مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی پر سندھ ہائی کورٹ کا حکم: مسیحی لڑکی نو عمر قرار، مقدمے میں نو عمری کے قانون کی دفعات شامل


جبری مذہب کی تبدیلی
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے گذشتہ ہفتے مسیحی لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے تشکیل کیے گئے میڈیکل بورڈ نے لڑکی کو نو عمر قرار دے دیا ہے جبکہ پولیس نے مبینہ ملزم کے خلاف نو عمری کے قانون کی خلاف ورزی کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔

پیر کی صبح سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا کی سربراہی میں ڈویژن بینچ مسیحی لڑکی کے تحفظ کی درخواست کی سماعت ہوئی جس میں میڈیکل بورڈ نے عدالت کی جانب سے گذشتہ سماعت کے موقعے پر دیے گئے احکامات کی روشنی میں اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ لڑکی کی عمر 14 سے 15 سال کے درمیان ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے کراچی سے مبینہ طور پر اغوا کے بعد مبینہ مذہب تبدیلی کا شکار ہونے والی نوعمر مسیحی لڑکی نے سندھ ہائی کورٹ کے روبرو بیان دیا تھا کہ انھیں کسی نے اغوا نہیں کیا بلکہ انھوں نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کر کے مسلمان شخص سے نکاح کیا ہے۔

جبکہ اس سے قبل لڑکی کے والدین نے دعویٰ کیا تھا کہ اُن کی بیٹی نابالغ ہے اور اسے مبینہ طور ایک 44 سالہ شخص ورغلا کر لے گیا تھا جس نے لڑکی کا مذہب جبری طور پر تبدیل کروا کر اس سے شادی کر لی ہے۔

ملزم کے وکیل نے لڑکی کے والدین کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے مذہب تبدیل کیا اور شادی کی۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

مبینہ نوعمر مسیحی لڑکی کی عمر کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم

مذہب کی مبینہ جبری تبدیلی: ’سندھ حکومت نظرثانی کے لیے سندھ ہائی کورٹ جائے گی‘

قومی اقلیتی کمیشن ’مذہب کی جبری تبدیلی‘ کی روک تھام کر پائے گا؟

پیر کو سماعت میں کیا ہوا؟

پیر کو سماعت کے دوران پولیس کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کی روشنی میں لڑکی کے اغوا کے مقدمے میں انسداد چائلڈ میرج ایکٹ کی دفعات شامل کرلی گئیں ہیں۔

عدالت نے لڑکی سے معلوم کیا کہ کیا وہ والدین کے پاس جانا چاہتی ہے تو اس پر لڑکی نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کے پاس جانا چاہتی ہے۔

عدالت نے ایک بار پھر لڑکی سے معلوم کیا کہ کیا آپ نے کسی دباؤ میں آ کر مذہب تبدیل کیا ہے جس کے جواب میں لڑکی نے کہا کہ اس نے بغیر کسی دباؤ کے اسلام قبول کیا ہے۔

عدالت نے لڑکی کو پناہ گاہ بھیجنے کا حکم دے دیا اور ہدایت کی کہ صرف اُن لوگوں کی اس سے ملاقات کرائی جائے جن سے وہ ملنا چاہے اور اگلی سماعت 23 نومبر تک ملتوی کردی۔

دوسری جانب لڑکی کے وکیل نظار تنولی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی قوانین کے تحت یہ شادی جائز ہے اور اسلام میں شادی کے حوالے سے بلوغت شرط ہے اور میڈیکل بورڈ نے یہ نہیں کہا کہ لڑکی بالغ نہیں ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں واضح ہے کہ کوئی ایسا قانون جو اسلام کے متصادم ہو تو اسلامی قوانین کو اولیت دی جائیگی اور لڑکی نے بھری عدالت میں کہا کہ مجھے اسلام قبول کرنے میں کوئی زبردستی نہیں کی گئی ہے۔

مذہب کی جبری تبدیلی

پاکستان کی ہندو اور مسیحی اقلیتی برادریاں اپنی لڑکیوں کے مذہب کی جبری تبدیلی کی شکایت ایک طویل عرصے سے کرتی آ رہی ہیں

واقعے کا پس منظر

کراچی کی رہائشی کیتھرین مسیح (فرضی نام) اور ان کے شوہر مائیکل (فرضی نام) ملازمت پر گئے ہوئے تھے جب گھر سے اُن کی عدم موجودگی میں اُن کی بیٹی لاپتہ ہو گئی۔ وہ ڈھونڈتے رہے، لیکن پتہ نہیں چلا اور چند روز بعد انھیں پولیس نے کاغذات پکڑا دیے اور آگاہ کیا کہ لڑکی کا مذہب تبدیل ہو گیا ہے اور اس نے نکاح بھی کر لیا ہے۔

کیتھرین اور مائیکل کے مطابق ابھی اُن کی بیٹی کی عمر گڑیوں سے کھیلنے کی تھی۔

کیتھرین کا دعویٰ ہے کہ اُن کی بیٹی نابالغ ہے اور اسے مبینہ طور پر ورغلا کر لے جانے والے شخص کی عمر 44 سال سے زائد ہے۔

کیتھرین کراچی کینٹ ریلوے کالونی کے کوارٹرز میں رہتی ہیں، ان کے پاس اپنی بیٹی کی پیدائش، نادرا اور سکول کا سرٹیفیکیٹ موجود ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لڑکی کی عمر 13 سال ہے۔ تاہم لڑکی کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے حلف نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ اس کی عمر 18 سال ہے اور اس نے قانونی اور آئینی طور پر حاصل حق کے مطابق نکاح کیا ہے۔

کیھترین گھروں میں کام کاج کرتی ہیں جبکہ ان کے شوہر مائیکل ڈرائیور ہیں۔ بیٹی کی تلاش میں دونوں اپنی اپنی ملازمت گنوا بیٹھے ہیں اور اب وہ سارا دن گھر میں رہتے ہیں۔

جبری مذہب تبدیلی صرف ایک جرم نہیں

انسانی حقوق کی تنظیم سینٹر فار سوشل جسٹس کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 16 برسوں میں 55 مسیحی لڑکیوں کے مبینہ جبری مذہب کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے 95 فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سندھ میں ہندو کمیونٹی جبری تبدیلی مذہب کی شکایت کرتی ہیں لیکن اب مسیحی برادری کی بھی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔

سینٹر فار سوشل جسٹس کے سربراہ پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ جب بھی جبری مذہب کے واقعات ہوتے ہیں تو والدین خوفزدہ ہو جاتے ہیں، بچیوں کو سماجی رابطوں سے روک لیتے ہیں، اس قدر کہ تعلیم کی راہ میں بھی رکاوٹیں آ جاتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے واقعات سے ‘صرف ایک جرم وابستہ نہیں، بلکہ ان واقعات میں اغوا کیا جاتا ہے، تشدد ہوتا ہے، والدین کو ہراساں کیا جاتا ہے، پھر قانون شکنی کر کے قانون اور مذہب دونوں کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ اس میں ریپ، بچوں سے زیادتی اور جنسی ہراسانی شامل ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ یہ قانون سے پوچھنا پڑے گا کہ کمسن بچیوں کا مذہب کیوں تبدیل ہو رہا ہے، اس تعداد کو روکنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کرتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32559 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp