حسن طارق کون تھا؟


پاکستان فلم انڈسٹری میں محض فلم کی شوٹنگ دیکھنے کے جنون نے سٹوڈیو کا دروازہ ایسا کھولا کہ نامور مصنف سیف الدین سیف کی فلم سات لاکھ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر کیرئیر کا آغاز کیا، اور پھر حسن طارق نے وہ آیا، اس نے دیکھا اور چھا گیا، کی کہاوت درست ثابت کردی،

ہمارے ابا، آج کل ماضی کی بھولی بسری یادوں کو تازہ کرتے ہیں، جہاں یہ سب ذہنی تسکین اور اطمینان کا سامان پیدا کرتا ہے، وہیں میرے جیسے بھی اس دور میں چلے جاتے ہیں، ان دنوں کے واقعات کو حقیقی روپ میں پاتے ہیں، اکتوبر کے مہینے سے جڑے کئی قصے ہیں، میں نے بتایا کہ فلاں فلاں پیدا ہوا، کون دنیا سے رخصت ہوا، اسی دوران ایک نام سنتے ہی ان کا ذہن جیسے کہیں اٹک گیا، اور وہ اپنے اس دوست کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگے اور بولے معلوم نہیں آج اگر یہ باتیں بتاؤں تو عجیب لگیں اور اس کے حوالے سے اچھا نہ سمجھا جائے،

میں نے پوچھا، ایسا کیا ہے، جسے معیوب کہا جائے، ابا نے کہا، خیر بڑے لوگ جنہوں نے بڑی محنت سے نام کمایا ہوتا ہے وہ بھی ماضی میں ہر طرح کا کام کرتے رہے ہیں۔ وہ بہت شرارتی بھی تھا، اپنے شوق کی تسکین کے لئے ایک دو بار اس نے سائیکل چوری کر کے بیچ دیے، کچھ ایسی اور بھی حرکتیں تھیں، جن کا شاید گھروالوں کو کبھی علم نہ ہوسکا۔

ابا نے بتایا کہ امرتسر کے کٹڑا ماہن سنگھ میں ہمارے گھر آمنے سامنے ہوتے تھے، طارق کے والد محمد حسن میونسپل کارپوریشن میں داروغہ تھے، وہ بڑے بارعب انداز سے گھوڑے پر بیٹھ کر علاقوں کا دورہ کرتے، طارق اپنے باپ سے بڑا ڈرتا، ہم سے دو تین سال چھوٹا تھا لیکن اسے ہمیشہ بڑوں میں بیٹھنے اور دوستی کرنے کی عادت تھی۔ وہ بڑی الگ طبیعت اور منفرد مزاج کا انسان تھا۔ جوانی کے سب شوق تھے، یعنی فیشن کرنا، فلم دیکھنا، سیر سپاٹے کرنا، لیکن سب کاموں کے لئے خرچہ درکار ہوتا تھا، جس کے لئے کوئی نہ کوئی وسیلہ ڈھونڈنا پڑتا، وہ چاہے دوستوں کا ہوتا یا پھر کسی بھی جائز، ناجائز ذریعے سے کرنا پڑتا۔ طارق اپنی دھن کا بڑا پکا تھا، کسی کام کی ٹھان لینے پر اسے کر کے دم لیتا۔

ابا کا دعویٰ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود حسن طارق کی تاریخ پیدائش 1927 غلط ہے، میں 1933 میں پیدا ہوا اور طارق مجھ سے تین سال چھوٹا تھا۔ تقسیم کے بعد ہمارے خاندان لٹے پٹے لاہور آئے اور وہ لوگ گوالمنڈی میں جہاں آج کل فوڈ سٹریٹ ہے، وہاں قیام پذیر ہوئے۔ فلمی دنیا والوں میں نشستوں نے اس میں کچھ کر گزرنے کی لگن بڑھا دی۔ 1959 میں محض 24 سال کی عمر میں پہلی فلم نیند بنائی جس میں اسلم پرویز پہلی بار ولن ہیرو آئے،

ابا نے بتایا کہ حس طارق نے پہلی ہیروئن کے لئے شوکت حسین رضوی کی بیوی اور اداکارہ یاسمین کو لیا مگر نظر انتخاب نور جہاں پر جاکر رکا، انہوں نے بتایا کہ حسن طارق کے بہنوئی کی فیکٹری بادامی باغ میں تھی، ایک وقت میں اس کی آوارہ گردی سے تنگ آ کر بڑوں نے ان کے ساتھ بھیجنا شروع کیا، جہاں کوئلے سے لوہا چننے والی لڑکیوں کو کام کے بعد تھک کر وہیں سوتے دیکھا، یہیں سے فلم کا آئیڈیا آیا، جب فلم بنانے کا ارادہ کیا تو ابتدا میں نام چھوکری رکھا پھر نیند فائنل کیا۔

حسن طارق مصنف کو نہ صرف گائیڈ کرتے بلکہ سکرین پلے خود تحریر کرتے۔ فلم کی ٹیم بڑی زبردست تھی، مصنف ریاض شاہد، کیمرہ رضا میر، موسیقی رشید عطرے، گلوکارہ نورجہاں، زبیدہ خانم، شاعری قتیل شفائی، تنویر نقوی کی تھی۔ 16 اکتوبر کو ریلیز ہونے والی فلم باکس آفس پر سپرہٹ ہوئی، جس کے بعد حسن طارق نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور اس کی کامیابیوں کا سلسلہ چل نکلا۔ 1962 میں بنجارن نے بھی اپنی دھاک بٹھائی، اس میں نیلو اور کمال نے مرکزی کردار ادا کیا۔

1965 میں پنجابی فلم پھنے خان میں علاوالدین ٹائٹل رول میں آئے، حسن طارق کا کہنا تھا کہ اگر فلم بینوں نے پہلے پندرہ منٹ علاوالدین کو برداشت کر لیا تو سمجھ لینا فلم ہٹ ہو گئی، اس فلم میں اردو سپیکنگ سلونی سے بڑی کامیابی سے پنجابی میں کام کرایا۔ فلم کی تیاری کے دوران ہر کسی سے اردو بولنے پر پابندی لگا دی تھی۔

ابا نے بتایا کہ حسن طارق کا عمومی تاثر یہی تھا کہ وہ اہل زبان ہے اور پھنے خان کی کامیابی پر حیران تھے، لیکن وہ ٹھیٹ پنجابی تھے ہاں ادبی حلقوں میں بیٹھنے کا نتیجہ تھا کہ وہ اچھی اردو بولتے، اس میں بڑی خداداد صلاحیتیں تھیں، اے حمید، احمد راہی، سیف الدین سیف کی نشستوں میں بیٹھتا تھا۔

وہ حس مزاح بھی خوب رکھتا تھا، بتاتے ہیں کہ ایک بار ہم ایورنیو سٹوڈیو میں بیٹھے وہاں آغا تالش بادشاہ کا لباس پہنے گزرے، جو کہ کچھ چغہ سا تھا حسن طارق نے برجستہ کہہ دیا، آغا صاحب آج تو بچے اغوا کرنے والے ہی لگ رہے ہیں۔

1963 میں فلم شکوہ آئی، ہم پہلا شو دیکھنے کیپٹل سینما گئے، اس میں صبیحہ خانم نے طوائف کا کردار ادا کیا، فلم بین باہر آئے بڑے گم سم تھے، انہیں کہانی سمجھ نہ آئی، لیکن یہ فلم بھی بعد میں ہٹ ہوئی،

نیند میں نگہت سلطانہ ایک خوبرو اداکارہ بھی تھی، جس سے حسن طارق نے پہلی شادی کی، وہ عمر میں بڑی تھیں۔ دوسری شادی اداکارہ، رقاصہ ایمی منیوالہ اور تیسری شادی معروف اداکارہ رانی سے کی۔ ابا بتاتے ہیں کہ نورجہاں سے بھی اچھی دوستی تھی، کہا جاتا تھا ان سے بھی ازدواجی تعلق استوار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن وہ زیادہ محبت ایمی مینوالا سے کرتے تھے، ان سے دوبارہ رجوع کا امکان بھی پیدا ہو گیا تھا۔

Noor Jehan, Nighat Sultana, Rasheed Attre and Hassan Tariq in 1959

پاکستان فلم انڈسٹری میں حسن طارق کو، بھارت کے مقبول پروڈیوسر ڈائریکٹر محبوب اعظم کہا جاتا، ان کی فلموں کے موضوعات اور نام منفرد ہوتے جن میں سماجی مسائل زیر بحث لائے جاتے، جیسے کہ قتل کے بعد، کنیز، مجبور، سوال، تقدیر، دیور بھابھی، یتیم، عدالت، ایک ہی راستہ، بہن بھائی، دوسری شادی، میرا گھر میری جنت، ماں بیٹا، تہذیب، ایک تھی لڑکی، اک گناہ اور سہی، ثریا بھوپالی اور کئی فلمیں، اپنے 23 سالہ کیرئیر میں 42 اردو اور 2 پنجابی کی فلمیں بنائیں، جن جبکہ انہیں تین نگار ایوارڈ ملے۔ اپریل 1982 میں انتقال کرگئے۔

حسن طارق بلاشبہ پاکستانی فلم انڈسٹری کے سب سے زیادہ کامیاب فلم پروڈیوسر اور ہدایتکار تھے، جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے علاوہ فلم کی دنیا میں اچھے کام کرنے والوں کی مثال قائم کردی۔

ابا نے کہا کہ پاکستان کی فلمی تاریخ حسن طارق کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے، لیکن میں حیران ہوں کہ اکثر ایوارڈز اور دیگر تقاریب میں بہت کم اس بڑے نام کا تذکرہ ہوتا ہے۔ حالانکہ اس کا کام کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے۔ وہ گوہر نایاب تھا جسے اس کا مقام ملنا چاہیے، شاید ہم لوگ ایسا کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar