے لے لو“۔ تم لندن دوڑ جاؤ، زمانہ خراب ہے۔ ایون فیلڈ سنبھالو۔ میں پراڈا کے سینڈل اور کوچ کا بیگ لے کر ان سے نمٹتی ہوں۔ انصاف کا ہمارے ملک میں بہت بول بالا ہے۔ ابا جی کی عدلیہ میں بہت انوسٹمینٹ ہے۔ اپنے پارٹی کیڈر کے کشمیری، بٹ لاہوری وکیلوں میں سے ہم آدھے ہائی کورٹ کے جج کے بناتے ہیں۔ ایک جج کو تو ہم نے گورنر اور دوسرے کو صدر بھی بنا دیا تھا۔ بے نظیر بھی یہی کرتی تھی۔ سجاد علی شاہ جونئیر تھا اس کو چیف بنایا تو پھیل گیا کہ آغا کو جج نہیں بناؤں گا۔ ٹرمپ بھی جج کونی بیریٹ کے معاملے میں یہی کر رہا ہے۔ بھارت کے سابق چیف جسٹس گوگوئی نے بابری مسجد میں جنتا راضی رکھنے والا کا فیصلہ دیا تو مودی سرکار نے یہ کہہ کر اس کے وارے نیارے کردیے۔ جسٹس گوگوئی تو نے رام لیلا کو سوئیکار کیا تو ہم تجھے نہال کرتے ہیں۔

بھائی لوگ کو میں نے ائرپورٹ پر بتایا کہ اپنے بندے ہیں۔ دیکھنا وہ ابے کو ملزم چاچے کے اسٹامپ پیپر والے مچلکے پر جانے دیں گے۔ بڑوں کے لیے انصاف کا معیار بھی ان کی پسند کا ہوتا ہے۔ اگر وہ شریف ہو تو ملزم بھی ملزم کا ضامن ہو سکتا ہے۔

سن نوے کی دہائی میں ہوم سیکرٹری سندھ واجد رانا صاحب نے ہمیں جیل سے موصول چند خفیہ خطوط اور اطلاعات کی بنیاد پر ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھنے بھیجا۔ ساتھ ہی ایک جنرل جیورس ڈکشن آرڈر بھی جاری کیا کہ درجہ اول کے مجسٹریٹ کے طور پر ہمیں جیل کے دورے کے دوران تمام شہر کے مقدمات سننے کا اور موقعے پر مناسب عدالتی فیصلہ سنانے کا اختیار ہوگا۔ بچہ جیل لانڈھی میں چودہ سال کا ایک ہینڈسم سرائیکی لڑکا تھا۔ یہ بچہ کراچی میں جس باربر کے ہاں ملازم تھا اس حجام کی اور ایک سپاہی کی نیت خراب ہو گئی۔ وہ جنسی فعل کرنا چاہتے تھے۔ نہ مانا تو دونوں نے پاس سے گزرنے والے ایک طوطے مینا والے کی مدد سے چار طوطے چرانے کے الزام میں جیل بھجوا دیا۔ بے چارہ سال بھر سے بند تھا۔ ہم نے پروانۂ رہائی جاری کیا تو دیر تک غیر یقینی حالت میں روتا رہا۔ جنرل نقوی اور مشرف نے ملک سے Executive Magistracy ختم کر کے بہت ظلم کیا۔ ہائی کورٹ کے ماتحت نظام میں وہ انتظامی لچک اور عوامی رسائی نہیں کہ فوری انصاف اور فتنوں ہنگاموں کا موقعہ پر سدباب کرے۔

چلیں چھوڑیں یہ بڑا موضوع ہے۔ گجرات کے مشہور نیتا کی طرح سیاست پر مٹی ڈالیں بغیر ٹکر ( پنجابی۔ طعام) سلطان رضیہ کی بات کریں۔ تیرہویں صدی کے راجہ التتمش کی بیٹی تھی کوئی اس کو رضیہ سلطان پکارتا تو ایسے ہی تاؤ کھاتی تھے جیسے خان کو نیازی، بلاول کو زرداری، مریم کو نانی مریم صفدر بھٹی بولیں تو چپل اتار کر مارنے کو پیچھے بھاگتے ہیں۔ سلطان رضیہ نے اپنا لقب خود سے ہی نصرت امیر المومنین رکھ لیا تھا۔ کوئی بلقیس جہاں بھی ساتھ لگا دیتا اور بھی زیادہ خوش ہوتی۔ جگہ خالی ہوتی تو زلفی بخاری کی جگہ لگا دیتی تھی۔ بڑے لوگ میں کیا ہے اوچ چتا ( ہندی۔ تفاخر اور انا) بہت ہوتی ہے۔ جارج واشنگٹن جو امریکہ کا جمہوری صدر تھا اس خط کو پھینک دیتا تھا جس پر اس کو پریذیڈنٹ لکھ کر مخاطب نہیں کیا ہوتا تھا۔

سلطان رضیہ کا والد التتمش جس کے نام کا مطلب ہوتا ہے جہاں گیر و جہاں پناہ۔ ایک الباری ترک تھا۔ اس کی بدقسمتی یہ تھی کہ اس کو ایک ایسے بادشاہ قطب الدین نے دہلی میں بطور غلام خریدا تھا جو خود بھی غلام تھا۔ بالکل ایسے جیسے نواز شریف کو بادشاہ تو فوج نے بنایا مگر وہ بھی فوج کے بڑوں کو تمغہ اور چونا لگاتا ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہوا کہ التتمش غلاموں کا غلام تھا۔ بادشاہ بننا آسان نہ تھا۔ اللہ کے بھید عجیب ہیں۔ ہمارا سنیوں سلفیوں، وہابیوں کا بادشاہ محمد بن سلمان دو ماؤں کا گیارہ نمبر بیٹا اور اس کے ابو چھبیس بھائیوں میں پچیس نمبر پر تھے۔ چانس نہیں تھا کہ بادشاہ بنے۔ کراچی کے بکی تو بھاؤ بھی نہیں لگاتے تھے مگر اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ پہلے سلمان بن عبد العزیز سعودیہ عرب کے بادشاہ بنے پھر ہمارے اور طاہر اشرفی صاحب کے فیورٹ ہزایکسی لینسی محمد بن سلمان۔

باپ کی تو مرضی تھی کہ اس کی جگہ رضیہ عنان حکومت سنبھالے۔ ان لوگ کی ڈیپ اسٹیٹ جس میں چالیس بڑے ترک النسل امرائے دربار شامل تھے ان کو ترکان چاغلانی کہا جاتا تھا انہوں نے التتمش کی دوسری بیوی ملکہ شاہ ترکان کے بیٹے رکن الدین فیروز کو بادشاہ بنا دیا۔ ترکان چاغلانی کا یہ الیومناٹی والا بہت قدامت پسند کلب تھا۔ رومن کیتھولک چرچ کے ڈیڑھ سو کے قریب کالج آف کارڈینلز جیسا، جو پوپ کا انتخاب کرتا ہے۔ سارا دن میڈیا پر رضیہ کے خلاف وی لاگ اور ٹاک شو چلواتے تھے۔ کوئی پوچھتا کہ اتنی قابل دلیر عورت ہے تو بالکل میمن سیٹھ والا بالکل ہڈی کھوپڑی (Skull and Bones) والا جواب دیتے تھے کہ

We would never allow a ruler with the wrong genitals

رضیہ پاک و ہند کی پہلی خاتون حکمران تھی۔ اس کے بعد یہ اعزاز بھارت کی سابق وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی کو ملا۔ اب کیا ہے کہ توجہ کے بھکاری، خوشامدی مشیر لوگ بادشاہ کے دماغ مین عجیب عجیب باتیں ٹھونس دیتے ہیں۔ سالے کو گھیلا۔ گھن چکر (پاگل) بنا کر رکھ دیتے ہیں اس لیے ہم میمن لوگ بولتے ہیں بھائی اوپر پہنچ کر آکسیجن کم ہوجاتی ہے۔ چکر بہت آتے ہیں۔ انسان بہت جلد انسانیت سے گر جاتا ہے۔ سب حاکم نبی سلیمان علیہ سلام جیسے فہیم اور اللہ سے ڈرنے والے نہیں ہوتے۔ ان کا لشکر دیکھ کر ایک چیونٹی نے اپنی ساتھیوں سے کہا کہ یہ لشکر ہماری بستی سے گزر رہا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہم ان کے قدموں تلے آن کر کچلی جائیں۔ یہ کو سن کر حضرت سلیمان مسکرا کر ہنس دیے اور دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں (سورہ النمل۔ قرآن العظیم) ۔ جوڑیا بازار کا ہر بڑا سیٹھ جانتا ہے کہ A king has many ears and no eyes (بادشاہ کے کان تو بہت ہوتے ہیں مگر آنکھیں نہیں ہوتیں)

اندرا گاندھی کو بھی سب کہتے تھے کہ سلطان رجیہ کے ٹھیک سات سو تیس برس بعد سن 1966 میں بھگوان نے آپ کے سر پر تاج سجایا ہے۔ رجیہ جی تو کیا ہے کہ صرف دلی اور لاہور کی حاکم تھی آپ تو کشمیر سے کنیا کماری کی مہارانی ہو۔ Such a mighty huge empire.

رجیہ بھی اپنے ابو کی چہیتی تھی اور نہرو جی تو آپ سے پوچھے بغیر کسی کو چاندنی پر بھی بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ اسی وجہ سے مرارجی ڈیسائی ان کو صبح اپنا ذاتی پیشاب پی کر کوستا تھا۔ سارے بدلے آپ سے لینے کا پلان کرتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ دونوں بہت سیکولر تھیں۔ دین کو اتنی اہمیت بھی نہ دیتی تھیں جتنی مولانا فضل الرحمن دیتے ہیں۔ دونوں ڈکٹیٹر مزاج کی اور جدید اصلاحات کی نقیب تھیں۔ می ٹو، میرا بدن میری مرضی والی۔ دونوں کا راج سنگھاسن دہلی میں تھا، دونوں کے بارے میں عشاق کے حوالے سے بہت سی افواہیں میڈیا نے پھیلائیں۔ دونوں کی موت Inside Job کا نتیجہ تھی

ترکان چاغلانی کی مرضی تھی کہ سلطان رضیہ پردے کے پیچھے سے حکمرانی کرے۔ وہ کس کی سنتی تھی۔ ننگی تلوار لے کر بے پردہ ہاتھی گھوڑوں پر نکل جاتی۔ مولانا طارق جمیل کے سمجھانے پر بھی پردہ نہیں کرتی تھی۔ مریم اورنگ زیب کی طرح پگ پہن کر بڑھکیں مارتی تھی جاگ پنجابی جاگ۔ تیری پگ نوں لگ گیا داغ۔ میمن لوگ یہ بھا بھا کر کے بکرے بلانا سنتے تو سمجھاتے تھے کہ پگ میں یا چنری میں داغ لگے تو وسیم اکرم مائنس کی طرح ڈٹرجینٹ لیتے ہیں یا لانڈری والے کے پاس جاتے ہیں۔ حدیبیہ (شوگر ملز) جیسے داغ اچھے نہیں ہوتے۔ شور کرنے سے کچھ نہیں ہوگا سمجھایا۔

چاغلانی ترکان والی ڈیپ اسٹیٹ نے لاہور والوں سے رابطہ کیا۔ لاہور ایسی چالاکیوں میں ہمیشہ سے سارے ہندوستان میں مشہور ہے۔ مجال ہے کوئی کام سیدھا کرتے ہوں۔ سیدنا نظام الدین اولیا ؒ کی خدمت میں دہلی میں بیک وقت لاہور کے تاجروں اور میمن گجراتی تاجروں کا وفد آیا تھا۔ فوائد الفواد یا نظامی بنسری میں لکھا ہے کہ مال تجارت پر گاہک سے منافع کمانے پر بات ہونے لگی تو لاہوریوں کے سوال پر میمن گجراتی وفد کہنے لگا کہ ہم تو آٹے میں نمک سمیٹتے ہیں۔ ٹرن اوور (زیادہ بکری) پر کماتے ہیں۔ لاہوری کہنے لگے کہ اپن لوگ کے پنجاب میں جیسا گاہک۔ ویسا منافع۔ ڈبل قیمت بتا کر بیچتے ہیں بعد میں اس کو اپنا بڑا منافع رکھ کر گھٹکا دیتے ہیں۔ گجراتی وفد کہنے لگا کمال ہے اتنی بے ایمانی کے بعد بھی لاہور برباد نہیں ہوا۔ اس کے بعد ہی منگول ملتان تک آ گئے تھے۔

لاہور کا گورنر کوئی شیر خان سنجر تھا۔ اپنے وسیم اکرم پلس جیسا۔ ٹوٹلی اپنا بندہ۔ اس کے گاؤں میں بھی بجلی نہیں تھی۔ گورنر سنجر کا چیف باڈی گارڈ ایک سیاہ فام جمال الدین یاقوت تھا۔ طے ہوا کہ اس کو کیون کاسٹنر (Kevin Costner) بنا کر دہلی کی اس وٹنی ہیوسٹن سلطان رضیہ کی خدمت میں بھیج دیتے ہیں۔ A spy in the house of love

اس کے کچن کیبنٹ میں آنے سے بہت لفڑا ہوا۔ اسی کی ضد پر کمال امروہی کو فلم رضیہ سلطان بھی بنانی پڑی۔ اس کے ایک گانے اے دل نادان نے بہت اودھم کیا۔ جاوید اختر کے والد اور امراؤ جان ادا والے موسیقار لاہور کے خیام کا یہ گیت، لتا جی کے بہترین گیتوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس فلم میں یاقوت کو اس کا اصلی محبوب بتایا ہے۔ اس سے جوڑیا بازار کے میمن بہت ناراض ہوئے۔

ان لوگ نے ہی یاقوت کے خلاف میمنی زبان میں نعرہ لگایا کہ ”مری ونا پنجابی نے مہاجریں کے سندھ نہ ڈینا۔“ (مر جائیں گے پنجابیوں اور مہاجروں کو سندھ نہیں دیں گے۔)

اسی نعرے کا اثر تھا کہ 1843 میں جب نواب بادشاہ سر چارلس نیپیئر سے چند روزہ جنگ میانی فارسٹ کے پاس ہوئی تو یاقوت کی اولاد ٹالپروں اور میروں کا غلام ہوش محمد شیدی (حبشی) کمانڈر۔ میدان میں شجاعت کے جوہر دکھا رہا تھا۔ اصلی حکمران تو مجرہ دیکھ کر بھنگ پی کر سو رہے تھے۔

رضیہ اپنے سیکنڈ کزن ملک اختیار الدین الطونیہ کی منگ تھی۔ یوں بھی اچھی لڑکیوں پر کزن کا زیادہ حق ہوتا ہے۔ یاقوت نے اس کو ہنسنا سکھایا، لڑنا سکھایا، رونا سکھایا۔ عرفان صدیقی کی لکھی ہوئی تقریر ٹھیک سے ادا کرنا اور آداب حکمرانی سکھائے۔ جب یاقوت کی ہمدردیاں اور محافل شبینہ کی اٹکھیلیاں حد سے گزرنے لگیں تو ترکان چاغلانی والی ڈیپ اسٹیٹ کو لگا کہ یہ تو نواز شریف کا ملٹری سیکرٹری بریگیڈئیر ملک ہو گیا ہے۔ وہی جس کی مطیع اللہ جان بھی کھلی اڑاتا ہے۔ ہماری بلی ہم کو ہی میاوں کرنے لگی ہے۔ یوں ایک پلان بنا۔ حیات محمد خان شیر پاؤ کو مارنے جیسا۔ یاقوت کو ایک حربی معرکے میں الطونیہ کے ہاتوں ہلاک کروا دیا۔ ڈیپ اسٹیٹ سے کون جیت سکتا ہے۔ ملک الطونیہ کو بولا چھوٹی گیج کی ٹرین سے سلطان رضیہ کو بٹھنڈہ لے جا۔ رشید الدین جمعیت التواریخ والے اور سنجے تری پاٹھی ’History of Medieval India‘ والے کا اصرار ہے کہ اس پوری گیم کے پیچھے لاہور کا وہی شیر خان سنجر تھا۔ اس کی مرضی تھی کہ وہ وزیر اعظم بن جائے۔ اسی وجہ سے اس نے ہریانہ اور بٹھنڈہ کے ہندو جاٹوں کو رشوت دے کر اس طاقتور جوڑے کو اس وقت قتل کرا دیا جب ان کے سپاہی بغاوت پر اترے ہوئے تھے۔

اس کا اپنا انجام بھی اچھا نہیں ہوا۔ دلیر بہت تھا مگر کیا ہے کہ منگول جب پنجاب تک پہنچ گئے تو اس نے بلبن کے زمانے میں ان کا بہت جی داری سے مقابلہ کیا۔ اس دوران اس کو بھی جنوبی پنجاب کی ایک پکی پکائی، نان قلچے اور نہاری جیسی ذائقے دار عورت اچھی لگ گئی۔ اس عورت کا میاں منگول لوگ کا جاسوس تھا۔ منگولوں کے سلیپر سیل کا انچارج۔ ڈایئریکٹ ان کی  ”را“  ”کے کمانڈر اوگدی خان کو رپورٹ کرتا تھا۔ شیر خان عورتوں کا بہت رسیا تھا۔ اسی وجہ سے اس عورت کو ان لوگ نے اس کے حرم میں جنوبی پنجاب کی دوسری عورتوں سمیت بھجوا دیا۔ اس عورت نے شیر خان کو ایک رات مخلوط جنسی پارٹی (orgy) میں زہر دے کر ہلاک کر دیا۔ عورت کا دشمن شیر خان، عورت کی محبت میں مارا گیا۔

امیر خسرو جو اپنے زمانے کے سہیل وڑائچ تھے انہوں نے دیگر امرا اور اسٹیج ڈانسرز کے علاوہ نصرت امیر المومنین سلطان رضیہ کی شجاعت کی تعریف کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سرخ لباس پہن کر سلطان رضیہ مسجد میں پہنچ جاتی تھی۔ تقریر بھی کمال کی کرتی تھی اور بتایا ہے میدان جنگ میں سرگودھا خوشاب اور جھنگ کی جانگلی عورتوں کی طرح لڑتی تھی۔ ان کی مدح سرائی کچھ یوں تھی۔

مدتوں وہ رخ تاباں زیر نقاب تھا۔

مدتوں شمشیر بے نیام نے تاراج سب کیا

جب وہ رخ تاباں زیر نقاب تھا

امرا کی موج لگ گئی تھی چار سو

رخ سے نقاب اٹھی تو پھر ایسا کچھ ہوا

سرکش جو تھے وہ بھی تہ دام آ گئے

بلبلی خانہ، دہلی میں جہاں بہت سے درزی چست بلاؤز سینے کے کام میں مصروف ہیں وہیں بہت ساری غیر قانونی تعمیرات کا ایک جمگھٹا ہے درزیوں کی دکانوں اور گھروں کے بیچ میں ایک گلی کے کونے میں سلطان رضیہ ہند کی پہلی لبرل عورت آسودہ خاک ہے۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan