عقیدہ ہے ایمان نہیں ہے


بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اذان دی جاتی ہے اور اس کو مسلمان کا لقب دے دیا جاتا ہے۔ عقیدہ حاصل کرنا مشکل نہیں، آج کل کے دور میں ہر انسان کوئی نہ کوئی عقیدہ لیے پھرتا ہے۔ بات کی جائے اگر مسلمان کی تو مسلمان کے پاس عقیدہ ضرور ہے مگر ایمان نہیں۔ ایمان کو پرکھنے کے تین درجے ہیں

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے اسے چاہیے کہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹائے اگر ہاتھ سے مٹانے کی طاقت نہ ہو تو اسے اپنی زبان سے مٹائے اور اگر زبان سے مٹانے کی طاقت نہ ہو اس برائی کو اپنے دل سے مٹائے یعنی دل سے اس سے نفرت کرے۔ یہ ایمان کا سب سے کمزور ترین درجہ ہے ”۔

صحیح مسلم : جلد اول : حدیث نمبر 179
جامع ترمذی : جلد دوم : حدیث نمبر 49
سنن ابوداؤد : جلد اول : حدیث نمبر 1137
سنن نسائی : جلد سوم : حدیث نمبر 1312
سنن ابن ماجہ : جلد اول : حدیث نمبر 1275

وقت اور حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایمان کے سب سے آخری درجے پر قدم جمانا بھی دشوار سے دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔

اس حدیث مبارکہ کو اپنی تحریر میں لکھنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آج کل برائی کو برا سمجھنا تو دورکی بات ”برائی کو ویسے ہی نئے روپ میں بنا کر پیش کیا جاتا ہے کہ برائی برائی نہیں لگتی۔“

میں ایک دو مثالیں دے کر اپنی اوپر کی گئی بات کو ثابت کرتا ہوں۔ اپنی مادری زبان میں گالی کو گالی کا درجہ حاصل ہے جب وہی گالی انگریزی زبان میں دی جائے تو وہ گالی نہیں سمجھی جاتی۔ سود کو انگریزی زبان کا ایک لفظ ”انٹرسٹ“ یا ”مالیہ“ دے کر برائی کا نشان مٹا دیا گیا ہے۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سود کے ستر درجے ہیں، اور ان میں سب سے ہلکا درجہ اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرنے کے برابر ہے۔ (مشکوۃ المصابیح، باب الربو، ص 246 )

سود کون لیتا اور دیتا ہے؟
زنا کون کرتا ہے؟
جھوٹ کون بولتا ہے؟
اذان کا ادب کس کو نہیں ہے؟
رشوت کون لیتا ہے؟
ایک دوسرے سے کینہ اور حسد کون رکھتاہے؟
رنگ و نسل کا تعضاد کون رکھتا ہے؟
خدا کے بندوں کا دل کون توڑ رہا ہے؟
دھوکہ فریب کون دیتا ہے؟
لالچی کون ہے؟
سنگدل کون ہے؟
الزام تراش کون ہے؟
احسان فراموش کون ہے؟
بات کر کے مکر جانے والا کون ہے؟
تنقید مزاج کون ہے؟
شرابی کون ہے؟
چور اور ڈاکو کون ہے؟
مغرور اور خود پسند کون ہے؟
شرک کون کر رہا؟
آپس کی صفوں میں دوری کو ن لے کر آ رہا؟
بھائی بھائی کا دشمن کون ہے؟
عورت اور دولت کس کا قبلہ ہے؟
انسانیت کس میں ختم ہو چکی ہے؟
دوغلا پن کس میں ہے؟
لوگوں کی زندگی تباہ کرنے کا ہنر کس کے پاس ہے؟
اپنے فائدے کے لیے لوگوں کو استعمال کرنے کا ہنر کس کے پاس ہے؟
گالیاں دینا اور ننگے جسم کی نمائش کس کی تہذیب کے حصے ہیں؟
فرقہ بازی اور قوم پرستی کس میں نمایا ہے؟
اندھی تقلید کس کی مراث ہے؟
اللہ کے بجائے مٹی کے انسانوں سے تواقع رکھنا کس کا مشغلہ ہے؟
ناپ تول میں کمی کون کر رہا؟
ہم جنسی میں کون مصروف ہے؟
بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے میں کون آگے آگے ہے؟
خوشامد کرنے میں کون آگے آگے ہے؟
اقلیتوں کے حقوق کون کھا رہا ہے؟
داڑھی رکھ کر اخلاق سے گری ہوئی حرکات کون کر رہا ہے؟
اخلاق کی دولت سے عاری کون ہے؟
اسلامی تہذیب کو چھوڑ کر مغربی تہذیب کو فروغ کون دے رہا ہے؟
اسلام کو اپنے فائدے کے لیے کون استعمال کر رہا ہے؟
گالی گلوچ کرنا کس کی عادت بن چکی؟
ایک دوسرے کو کافر بولنے میں کون مصروف ہے؟
آخرت کی فکر کس میں ختم ہو چکی ہے؟
موت کا مذاق کون بنا رہا ہے؟
حقوق العباد کون مار رہا ہے؟
اللہ کا خوف کس میں ختم ہو چکا ہے؟
رسول صلی علیہ والہ و سلم کی محبت کس میں ختم ہو چکی ہے؟
گمان کرنا کس کی عادت بن چکی ہے؟
الٹے نام دینا کس کی خصلت میں شامل ہو چکا ہے؟
قرآن پاک کو پڑھنا کس نے چھو ڑ دیا ہے؟
نکاح کو مشکل اور زنا کو آسان کون بنا رہا ہے؟
وعدہ خلافی کون کر رہا ہے؟
نیکی اور بدی کا فرق کون ختم کر چکا ہے؟
محرم اور نا محرم کا فرق کون بھول چکا ہے؟
امانت میں خیانت کون کر رہا ہے؟
جہیز کی لعنت کو کون اپنی تہذیب کا حصہ بنا چکا ہے؟
فضول خرچ کون بن چکا ہے؟
یہ سب کام آج مسلمان کر رہا ہے۔
یہ سب کام آج مسلما ن کر رہا ہے۔
یہ سب کام آ ج مسلمان کر رہا ہے۔

مندرجہ بالابرائیاں آج ہر کسی مسلمان میں ملتی ہے۔ اوپر بیاں کردا ہر سوال جو کہ ایک برائی کی طرف اشارہ ہے جو کہ گناہ کبیر اور صغیرا دونوں ہیں۔ ان سب سے متعلق پیارے رسول صلی علیہ والہ و سلم کی ایک، دو نہیں بالکل بہت سے احادیث ہیں جو کہ احادیث شریف کی کتابوں سے با آسانی مل جاتی ہیں اور بعض احادیث اتنی سخت وعید کے ساتھ ہیں کہ کوئی دائرے اسلام سے باہر تک ہو جاتا ہے۔ سب احادیث سامنے ہونے کے باوجود مسلمانوں کا اس پر عمل نہ کرنا؟ کس طرف اشارہ ہے؟ کیا مسلمان خود آپ صلی علیہ والہ و سلم کی بات پر عمل کر تے ہیں؟ اگر نہیں؟ تو کیا وہ مسلمان کہلا سکتے ہیں؟ آج مسلمان دوسرے مسلمان کو کافر کہتا پھرتا ہے؟ زبان سے کوئی نہیں کہتا کہ میں آپ صلی علیہ والہ و سلم کی احادیث کا منکر ہوں۔ مگر اپنے عمل سے ضرور بتا دیتا ہے۔

اسلام کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرنے والا بھی کوئی نہیں تو صرف مسلمان ہے۔ جب زکوة اور حق مہر دینے کی بات آتی ہے تو مسلمان وہی دولت دیتا ہے جو کہ اسلام نے اس زمانے میں تھوڑی سی مقرر کر رکھی ہے جبکہ حالات اور زمانے میں پیسے کی قدر کو دیکھتے ہوئے اب اسی مقدر میں حق مہر اور زکوة دینا کسی طور پر سمجھ میں نہیں آتا۔ اسلام سادگی سے نکاح اور رخصتی کا حکم دیتا ہے جبکہ آج جتنی فضول خرچی کی جاتی ہے اور آخر پر اسلام کے اس فرماں کو اٹھانا ہوتا ہے جس میں اس کا خود کا فائدہ ہے۔ حق مہر وہی اسلامی جبکہ فضو ل خرچی آسمان پر۔

مسلمان جب ہر طرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو واپس اللہ کے پاس مدد کے لیے آتا ہے۔ میرا رب اپنے بندے سے سترہ ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ لیکن انسان رب کو صرف مطلب کے وقت یاد کرتا۔ انسان رب کی نہیں سنتا، مگر رب پھر بھی اپنے بندے کی سنتا ہے۔

رب نو ں تے مندا اے
رب دی نئی مندا

اذان کا ادب ختم ہو چکا ہے۔ دن میں پانچ دفعہ اذان کے ذریعے فلاح اور کامیابی کی طرف بولایا جاتا مگر مسجدیں ویران ہیں۔ مسجد میں کیے جانے والے اعلان کو سننے کے لیے خاموشی کا اہتمام کیا جاتا مگر اذان سننے کے لیے نہیں۔

آج کل سوشل میڈیا کے دورمیں جہاں بے حیائی انٹرنیٹ کی زینت بنی ہوئی ہے وہی پر کچھ پڑھائے لکھے افراد ایک دن حدیث شیئر کریں گے اور کچھ وقت کے بعد گیت اور پتہ نہیں کیا کیا بے حیائی شیئر کی جائے گی۔ فرانس میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ سب بہت زیادہ معذمت کے قابل ہے۔ لیکن آج کل مسلمان سوشل میڈیا پر قرآن اور حدیث لگا دیتا ہے اور وہی پر اوپر نیچے ننگے جسم اور گیت سے بھرے سوشل میڈیا میں گستاخی ہونے پر کب مذہبی توہین لگائی جائے گی؟

اور اسلامی نام لکھ کر اتنہائی بے ہودہ اور اخلاق سے گہری ہوئی زبان اور تصاویر اور ویڈیوز کے درمیان جب قرآنی آیات یا رسول صلی علیہ والہ و سلم کا فرماں آئے گا تو یہ مذہبی توہین نہیں ہوگی؟ مزید یہ کہ آج کل سوشل میڈیا پر قرآنی آیات یا احادیث کے نیچے سبحان اللہ لکھنے والے مل سکتے ہیں لیکن عمل کرنے والے نہیں۔ کیونکہ یہ علامہ اقبال کے مطابق

حقیقت خرافات میں کھو گئی
یہ امت روایات میں کھو گئی
نکاح مشکل سے مشکل بنا دیا گیا ہے۔ اور زنا آسان سے آسان تر۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جب کوئی شخص نکاح کر لیتا ہے تو اپنا آدھا دین مکمل کر لیتا ہے لہٰذا اسے چاہیے کہ باقی آدھے دین کے معاملے میں اللہ سے ڈرتا رہے۔“

اسلام میں نکاح کے لیے بلوغت کی شرط رکھی گئی ہے۔ عمر کے لحاظ سے لڑکا اوسط 12 سال کی عمر میں جبکہ لڑکی اوسط 11 سال کی عمر میں بلوغت حاصل کر لیتی ہے۔

دن میں پانچ وقت نماز فرض ہے جبکہ اس امت نے جمعہ کی نماز ادا کرنے کی ایک حدیث پر عمل تو کر رکھا ہے

مگر قرآن میں جو باقی نماز پڑھنے کے بارے میں 700 سے زیادہ دفعہ ارشاد ہوا ہے اس کو نظر انداز کر رکھا ہے۔

ایمان کا ایک بہت ضروری حصہ اخلاق ہے۔ اور اخلاق بذات خود نصف ایمان ہے۔ ایک حدیث نبوی ﷺ کے مطابق مومنوں میں سب سے کامل ایمان والا شخص وہ ہے جو اچھے اخلاق کا مالک ہو اور سب سے بہترین وہ ہے۔

منافق کی تین نشانیاں رسول صلی علیہ والہ و سلم نے بتائی
1۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے
2۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے
3۔ جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
جب بھی بولتا ہے تو غلط بولتا ہے
جب بھی تولتا ہے تو غلط تولتا ہے
منا فق کی تعریف جو حضور پاک صلی علیہ والہ و سلم نے بتائی؟ اس پر آج کا انسان پورا اترتا ہے۔
زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے مسلمان ہونے کا دعوا کرنے والے آج ایمان کی دولت سے دور ہیں۔

مومن کی جو تعریف آپ صلیہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمائی۔ وہ تو دور کی بات کم از کم مسلمان ہونے کی تعریف پر تو پورا اتر جاؤ۔

حالیہ فرانس میں ہونے والی گستاخی پر مسلمان کو آپ کی ذات سے محبت اور ایمان کا ایک حصہ ہونا بتا تا چلاؤں۔ ایمان کا ایک حصہ تو یہ بھی ہے جو کہ آپ صلی علیہ والہ و سلم کا فرماں ہے کہ

‎تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب اور عزیز

نہ ہو جاؤں۔

‎یہ حدیث مبارکہ اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ایمان کا معیار اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ دنیا و مافیہا کی ہر شے سے بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات سے محبت کی جائے اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو کوئی شخص نام کا

مسلما ن تو ہو سکتا ہے مومن نہیں ہو سکتا۔

ایمان کا ایک لازمی حصہ خوف خدا ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعا لیٰ کا غضب اس قدر ہوگا کہ نفسا نفسی کا عالم ہو گا۔ آپ صلی علیہ والہ و سلم قیامت کا ذکر آنے پر ہی رقعت طاری ہو جاتی تھی۔ وہ پیارے نبی صلی علیہ والہ و سلم جو کہ نبیوں کے نبی اور انبیا کے سردار ہیں وہ بھی قیامت اور اللہ کے قہر سے اتنا ڈرتے تھے کہ رقعت طاری ہو جاتی تھی اور آج کا انسان کیا کر رہا ہے؟ اللہ کا قہر اس قدر ہوگا کہ ہر نبی اپنی امت کی بخشش کے لیے آپ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو تلاش کرے گا۔

مسلمان آج دنیا بھر میں کیوں ذلیل و رسوا ہیں؟

کیونکہ مسلمان ہونے کی جو جو نشانیاں کفار کو پتہ ہیں وہ سب آج کل کے مسلمان میں نہیں۔ آپ اپنی عبادت کے علاوہ اپنے اعمال اور اپنی روز مرہ کی جانے والی حرکات سے جانے جاتے ہیں۔ داڑھی رکھ کر اور خود کو مسلمان بتا کر اخلاق سے گری ہوئی حرکات کرنا دراصل اسلام کی شان پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔

اپنی بربادی کا بنا رہا توسامان ہے
ذرا بتا تو سہی تو کیسا مسلمان ہے

اس تحریر کا عنوان میں نے جنا ب مرحوم ڈاکٹر اسرار صاحب کے ایک بیان سے اخذ کیا ہے۔ اس تحریر کا حاصل یہ ہے کہ ہمیں زبان سے کسی چیز کا اقرار کرنے کے علاوہ اپنے عمل سے بھی ثابت کرنا ہے اور اسلام تو ہی عملی دین۔

آپ صلی علیہ والہ و سلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہر چیز کی عملی مثال پیش کر دی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو آپ صلی علیہ والہ و سلم کی حیات مبارکہ اور صحابہ کرام رضہ کی زندگی پر عمل کر نے کی تو فیق عطا فرما۔

معاشرے کی ہر برائی کی جڑ جھوٹ ہے۔ اگر ہم صرف جھوٹ چھوڑ دیں تو ساری برائیوں سے چھٹکارا حاصل کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام فرماتے ہیں : تمام برائیوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا ہے اور اس کی کنجی جھوٹ کو قراردیا گیا ہے

‎روایت میں آیا ہے کہ ایک شخص نے پیغمبر اسلام ﷺ کی خدمت میں آ کر عرض کیا اے اللہ کے رسول، میں ایک بے نمازی انسان ہوں، ہمیشہ عفت کے خلاف امور انجام دیتا ہوں اور جھوٹ بھی بولتا ہوں مگر سب سے پہلے کس کام کو ترک کروں؟ پیغمبر اسلام ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے تم جھوٹ کو ترک کردو، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے عہد کیا کہ اب ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گا۔ ابھی کچھ ہی لمحے گزرے تھے کہ شیطان کے وسوسوں نے اس کے دل کو عفت کے برخلاف کام کرنے پر اکسادیا، مگر اسی وقت پیغمبراسلام سے کیا ہوا وعدہ اسے یاد آ گیا اور پھر سوچنے لگا کہ اگر کل پیغمبر اسلام ﷺ نے اس بارے میں سوال کر لیا تو کیاکہوں گا، اگر یہ کہے کہ ہم نے یہ برا فعل انجام نہیں دیا ہے تو جھوٹ ہوگا اور اگر اس برے کام کے انجام دینے کا اقرار کر لیا تو سخت سزا ملے گی یہی وجہ ہے کہ جب بھی وہ کوئی خلاف شرع کام انجام دینا چاہتا تھا تو اسے فوراً پیغمبر اسلام سے جھوٹ نہ بولنے کے متعلق کیا ہوا وعدہ یاد آ جاتا تھا لہذا اس نے تمام گناہوں اور اخلاقی مفاسد کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا۔

آج مسلمان مغربی تہذیب کو اپنے اندر جذب کر کے تباہ ہو چکا ہے۔ مغرب کی تہذیب کھوکھلی ہے اور وقتی فائدے پر منحصر ہے جبکہ اسلام کا نظام ابدی فائدے پر مبنی ہے۔ علامہ اقبال یورپی تہذیب کے بارے میں فرماتے ہیں۔

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

مسلمانوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں نے قرآن پاک کی تعلمات کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے۔ قرآن پاک ایک مکمل دستور حیات ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں۔

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

آج ہم میں وہ سب برائیاں ہیں جو کہ پہلی تمام امتوں میں تھیں اور وہ صرف ایک ایک برائی کی وجہ سے اس دنیا میں اللہ کے عذاب کے حقدار ٹھہرے اور عبرت کا نشان بنا دی گئی ساری امتیں۔ یہ تو پیارے نبی صلی علیہ والہ و سلم کی برکت اور ان کی دعا ہے کہ آج ہم ہر طرح کی برائیاں رکھنے کے باوجود اللہ پاک کے قہر اور عذاب سے محفوظ ہیں۔

ہم اس رسول پاک صلی علیہ والہ و سلم کی امت میں سے ہیں جس کی خواہش بہت سے پیغمروں نے بھی کی۔ اپنی قدر کی پہچان اگر آج کل کے مسلمان کو ہو جائے تو نہ صرف مسلمانوں کا نام اس دنیا میں پیدا ہوگا بلکہ آخرت میں بھی آپ کے سامنے مسلمان سرخرو ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).