جمہوریت بہ مقابلہ جمہوریت: اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے


پاکستان میں اس وقت اہل سیاست کے درمیان جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اسے کوئی بھی باشعور شخص ملک و قوم کے لیے کسی بھی طور مناسب نہیں سمجھ رہا۔ جمہوریت کی زبان میں حکومت وہ سیاسی قوت ہے جو جمہوری طریقہ سے با اختیار ہو جائے ملک کا نظام چلانے میں، جب کہ حزب اختلاف کو جمہوریت میں ’حکومت کی منتظر‘ (Government in waiting) کہا گیا ہے، اسے مستقبل کی حکومت بھی کہہ سکتے ہیں۔ امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے، جہاں پر ٹرمپ کے بعد بائیڈن صدر ہونے جا رہا ہے، دونوں مختلف سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

جمہوریت کی ان اصطلاحات کی روشنی میں بر سر اقتدار سیاسی قوت یعنی تحریک انصاف کی حکومت اور دوسری جانب وہ سیاسی قوت جس کے بارے میں گمان کیا جاسکتا ہے کہ وہ مستقبل کی حکومت ہوگی۔ اس وقت دونوں کے درمیان جس قسم کی بیہودہ سیاسی جنگ ہو رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اہل سیاست نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، کیا آج سے ڈھائی تین سال قبل یہی صورت حال نہیں تھی، جگہ وہی، نعرے وہی، بیہودہ جملے وہی، لعن طعن وہی، فرق صرف اتنا کہ وہ قوت جو اقتدار کے ایوانوں میں تھی اب سڑکوں پر، میدانوں میں، چوراہوں پر، جیلوں میں یا پھر لندن میں ہے جب کہ وہ سیاسی قوت جو اس وقت جلسے جلوس، ریلیاں نکال رہی تھی، سڑکوں پر تھی، کنٹینرز پر تھی، اس وقت اقتدار کے ایوانوں میں ہے۔

صرف جگہ اختیارات اور حیثیت میں ردو بدل ہو گیا ہے، چہرے وہی، سوچ وہی، لہجہ وہی، اگر ہم اس سے بھی پیچھے چلے جائیں تو یہی سب کچھ نواز شریف اور بے نظیر شہید کے مابین ہوا، یہی سب آصف زرداری اور شہباز شریف کے درمیان ہوا، یہی سب کچھ ذوالفقار علی بھٹو اور نو ستاروں کے مابین ہوا، ڈرامے کے کرداروں کی حیثیت بدل گئی، ڈرامہ اسی طرح سے قوم کے سامنے پیش ہو رہا ہے بلکہ آج آزادی اظہار کے نام پر سیاسی پیادے مادر پدر آزاد اور ایسے ایسے الفاظ اور جملے ایک دوسرے کے لیے سوشل میڈیا اور ٹی وی چینل پر استعمال کر رہے ہیں کہ انہیں دیکھ کر، سن کر باشعور انسان افسوس اور ندامت کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ آج سیاسی بیہودگی انتہا پر ہے۔ موجودہ نسل اس سیاسی دنگل کے بارے میں یقیناً یہی سوچ رکھتی ہوگی کہ یہ عمل کسی بھی طور مہذب اور شائستہ نہیں بلکہ ملک و قوم کے لیے خطرناک، گھناؤنا، غیر اخلاقی، غیر انسانی، غیر فطری بھی ہے۔

مان بھی لیا جائے کہ حکومت کی ڈھائی سال کی کار کردگی تسلی بخش نہیں، لیکن وہ غیر جمہوری طور پر حکومت میں نہیں آئے بلکہ جمہوریت کے مسلمہ اصولوں کے ذریعہ ہی قوم نے انہیں یہ حق دیا، جمہوریت کی یہی تو خوبی یا خامی ہے کہ جس میں لوگوں گنا جاتا ہے، ہمارے ملک میں تو ایک ووٹ کی بنیادی پر وزیر اعظم بنے ہیں تو موجودہ حکومت کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ اکثریت حاصل ہے اس کا مظاہرہ کئی بار ہو چکا۔ اگر اتحادیوں پر اعتراض ہے تو پی ڈی ایم بھی تو اتحاد ہے۔

آج حکومت اسمبلیاں توڑ دے، مڈ ٹرم الیکشن کا اعلان ہو جائے تو کیا پی ڈی ایم کا شیرازہ نہیں بکھر جائے گا؟ یہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے۔ گلگت بلتستان کے انتخابات میں کیا ہوا، وہاں پی ڈی ایم کی تین جماعتوں میں اتفاق نہ ہوسکا، عام انتخابات میں یہ کیسے اتحادی رہ سکتے ہیں۔ جلسے، جلوس، ریلیا ں مسئلہ نہیں بلکہ یہ تو جمہوریت کا حسن ہے۔ حزب اختلاف کا کام ہی حکومت وقت کو اس کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے رہنا ہوتا ہے، لیکن اس وقت جو صورت حال ہے کہ کووڈ 19 کی دوسری لہر اپنی پوری شدت کے ساتھ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔

اجتماعات سے، مجمع سے پرہیزکیا جانا چاہیے، ماسک لگانا، سینی ٹائزر کا استعمال، سماجی دوری سے ہی اس وائرس سے بچا جاسکتا ہے۔ حکومت کو پہلے اس پر عمل کرنا چاہیے تھا، لیکن حکومت نے ایسا نہیں کیا، اس کے وزیر جلسے کرتے رہے، پروگرام کرتے رہے یہاں تک کہ وزیر اعظم صاحب نے بھی بڑے بڑے جلسوں اور پروگراموں سے خطاب کیا، انہیں ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہیے تھا، جماعت اسلامی نے اپنے طور پر اعلان کر کے کہ وہ کورونا کی وجہ سے جلسے نہیں کریں گے ایک اچھی روایت قائم کی۔

حزب اختلاف کوبھی اس قسم کے اجتماعات سے گریز کرنا چاہیے، ہر ایک یہ محسوس کر رہا ہے اور حزب اختلاف بھی سمجھتی ہے کہ جلسے جلوسوں سے، ریلیوں سے، ٹی وی ٹاک شو میں بد کلامی کرنے سے حکومت کسی طور نہیں جائے گی، نہ ہی ماضی میں گئی تھی۔ حزب مخالف اپنی مومینٹم کو، حکومت پر دباؤ کو برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اگر وہ کورونا کی وجہ سے اپنی تحریک کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کردیتی ہے تو ان میں جو جوش و خروش، رفتار یعنی مومینٹم پایا جاتا ہے وہ ماند پڑجائے گا، اس کے لیے انتہائی قدم کے طور پر لانگ مارچ، دھرنے اور اجتماعی استعفوں کو بھی استعمال کرنے کی بات کی گئی۔

حکومت کو جمہوری، دستوری طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے آئین میں درج طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے، منتخب ایوانوں میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئیں، عمران خان اسی لمحے چلا جائے گا لیکن حزب اختلاف کو معلوم ہے بلکہ یقین ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا حشر وہی ہوگا جو سینٹ کے چیرٔ مین کے انتخات میں ہوا، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع میں ہوا، بجٹ کی منظوری میں ہوا اور دیگر بلوں کی منظوری میں ہوا، 14 باغی سینیٹرزکی تلاش آج تک نہ ہو سکی، اس معاملے کو حزب اختلاف نے کس خوبصورتی سے دبا دیا، وہ باغی اب بھی اپنی جماعتوں میں موجود ہیں، ان میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں۔

اس لیے پی ڈی ایم اس آئینی آپشن کی بات نہیں کررہی بلکہ وہ حکومت پر دباؤ بڑھا کر حکومت کو گھر بھیجنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اجتماعی استعفے دینے کی جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بھی حکومت کو دباؤ میں لینے کی کوشش ہے۔ اجتماعی استعفوں کے بارے میں ماہرین قانون جن کا تعلق حزب اختلاف کی جماعتوں سے ہی ہے کی رائے بھی سامنے آ چکی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں اجتماعی استعفوں پر اتفاق نہیں کرتیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ایک بڑے صوبے کی حکومت کو کس طرح پلیٹ میں رکھ کر دے سکتی ہے۔ سینٹ کے انتخابات جو مارچ میں ہونا ہیں کو روکنا بھی حزب اختلاف کے نشانے پر ہے۔ ان انتخابات میں بھی پاکستان پیپلز پارٹی کو کچھ سیٹیں مل سکتی ہیں، نون لیگ اور مولانا صاحب کا اس میں کوئی حصہ نہیں بنتا۔

حکومت اپنے طور پر پی ڈی ایم کی حکمت عملی سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کررہی ہے، اس کے لیے شیخ رشید کو وزیر داخلہ کے طور پر میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ ادھر پی ڈی ایم حکومت کی بساط لپیٹنے کی جدوجہد میں منصوبے بنارہی ہے۔ نواز شریف کا بیانیہ ایک جانب نون لیگیوں کو اپیل کرتا ہے تو دوسری جانب اس بیانیے نے کئی مخالفین بھی پیدا کر لیے ہیں۔ 13 دسمبر کا لاہور کا جلسہ موضوع بحث بنا ہوا ہے، کامیاب ہو بھی گیا، تو کیا ہو گا، ابھی بہت سے مراحل باقی ہے، حکومت اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے اور پی ڈی ایم اپنی جگہ کھڑی ہے۔

لفظوں کی جنگ سوشل میڈیا پر اور ٹی وی چینل پر دنگل دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ٹی وی ٹاک شو میں جو شخص جتنی گھٹیا زبان استعمال کرتا ہے، بیہودہ گوئی کرتا ہے، گرفتار ہو جائے تو سونے پر سہاگہ وہ تو ہیرو بن گیا، ٹی وی چینل پر لاکر بیٹھا دیا جاتا ہے۔ بات جمہوریت بمقابلہ جمہوریت یعنی حکومت بھی جمہوریت کے نتیجے میں معرض وجود میں آئی جب کہ حزب اختلاف نے بھی جمہوری عمل کے نتیجے میں ہی جنم لیا۔ دونوں آمنے سامنے ہیں، میان سے تلواریں نکالے۔

یہ خود سمجھنے والے نہیں، انہیں کون سمجھائے، ثالث کون ہو، ماضی کے ثالثوں کے دروازے جمہوریتوں نے ہی بند کردئے ہیں، اب کون سی تیسری قوت ایسی ملک میں ہے جو ان دونوں جمہوریتوں کو انتہا پر جانے سے روک سکتی ہے، سمجھا سکتی ہے، دونوں کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنے کا کہہ سکتی ہے، درمیان کا کوئی ایسا راستہ نکال سکتی ہے کہ دونوں اس پر تیار ہوجائیں۔ اللہ ان دونوں کو ملک و قوم کی خاطرعقل و سمجھ عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).