منٹو کا افسانہ جو کشمور میں تجسیم ہو گیا


منٹو وہ بے رحم افسانہ نگار تھا جو مکروہ شکلوں اور سڑاند زدہ معاشرے کے قالین کے نیچے دبے گند کو دکھاتا تھا۔ اس پر مقدمے بنے، اسے فحش نگار قرار دیا گیا لیکن وہ لکھتا رہا۔ ایک مختصر افسانہ ”کھول دو“ بھی تھا۔ جس میں تقسیم ملک کے وقت اپنوں کے ہاتھوں جگہ جگہ جنسی درندگی کا شکار بنی لٹی پٹی سکینہ آزار بند کھول کے شلوار نیچے سرکا دیتی ہے۔

منٹو کی یہ کہانی اس بدبودار سماج کی کہانی ہے جس کے مکروہ چہرے پر پاکیزگی اور تقدیس کی ملمع کاری ہے۔ نام نہاد دانشور جس کے قصیدے پڑھتے نہیں تھکتے اور انہیں پورے لباس میں کھیلتی خواتین کے جنسی اعضا بے حال کیے دیتے ہیں۔ جس معاشرے کے لئے مثال دینے کو فاطمۃ الزہرا جیسی بیٹی ہے لیکن حقیقت میں اس کے اعمال میں ہر روز کوئی زینب ہے تو کوئی موٹر وے والی خاتون، بنکوں میں کام کرتی عورتیں ہیں ہسپتال میں علاج کے لئے گئی مریضائیں اور قبرستان میں دفن لاشیں ہیں اور ہاں کشمور کی ننھی کلی ہے جس نے ماں کے اشارے پہ کیمرے کے سامنے اپنی شلوار کھول کے نیچے سرکا دی ہے۔

اب ہم بیٹھے سوشل میڈیا پر یہ ویڈیو شیئر کریں گے۔ غصے اور غم کے ری ایکشن پر کلک کریں گے، سر عام پھانسی کے مطالبے کریں گے۔ چوک پر لٹکا دینے کی مثالیں دیں گے، ایران کے جنسی زیادتی کرنے والوں کی ویڈیو شیئر کریں گے کہ کیسے انہیں ایک دن میں کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔ ٹی وی پر بیٹھے چند مومن بسکٹ کے اشتہاروں اور کرکٹ کھیلتی بچیوں کو ایسے واقعات کی وجہ ثابت کریں گے۔ حکمران نوٹس لیں گے کہ ہمیں گلگت بلتستان کے انتخابات سے فارغ ہو لینے دیں پھر ہم دیکھیں کیا کرتے ہیں۔ اور اتنی دیر میں کہیں اور کئی شلواریں سرکائی جا چکی ہوں گی۔

وہ حکمران جو موقع بے موقع ”کسی کو نہیں چھوڑوں گا“ کی رٹ لگائے رکھتا ہے اسے توفیق نہیں ملے گی کہ وہ یہاں بھی ایسا کوئی نعرہ بلند کردے۔ وہ سیاسی راہنما جو بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لڑکے سے دوا لینے کو بھاگے پھرتے ہیں، توفیق نہیں ملے گی کہ کوئی مرہم اس روح کے لئے بھی لینے کی کوشش کریں جو کچل دی گئی۔ وہ ثنا خوان تقدیس مشرق جنہیں اشتہاروں میں کپڑوں کے اندر بچیوں کی ہلتی چھاتی پریشان کیے دیتی ہے، توفیق نہیں ملے گی کہ کشمور کی بچی کی ٹخنوں سے نیچے کی گئی شلوار کو اوپر ہی کردیں۔

اسلام آباد اور لاہور جیسے بظاہر ماڈرن شہروں میں برقعوں میں ملبوس خواتین کا ایکسرے کر جانے والے لوگ۔ انہیں جنسی ہیجان درندہ نہیں بلکہ ”جنسندہ“ بنائے جاتا ہے۔ جنگلوں کے بھی کوئی دستور ہوتے ہیں درندے بھی اسی دستور اور فطرت کے تابع جنسی افعال سرانجام دیتے ہیں لیکن یہ جنسندے گندگی کے ڈھیر پہ بیٹھے گوہ کھاتے اور حلیمہ سلطان کو پاکیزگی کے سبق پڑھا رہے ہوتے ہیں۔

کوئی اینٹی ریپ موومنٹ، کوئی پی ڈی ایم، کوئی سیاسی ٹھوس قدم، کسی مولانا کی قیادت، کسی مریم اور بلاول کی دعوت، کسی ثنا اللہ زہری کی غیرت، کسی عبدالقادر بلوچ کا احتجاج، کسی فیض الحسن چوہان کی شعلہ بیانی، کسی ایم کیو ایم کا مطالبہ، کسی جی ایچ کیو کی انکوائری کچھ تو ہو جو کشمور کی اس کلی کی ایک چیخ کا مداوا کرسکے۔

کہنے والے اب بھی منٹو کے افسانوں کو محض کہانی کہیں گے، لکھنے والے اب بھی اسے ایک فحش نگار ہی لکھیں گی۔ دانشور اب بھی مغرب کی فحاشی کے اعداد و شمار پر سمع خراشی کریں گے، علما اب بھی تقدیس مشرق اور اسلامی ثقافت و تقدیس کے قصے سنائیں گے۔ لیکن ہائے کیا کریں ہم کہ یہ تقدیس ایک تین سالہ بچی کی شلوار کی طرح یک دم نیچے سرک چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).